داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 35 - اردو ناول

Breaking

منگل, اپریل 30, 2019

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 35

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر.35۔" کھنڈروں کی آواز "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لیکن معلوم ہوتا ہے کہ تم خود اس کے جال میں پھنس گئی ہو۔''شارجا نے اسے دھتکار دیا۔ اسے چونکہ توقع نہیں تھی کہ وہ لوگ اتنی دلیری کا مظاہرہ کرسکیں گے۔ اس لیے اس نے جراح کے ساتھ بھی ذکر نہ کیا کہ اس کے زخمی بھائی کے اغواء کا خطرہ ہے۔ اسی رات شارجا اور جراح ان چاروں کے چنگل میں آگئے۔ انہیں جب گھوڑوں پر سوار کرانے کے لیے اٹھالے گئے تو اس نے دیکھا کہ ایک گھوڑے پر اس کا زخمی بھائی بیٹھا تھا۔ اس وقت وہ کچھ خوش ہوئی کہ اس کا بھائی آزاد ہوگیا ہے۔ وہ فرار پر آمادہ ہوگئی لیکن جراح کو ان لوگوں کی قید میں نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ اس نے انہیں کہا بھی کہ اسے چھوڑ دو لیکن وہ نہ مانے۔ اس کے ہاتھ اور پائوں باندھ کر گھوڑے پر ڈال لیا۔ راستے میں شارجا کو بتایا گیا کہ اس کے بھائی کو کس طرح اغواء کیا گیا ہے۔ وہاں صرف دو آدمی گئے تھے۔ ایک نے سنتری سے کہیں کا راستہ پوچھنے کے بہانے اسے باتوں میں لگا لیا دوسرے نے پیچھے سے اس کی گردن جکڑ

لی اور دونوں اسے اٹھا کر اندر لے گئے۔ زخمی انہیں دیکھ کر اٹھ بیٹھا، اس کے بستر پر سنتری کو لٹا دیا گیا اور اس کے دل پر خنجر کے دو گہرے وار کرکے اسے ختم کردیا گیا پھر اس پر کمبل ڈال دیا گیا۔ دونوں نے زخمی قیدی کو اٹھایا اور نکل گئے۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ شارجا جراح کے گھر میں ہے۔ انہیں ڈر تھا کہ وہ نہیں مانے گی اور اغواء ناکام بنا دے گی لیکن اسے بھی وہاں سے غائب کرنا ضروری تھا کیونکہ اس کے پاس بھی ایک راز تھا۔ دو آدمی گھات میں بیٹھے تھے جونہی جراح اور شارجا تنگ اور تاریک گلی میں آئے تو انہیں جکڑ لیا گیا اور اغواء کامیاب ہوگیا۔

٭ ٭ ٭
علی بن سفیان جیسا گھاگھ سراغ رساں کوئی اور تجربہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے جراح اور شارجا کے بیانوں پر فوری اعتبار نہ کیا۔ یہ بھی سازش کی ایک کڑی ہوسکتی تھی۔ اس نے دونوں کو الگ کردیا اور ان سے اپنے انداز سے پوچھ گچھ کی۔ جراح دانشمند آدمی تھا، اس نے علی بن سفیان کو قائل کرلیا کہ اس نے جو بیان دیا ہے وہ لفظ بہ لفظ درست ہے۔ اس نے کہا کہ ایک تو جذباتی پہلو تھا، اس لڑکی کی شکل وصورت اس کی مری ہوئی بہن سے ملتی جلتی تھی، اس لیے وہ اسے اچھی لگی اور وہ اسے اپنے گھر بھی لے جاتا اور زخمی کے مکان میں بھی اس کے ساتھ زیادہ وقت بیٹھا رہتا تھا۔ جراح نے بتایا کہ اس کے اس سلوک سے لڑکی اتنی متاثر ہوئی کہ اس نے اپنے کچھ شکوک اس کے سامنے رکھ دئیے۔ یہ اس لڑکی کا دوسرا پہلو تھا جس پر جراح نے زیادہ توجہ دی۔ لڑکی مسلمان تھی لیکن معلوم ہوتا تھا کہ اس پر بڑے ہی خطرناک اثرات جو باہر سے آئے تھے، کام کررہے تھے۔ جراح نے اس کے ذہن سے یہ اثرات صاف کردئیے۔ لڑکی چونکہ پسماندہ ذہن کی تھی، صحرا کے دوردراز گوشے کی رہنے والی تھی اس لیے اس کے ذہن میں جو کچھ ڈالا گیا وہ اسی کو صحیح سمجھتی تھی۔ اس کی باتوں سے یہ انکشاف ہوا کہ اس علاقے میں اسلام کے منافی اثرات اور صلاح الدین ایوبی کے خلاف تخریب کاری زورشور سے اور بلا روک ٹوک جاری ہے۔

شارجا سے علی بن سفیان نے کوئی بیان نہیں لیا، اس پر سوال کرتا رہا اور اس کے جوابوں سے ایک بیان مرتب ہوگیا۔ اس نے فرعونوں کے اس کھنڈر کے متعلق وہی انکشاف کیا جو بیان کیا جاچکا تھا۔ وہ بھی اس کھنڈر کے اس پراسرار آدمی کی معتقد تھی جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ گناہ گاروں کو نظر نہیں آتا اور اس کی صرف آواز سنائی دیتی ہے۔ شارجا نے بتایا کہ اس کا بھائی فوج میں تھا اور وہ گھر میں اکیلی رہتی تھی۔ اسے گائوں کے کچھ لوگوں نے کہا تھا کہ وہ اس کھنڈر میں چلی جائے کیونکہ وہ مقدس انسان خوبصورت کنواریوں کو بہت پسند کرتا ہے۔ شارجا پر علی بن سفیان کی ماہرانہ جرح سے لڑکی کے سینے سے یہ راز بھی نکل آیا کہ اس کے گائوں کی تین کنواری لڑکیاں اس کھنڈر میں چلی گئیں تھیں پھر واپس نہیں آئیں۔ ) ایک بار اس کا بھائی گائوں آیا تھا، شارجا نے اس سے پوچھا کہ وہ کھنڈر چلی جائے؟ بھائی نے اسے منع کردیا تھا۔ شارجا اچھی طرح بیان تو نہ کرسکی لیکن یہ پتا چل گیا کہ مصر کے جنوب مغربی علاقے میں کیا ہورہا ہے۔ جراح کے متعلق لڑکی نے بتایا کہ اسے اگر گائوں میں لے جاتے اور قید میں ڈ ال دیتے تو وہاں سے بھی وہ اسے اپنی جان کی بازی لگا کر آزاد کرادیتی۔ اس کا جب بھائی مر گیا تو اس نے گائوں تک جانے کا ارادہ ترک کردیا اور تہیہ کرلیا کہ وہ جراح کو یہیں سے آزاد کرائے گی۔ ان چاروں مجرموں کو وہ اپنا ہمدرد سمجھا کرتی تھی لیکن جراح نے اسے بتایا تھا کہ یہ اللہ کے بہت
 اللہ کے بہت بڑے مجرم ہیں۔ ان کے متعلق اسے یہ بھی پتا چل گیا تھا کہ انہیں اس کے بھائی کیساتھ ہمدردی نہیں بلکہ اس راز سے دلچسپی تھی جو اس کے پاس تھا۔ اسی لیے انہوں نے اسے مار دیا۔

علی بن سفیان نے اس سے پوچھا کہ وہ اب کیا کرنا چاہتی ہے اور اپنے متعلق اس نے کیا سوچا ہے۔ اس نے

جواب دیا کہ وہ ساری عمر جراح کے قدموں میں گزار دے گی اور اگر جراح اسے آگ میں کود جانے کو کہے گا تو وہ کود جائے گی۔ اس نے اس پر رضامندی کا اظہار کیا کہ وہ کھنڈر تک جانے والوں کی رہنمائی کرے گی اور اپنے علاقے کے ہر اس فرد کو پکڑوائے گی جو مصر کی حکومت کے خلاف کام کررہا ہے۔

علی بن سفیان کے مشورے پر فوج اور انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کا اجلاس بلایا گیا اور صورت حال تقی الدین کے سامنے رکھی گئی۔ سب کا یہ خیال تھا کہ تقی الدین مصر میں نیا نیا آیا ہے اور اتنی بڑی ذمہ داری بھی اس کے سر پر پہلی بار پڑی ہے، اس لیے وہ محتاط فیصلے کرے گا اور شاید کوئی خطرہ مول نہ لینا چاہے۔ اجلاس میں بیشتر حکام نے اس پر اتفاق کیا کہ چونکہ اتنے وسیع علاقے کی اتنی زیادہ آبادی گمراہ کردی گئی ہے، اس لیے اس آبادی کے خلاف کارروائی نہ کی جائے۔ مسئلہ یہ تھا کہ کھنڈرات کے اندر کے جو حالات معلوم ہوئے تھے ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہاں سے ایک نیا عقیدہ نکلا ہے جسے لوگوں نے قبول کرلیا ہے۔ لہٰذا یہ لوگ اپنے معبد اورعقیدے پر فوجی حملہ برداشت نہیں کریں گے۔ اس کا حل یہ پیش کیا گیا کہ اس علاقے میں اپنے معلم، عالم اور دانشور بھیجے جائیں جو لوگوں کو راہ راست پر لائیں۔ ان کے جذبات کو مجروح نہ کیا جائے… اجلاس میں ایک مشورہ یہ بھی پیش کیا گیا کہ سلطان ایوبی کو صورت حال سے آگاہ کیا جائے اور ان سے حکم لے کر کارروائی کی جائے۔

''اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ انسانوں سے ڈرتے ہیں''… تقی الدین نے کہا… ''اور آپ کے دل میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ڈر نہیں جن کے سچے مذہب کی وہاں توہین ہورہی ہے۔ امیر مصر اورسالار اعلیٰ کو خبر تک نہیں دی جائے گی کہ مصر میں کیا ہورہا ہے۔ کیا آپ اس سے بے خبر ہیں کہ وہ میدان جنگ میں کتنے طاقتور دشمن کے مقابلے میں سینہ سپر ہیں؟ کیا آپ صلاح الدین ایوب کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ہم سب دوچار ہزار گناہ گاروں اور دشمنان دین سے ڈرتے ہیں؟ میں براہ راست کارروائی کا اور بڑی ہی سخت کارروائی کا قائل ہوں''۔

''گستاخی معاف امیر محترم!''… ایک نائب سالار نے کہا…'' صلیبی ہم پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا ہے۔ ہم اس الزام کی تردید عملی طور پر کرنا چاہتے ہیں۔ ہم پیار اور خلوص کا پیغام لے کر جائیں گے''۔

''تو پھر اپنی کمر کے ساتھ تلوار کیوں لٹکائے پھرتے ہو
: تقی الدین نے طنزیہ لہجے میں کہا… ''فوج پر اتنا خرچ کیوں کررہے ہو؟ کیا اس سے یہ بہتر نہیں کہ ہم فوج کو چھٹی دے دیں اور ہتھیار دریائے نیل میں پھینک کر مبلغوں کا ایک گروہ بنا لیں اور درویشوں کی طرح گائوں گائوں، قریہ قریہ دھکے کھاتے پھریں؟'' … تقی الدین نے جذباتی لہجے میں کہا۔ ''اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کے خلاف صلیب کی تلوار نکلے گی تو اسلام کی شمشیر نیام میں نہیں پڑی رہے گی اور جب شمشیر اسلام نیام سے نکلے گی تو ہر اس سر کو تن سے جدا کرے گی جو کلمہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے جھکنے سے انکار کرتا ہے، وہ ہر اس زبان کو کاٹے گی جو کلمہ حق کو جھٹلاتی ہے۔ صلیبی اگر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ہم نے اسلام تلوار کے زور پر پھیلایا ہے تو میں ان سے معافی مانگنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ سلطنت اسلامیہ کیوں سکڑتی چلی آرہی ہے؟ خود مسلمان کیوں اسلام کے دشمن ہوئے جارہے ہیں؟ صرف اس لیے کہ صلیبیوں نے عورت اور شراب سے، زروجواہرات اور ہوس اقتدار سے اسلام کی تلوار کو زنگ آلود کردیا ہے۔ وہ ہم پر جنگ پسندی اور تشدد کا الزام عائد کرکے ہماری عسکریت روایات کو ختم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے خلاف لڑ نہیں سکتے۔ ان کے بری لشکر اور بحری بیڑے ناکام ہوگئے ہیں۔ وہ ہمارے درمیان تخریب کاری کررہے ہیں، اللہ کے سچے دین کی جڑیں کاٹ رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ ان کے خلاف تلوار نہ اٹھائو۔

''غور سے سنو میرے دوستو! صلیبی اور آپ کے دوسرے دشمن آپ کو محبت کا جھانسہ دے کر آپ کے ہاتھ سے تلوار لینا چاہتے ہیں۔ وہ آپ کی پیٹھ پر وار کرنا چاہتے ہیں، ان کا یہ اصول محض ایک فریب ہے کہ کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا گال آگے کردو۔ کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جسے یہ معلوم نہیں کہ کرک میں وہ مسلمان آبادی کا کیا حشر کررہے ہیں؟ کیا آپ نے شوبک فتح کرکے وہاں مسلمانوں کا بیگار کیمپ نہیں دیکھا تھا؟ وہاں مسلمان عورتوں کی جو انہوں نے عصمت دری کی، وہ نہیں سنی تھیں؟ مقبوضہ فلسطین میں مسلمان خوف اور ہراس کی، بے آبر وئی اور مظلومیت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ صلیبی مسلمانوں کے قافلے لوٹتے اور عورتوں کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ اسلام کے نام پر تلوار اٹھانا جرم ہے۔ اگر یہ جرم ہے تو میں اس جرم سے شرمسار نہیں۔ صلیبیوں کی تلوار نہتوں کو کاٹ رہی ہے، صرف اس لیے کہ وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام لیوا ہیں۔ صلیب اور بتوں کے پجاری نہیں… تمہاری تلوار صرف وہاں ہاتھ سے گر پڑنی چاہیے، جہاں سامنے نہتے ہوں اور ان تک خدا کا پیغام نہ پہنچا ہو۔ ہمیں اس اصول کا قائل نہیں ہونا چاہیے کہ لوگوں کے جذبات پر حملہ نہ کرو۔ میں نے دیکھا ہے کہ عرب میں چھوٹے چھوٹے مسلمان حکمران اور نااہل امراء لوگوں کو خوش کرنے کے لیے بڑے دلکش اور دلوں کو موہ لینے والے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ان کے غلط جذبات اور احساسات کو اور زیادہ بھڑکا کر انہیں خوش رکھتے ہیں تاکہ لوگ انہیں عیش وعشرت سے اور غیر اسلامی طرز زندگی سے روک نہ سکیں۔ ان امراء کا طریق کار یہ ہے کہ انہوں نے خوشامدیوں کا ایک گروہ پیدا کرلیا ہے جو ان کی ہر آواز پر لبیک کہتا ہے اور رعایا میں گھوم پھر کر ثابت کرتا رہتا ہے کہ ان کے امیر نے جو بات کہی ہے وہ خدا کی آواز ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ کے بندے، بدکار اور عیاش انسانوں کے غلام ہوتے چلے جارہے ہیں۔ قوم حاکم اور محرم میں تقسیم ہوتی چلی جارہی ہے''۔
: ''ہم دیکھ رہے ہیں کہ دشمن ہماری جڑیں کاٹ رہا ہے اور ہماری قوم کے ایک حصے کو کفر کی تاریکیوں میں لے جارہا ہے اگر ہم نے سخت رویہ اختیار نہ کیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم کفر کی تائید کررہے ہیں۔ میرے بھائی صلاح الدین ایوبی نے مجھے کہا تھا کہ غداری ہماری روایت بنتی جارہی ہے لیکن میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ یہ بھی روایت بنتی جارہی ہے کہ ایک ٹولہ حکومت کیا کرے گا اور قوم محکوم ہوگی۔ حکمران ٹولہ قوم کا خزانہ شراب میں بہائے گا اور قوم پانی کے گھونٹ کو بھی ترسے گی۔ میرے بھائی نے ٹھیک کہا تھا کہ ہمیں قوم اور مذہب کے مستقبل پر نظر رکھنی ہے۔ ہمیں قوم میں وقار اور کردار کی بلندی پیدا کرنی ہے۔ آنے والی نسلیں ہماری قبروں سے جواب مانگیں گی۔ اس مقصد کے لیے ہمیں ایسی کارروائی سے گریز نہیں کرنا چاہیے جو ملک اور مذہب کے لیے سود مند ہو اگر یہ برحق اقدام قوم کے چند ایک افراد کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے تو ہمیں اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ ہم قوم کا مفاد اور وقار چند ایک افراد کی خوشنودی پر قربان نہیں کرسکتے۔ ہم ملک کے ایک اتنے بڑے حصے کو صرف اس لیے دشمن کی تخریب کاری کے سپرد نہیں کرسکتے کہ وہاں کے لوگوں کے جذبات مجروح ہوں گے۔ تم دیکھ رہے ہو کہ وہاں کے لوگ سیدھے سادے اور بے علم ہیں۔ انہیں اپنے وہ مسلمان بھائی جو قبیلوں کے سردار ہیں اور مذہب کے اجارہ دار ہیں، دشمن کا آلۂ کار بن کر گمراہ رہے ہیں''۔

اجلاس میں کسی کو توقع نہیں تھی کہ تقی الدین کا ردعمل اتنا شدید اور فیصلہ اتنا سخت ہوگا۔ اس نے جو دلائل پیش کیے، ان کے خلاف کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ کوئی مشور ہی پیش کرتا۔ اس نے کہا …''مصر میں جو فوج ہے، یہ محاذ سے آئی ہے اور اس سے پہلے بھی لڑ چکی ہے۔ اس فوج کے صرف پانچ سو گھوڑ سوار، دو سو شتر سوار ارو پانچ سو پیادہ آج شام اس علاقے کی طرف روانہ کردو جہاں وہ مشکوک کھنڈرات ہیں۔ یہ فوج اس علاقے سے اتنی دور رہے گی کہ ضرورت پڑے تو فوری طور پر محاصرہ کرسکے۔ میرے ساتھ دمشق سے جو دو سوار آئے ہیں، وہ علاقے کے اندر جاکر کھنڈروں پر حملہ کریں گے۔ ایک چھاپہ مار دستہ کھنڈروں کے اندر جائے گا، دوسو سوار کھنڈروں کو محاصرے میں رکھیں گے۔ اگر باہر سے حملہ ہوا یا مزاحمت ہوئی تو فوج کا بڑا حصہ مقابلہ کرے گا اور محاصرہ تنگ کرتا جائے گا۔ اس کارروائی میں فوج کو سختی سے حکم دیا جائے کہ کسی نہتے کو نہیں چھیڑا جائے گا''۔

اس فیصلے کے فوراً بعد فوجی حکام کوچ، حملے اور محاصرے وغیرہ کا منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہوگئے۔

٭ ٭ ٭
: سلطان ایوبی مصر کی تازہ صورت حال سے بے خبر کرک اور شوبک قلعوں کے درمیان میل ہا میل وسیع صحرا میں جہاں ریتلی چٹانوں، ٹیلوں اور گھاٹیوں کے علاقے بھی تھے اور جہاں کسی کسی جگہ پانی اور سائے کی بھی افراط تھی، صلیبیوں کے نئے جنگی منصوبے کے مطابق اپنی افواج کی صف بندی کررہا تھا۔ جاسوسوں نے اسے بتایا تھا کہ صلیبی دگنی طاقت سے جو زیادہ تر زرہ پوش اور بکتر بند ہوگی۔ قلعے سے باہر آکر حملہ کریں گے۔ یہ فوج سلطان ایوبی کی فوج کو آمنے سامنے کی جنگ میں الجھالے گی اور دوسری فوج عقب سے حملے کرے گی۔ سلطان ایوبی نے اپنی فوج کو دور دور تک پھیلا دیا۔ سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جہاں جہاں پانی اور سبزہ تھا، وہاں فوراً قبضہ کرلیا۔ ان جگہوں کے دفاع کے لیے اس نے بڑے سائز کی کمانوں والے تیر انداز بھیج دیئے۔ ان کے تیر بہت دور تک جاتے تھے۔ وہاں منجنیقیں بھی رکھیں جو آگ کی ہانڈیاں پھینکتی تھیں۔ یہ اہتمام اس لیے کیا گیا تھا کہ دشمن قریب نہ آسکے۔ بلندیوں پر بھی قبضہ کرلیا گیا۔ سلطان ایوبی نے تمام دستوں کو حکم دیا کہ دشمن سامنے سے حملہ کرے تو وہ اور زیادہ پھیل جائیں تاکہ دشمن بھی پھیلنے پر مجبور ہوجائے۔ اس نے اپنی فوج کو ایسی ترتیب میں کردیا کہ دشمن یہ فیصلہ ہی نہیں کرسکتا تھا کہ مسلمان فوج کے پہلو کدھر اور عقب کس طرف ہے۔
جاری ھے ،


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں