داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 37 - اردو ناول

Breaking

منگل, اپریل 30, 2019

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 37

: صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر.37۔" رینی الیگزینڈر کا آخری معرکہ"
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مصر کے قائم مقام امیر تقی الدین نے صلیبیوں کی نظریاتی یلغار کو بروقت فوجی کارروائی سے روک دیا اور اس خفیہ اور پراسرار اڈے کو ہی مسمار کردیا جہاں سے یہ فتنہ اٹھا تھا مگر وہ مطمئن نہیں تھا کیونکہ وہ جان چکا تھا کہ یہ اسلام کش زہر قوم کی رگوں میں اتر گیا ہے۔ اس صلیبی تخریب کاری کو سوڈان سے پشت پناہی مل رہی تھی اور سوڈانیوں کو صلیبیوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ تقی الدین نے اس اڈے کو بھی تباہ کرنے کے لیے سوڈان پر حملے کی تیاریاں تیز کردیں۔ سلطان ایوبی نے وہاں بھی جاسوس بھیج رکھے تھے جن کی جانبازانہ کوششوں سے وہاں کے بڑے نازک رازمل رہے تھے مگر ان رازوں سے جو فائدہ سلطان ایوبی اٹھا سکتا تھا، وہ اس کے بھائی تقی الدین کے بس کی بات نہیں تھی۔ دونوں بھائیوں کا جذبہ تو ایک جیسا تھا لیکن دونوں کی ذہانت میں بہت فرق تھا۔ دونوں بھائی جس کارروائی کا فیصلہ کرتے تھے وہ شدید ہوتی تھی۔ فرق یہ تھا کہ سلطان ایوبی محتاط رہتا تھا اور تقی الدین بے صبر ہوکر احتیاط کا دامن چھوڑ دیتا تھا۔ اسے جب فوجی مشیروں نے کہا کہ سوڈان پر حملے کا فیصلہ دانشمندانہ ہے لیکن محترم ایوبی سے مشورہ لے لینا ضروری ہے تو تقی الدین نے اپنے مشیروں کے اس مشورے کو مسترد کرتے ہوئے کہا… ''کیا آپ لوگ امیر محترم کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ آپ ان کے بغیر کچھ سوچ نہیں سکتے اور کچھ کرنہیں سکتے؟ کیا آپ بھول گئے ہیں کہ مصر سے اتنی دور محترم ایوبی کس طوفان میں گھرے ہوئے ہیں؟ اگر ہم نے ان سے مشورے اور فیصلے کا انتظار کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سوڈانی حملے میں پہل کرکے ہم پر سوار ہوجائیں گے''۔

''آپ ابھی حملے کا حکم دیں''۔ ایک نائب سالار نے کہا… ''فوج اسی حالت میں رسد کے بغیر کوچ کرجائے گی لیکن اتنی بڑی اور اتنی اہم مہم کے لیے گہری سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ ہم کوچ کی تیاری کے تمام تر انتظامات بہت تھوڑے وقت میں کرلیں گے۔ آپ محترم ایوبی کو اطلاع ضرور دے دیں تاکہ وہ اور محترم نورالدین زنگی ادھر بھی دھیان رکھیں''۔

تقی الدین چند ایسے عناصر اور کوائف کو نظر انداز کررہا تھا جو اس کے حملے کو ناکام کرسکتے تھے۔ ایک یہ کہ صلیبیوں اور سوڈانیوں کے جاسوس مصر میں موجود تھے جو یہاں کی نقل وحرکت دیکھ رہے تھے۔ تقی الدین کی کمزوری یہ بھی تھی کہ اس کے دشمن کے جاسوس مسلمان بھی تھے جو انتظامیہ اور فوج میں اونچے عہدوں پر فائز تھے۔ اس کے مقابلے میں تقی الدین کے جاسوس سوڈانیوں کے پالیسی سازوں اور حکام تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ دوسرے یہ کہ سلطان ایوبی نے ١١٦٩ء میں مصر کی جس سوڈانی فوجی کو بغاوت کے جرم میں توڑ دیا تھا۔ اس کے کئی ِایک کمان دار اور عہدے دار سوڈان میں تھے۔ وہ سلطان ایوبی کی جنگی چالوں سے واقف تھے۔ انہوں نے انہی چالوں کے مطابق اپنی فوج کی تربیت کی تھی۔ صلیبیوں نے انہیں نہایت اچھا اسلحہ اور ضرورت سے زیادہ جنگی سامان دے رکھا تھا۔ یہ گھر کے بھیدی ) تقی الدین نے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ سوڈان کے جس علاقے میں پیش قدمی کرنے جارہا ہے۔ وہ ایک وسیع صحرا ہے جہاں پانی خطرناک حد تک کم ہے اور وہ مقام جہاں حملہ کرنا ہے، اتنا دور ہے جہاں تک رسد کو خطرے میں ڈالے بغیر رواں رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ مصر کے اندرونی حالات کو قابو میں رکھنے اور تخریب کاری کے انسداد کے لیے بھی فوج درکار تھی مگر تقی الدین اس قدر بھڑکا ہوا تھا کہ اس نے مکمل طور پر نیک نیتی اور اسلامی جذبے کی شدت کے زیر اثر حملے کی تیاریاں شروع کردیں اور سلطان ایوبی کو اطلاع نہ دینے کا فیصلہ کرلیا۔
 اس کی اس خودمختاری میں وہی جذبہ تھا جو سلطان ایوبی میں تھا۔ اسے احساس تھا کہ سلطان ایوبی کا مقابلہ تند اور تیز طوفان سے ہے اور صلیبی فیصلہ کن جنگ لڑنے کا اہتمام کیے ہوئے ہیں۔ اس نے جو کچھ سوچا تھا درست تھا۔ اس وقت سلطان ایوبی کرک سے آٹھ نو میل دور ایک چٹانی علاقے میں اپنا ہیڈ کوارٹر قائم کیے ہوئے تھے۔ یہ اس کا عارضی قیام تھا۔ وہ اپنے ہیڈکوارٹر کو خانہ بدوش رکھا کرتا تھا جس مقام پر اسے حملہ کرانا یا شب خون مردانا ہوتا، وہ اس کے قریب رہتا اور حملہ کرنے والے دستے کے کمانڈر کو بتا دیا کرتا تھا کہ وہ ان کی واپسی کے وقت کہاں ہوگا، اس کے چھاپہ مار )کمانڈو جانباز( صلیبی فوج کی تمام تر کمک تباہ کرچکے تھے۔ چھاپہ ماروں کے چھوٹے چھوٹے گروہ اس صلیبی فوج کے لیے ناگہانی مصیبت بنے ہوئے تھے جو صحرا میں پھیلی ہوئی تھی۔ صلیبیوں کا نقصان تو بہت ہورہا تھا لیکن چھاپہ ماروں کی شہادت غیرمعمولی طور پر زیادہ تھی۔ دس جانباز جاتے تو تین چار واپس آتے تھے۔ یہ رپورٹیں بھی ملنے لگی تھیں کہ صلیبیوں نے ایسے انتظامات کرلیے ہیں جو شب خون اور چھاپے کو کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ لہٰذا اب چھاپہ ماروں کو جان کی بازی لگانی پڑتی تھی۔ سلطان ایوبی اب اپنی چالیں اور فوجوں کا پھیلائو بدلنے کی سوچ رہا تھا۔

''معلوم ہوتا ہے کہ صلیبی مجھے آمنے سامنے آنے پر مجبور کررہے ہیں''۔ سلطان ایوبی نے اپنے فوجی نائبین سے کہا… ''میں انہیں کامیاب نہیں ہونے دوں گا اور میں اب اپنے اتنے زیادہ جوان مروانے سے بھی گریز کروں گا''۔

''میں چھاپہ مار دستوں کی نفری میں اضافہ کرنے کا مشورہ دوں گا''۔ ایک نائب نے کہا… ''اور میں یہ بھی مشورہ دوں گا کہ ہمیں دشمن کی قوت کو صرف اس لیے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ہماری فوج میں جذبہ زیادہ ہے۔ جذبہ سپاہی کو بے جگری سے لڑا کر مروا سکتا ہے، فتح کا ضامن نہیں ہوسکتا۔ صلیبیوں کے مقابلے میں ہماری نفری بہت کم ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ صلیبی فوج کا بیشتر حصہ زرہ پوش ہے''۔

سلطان ایوبی مسکرایا اور بولا… ''لوہا جو انہوں نے پہن رکھا ہے، وہ انہیں نہیں ہمیں فائدہ دے گا۔ کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ صلیبی کوچ کرتے ہیں تو رات کو کرتے ہیں یا صبح کے وقت؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دھوپ سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، سورج اوپر اٹھتا ہے تو اس کی تمازت زرہ بکتر کو انگاروں کی طرح گرم کردیتی ہے۔ زرہ پوش سپاہی اور سوار لوہے کے خود اور آہنی سینہ پوش اتار پھینکنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوہے کا وزن ان کی حرکت کی تیزی ختم کردیتا ہے۔ میں انہیں دوپہر کے وقت لڑائوں گا۔ جب ان کے سروں پر رکھا ہوا لوہا ان کا پسینہ نکال کر ان کی آنکھوں میں ڈالے گا اور وہ اندھے ہوجائیں گے۔ آپ نفری کی کمی کو متحرک طریقۂ جنگ سے اور جذبے سے پورا کریں''۔

اتنے میں سلطان ایوبی کے انٹیلی جنس کے سربراہ علی بن سفیان کا ایک نائب زاہد ان آگیا۔ اس کے ساتھ دو آدمی تھے۔ سلطان ایوبی کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ان دونوں آدمیوں کو اس نے بٹھایا اور پوچھا… ''کیا خبر ہے؟'' دونوں نے اپنے اپنے گریبان کے اندر ہاتھ ڈالے اور لکڑی کی بنی ہوئی وہ صلیبیں باہر نکالیں جو ان کی گردنوں سے بندھی ہوئی تھیں۔ وہ صلیبی نہیں مسلمان تھے۔ اپنے آپ کو صلیبی ظاہر کرنے کے لیے وہ صلیبیں گلے میں لٹکا لیتے تھے۔ دونوں نے صلیبیں اتار کر نیچے پھینک دیں۔ ان میں سے ایک نے اپنی رپورٹ پیش کی۔

یہ دونوں جاسوس تھے جو کرک سے واپس آئے تھے۔ پہلے بھی ذکر آچکا تھا کہ کرک فلسطین کا ایک قلعہ بند شہر تھا جس پر صلیبیوں کا قبضہ تھا۔ صلیبی شوبک نام کا ایک قلعہ سلطان ایوبی کے ہاتھ ہار چکے تھے۔ وہ کرک کسی قیمت پر دینا نہیں چاہتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے دفاعی انتظامات بڑے ہی سخت کردیئے تھے جن میں ایک بندوبست یہ تھا کہ وہ قلعہ بند ہوکر نہیں لڑنا چاہتے تھے۔ شوبک سے جب عیسائی اور یہودی باشندے مسلمانوں کے ڈر سے کرک بھاگ رہے تھے، اس وقت سلطان ایوبی نے اپنی فوج اور انتظامیہ کو یہ حکم دیا تھا کہ بھاگنے والے غیر مسلموں کو روکیں اور انہیں واپس لاکر ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں لیکن سلطان ایوبی نے ایک خفیہ حکم یہ بھی دیا تھا کہ زیادہ تر باشندوں کو جانے دیں۔ اس حکم میں راز یہ تھا کہ غیر مسلم باشندوں میں سلطان کے جاسوس بھی جارہے تھے۔ اپنے جاسوس دشمن کے اس شہر میں اور مضافات میں جس پر تھوڑے عرصے بعد حملہ کرنا تھا بھیجنے کا یہ موقع نہایت اچھا تھا۔ مسلمان جاسوس عیسائی اور یہودی پناہ گزینوں کے بھیس میں کرک چلے گئے تھے۔ وہاں کے مسلمان باشندوں کو ساتھ ملا کر انہوں نے خفیہ اڈے بنا لیے تھے۔ وہ وہاں سے اطلاعات بھیجتے رہتے تھے۔ سلطان ایوبی ذاتی طور پر ان کی رپورٹیں سنا کرتا تھا۔

اس روز دو جاسوس آئے تو سلطان ایوبی نے انہیں فوراً اپنے خیمے میں بلا لیا اور باقی سب کو باہر نکال دیا۔ جاسوسوں کی رپورٹ میں صلیبیوں کی فوج
: س روز دو جاسوس آئے تو سلطان ایوبی نے انہیں فوراً اپنے خیمے میں بلا لیا اور باقی سب کو باہر نکال دیا۔ جاسوسوں کی رپورٹ میں صلیبیوں کی فوج کی نقل وحرکت اور ترتیب کے متعلق اطلاعات تھیں۔ سلطان ایوبی ان کے مطابق نقشہ بناتا رہا۔ اس دوران اس کے چہرے پر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جاسوسوں نے جب کرک کے مسلمان باشندوں کی بے بسی اور مظلومیت کی تفصیل سنائی تو سلطان کے چہرے پر نمایاں تبدیلی آگئی۔ ایک بار تو وہ جوش میں اٹھ کر کھڑا ہوا اور خیمے میں ٹہلنے لگا۔ جاسوسوں نے اسے بتایا کہ شوبک سے صلیبی شکست کھا کرکرک پہنچے تو انہوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کردیا۔ سلطان ایوبی کو بہت سے حالات کا تو پہلے سے علم تھا، ان دو جاسوسوں نے اسے بتایا کہ اب وہاں بازار میں جن مسلمانوں کی دکانیں ہیں، وہ بہت پریشان ہیں۔ غیر مسلم تو ان کی دکانوں پر جاتے ہی نہیں، مسلمانوں کو بھی ڈرادھمکا کر ان کی دکانوں سے دور رکھا جاتا ہے۔ وہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی باقاعدہ مہم شروع کی گئی ہے۔ عیسائی اور یہودی مسجدوں کے سامنے اونٹ، گھوڑے اور دیگر مویشی باندھ دیتے ہیں۔ اذان اور نماز پر کوئی پابندی نہیں لیکن جب اذان ہوتی ہے تو غیر مسلم شور مچاتے، ناچتے اور مذاق اڑاتے ہیں۔

جاسوسوں نے بتایا کہ مسلمانوں کا قومی جذبہ ختم کرنے کے لیے وہاں اس قسم کی افواہیں زوروشور سے پھیلائی جارہی ہیں کہ صلاح الدین ایوبی اتنا شدید زخمی ہوکر دمشق چلا گیا ہے کہ اب تک مرچکا ہوگا اور یہ بھی کہ سلطان ایوبی کی فوج کمان کی کمزوری کی وجہ سے صحرا میں بکھر گئی ہے اور سپاہی مصر کی طرف بھاگ رہے ہیں اور یہ بھی کہ مسلمان اب کرک پر حملہ کرنے کے قابل نہیں رہے اور بہت جلدی شوبک بھی صلیبیوں کو واپس ملنے والا ہے اور یہ بھی کہ سوڈانی فوج نے مصر پر حملہ کردیا ہے اور مصر کی فوج سوڈانیوں کے ساتھ مل گئی ہے۔ جاسوسوں نے بتایا کہ اب علی الصبح پادری، مسلمان محلوں میں گھومتے پھرتے اور ہر مسلمان گھر کے دروازے پر گھنٹیاں بجاتے، اپنے مذہبی گیت گاتے اور مسلمانوں کو دعائیں دیتے ہیں۔ وہ اپنے مذہب کا اور کوئی پرچار نہیں کرتے۔ یہ پرچار وہاں کی عیسائی اور یہودی لڑکیاں کرتی ہیں جو مسلمان نوجوانوں کو جھوٹی محبت کا جھانسہ دے کر ان کے ذہن تباہ کررہی ہیں۔ یہ لڑکیاں مسلمان لڑکیوں کی سہیلیاں بن کر انہیں اپنی آزادی کی بڑی ہی دلکش تصویر دکھاتی اور انہیں بتاتی ہیں کہ مسلمان فوج جو علاقہ فتح کرتی ہے وہاں مسلمان لڑکیوں کو بھی خراب کرتی ہے۔

ان رپورٹوں میں سلطان ایوبی کے لیے کوئی بات نئی نہیں تھی۔ ابتداء میں اس کے جاسوس اسے کرک کے مسلمانوں کی حالت زار بتا چکے تھے، وہاں کے مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ وہ سلطان ا یوبی اور اس کی فوج کے خلاف کوئی حوصلہ شکن افواہ نہیں سننا چاہتے تھے لیکن وہاں جو بھی بات ان کے کانوں میں پڑتی تھی حوصلہ شکن ہوتی تھی۔ وہ ڈرتے بات نہیں کرتے تھے۔ ان کے گھروں کی دیواروں کے بھی کان تھے۔ وہ اکٹھے بیٹھنے سے بھی ڈرتے تھے۔ جنازے اور بارات کے ساتھ بھی جاسوس ہوتے تھے اور مسجدوں میں بھی جاسوس ہوتے تھے۔ ان کی بد نصیبی تو یہ تھی کہ جاسوسی ان کے اپنے مسلمان بھائی کرتے تھے۔ وہ اپنے گھروں میں بھی سرگوشیوں میں باتیں کرتے تھے۔ کسی مسلمان کے خلاف صرف یہ کہہ دینا کہ وہ صلیبی حکومت کے خلاف ہے، اسے بیگار کیمپ میں بھیجنے کے لیے کافی ہوتا تھا۔
 ''لیکن سالار اعظم!'' ایک جاسوس نے کہا… ''اب وہاں ایک اورچال چلی جارہی ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک ہونے لگا ہے۔ صلیبی حکومت نے اس کی ایک مثال یہ پیش کی ہے کہ ایک عیسائی حاکم نے ایک مسجد کو بوسیدہ حالت میں دیکھا تو اس کی مرمت کا حکم دیا اور اپنی نگرانی میں مرمت کرادی۔ انہوں نے بیگار کیمپ کے مسلمانوں کو رہا تو نہیں کیا لیکن کچھ سہولتیں دے دی ہیں۔ روزمرہ مشقت کا وقت بھی کم کردیا ہے لیکن ان کے کانوں میں یہی ڈالا جاتا ہے کہ تم نے صلیب کے خلاف بہت بڑا جرم کیا ہے پھر بھی تم پر رحم کیا جارہا ہے۔ یہ پیار اور محبت کا ہتھیار بڑا ہی خطرناک ہے۔ اس جھوٹے پیار سے غیرمسلم مسلمان نوجوانوں کو نشے اور جوئے کا عادی بناتے جارہے ہیں اگر ہم نے حملے میں وقت ضائع کیا تو کرک کے مسلمان اگر مسلمان ہی رہے تو برائے نام مسلمان ہوں گے ورنہ وہ قرآن سے منہ موڑ کر گلے میں صلیب لٹکا لیں گے۔ اس صورت میں وہ اس وقت ہماری کوئی مدد نہیں کریں گے جب ہم کرک کا محاصرہ کریں گے۔ اس پیار کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے خلاف جاسوسی پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے اور گرفتاریاں ہوتی رہتی ہیں۔ ابھی تک مسلمانوں کا جذبہ قائم ہے اور وہ ثابت قدم رہنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ابھی تک غیر مسلموں کے پیار کو قبول نہیں کیا مگر وہ زیادہ دیر تک ثابت قدم نہیں رہ سکیں گے''۔

یہی وہ صورت حال تھی جس کی تفصیل سن کر سلطان ایوبی پریشان ہوگیا تھا۔ اسے یہ اطلاع بہت تکلیف دے رہی تھی کہ مسلمان مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کررہے ہیں۔ اس کے لیے پریشانی کی دوسری وجہ یہ تھی کہ مقبوضہ علاقے میں صلیبیوں نے مسلمانوں کے خلاف پیار کا ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا تھا اور اس کے ساتھ ہی نوجوانوں کی کردار کشی کا بھی عمل شروع ہوگیا تھا۔ ان دونوں سے زیادہ خطرناک وہ افواہیں تھیں جو وہاں کے مسلمانوں میں اسلامی فوج کے خلاف پھیلائی جارہی تھیں۔ اس نے اپنے نظام جاسوسی کے نائب زاہدان کو بلایا اور پوچھا… ''کیا تم نے ان کی باتیں سن لی ہیں؟''

''ایک ایک لفظ سنا اور انہیں آپ کے پاس لایا ہوں''۔ زاہدان نے جواب دیا۔

''علی بن سفیان کو قاہرہ سے بلا لوں؟''۔ سلطان ایوبی نے پوچھا … ''یا تم اس کی جگہ پر کرسکو گے؟ یہ معاملہ نازک ہے۔ دشمن کے شہر میں مسلمانوں کو افواہوں اور دشمن کے زہریلے پیار سے بچانا ہے''۔

''علی بن سفیان کو قاہرہ سے بلانے کی ضرورت نہیں'' … زاہدان نے جواب دیا… ''حسن بن عبداللہ کو بھی ان کے ساتھ رہنے دیں۔ مصر کے حالات اچھے نہیں، ملک تخریب کاروں اور غداروں سے بھرا پڑا ہے۔ کرک کے مسئلے کو میں سنبھال لوں گا''۔
 ''تم نے کیا سوچا ہے؟'' … سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس سے پوچھا۔ وہ دراصل زاہدان کا امتحان لے رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ زاہدان مخلص اور محنتی سراغ رساں ہے اور اپنے شعبے کے سربراہ علی بن سفیان کا شاگرد ہے۔ اس پر سلطان کو پورا پورا اعتماد تھا پھر بھی وہ یقین کرنا ضروری سمجھتا تھا کہ یہ شاگرد اپنے استاد کی کمی پوری کرے گا۔ اس نے زاہدان کا جواب سنے بغیر کہا… ''زاہدان! میں نے میدان جنگ میں شکست نہیں کھائی، یہ خیال رکھنا کہ میں اس محاذ پر بھی شکست نہیںکھانا چاہتا جس پر صلیبیوں نے حملہ کیا ہے۔ میں کرک کے مسلمانوں کو اخلاقی اور نظریاتی تباہی سے بچانا چاہتا ہوں''۔

''آپ جانتے ہیں کہ کرک میں ہمارے جاسوس موجود ہیں''… زاہدان نے کہا … ''میں انہیں اس مقصد کے لیے استعمال کروں گا۔ وہ وہاں کے مسلمانوں کو آپ کے متعلق اور ہماری فوج اور مصر کے متعلق صحیح خبریں سناتے رہیں گے اور انہیں آپ کا پیغام دیں گے''۔

''وہاں کی مسلمان عورتوں میں قومی جذبے کی کمی نہیں''۔ ایک جاسوس بول پڑا، اس نے کہا… ''ہم جوان لڑکیوں سے کہیں گے کہ وہ گھر گھر جاکر عورتوں کے ذہن صاف کرتی رہیں گی۔ ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ وہاں کی لڑکیاں لڑنے کے لیے بھی تیار ہیں''۔

''عورتیں اگر گھر اور بچوں کی تربیت کا محاذ سنبھالے رکھیں تو اسی سے اسلام کے فروغ اور سلطنت اسلامیہ کی توسیع میں بہت مدد ملے گی'' … سلطان ایوبی نے کہا۔ ''انہیں اس مقصد کے لیے استعمال کرو کہ مسلمان گھرانوں میں اور بچوں میں غیراسلامی اثرات داخل نہ ہونے دیں۔ میں اس کوشش میں مصروف ہوں کہ کرک پر جلدی حملہ کردوں اور شوبک کی طرح وہاں کے بھی مسلمانوں کو آزاد کرائوں'' … اس نے زاہدان سے پوچھا … ''اس مقصد کے لیے کسے کرک بھیجو گے؟''

''انہی دونوں کو''۔ زاہدان نے جواب دیا …''یہ آنے جانے کے راستوں اور طریقوں سے واقف ہوچکے ہیں اور وہاں کے حالات اور ماحول سے مانوس ہیں''۔

یہ دونوں آدمی غیر معمولی طور پر ذہین جاسوس تھے۔ سلطان ایوبی نے انہیں ہدایات دینی شروع کردیں۔

٭ ٭ ٭
کرک میں مسلمان باشندوں پر پیار کا جو ہتھیار چلایا جارہا تھا وہ صلیبیوں کی انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جرمن نژاد ہرمن کی اختراع تھی۔ وہ شوبک کی شکست کے بعد صلیبی حکمرانوں پر زور دے رہا تھا کہ کرک کے مسلمانوں کو پیار کا دھوکہ دے کر صلیب کا وفا دار بنایا جائے یا کم از کم صلاح الدین ایوبی کے خلاف کردیا جائے۔ صلیبی حکمران مسلمانوں سے اتنی زیادہ نفرت کرتے تھے کہ ان کے ساتھ جھوٹا پیار بھی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ تشدد اور درندگی سے مسلمانوں کا قومی جذبہ اور وقار ختم کرنے کے قائل تھے۔ ہرمن اپنے فن کا ماہر تھا۔ انسانوں کی نفسیات سمجھتا تھا۔ اس نے صلیبی حکمرانوں کو بڑی مشکل سے اپنا ہم خیال بنایا اور یہ پالیسی مرتب کرالی کہ شہر اور مضافات کے اس علاقے کے مسلمانوں کو جو صلیبی استبداد میں ہے، جسے مشتبہ اور جاسوس سمجھا جائے اورجس مسلمان کے خلاف ذرا سی بھی شہادت ملے اسے گرفتار کرکے غائب کردیا جائے لیکن ہر مسلمان شہری کو دہشت زدہ نہ کیا جائے۔ اس پالیسی کی بنیادی شق یہ تھی کہ لڑکیوں کے ذریعے مسلمان لڑکیوں کو بے پردہ کیا جائے اور مسلمان لڑکیوں کو ذہنی عیاشی اور نشے کا عادی بنا دیا جائے۔ مختصر یہ ہے کہ ان کی کردار کشی کا انتظام کیا جائے۔ لہٰذا اس پالیسی پر عمل شروع کردیا گیا تھا۔ ابتداء افواہوں سے کی گئی تھی۔ ہرمن نے یہ منظور بھی لے لی تھی کہ مسلمانوں میں غداری کے جراثیم پیدا کرنے کے لیے خاصی رقم خرچ کی جائے۔ چند ایک مسلمانوں کو خوبصورت اور تندرست گھوڑوں کی بگھیاں دے کر انہیں شہزادہ بنا دیا جائے اور انہیں مسلمانوں کے خلاف مخبری اور ان میں افواہیں پھیلانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ انہیں شاہی دربار میں وقتاً فوقتاً مدعو کرکے ان کے ساتھ شاہانہ سلوک کیا جائے۔ ان کی مستورات کو بھی مدعو کرکے ان کی عزت کی جائے کہ وہ اپنی اصلیت اور اپنا مذہب ذہن سے اتار دیں۔ ہرمن نے کہا تھا … ''اگر آپ مسلمان کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں تو اس کے دماغ میں بادشاہی کا کیڑا ڈال دیں۔ انہیں گھوڑے اور بگھیاں دے کر اس کے دامن میں چند ایک اشرفیاں ڈال دیں۔ پھر وہ بادشاہی کے نشے میں آپ کے اشاروں پر ناچے گا۔ شراب بھی پئے گا اور اپنی بیٹیوں کو اپنے ہاتھوں ننگا کرکے آپ کے حوالے کردے گا۔ اگر آپ مسلمان کا مستقبل تاریک کرنا چاہتے ہیں تو یہ نسخہ آزمائیں۔ میں آپ کو پہلے بھی بتا چکا ہوں اور اب پھر بتاتا ہوں کہ یہودیوں نے مسلمانوں کی اخلاقی تباہی کے لیے اپنی لڑکیاں پیش کی ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ مسلمان کا سب سے پرانا اور سب سے بڑا دشمن یہودی ہے۔ اسلام کی جڑیں تباہ کرنے کے لیے یہودی اپنی بیٹیوں کی عزت اور اپنی پونجی کا آخری سکہ بھی قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں''۔
 یہودیوں میں خطرہ یہ تھا کہ وہ اسی خطے کے رہنے والے تھے، اس لیے مسلمانوں کی زبان بولتے تھے اور ان کے رسم ورواج اور گھریلو زندگی سے بھی واقف تھے۔ ان کی شکلیں اور کئی دیگر کوائف ملتے جلتے تھے۔ کوئی یہودی لڑکی مسلمانوں کا لباس پہن کر کسی مسلمان گھر میں جا بیٹھے تو اسے بلاشک وشبہ مسلمان سمجھ لیا جاتا تھا۔ اس مشابہت سے یہودی پورا پورا فائدہ اٹھا رہے تھے اور اسلامی معاشرت میں غیر اسلامی زہر داخل ہونا شروع ہوگیا تھا۔

جس روز سلطان ایوبی نے دو جاسوسوں کو ہدایات دیں اور زاہدان سے کہا تھا کہ وہ کرک میں جاسوسوں کے ذریعے مسلمانوں کو صحیح خبریں پہنچائے اس سے بیس روز بعد کرک میں ایک پاگل اور مجذوب اچانک کہیں سے نمودار ہوا۔ اس نے ہاتھ میں لکڑی کی بنی ہوئی گز بھر لمبی صلیب اٹھا رکھی تھی، جسے وہ اوپر کرکے چلاتا تھا… ''مسلمانوں کی تباہی کا وقت قریب آگیا ہے، شوبک میں مسلمان اپنی بیٹیوں کی عصمت دری کررہے ہیں۔ مصر میں مسلمانوں نے شراب پینا شروع کردی ہے۔ خدائے یسوع مسیح نے کہا ہے کہ اب یہ قوم روئے زمین پر زندہ نہیں رہ سکتی۔ مسلمانو! نوح کے دوسرے طوفان سے بچنا چاہتے ہوتو صلیب کے سائے میں آجائو۔ اگر صلیب پسند نہیں تو خدائے یہودہ کے آگے سجدہ کرو۔ مسجدوں میں تمہارے سجدے بے کار ہیں''۔

لباس اور شکل وصورت سے وہ اچھا بھلا لگتا تھا لیکن باتوں اور انداز سے پگلا معلوم ہوتا تھا۔ اس کی داڑھی بھی تھی، لمبا چغہ پہن رکھا تھا، سرپر پگڑی اور اس پر رومال ڈالا ہوا تھا جو کندھوں پر بھی پھیلا ہوا تھا۔ اس کے چہرے اور کپڑوں پر گرد تھی جس سے پتا چلتا تھا کہ وہ سفر سے آیا ہے۔ اس کے پائوں گرد آلود تھے۔ اسے کوئی روکتا اور بات کرتا تھا تو وہ رک جاتا تھا لیکن کوئی جواب نہیں د یتا تھا۔ کوئی بات جیسے سنتا سمجھتا ہی نہیں تھا۔ سوال کوئی بھی پوچھو وہ اپنا اعلان دہرانے لگتا تھا… ''مسلمانوں کی تباہی کا وقت قریب آگیا ہے وغیرہ''… کسی نے بھی یہ معلوم کرنے کی کوشش نہ کی کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ عیسائی اس لیے خوش تھے کہ اس نے ہاتھ میں صلیب اٹھا رکھی تھی اور خدا یسوع مسیح کا نام لیتا تھا۔ یہودی اس لیے خوش تھے کہ وہ خدائے یہودہ کا نام لیتا تھا اور دونوں کی یہ خوشی مشترک تھی کہ وہ مسلمانوں کی تباہی کی خوشخبری سنا رہا تھا۔ صلیبی فوج کے چند ایک سپاہیوں نے اس کی للکار سنی تو انہوں نے قہقہہ لگایا۔ شہری انتظامیہ کی فوج )جو بعد میں پولیس کہلائی( نے اسے دیکھا تو اسے پاگل کہہ کر نظر انداز کردیا۔ مسلمانوں میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ اس کا منہ بند کرتے۔ مسلمان اس کے منہ سے اپنی تباہی کا اعلان سن کر ڈر بھی گئے تھے اور انہیں غصہ بھی آیا تھا مگر کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے۔

یہ مجذوب شہر کی گلیوں اور بازاروں میں گھوم رہا تھا اور اس اعلان کو دہراتا جارہا تھا … ''مسلمانو! صلیب کے سائے میں آجائو، تمہاری تباہی کا وقت آگیا ہے۔ مسجدوں میں تمہارے سجدے بے کار ہیں''۔ کہیں کہیں وہ یہ بھی کہتا تھا… ''کرک میں مسلمانوں کی فوج نہیں آئے گی۔ ان کا صلاح الدین ایوبی مرچکا ہے''۔ بعض اوقات وہ اوٹ پٹانگ اور بے معنی فقرے سے بولتا تھا جو ثابت کرتے تھے کہ وہ پاگل ہے۔ بچے اس کے پیچھے پیچھے چلے جارہے تھے۔ بڑے عمر کے آدمی بھی کچھ دور تک اس کے پیچھے پیچھے چلتے اور رک جاتے تھے۔ وہاں سے چند اور آدمی اس کے پیچھے چل پڑتے تھے۔ مسلمان اسے غصے کی نگاہ سے بھی دیکھتے تھے اور اپنے بچوں کو اس کے پیچھے جانے سے روکتے تھے۔ صرف ایک مسلمان تھا جو اس پاگل کے پیچھے پیچھے جارہا تھا۔ وہ پاگل سے دس بارہ قدم دور تھا۔ یہ ایک جواں سال مسلمان تھا۔ راستے میں دو عیسائی نوجوانوں نے اسے طعنے دیئے، ایک نے اسے کہا …''عثمان بھائی تم بھی صلیب کے سائے میں آجائو''۔ اس نے انہیں قہر بھری نظروں سے دیکھا اور چپ رہا۔ ان عیسائیوں کو معلوم نہیں تھا کہ عثمان کے پاس ایک خنجر ہے اور وہ اس پاگل کو قتل کرنے کے لیے اس کے پیچھے پیچھے جارہا ہے۔
: اس کا پورا نام عثمان صارم تھا۔ اس کے ماں باپ زندہ تھے اور اس کی ایک چھوٹی بہن بھی تھی جس کا نام النور صارم تھا۔ اس لڑکی کی عمر بائیس تئیس سال تھا۔ عثمان اس سے تین چار سال بڑا تھا جو جوشیلا جوان تھا۔ اسلام کے نام پر جان نثار کرتا تھا۔ صلیبی حکومت کی نظر میں وہ مشتبہ بھی تھا کیونکہ وہ مسلمان نوجوانوں کو صلیبی حکومت کے خلاف زمین دوز کارروائیوں کے لیے تیار کرتا رہتا تھا۔ وہ ابھی کوئی جرم کرتا پکڑا نہیں گیا تھا۔ اس نے جب اس پاگل کی آواز سنی تو باہر نکل آیا۔ پاگل اتنی بڑی صلیب بلند کیے مسلمانوں کے خلاف بلند آواز میں واہی تباہی بکتا جارہا تھا۔ عثمان صارم نے یہ بھی نہ دیکھا یہ تو کوئی پاگل ہے۔ اس نے صلیب دیکھی اور پاگل کے الفاظ سنے تو اس پر دیوانگی طاری ہوگئی۔ اپنے گھر جاکر اس نے خنجر لیا اور کُرتے کے اندر ناف میں اڑس کر پاگل کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ وہ اسے ایسی جگہ قتل کرنا چاہتا تھا جہاں اسے کوئی پکڑ نہ سکے۔ وہ صلیبیوں کے خلاف مزید کارروائیوں کے لیے زندہ رہنا چاہتا تھا۔ وہ پاگل سے دس بارہ قدم پیچھے چلتا گیا اور اس کا اعلان سنتا گیا۔ جب دو عیسائیوں نے اسے طعنے دیئے اور ایک نہ کہا کہ عثمان بھائی تم بھی صلیب کے سائے میں آجائو تو اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اس کے دل میں قتل کا ارادہ اور زیادہ پختہ ہوگیا۔

پاگل کے پیچھے اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں اور بچوں کا جلوس جمع ہوگیا تھا۔ قتل کا یہ موقعہ اچھا نہیں تھا۔ دن گزرتا گیا اور پاگل کی آواز دھیمی پڑتی گئی۔ اس کے پیچھے چلنے والے کم ہوتے گئے۔ سورج غروب ہونے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی۔ ایک مسجد آگئی۔ پاگل مسجد کے دروازے میں بیٹھ گیا اور اس نے صلیب اوپر کرکے کہا… ''اب یہ گرجا ہے، مسجد نہیں ہے'' … اس وقت عثمان صارم اس کے قریب جاکھڑا ہوا۔ اسے اچھی طرح احساس تھا کہ یہ بے شک پاگل ہے لیکن اس کے قتل کی سزا بھی موت ہوگی کیونکہ اس نے صلیب اٹھا رکھی ہے اور یہ مسلمانوں کے خلاف نعرے لگا رہا ہے۔ عثمان صارم نے پاگل کے قریب ہوکر دھیمی آواز میں کہا … ''یہاں سے فوراً اٹھو اور اپنی صلیب کے ساتھ غائب ہوجائو ورنہ صلیبی یہاں سے تمہاری لاش اٹھائیں گے''۔

پاگل نے اسے نظر بھر کر دیکھا، اس کے سامنے بہت سے بچے کھڑے تھے، اس نے عثمان صارم کی دھمکی کا جواب دیئے بغیر بچوں کو ڈانٹ کر بھاگ جانے کو کہا۔ بچے ڈر کر بھاگ گئے تو پاگل مسجد کے اندر چلا گیا۔ عثمان صارم کے لیے یہ موقعہ بہت اچھا تھا۔ اس نے کچھ سوچے بغیر چوکڑی بھری، دروازے کے اندر گیا اور دروازہ بند کردیا۔ اس نے بہت تیزی سے خنجر نکالا مگر وار کرنے لگا تو پاگل نے گھوم کر دیکھا۔ عثمان کے خنجر کا وار اپنی طرف آتا دیکھ اس نے صلیب آگے کرکے وار صلیب پر لیا اور کہا… ''رک جائو جوان، اندر چلو، میں مسلمان ہوں''۔
 عثمان صارم نے دوسرا وار نہ کیا۔ پاگل جوتے اتار کر مسجد کے اندرونی کمرے میں چلا گیا۔ اس نے صلیب اپنے ہاتھ میں رکھی۔ اندر جاکر اس نے عثمان صارم سے نام پوچھا اور کہا … '' میں مسلمان ہوں، میری باتیں غور سے سن لو۔ مجھے بتائو کہ تم کب سے میرے پیچھے آرہے ہو؟''

''میں سارا دن تمہارے پیچھے پھرتا رہا ہوں''۔ عثمان صارم نے جواب دیا… ''مگر مجھے قتل کا موقعہ نہیں مل رہا تھا''۔

''تم مجھے قتل کیوں کرنا چاہتے ہو؟'' پاگل نے پوچھا۔

''کیونکہ میں اسلام اور صلاح الدین ایوبی کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرسکتا''۔ عثمان صارم نے جواب دیا… ''تم پاگل ہویا نہیں، میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا''۔

پاگل نے اس سے کئی اور باتیں پوچھیں، آخر اس نے کہا… ''مجھے تم جیسے ایک جوان کی ضرورت تھی۔ اچھا ہوا کہ تم خود ہی میرے پیچھے آگئے۔ میرا خیال تھا کہ مجھے اپنے مطلب کا کوئی مسلمان بڑی مشکل سے ملے گا۔ میں صلاح الدین ایوبی کا بھیجا ہوا جاسوس ہوں۔ میں نے یہ ڈھونگ صلیبیوں کو دھوکہ دینے کے لیے رچایا ہے۔ میں نے اس بھیس میں سفر کیا ہے۔ مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ یاد رکھو کہ مسجد میں کوئی صلیبی آگیا تو میں پھر وہی بکواس شروع کردوں گا جو دن بھر کرتا رہا ہوں۔ تم غور سے سنتے رہنا جیسے تم مجھ سے متاثر ہورہے ہو۔ میں بہت تیزی سے بولوں گا۔ شام کی نماز کا وقت ہورہا ہے۔ مسلمانوں میں صلیبیوں کے بھی جاسوس ہیں۔ میںنمازیوں کے آنے تک اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں''۔

عثمان صارم نے کبھی جاسوس نہیں دیکھا تھا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ غیرمعمولی طور پر ذہین جاسوس ہے جس نے اسے چند سوال پوچھ کر پہچان لیا ہے کہ یہ جوان قابل اعتماد ہے۔ جاسوس نے اسے کہا… ''اپنے جیسے چند ایک جوان اکٹھے کرو اور کچھ مسلمان لڑکیوں کو بھی تیار کرو۔ تمہیں ہر ایک مسلمان گھرانے میں یہ پیغام پہنچانا ہے کہ صلاح الدین ایوبی زندہ ہے اور وہ اپنی فوجوں کے ساتھ یہاں سے صرف آدھے دن کی مسافت جتنا دور ہے۔ اس کی تمام فوج کرک پر حملہ کرنے کے لیے نہ صرف تیار ہے بلکہ اس فوج نے صلیبی فوج کے ناک میں دم کررکھا ہے۔ مصر میں حالات پر سکون ہیں، وہاں صلیبیوں نے جو تخریب کاری کی تھی وہ جڑ سے اکھاڑ دی گئی ہے''۔

''صلاح الدین ایوبی کب حملہ کرے گا؟''… عثمان صارم نے پوچھا۔ ''ہم اس کی راہ دیکھ رہے ہیں، ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں کہ تم باہر سے حملہ کرو گے تو ہم صلیبیوں پر اندر سے حملہ کریں گے۔ خدا کے لیے جلدی آئو''۔

''تحمل سے کام لو جوان!'' …جاسوس نے کہا… ''پہلے صلاح الدین ایوبی کا پیغام سن لو اور یہ ہر ایک نوجوان کے ذہن پر نقش کردو۔ ایوبی نے کہا ہے کہ کرک کے مسلمان نوجوانوں سے کہنا کہ تم ملک اور مذہب کے پاسبان ہو۔ میں نے پہلی جنگ لڑکپن میں لڑی تھی اور محاصرے میں لڑی تھی۔ فوج کی کمان میرے چچا کے پاس تھی، اس نے مجھے کہا تھا کہ محاصرے میں گھبرانہ جانا۔ اگر تم اس عمر میں گھبرا گئے تو تمہاری ساری عمر گھبراہٹ اور خوف میں گزرے گی۔ اگر اسلام علم بردار بننا چاہتے ہو تو یہ علم آج ہی اٹھا لو اور دشمن کی دیواریں توڑ کر نکل جائو پھر گھوم کر آئو اور دشمن پر جھپٹ پڑو۔ میں گھبرایا نہیں۔ تین مہینوں کے محاصرے نے ہمیں فاقہ کشی بھی کرائی لیکن ہم محاصرہ توڑ کر نکل آئے اور ہم نے جس خوراک سے پیٹ بھرے وہ دشمن کی رسد سے چھینی ہوئی خوراک تھی۔ ہمارے جو گھوڑے محاصرے میں بھوک سے مر گئے تھے، ہم نے ان کی کمی دشمن کے گھوڑوں سے پوری کی۔
 ''صلاح الدین ایوبی نے کہا ہے کہ میری قوم کے بیٹوں سے کہنا کہ تم پر دشمن نے پیار کے ہتھیار سے حملہ کیا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا کہ کوئی غیر مسلم کسی مسلمان کا دوست نہیں ہوسکتا۔ صلیبی میدان جنگ میں ٹھہر نہیں سکے، ان کے منصوبے خاک میں مل گئے ہیں، اس لیے وہ اب مسلمانوں کی بھرتی ہوئی نسل کے ذہن سے قومیت اور مذہب نکالنے کے جتن کررہے ہیں۔ انہوں نے جو ہتھیار استعمال کیا ہے وہ بڑا ہی خطرناک ہے۔ یہ ہے ذہنی عیاشی، کاہلی اور کوتاہی۔ تم میں یہ تینوں خرابیاں پیدا کرنے کے لیے عیسائی اور یہودی ایک ہوگئے ہیں۔ یہودی اپنی لڑکیوں کے ذریعے تم میں حیوانی جذبہ بھڑکا رہے ہیں اور تمہیں نشے کا عادی بنا رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ حیوانی جذبے اور نشے سے تمہاری عاقبت خراب ہوگی اور موت کے بعد تم جہنم میں جائو گے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کردار کی یہ خرابیاں تمہارے لیے اس دنیا کو ہی جہنم بنا دیں گی۔ تم جسے جنت کی لذت سمجھتے ہو وہ جہنم کا عذاب ہے۔ تم صلیبیوں کے غلام ہوجائو گے جو تمہاری بہنوں کو بے آبرو کرتے پھریں گے۔ تمہارے قرآن کے ورق گلیوں میں اڑیں گے اور تمہاری مسجدیں اصطبل بن جائیں گی۔

''صلاح الدین ایوبی نے کہا ہے کہ باوقار قوم کی طرح زندہ رہنا چاہتے ہو تو اپنی روایات کو نہ بھولو۔ صلیبی ایک طرف تم پر تشدد کررہے ہیں اور دوسری طرف تمہیں دولت اور گھوڑا گاڑیوں کا لالچ دے رہے ہیں۔ مسلمان ان عیاشیوں کا قائل نہیں ہوتا… تمہاری دولت تمہارا کردار اور ایمان ہے۔ یہ صلیبیوں کی شکست کا ثبوت ہے کہ وہ تمہاری تلوار سے خوف زدہ ہوکر اتنے اوچھے ہتھیاروں پر اتر آئے ہیں کہ اپنی بیٹیوں کو بے حیا بنا کر تمہیں اپنا غلام بنانے کے جتن کررہے ہیں۔ میری قوم کے بیٹو! اپنے کردار کو محفوظ رکھو، آپنے آپ کو قابو میں رکھو، ظالم حکمران دراصل کمزور حکمران ہوتا ہے۔ وہ اپنے مخالفین میں سے کسی کو ظلم وتشدد سے زیر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کسی کو دلت کا لالچ دے کر۔ تم ظلم وتشدد سے بھی نہ ڈرو اور کسی لالچ میں بھی نہ آئو۔ تم قوم کا مستقبل ہو۔ ہم قوم کا ماضی ہیں۔ دشمن تمہارے ذہنوں سے تمہارا اور خشندہ ماضی نکال کر اس میں اپنے نظریات اور مفادات کی سیاہی بھرنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ اسلام کا مستقبل تاریک ہوجائے۔ اپنی اہمیت پہچانو۔ دشمن تمہیں صرف اس لیے اپنے تابع کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ تم سے خائف ہے۔ اپنی نظر آج پر نہیں کل پر رکھو کیونکہ تمہارے دشمن کی نظر تمہارے مذہب کے کل پر ہے۔ تم نے د یکھ لیا ہے کہ کفار تمہارا کیا حال کررہے ہیں۔ اگر تم ذہنی عیاشی میں پڑ گئے تو تمام تر ملت اسلامی کا یہی حشر ہوگا''۔

جاسوس نے سلطان ایوبی کا پیغام بہت تیزی سے عثمان صارم کو سنا دیا اور اسے عمل کے طریقے بتانے لگا۔ اس نے کہا …''سالار اعظم نے خاص طور پر کہا ہے کہ اپنے اوپر جوش اور جذبات کا غلبہ طاری نہ کرنا۔ عقل پر جذبات کو غالب نہ آنے دینا۔ اشتعال سے بچنا، اپنے آپ پر قابو رکھنا۔ احتیاط لازمی ہے۔ جاسوس نے اسے بتایا کہ وہ اور اس کے دو ساتھی کسی نہ کسی روپ میں اسے خود ہی ملتے رہیں گے اور یہ رابطہ قائم رہے گا۔ فوری طور پر ضرورت یہ ہے کہ مسلمان اپنے گھروں میں چوری چھپے کمانیں، تیر اور برچھیاں بنائیں اور گھروں میں چھپا کر رکھیں، عورتوں کو گھروں کے اندر ہی خنجر اور برچھی مارنے اور وار سے بچنے کے لیے طریقہ سکھائیں۔ یہودی لڑکیوں کی باتوں پر دھیان نہ دیں، ان کے ساتھ ایسی کوئی بات نہ کریں جس سے انہیں کوئی شک پیدا ہو۔ اپنے طور پر کوئی جنگی کارروائی نہ کریں۔ پہلے منظم ہوجائیں پھر قیادت بنائیں۔ ہر ایک فرد کا ذرا سا بھی عمل قائد کی نظر میں ہونا چاہیے اور کسی فرد کا کوئی اقدام قائد کی اجازت کے بغیر نہ ہو''۔

سورج غروب ہونے لگا تھا۔ مسجد کا پیش امام آگیا۔ اسے دیکھتے ہی جاسوس نے صلیب اٹھائی اور دوڑتا ہوا باہرنکل گیا۔ باہر سے پھر وہی اعلان سنائی دینے لگا… ''مسلمانو! صلیب کے سائے میں آجائو، تمہارا اسلام مر گیا ہے''… امام نے عثمان صارم کو قہر بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا… ''یہ یہاں کیا کررہا تھا؟ اور تم نے اسے اندر کیوں بٹھا رکھا تھا؟ اسے ہلاک کیوں نہ کردیا؟ تمہاری رگوں میں مسلمان باپ کا خون جم گیاہے؟ میں اتنا بوڑھا نہ ہوتا تو یہاں سے اسے زندہ باہر نہ جانے دیتا'.....
جاری ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں