داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 36 - اردو ناول

Breaking

منگل, اپریل 30, 2019

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 36

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر.36۔" کھنڈروں کی آواز "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سلطان ایوبی نے فوج کا ایک بڑا حصہ ریزور میں رکھ لیا تھا، ایک حصے کو اس طرح متحرک رکھا کہ جہاں کمک کی ضرورت پڑے، فوراً کمک دے سکے۔ اس کا سب سے زیادہ خطرناک ہتھیار اس کے چھاپہ مار دستے تھے اور اس سے زیادہ خطرناک اس کا جاسوسی کا نظام تھا جو اسے صلیبیوں کی نقل وحرکت کی خبریں دے رہا تھا۔ شوبک کا قلعہ سلطان ایوبی سرکرچکا تھا۔ صلیبیوں کے منصوبے میں یہ بھی تھا کہ ان کے لیے حالات سازگار ہوئے تو وہ شوبک کو محاصرے میں لے کر فتح کرلیں گے۔ انہیں توقع تھی کہ ان کا اتنا زیادہ لشکر سلطان ایوبی کی قلیل تعداد فوج کو صحرا میں ختم کردے گا یا اتنا کمزور کردے گا کہ وہ شوبک کو باہر سے مدد نہیں دے سکے گی۔ ان کے اس منصوبے کے پیش نظر سلطان ایوبی نے شوبک کی وہ طرف جس طرف سے صلیبی اس قلعے پر حملہ کرسکتے تھے، خالی چھوڑ دی۔ اس نے صلیبیوں کے لیے موقعہ پیدا کردیا کہ وہ راستہ صاف دیکھ کر شوبک پر حملہ کریں۔ اس طرف سے اس نے دیکھ بھال والی چوکیاں بھی ہٹا دیں اور دور دور تک علاقہ خالی کردیا۔

صلیبیوں کے جاسوسوں نے کرک میں فوراً اطلاع پہنچائی کہ سلطان ایوبی نے صلیبیوں کے ساتھ صحرا میں لڑنے کے لیے فوج شوبک سے دوراکٹھی کرلی ہے اور شوبک کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔ صلیبیوں نے فوراً اپنی اس فوج کو جو سلطان ایوبی کے سامنے سے حملہ کرنے کے لیے باہر نکالی تھی، حکم دے دیا کہ رخ بدل کر شوبک کی طرف چلی جائے۔ چنانچہ یہ فوج ادھر کو ہولی۔ اس کے پیچھے رسد کے ذخیرے جارہے تھے، فوج جب شوبک سے چار میل دور رہ گئی تو اسے روک لیا گیا۔ یہ اس فوج کا عارضی پڑائو تھا۔ رسد کی گھوڑا گاڑیاں، اونٹ اور خچر ہزاروں کی تعداد میں چلے آرہے تھے۔ انہیں کوئی خطرہ نہ تھا کیونکہ مسلمانوں کی فوج کا دور دور تک نام ونشان نہ تھا۔ صلیبی حکمران بہت خوش تھے۔ انہیں شوبک کا قلعہ اپنے قدموں میں پڑا نظر آرہا تھا مگر رات کو انہیں اپنے پیچھے پانچ چھ میل دور آسمان لال سرخ نظر آیا۔ شعلے اتنے بلند تھے کہ اتنی دور سے بھی نظر آئے تھے، صلیبیوں نے سوار دوڑادیئے۔ جہاں سے شعلے اٹھ رہے تھے، وہاں ان کی رسد تھی۔ سوار وہاں پہنچے تو انہیں صحرا میں بے لگام گھوڑے اور بے مہار اونٹ ہر طرف دوڑتے بھاگتے نظر آئے۔

یہ تباہی سلطان ایوبی کے ایک چھاپہ مار دستے کی بپا کی ہوئی تھی، رسد میں گھوڑوں کے لیے خشک گھاس سے لدی ہوئی سینکڑوں گھوڑا گاڑیاں تھیں۔ انہیں رسد کے کیمپ کے اردگرد کھڑا کیا گیا تھا۔ صلیبی خوش فہمیوں میں مبتلا تھے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کی ہر ایک حرکت پر سلطان ایوبی کی نظر ہے۔ رات کو جب رسد کا کیمپ سو گیا تو مسلمان چھاپہ ماروں نے اونٹوں پر جاکر خشک گھاس میں آتشیں فلیتوں والے تیر چلائے۔ گھاس فوراً جل اٹھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے کیمپ شعلوں کے گھیرے میں آگیا۔ ان کے نرغے میں آئے ہوئے انسان جانیں بچانے کے لیے ادھر ادھر دوڑے تو ان میں سے بہت سے تیروں کا شکار ہوگئے جو جانور رسیاں توڑ سکے وہ تو بھاگ گئے اور جو کھل نہ سکے وہ زندہ جل گئے۔ دور دور تک پھیلا ہوا کیمپ جہنم بن گیا۔ چھاپہ ماروں نے کئی ایک اونٹ اور گھوڑے پکڑ لیے اور واپس چلے گئے۔

صبح طلوع ہوئی۔ صلیبی کمانڈروں نے جاکر رسد کا کیمپ دیکھا، وہاں کچھ نہیں بچا تھا۔ ان کی ایک ماہ کی رسد تباہ ہوچکی تھی۔ وہ سمجھ گئے کہ شوبک کا راستہ جو صاف تھا، یہ سلطان ایوبی کی ایک چال تھی۔ انہوں نے بغیر دیکھے کہہ دیا کہ کرک سے شوبک تک ان کی رسد اور کمک کا راستہ محفوظ نہیں۔ چنانچہ انہوں نے شوبک کا محاصرہ ملتوی کردیا۔ رسد کے بغیر محاصرہ ناممکن تھا اور جب انہیں اطلاع ملی کہ گزشتہ رات اس فوج کی بھی رسد تباہ ہوگئی ہے جو سلطان ایوبی کی فوج پر سامنے سے حملہ کرنے کے لیے جمع تھی تو انہوں نے اپنے تمام تر جنگی منصوبے پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ انہیں کہیں بھی سلطان ایوبی کی فوج نظر نہیں آرہی تھی۔ انہیں جاسوس یہ بھی نہیں بتا سکے تھے کہ مسلمانوں کی فوج کا اجتماع کہاں ہے۔ دراصل یہ اجتماع کہیں بھی نہیں تھا۔
: سلطان ایوبی کو اطلاع ملی کہ صلیبیوں نے دونوں محاذوں پر پیش قدمی روک دی ہے تو اس نے اپنے کمانڈروں کو بلا کر کہا… ''صلیبیوں نے جنگ ملتوی کردی ہے لیکن ہماری جنگ جاری ہے۔ وہ دونوں فوجوں کے آمنے سامنے کے تصادم کو جنگ کہتے ہیں۔ میں چھاپوں اور شب خونوں کو جنگ کہتا ہوں۔ اب چھاپہ مارو کو سرگرم رکھو۔ صلیبی دونوں طرف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں، انہیں اطمینان سے پیچھے نہ ہٹنے دو۔ انتہائی عقب یا پہلو پر شب خون مارو اور غائب ہوجائو۔ صلیبی آپ کو اپنے سامنے لاکر لڑنا چاہتے ہیں لیکن میں آپ کو اس میدان میں ان کے سامنے لے جائوں گا جو آپ کی مرضی کا ہوگا اور جہاں کی ریت بھی آپ کی مدد کرے گی''۔

سلطان ایوبی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، وہ اپنے عملے اور محافظ دستے کے ساتھ خانہ بدوش تھا، کسی ایک جگہ نہ ٹھہرنے کے باوجود معلوم ہوتا تھا، جیسے ہر جگہ موجود ہے۔

٭ ٭ ٭

مصر میں سلطان ایوبی کا بھائی تقی الدین صلیبیوں کے دوسرے محاذ پر حملہ آور ہورہا تھا، یہ مصر کا جنوب مغربی علاقہ تھا، جہاں کے ڈرائونے ٹیلوں کے اندر فرعونوں کے ہولناک کھنڈرات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے واپس آنے والے تھے۔ تمام تر علاقہ ایک نئے عقیدے کا پیرو کار ہوگیا تھا… جمعرات کی شام تھی۔ زائرین کا ہجوم کھنڈر کے غار نما دروازے میں داخل ہورہا تھا۔ اندر بڑے کمرے میں پراسرار آواز گونج ر ہی تھی۔ لوگوں کو دیوار پر گناہ گار اور نیکو کارجاتے نظر آرہے تھے۔ وہاں وہی سماں تھا جو ہر جمعرات کے روز ہوا کرتا تھا۔ اچانک اس پراسرار مقدس انسان کی آواز خاموش ہوگئی جس کے متعلق مشہور تھا کہ گناہ گاروں کو نظر نہیں آتا۔ اس کے بجائے ایک اور آواز سنائی دی۔ ''گمراہ انسانو! آج کی رات گھروں کو نہ جانا۔ کل صبح تم پر وہ راز فاش ہوجائے گا جس کے لیے تم بیتاب ہو۔ یہاں سے فوراً باہر نکل جائو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لارہے ہیں۔ اس کھنڈر سے دور جاکر سوجائو''… بڑے کمرے میںحیرت زندہ لوگوں کو دیوار پر جو چمکتے ہوئے ستارے نظر آتے تھے، وہ ماند پڑگئے۔ اس وقت ان ستاروں میں سے حسین لڑکیاں اور خوبرو مرد ہنستے کھیلتے گزر رہے تھے۔ لوگوں نے دیکھا کہ فوجی قسم کے کچھ آدمی انہیں پکڑ پکڑ کر لے جارہے ہیں۔ کہیں سے چیخیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ بادل جو گرجتے تھے وہ بھی خاموش ہوگئے، لوگوں کے لیے یہ جگہ بڑی ہی مقدس تھی۔ وہ خوف زدہ ہوکے باہر کو بھاگے اور کھنڈر خالی ہوگیا۔

یہ انقلاب تقی الدین اور علی بن سفیان لائے تھے۔ ان کے ساتھ فوج کی وہی نفری تھی جو تقی الدین نے اپنے حکم میں بتائی تھی۔ یہ دستے شام کے بعد ٹیلوں والے علاقے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ ان کی رہنمائی شارجا کررہی تھی جو گھوڑے پر سوار تھی۔ وہ انہیں جمعرات کی شام وہاں لے گئی تھی کیونکہ اس روز وہاں میلہ لگتا تھا اور دور دور سے لوگ آتے تھے۔ فوج کے بڑے حصے کو جس میں پانچ سو گھوڑ سوار، دوسو شتر سوار اور پانچ سو پیادہ تھے۔ اس علاقے سے ذرا دور رکھا گیا تھا۔ انہیں نہتے لوگوں کے خلاف استعمال نہیں کرتا تھا۔ ان کے ذمہ یہ فرض تھا کہ سوڈان کی سرحد پر نظر رکھیں چونکہ کھنڈروں کے اندر کی تخریب کاری صلیبیوں اور سوڈانیوں کی پشت پناہی پر ہورہی تھی۔ اس لیے یہ خطرہ تھا کہ وہاں فوجی کارروائی کی گئی تو سوڈانی حملہ کردیں گے۔ تقی الدین نے اس علاقے کے قریب کے سرحدی دستوں کو جو سرحدوں کی حفاظت کے لیے وہیں رہتے تھے قریب بلا کر اپنے تحت کرلیا تھا۔
: دوسو گھوڑ سوار جو تقی الدین کے ساتھ دمشق سے آئے تھے وہ وہاں کے چنے ہوئے اور دیوانگی کی حد تک دلیر سوار تھے۔ دوڑتے گھوڑوں سے تیر اندازی ان کا خصوصی کمال تھا۔ پیادہ سپاہیوں میں سلطان ایوبی کے اپنے ہاتھوں تیار کیے ہوئے چھاپہ مار بھی تھے۔ انہیں ایسی ٹریننگ دی گئی تھی کہ انتہائی دشوار ٹیلوں اور درختوں پر حیران کن رفتار سے چڑھتے اور اترتے تھے۔ چند گز پھیلی ہوئی آگ سے گزر جانا ان کا معمول تھا۔ ان چھاپہ مار جانبازوں کو اس وقت کھنڈر کی طرف روانہ کیا گیا، جب لوگ اندر جارہے تھے، وہاں تک انہیں شارجا لے گئی تھی۔ علی بن سفیان ان کے ساتھ تھا۔ تیز رفتار قاصد بھی ساتھ تھے، تاکہ پیغام رسانی میں تاخیر نہ ہو۔ کھنڈر کے دروازے کے باہر دو آدمی کھڑے اندر جانے والوں کو تین تین کھجوریں کھلا رہے تھے۔ دروازے کے اندر گپ اندھیرا تھا۔ اس اندھیرے سے لوگ گزر کر اندر روشن کمرے میں جاتے تھے، باہر صرف ایک مشعل جل رہی تھی جس کی روشنی معمولی سی تھی۔

چھ آدمی جن کے سر چادروں میں ڈھکے ہوئے تھے، زائرین کے ساتھ دروازے تک گئے اور ہجوم سے ہٹ کر کھجوریں کھلانے والوں کے پیچھے جا کھڑے ہوئے۔ انہیں کہا گیا کہ وہ سامنے سے گزریں لیکن وہ سن ہوکے رہ گئے کیونکہ ان کی پیٹھوں میں خنجروں کی نوکیں رکھ دی گئی تھیں۔ یہ چھ آدمی چھاپہ مار تھے۔ انہوں نے ایک ایک آدمی کے پیچھے ہو کر خنجر ان کی پیٹھوں سے لگا کر آہستہ سے کان میں کہا تھا… ''زندہ رہنا چاہتے ہوتو یہاں سے باہر چلے جائو، تم سب فوج کے گھیرے میں ہو'' … کھجوریں کھلانے اور پانی پلانے والے آدمی ذرا سی بھی مزاحمت کے بغیر باہر نکل گئے۔ چھاپہ ماروں نے خنجر اس طرح چغوں میں چھپالیے کہ لوگوں میں سے کوئی دیکھ نہ سکا۔ یہ چار آدمی جونہی باہر کو آئے، وہاں دس بارہ چھاپہ مار دیہاتیوں کے لباس میں کھڑے تھے۔ انہوں نے چاروں کو گھیر لیا اور دھکیلتے ہوئے دور لے گئے۔ وہاں انہیں رسیوں سے باندھ دیا گیا۔ چھ چھاپہ مار جو کھجوروں اور پانی کے مشکیزوں کے پاس رہ گئے تھے، انہوں نے اندر جانے والے لوگوں سے کہنا شروع کردیا کہ کھجوروں اور پانی کے بغیر اندر جائو کیونکہ اندر سے نیا حکم آیا ہے۔ سیدھے سادے دیہاتی اندر جاتے رہے۔

ان کے ساتھ اب چھاپہ مار بھی اندر جارہے تھے اور مشعلیں بھی اندر جارہی تھیں۔ لوگ حیران تھے کہ مشعلیں کیوں لے جائی جارہی ہیں۔ کم وبیش پچاش مشعلیں اور دو سو چھاپہ مار اندر چلے گئے۔() وہ روشن کمرے میں نہ گئے بلکہ ان تاریک راستوں اور غلام گردشوں میں چلے گئے جن میں باہر کے لوگ نہیں جاسکتے تھے۔ ان میں سے بعض کے پاس خنجر اور خنجر نما تلواریں تھیں اور بعض کے پاس چھوٹی کمانیں۔ اس دروازے سے بھی جس سے لوگ باہر نکلتے تھے، چھاپہ مار داخل ہوگئے۔ وہ ہدایت کے مطابق تاریک بھول بھلیوں میں جارہے تھے۔ تقی الدین کے دو سو گھوڑے سوار آگے گئے اور انہوں نے پورے کھنڈر کو گھیرے میں لے گیا۔ ان کے ساتھ پیادہ دستہ بھی تھا جس کے سپاہیوں نے اندر سے نکلنے والوں کو روک کر ایک طرف اکٹھا کرنا شروع کردیا۔ چھاپہ مار مشعل برداروں کے ساتھ اندر گئے تو انہیں ایسے محسوس ہونے لگا جیسے کسی کے پیٹ میں چلے گئے ہوں۔ اندر کے راستے اور کمرے انتڑیوں کی مانند تھے… یہ راستے انہیں ایک ایسے طلسم میں لے گئے جسے دیکھ کر چھاپہ مار بدک کرر ک گئے۔ یہ ایک بہت کشادہ کمرہ تھا جس کی چھت تو اونچی تھی، اندر بہت سے مرد اور عورتیں تھیں۔ ان میں کچھ ایسے تھے جن کے چہرے بھیڑیوں کی طرح تھے بعض تھے تو انسان لیکن وہ اس قدر بدصورت اور بھیانک چہروں والے تھے کہ دیکھ کر ڈر آتا تھا، وہ جن اور بھوت لگتے تھے اور ان کے درمیان خوبصورت اور جوان لڑکیاں بھڑکیلے اور چمکیلے کپڑے پہنے ہنس کھیل رہی تھیں۔ ایک طرف دیوار کے ساتھ چند ایک خوبصورت لڑکیاں خوبرو مردوں کے ساتھ مٹک مٹک کر چل رہی تھیں۔ ادھر چھت سے فرش تک پردے لٹکے ہوئے تھے جو دائیں بائیں ہٹتے، کھلتے اور بند ہوتے تھے۔ دوسری طرف آنکھوں کو خیرہ کردینے والی روشنی چمکتی اور بجھتی تھی۔
: اگر چھاپہ ماروں کو یہ یقین نہ دلایا گیا ہوتا کہ کھنڈر کے اندر جو کوئی بھی ہے اور جس حلیے میں بھی ہے وہ انسان ہوگا اور اندر کوئی بدروح، روح یا بھوت پریت نہیں، تو چھاپہ مار وہاں سے بھاگ جاتے۔ وہاں خوبصورت لڑکیاں اور خوبرو مرد تھے، وہ بھی ڈرائونے لگتے تھے…

اس عجیب وغریب مخلوق نے جب مشعل بردار چھاپہ ماروں کو دیکھا تو انہیں ڈرانے کے لیے ڈرائونی آوازیں نکالنے لگے جو آدمی بدصورت، چڑیلوں اور بھیڑیوں کے چہروں والے تھے ان کی آوازیں زیادہ خوفناک تھیں۔ اس دوران ایک دو آدمیوں نے شاید ڈر کر اپنے چہرے بے نقاب کردیئے۔ یہ بھیڑیوں کے چہرے تھے جو انہوں نے اتارے تو اندر سے انسانوں کے چہرے نکلے۔ چھاپہ ماروں نے سب کو گھیر کر پکڑ لیا اور سب کے نقاب اتار دیئے، وہاں شراب بھی پڑی تھی۔ ان سب کو باہر لے گئے۔ کھنڈر کے دوسرے حصوں کی تلاشی میں ایک آدمی پکڑا گیا جو ایک تنگ سی سرنگ کے منہ میں منہ ڈالے بھائی آواز میں کہہ رہا تھا …''گناہوں سے توبہ کرو، حضرت عیسیٰ علیہ السلام آنے والے ہیں…'' اور ایسے کئی الفاظ تھے جو وہ بول رہا تھا۔ یہ سرنگ گھوم پھر کر اس روشن کمرے میں جاتی تھی، جہاں زائرین کو یہ پراسرار، ڈرائونی اور خوبصورت مخلوق دکھا کر حیرت زدہ کیا جاتا تھا۔ اس آدمی کو وہاں سے ہٹا کر چھاپہ ماروں کے ایک کمان دار نے سرنگ میں منہ ڈال کر کہا کہ اے گمراہ لوگوں آج رات گھروں کو نہ جانا کل صبح تم پر وہ راز فاش ہوجائے گا جس کے لیے تم بیتاب ہو۔

کھنڈرات کے اندر کسی نے بھی مزاحمت نہ کی۔ خنجروں اور تلواروں کے آگے سب اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کرتے چلے گئے۔ چھاپہ مار ان آدمیوں کی نشاندہی پر جنہیں گرفتار کرلیا گیا تھا ان جگہوں تک پہنچے جہاں بجلی کی طرح چمکنے والی روشنیوں کا انتظام تھا۔ ڈھکی چھپی جگہوں میں مشعلیں جل رہی تھی۔ ان کے پیچھے لکڑی کے تختے تھے جن پر ابرق چپکایا ہوا تھا۔ ان تختوں کے زاویے بدلتے تھے تو ابرق کی چمک لوگوں کی آنکھوں میں پڑتی اور چندھیا دیتی تھی۔ کمرہ تاریک کرنے کے لیے مشعلوں کو پیچھے کرلیا جاتا تھا۔ بادل گرجنے کی آوازیں دھات کی چادروں کو جھٹکے دے کر پیدا کی جاتی تھی۔ پردوں پر جگہ جگہ ابرق کے ٹکڑے چپکا دیئے گئے تھے جن پر روشنی پڑتی تو ستاروں کی طرح چمکتے تھے۔ اس طرف پردوں کا رنگ ایسا تھا کہ کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ کپڑا ہے۔ وہ اسے پھٹی ہوئی دیوار سمجھتے تھے۔ عقل اور ہوش والے انسان کے لیے یہ کوئی معمہ نہیں تھا۔ بے شک یہ روشنیوں کے خاص انتظام کا جادو تھا جو لوگوں کو مسحود کرلیتا تھا لیکن اندر جو جاتا تھا اس کی عقل اور ہوش پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا تھا۔ انہیں اندر جاتے وقت دروازے پر جو تین کھجوریں کھلائی جاتی اور پانی پلایا جاتا تھا، ان میں نشہ آور آمیزش ہوتی تھی۔ اس کا اثر فوراً ہوجاتا تھا۔ اس اثر کے تحت زائرین کے ذہنوں پر جو بھی تصور بٹھایا جاتا اور کانوں میں جو بھی آوازیں ڈالی جاتی، وہ اسے سو فیصد صحیح اور برحق سمجھ لیتے تھے۔ اسی نشے کا اثر تھا کہ لوگ باہر جاکر دوبارہ اندر آنے کی خواہش کرتے تھے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ اس عقیدے کا تاثر نہیں بلکہ اس نشے کا اثر ہے جو انہیں کھجوروں اور پانی میں د یا جاتا ہے۔

کھجوروں کے انبار اور پانی کے مشکیزوں پر بھی قبضہ کرلیا گیا تھا۔ اندر پکڑ دھکڑ اور تلاشی کا سلسلہ جاری تھا۔ باہر دو سو سپاہیوں نے کھنڈروں کا محاصرہ کررکھا تھا۔ ہر طرف مشعلوں کی روشنی تھی، فوج کا بڑا حصہ اور دو سرحدی دستے سوڈان کی سرحد کے ساتھ ساتھ گھوم پھر رہے تھے… رات گزرگئی۔ سوڈان کی طرف سے کوئی حملہ نہ ہوا۔ کھنڈرات میں بھی کوئی مزاحمت نہ ہوئی۔ صبح کے اجالے نے اس علاقے کو روشن کیا تو وہاں ہراساں دیہاتیوں کا ہجوم تھا۔ کچھ لوگ ادھر ادھر سوگئے تھے۔ گھوڑ سواروں نے گھیرا ڈال رکھا تھا۔

٭ ٭ ٭
: کچھ دیر بعد تمام لوگوں کو ایک جگہ جمع کرکے بٹھا دیا گیا ۔ ان کی تعداد تین اور چار ہزار کے درمیان تھی۔ ایک طرف سے ایک جلوس آیا جسے فوجی ہانک کر لا رہے تھے۔ اس جلوس میں بھیڑیوں اور چڑیلوں کے چہروں والے انسان تھے۔ اس میں مکروہ اور بڑی بھیانک شکلوں والے انسان بھی تھے اور اس جلوس میں وہ تمام مخلوق تھی جو لوگوں کو کھنڈر کے اندر دکھائی جاتی تھی اور بتایا جاتا تھا کہ یہ آسمان ہے جہاں یہ لوگ مرنے کے بعد گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا گناہ یہ بتایا جاتا تھا کہ یہ جنگ وجدل کے عادی تھے یعنی یہ فوجی تھے۔ اس جلوس سے الگ دس بارہ لڑکیوں کو بھی لوگوں کے سامنے لایا گیا۔ یہ بہت ہی خوبصورت لڑکیاں تھیں۔ ان کے ساتھ خوبرو مرد تھے۔ ان دونوں جلوسوں کو لوگوں کے ہجوم کے سامنے ایک اونچی جگہ پر کھڑا کردیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ لوگوں کو اپنے چہرے دکھائو۔ سب نے بھیڑیوں اور چڑیلوں کے مصنوعی چہرے اتار دیئے۔ ان کے اندر سے اچھے بھلے انسانی چہرے نکل آئے جو آدمی مکروہ اور بھیانک چہروں والے تھے، وہ بھی مصنوعی چہرے تھے۔ یہ چہرے بھی اتار دیئے گئے۔

لوگوں سے کہا گیا کہ وہ ان آدمیوں اور ان لڑکیوں کے قریب سے گزرتے جائیں اور انہیں پہنچانیں، لوگ تو اسی پر حیران ہوگئے کہ یہ آسمان کی مخلوق نہیں، اسی زمین کے انسان ہیں۔ لڑکیاں بھی پہچان لی گئیں، ان میں زیادہ تر اسی علاقے کی رہنے والی تھیں اور تین چار یہودی تھیں۔ جنہیں صلیبی اسی مقصد کے لیے لائے تھے۔ لوگ انہیں دیکھ چکے تو ان مجرموں کو سامنے لایا گیا جنہوں نے یہ طلسماتی اہتمام کررکھا تھا۔ ان میں چھ صلیبی تھے جو مصر کے اس علاقے کی زبان بولتے اور سمجھتے تھے۔ انہوں نے بہت سے آدمی اس علاقے سے اپنے ساتھ ملا لیے تھے۔ رات گرفتاری کے بعد ان سے اعتراف کرالیا گیا تھا کہ انہوں نے تین چار مسجدوں میں اپنے امام رکھ دیئے تھے جو لوگوں کو مذہب کے پردے میں غیر اسلامی نظریات کے معتقد بنا رہے تھے۔ اس گروہ کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو قائل کیا جائے کہ فوج میں بھرتی نہ ہوں کیونکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ یہ گروہ اس مقصد میں کامیاب ہوچکا تھا۔ ان تخریب کاروں نے یہ کامیابی بھی حاصل کرلی تھی کہ اس علاقے کے لوگوں میں سوڈانیوں کی محبت پیدا کردی تھی اور ان کا مذہب تبدیل کیے بغیر انہیں بے مذہب کردیا تھا۔

لوگوں سے کہا گیا کہ اب وہ کھنڈروں کے اندر جاکر گھومیں پھریں اور اس فریب کاری کا ثبوت اپنی آنکھوں دیکھیں۔ لوگ اندر چلے گئے جہاں جگہ جگہ فوجی کھڑے تھے اور لوگوں کو دکھا رہے تھے کہ انہیں کیسے کیسے طریقوں سے دھوکہ دیا جاتا رہا ہے۔ بہت دیر بعد جب تمام لوگ اندر سے گھوم پھر آئے تو تقی الدین نے ان سے خطاب کیا اور انہیں بتایا کہ کھجوروں اور پانی میں انہیں نشہ دیا جاتا ہے۔ اندر جوجنت اور جہنم تھا، وہ اس نشے کے زیراثر نظر آتا تھا۔ میں ان مجرموں سے کہتا ہوں کہ اندر چل کر مجھے آسمان کی مخلوق چلتی پھرتی دکھائیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کہاں اور مرا ہوا خلیفہ العاضد کہاں ہے؟ یہ سب فریب تھا۔ یہ وہ نشہ ہے جو حشیشین کا پیر استاد حسن بن صباح لوگوں کو پلا کر انہیں جنت دکھایا کرتا تھا۔ وہ تو ایک وقت میں چند ایک آدمیوں کو نشہ پلاتا تھا مگر یہاں اسلام کے ان دشمنوں نے اتنے وسیع علاقے کی پوری آبادی پر نشہ طاری کردیا ہے۔

تقی الدین نے لوگوں کو اصلیت دکھا کر انہیں بتایا کہ ابتداء میں ایک درویش کی کہانی سنائی گئی تھی جو مسافروں کو اونٹ اور اشرفیاں دیا کرتا ہے۔ یہ محض بے بنیاد کہانیاں تھیں اور بے سروپا جھوٹ۔ کہانیاں سنانے والوں کو تمہارے دین وایمان کے دشمن بے دریغ مال ودولت دیتے تھے… تقی الدین نے اس فریب کاری کے تمام پہلو بے نقاب کیے اور جب اس نے مجرموں کی اصلیت کو بے نقاب کیا تو لوگ جوش میں آکر اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے مجرموں پر ہلہ بول دیا۔ اس وقت لوگوں کا وہ نشہ اتر چکا تھا جو رات کو انہیں کھجوروں اور پانی میں دیا گیا تھا۔ فوج نے ہجوم پر قابو پانے کی بہت کوشش کی لیکن انہوں نے تمام مجرموں اور لڑکیوں کو جان سے مار کر چھوڑا۔

تقی الدین نے فوج کو اسی علاقے میں پھیلا دیا اور فوج کی نگرانی میں وہاں ایک تو تخریب کاروں کے ایجنٹوں کو گرفتار کیا اور دوسرے یہ کہ مسجدوں میں قاہرہ کے عالم متعین کردیئے جنہوں نے لوگوں کو مذہبی اور عسکری تعلیم وتربیت شروع کردی۔ فرعونوں کے کھنڈروں کو لوگوں کے ہاتھوں مسمار کرادیا گیا۔

تقی الدین نے قاہرہ جاکر پہلا کام یہ کیا کہ جراح اور شارجا کی خواہش کے مطابق انہیں شادی کی اجازت دے دی اور دوسرا کام یہ کیا کہ اس نے فوج کی مرکزی کمان کو حکم دیا کہ سوڈان پر حملے کی تیاری کی جائے۔ اس نے کھنڈروں کی مہم میں دیکھ لیا تھا کہ پڑوسی سوڈانیوں نے مصر کے اتنے وسیع علاقے کو اپنے اثر میں لے لیا تھا اور یہ اثر شدید جوابی کارروائی کے بغیر ختم نہیں ہوگا۔ اس پر انکشاف بھ
: قی الدین نے قاہرہ جاکر پہلا کام یہ کیا کہ جراح اور شارجا کی خواہش کے مطابق انہیں شادی کی اجازت دے دی اور دوسرا کام یہ کیا کہ اس نے فوج کی مرکزی کمان کو حکم دیا کہ سوڈان پر حملے کی تیاری کی جائے۔ اس نے کھنڈروں کی مہم میں دیکھ لیا تھا کہ پڑوسی سوڈانیوں نے مصر کے اتنے وسیع علاقے کو اپنے اثر میں لے لیا تھا اور یہ اثر شدید جوابی کارروائی کے بغیر ختم نہیں ہوگا۔ اس پر انکشاف بھی ہوا تھا کہ سوڈانی صلیبیوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں اور وہ باقاعدہ حملے کی تیاری بھی کررہے ہیں۔ لہٰذا ضروری سمجھا گیا کہ سوڈان پر حملہ کیا جائے۔ اس سے اگر سوڈان کا کچھ علاقہ قبضے میں آئے یا نہ آئے، اتنا فائدہ ضرور ہوگا کہ دشمن کی تیاریاں درہم برہم ہوجائیں گی اور ان کا منصوبہ لمبے عرصے لیے تباہ ہوجائے گا۔ تقی الدین کو سلطان ایوبی کی پشت پناہی حاصل تھی.....
جاری ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں