صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر.34۔" کھنڈروں کی آواز "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وہ چلے گئے۔ بہن نے علی بن سفیان کے قدموں میں بیٹھ کر اس کے پائوں پکڑ لیے اور رو رو کر منت کی کہ اسے بھائی کی خدمت کے لیے وہیں رہنے دیا جائے۔ علی بن سفیان ایک بہن کی ایسی جذباتی التجا کو ٹھکرا نہ سکا۔ اس نے لڑکی کی جامہ تلاشی کی اور اسے وہیں رہنے کی اجازت دے دی اور وہاں سے چلا گیا۔
بہن بھائی اکیلے رہ گئے تو بہن نے بھائی سے پوچھا کہ اس نے کیا کیا ہے؟ بھائی نے بتا دیا۔ بہن نے پوچھا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟ بھائی نے جواب دیا… ''امیر مصر پر قاتلانہ حملے کا جرم بخشا تو نہیں جائے گا اگر ان لوگوں نے مجھ پر رحم کیا تو سزائے موت نہیں دیں گے، ساری عمر کے لیے تہہ خانے کی قید میں ڈال دیں گے''۔
''پھر میں ساری عمر تمہیں نہیں دیکھ سکوں گی؟'' بہن نے پوچھا۔
''نہیں شارجا''… بھائی نے رندھیائی ہوئی آواز میں کہا… ''پھر میں مر بھی نہیں سکوں گا۔ جی بھی نہیں سکوں گا، وہ جگہ بڑی خوفناک ہے، جہاں ہمیشہ کے لیے قید کردیں گے''۔
بہن جس کا نام شارجا تھا، بچوں کی طرح بلبلا اٹھی۔ اس نے کہا …''میں نے تمہیں اس وقت بھی روکا تھا کہ ان لوگوں کے چکر میں نہ پڑو مگر تم نے کہا کہ صلاح الدین ایوبی کا قتل جائز ہے، تم لالچ میں آگئے تھے، تم نے میری بھی پروا نہ کی، میرا کیا بنے گا؟ تم نہ ہوئے تو میرا آسر ا کون ہوگا؟''۔
زخمی بھائی کا ذہن تقسیم ہوگیا تھا، کبھی وہ پچھتاوے کی باتیں کرتا اور کہتا کہ وہ ان لوگوں کے جھانسے میں آگیا تھا، اس نے یہ بھی کہا… ''صلاح الدین ایوبی انسان نہیں، خدا کا بھیجا ہوا فرشتہ ہے۔ ہم چار ہٹے کٹے جوان مل کر اتنا بھی نہ کرسکے کہ اس کے جسم پر خنجر کی نوک سے خراش ہی ڈال دیتے۔ اس پر زہر نے بھی اثر نہیں کیا۔ اس اکیلے نے تین کو جان سے مار دیا اور مجھے موت کے منہ میں ڈال دیا''۔
''یہ کہنے والے جھوٹ تو نہیں کہتے تھے کہ صلاح الدین ایوبی کا ایمان اتنا مضبوط ہے کہ اسے کوئی گناہ گار قتل نہیں کرسکتا''۔ بہن نے کہا… ''تم چاروں مسلمان تھے، اتنا بھی نہ سوچا کہ وہ بھی مسلمان ہے؟''۔
''اس نے خدا کے خلیفہ کی گدی کی توہین کی ہے''۔ زخمی بھائی کا دماغ الٹی طرف چل پڑا، اس نے جوشیلے لہجے میں کہا… ''تم نہیں جانتی کہ خلیفہ العاضد خدا کے بھیجے ہوئے خلیفہ تھے''۔
''جو کوئی جوکچھ بھی تھا'' … بہن نے کہا… ''میں یہ جانتی ہوں کہ تم میرے بھائی ہو اور مجھ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہورہے ہو۔ کیا تمہارے بچنے کی کوئی صورت پیدا ہوسکتی ہے؟''
''شاید پیدا ہوجائے''۔ بھائی نے جواب دیا… ''میں نے اس شرط پر انہیں سارے راز بتا دیئے ہیں کہ میرا گناہ بخش دیںمگر میرا گناہ اتنا سنگین ہے جو شاید نہ بخشا جائے''۔
اس وقت زخمی کو سوجانا چاہیے تھا اور اسے اتنا زیادہ بولنا نہیں چاہیے تھا کیونکہ پیٹ کے زخم کھل جانے کا ڈر تھا مگر وہ بولتا جارہا تھا اور بہن رو رہی تھی۔ بولتے بولتے اسے پیٹ کے زخم میں ٹیسیں محسوس ہونے لگیں اور وہ بے حال ہوگیا اس نے بہن سے کہا … ''شارجا باہر جائو، کوئی آدمی ملے تو اسے کہو کہ طبیب یا جراح کو بلا دے۔ میں مر رہا ہوں''۔ شارجا دوڑتی باہر گئی، باہر سنتر کھڑا تھا۔ اس نے اسے بھائی کی حالت بتائی تو اس نے شارجا کو اس جراح کے گھر کا راستہ بتا دیا جسے زخمی کی دیکھ بھال کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ اسے سختی سے حکم دیا گیا تھا کہ دن ہو یا رات، زخمی کو زندہ رکھنے کی پوری کوشش کرے۔ وہ شاہی جراح تھا۔
شارجا دوڑتی گئی، جراح کا گھر بالکل قریب تھا۔ شارجا نے جراح کو بھائی کی حالت بتائی تو وہ بھاگم بھاگ آیا اور زخمی کو دیکھا۔ اس کے پیٹ کی پٹی خون سے لال ہوگئی تھی۔ جراح نے فوراً پٹی کھولی۔ خون بند کرنے کے لیے اس میں سفوف ڈالے اور بہت سا وقت صرف کرکے پٹی باندھی، خون بند ہوگیا۔ اس نے زخمی کو دوائی پلا دی جس کے اثر سے اسے نیند آگئی اور وہ سوگیا۔ شارجا اس جواں سال جراح کو حیرت اور دلچسپی سے دیکھتی رہی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ اتنی رات گئے کوئی اس کے مجرم بھائی کو دیکھنے آجائے گا لیکن جراح دوڑتا آیا اور اس نے اتنے انہماک سے زخمی کی مرہم پٹی کی کہ شارجا کو حیران کردیا۔ زخمی کی آنکھ لگ گئی تو جراح نے آنکھیں بند کرکے اور ہاتھ اوپر اٹھا کر سرگوشی کی… ''زندگی اور موت تیرے ہاتھ میں ہے، میرے خدا! اس بدنصیب کے حال پر کرم کرو، اسے زندگی عطا کرو، خدائے عزوجل
: شارجا کے آنسو نکل آئے، اس پر جراح کا تقدس طاری ہوگیا۔ اس نے جراح کے قریب دو زانو ہوکر اس کا ایک ہاتھ پکڑا اور چوم لیا۔ جراح کے پوچھنے پر شارجا نے بتایا کہ وہ زخمی کی بہن ہے۔ اس نے جراح سے پوچھا… ''کیا آپ کے دل میں اتنا زیادہ رحم ہے کہ میرے بھائی کو آپ تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے یا اسے اس لیے زندہ رکھنا چاہتے ہیں کہ یہ آپ کو راز کی ساری باتیں بتا دے؟''
''مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ اس کے پاس کوئی راز ہے یا نہیں''۔ جراح نے کہا… ''میرا فرض ہے کہ اسے زندہ رکھوں اور اس کے زخم بالکل ٹھیک کردوں۔ میری نگاہ میں مومن اور مجرم میں کوئی فرق نہیں''۔
''آپ کو شاید معلوم نہیں کہ اس کا جرم کیا ہے''۔ شارجا نے کہا… ''اگر معلوم ہوتا تو آپ اس کے زخم پر مرہم رکھنے کے بجائے اس میں نمک بھر دیتے''۔
''مجھے معلوم ہے''۔ جراح نے جواب دیا… ''لیکن میں اسے زندہ رکھنے کی پوری کوشش کروں گا''۔
شارجا اتنی متاثر ہوئی کہ اس نے جراح کے ساتھ اپنی باتیں شروع کردیں۔ اسے بتایا کہ اس کے ماں باپ بچپن میں مرگئے تھے۔ اس وقت اس کا بھائی دس گیارہ سال کا تھا۔ اس نے شارجا کو پالا پوسا اور جوان کیا اگر اس کا بھائی نہ ہوتا تو کوئی نہ کوئی اسے اغوا کرکے لے جاتا۔ بھائی نے زندگی بہن کے لیے وقف کردی تھی۔ جراح انہماک سے اس کی باتیں سنتا رہا اور اسے اس خیال سے باہر صحن میں لے گیا کہ زخمی کی آنکھ نہ کھل جائے۔ جراح ایسے انداز سے شارجا کی باتیں سن رہا تھا جیسے وہ رات یہیں گزارے گا مگر وہ جانے لگاتو شارجا نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا… ''آپ چلے جائیں گے تو مجھے ڈر آئے گا''… جراح نے اسے بتایا کہ وہ اسے اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتا اور اس کے ساتھ بھی نہیں رہ سکتا۔ جراح گھر میں اکیلا رہتا تھا۔ وہ شارجا کی خاطر کچھ دیر اور رک گیا اور رات کے پچھلے پہر گیا… دوسرے دن کا سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا کہ وہ زخمی کو دیکھنے آگیا۔ اس نے رات والے انہماک سے اس کی مہم پٹی کی۔ زخمی کو دودھ پلایا اور ایسا کھانا دیا جو شارجا نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔
اس دوران علی بن سفیان آیا،زخمی کی حالت دیکھ کر چلا گیا لیکن جراح نہ گیا۔ وہ شارجا کے ساتھ باتیں کرتا اور
اس کی باتیں سنتا رہا۔ اس روز شام تک وہ تین بار زخمی کو دیکھنے آیا۔ حالانکہ وہ صرف دوپہر کو آیا کرتا تھا۔ شام کو وہ چلا گیا تو زخمی نے اپنی بہن سے کہا… ''شارجا! میری ایک بات غور سے سن لو، میری زندگی اس جراح کے ہاتھ میں ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں دیکھ کر یہ میرا علاج پہلے سے زیادہ اچھے طریقے سے کرنے لگا ہے۔ میں موت قبول کرلوں گا مگر اسے اتنی زیادہ قیمت نہیں دوں گا جو اس نے دل میں رکھ لی ہے… مجھے شک نہیں یقین ہے کہ یہ مجھے زندہ رکھنے کے لیے تمہاری عزت کا نذرانہ لینا چاہتا ہے''۔
''میں تو اسے فرشتہ سمجھتی ہوں''۔ شارجا نے کہا… ''اس نے ابھی تک کوئی ایسا اشارہ بھی نہیں کیا اور میں بچی بھی تو نہیں لیکن میں اسے ایسا سمجھتی نہیں''۔
شارجا کا اندازہ ایسا تھا جس نے بھائی کو شک میں ڈال دیا کہ وہ جراح میں دلچسپی لیتی ہے۔
: اس رات جراح آیا، زخمی سوگیا تھا، شارجا جاگ رہی تھی۔ وہ جراح کے ساتھ صحن میں چلی گئی۔ کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں، جراح نے اسے کہا کہ اس کا بھائی دوائی کے اثر سے اتنی گہری نیند سو گیا ہے کہ صبح تک اس کی آنکھ شاید نہیں کھلے گی۔ آئو میرے گھر چلو… شارجا کچھ جھجکی لیکن جراح کی پیشکش ٹھکرانہ سکی۔ اس کے ساتھ چلی گئی۔ یہ خوبرو، جواں سال اور حلیم طبع جراح اکیلا رہتا تھا۔ شارجا بالغ دماغ لڑکی تھی۔ اسے توقع تھی کہ آج رات یہ آدمی اس کے سامنے بے نقاب ہوجائے گا مگر ایسا نہ ہوا۔ وہ اس کے ساتھ ہمدرد دوستوں کی طرح باتی کرتا رہا۔ لڑکی کو اس کے اتنے مشفقانہ سلوک نے پریشان کردیا۔ اس نے بے اختیار اس سے پوچھا… ''میں صحرا کے دور دراز علاقے کی غریب سی لڑکی ہوں اور ایک ایسے مجرم کی بہن ہوں جس نے مصر کے بادشاہ پر قاتلانہ حملہ کیا ہے۔ اس کے باوجود آپ میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کررہے ہیں جس کی میں حق دار نہیں ہوں''… جراح نے مسکراہٹ کے سوا کوئی جواب نہ دیا۔ لڑکی نے صاف کہہ دیا… ''مجھ میں اس خوبی کے سوا اور کچھ بھی نہیں کہ میں جوان لڑکی ہوں اور شاید میری شکل وصو رت بھی اچھی ہے''۔
''تم میں ایک خوبی اور بھی ہے جس کا تمہیں علم نہیں''۔ جراح نے کہا… ''تمہاری عمر اور تمہاری ہی شکل وصورت کی میری ایک بہن تھی جس طرح تم بہن بھائی اکیلے ہو، اسی طرح میں اور میری بہن اکیلے رہ گئے تھے۔ میں نے تمہارے بھائی کی طرح اپنی بہن کو پالا پوسا اور اپنی زندگی اور ساری خوشیاں اس کے لیے وقف کردی تھیں۔ وہ بیمار ہوئی اور میرے ہاتھوں میں مرگئی۔ میں اکیلا رہ گیا۔ تمہیں دیکھا تو شک ہوا کہ جیسے میری بہن مجھے مل گئی ہے اگر تم اپنے آپ کو جوان اور خوبصورت لڑکی سمجھتی ہو اور میری نیت پر شک ہے تو اس کا یہی علاج ہے کہ میں تم میں ایسی دلچسپی کا اظہار نہیں کروں گا جو اب تک کیا ہے۔ تمہارے بھائی میں پوری دلچسپی لیتا رہوں گا، اسے ٹھیک کرنا میرا فرض ہے''۔
شارجا رات دیر سے وہاں سے واپس آئی، جراح اس کے ساتھ تھا۔ لڑکی کے شکوک رفع ہوچکے تھے۔ دوسرے دن جراح زخمی کو دیکھنے آیا۔ اس نے شارجا کے ساتھ کوئی بات نہ کی۔ وہ جانے لگا تو شارجا نے باہر جاکر اسے روک لیا، وہ رو رہی تھی۔ اسے ڈر تھا کہ جراح اس سے ناراض ہوکر چلا گیا ہے۔ جراح نے اسے بتایا کہ وہ ناراض نہیں لیکن وہ اسے کسی اور شک میں نہیں ڈالنا چاہتا… رات کو جب زخمی سو گیا تو شارجا وہاں سے نکل گئی اور جراح کے گھر چلی گئی۔یہ اس کی بیتابی تھی جس پر وہ قابو نہ پاسکی۔ بہت دیر تک جراح کے پاس رہی۔ اس کے ذہن میں کچھ گانٹھیں پڑی ہوئی تھیں جنہیں وہ کھولنا چاہتی تھی۔ اس نے جراح سے پوچھا… ''کیا خلیفہ خدا کے بھیجے ہوئے ہوتے ہیں؟''
''خلیفہ انسان ہوتا ہے''۔ جراح نے جواب دیا… ''خدا کے بھیجے ہوئے نبی اور پیغمبر تھے، یہ سلسلہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم ہوگیا ہے''۔
''صلاح الدین ایوبی خدا کا بھیجا ہوا ہے؟'' لڑکی نے پوچھا۔
''نہیں''۔ جراح نے جواب دیا… ''وہ بھی انسان ہے لیکن عام انسانوں سے اس کا رتبہ بلند ہے کیونکہ وہ خدا اور خدا کے بھیجے ہوئے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم پیغام کو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچانا چاہتا ہے''۔
ایسے اور بہت سے سوال تھے جو شارجا نے پوچھے اور جراح نے اس کے شکوک رفع کیے، اس نے کہ …''پھر میرا بھائی بہت بڑا گناہ گار ہے اگر اسے کوئی یہ باتیں بتا دیتا جو آپ نے مجھے بتائی ہیں تو وہ اس گناہ سے بچا رہتا۔ اب تو اس کی جاں بخشی نہیں ہوگی''۔
''ہوجائے گی'' جراح نے اسے بتایا… ''اگر صلاح الدین ایوبی نے کہہ دیا ہے کہ اسے زندہ رکھنے کی کوشش کرو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے سزا نہیں دی جائے گی۔ اسے چاہیے کہ گناہوں سے توبہ کرلے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اسے کوئی سزا نہیں دی جائے گ
''میں ساری عمر صلاح الدین ایوبی کی اور آپ کی خدمت میں گزار دوں گی''۔شارجا نے روتے ہوئے کہا… ''اور میرا بھائی آپ سب کا غلام رہے گا''… وہ جذباتی ہوگئی۔ اس نے جراح کے ہاتھ پکڑ کر کہا… ''آپ مجھ سے جو قیمت وصول کرنا چاہیں میں دوں گی۔ آپ مجھے اپنی لونڈی بنا لیں، اس کے عوض میرے بھائی کو ٹھیک کردیں اور اسے سزا سے بچالیں''۔
''قیمت اللہ سے وصول کی جاتی ہے''۔ جراح نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا… ''بھائی کے گناہ کی سزا بہن کو نہیں دی جائے گی اور بھائی کی صحت کی قیمت بہن سے وصول نہیں کی جائے گی۔ سب کا پاسبان اللہ ہے۔ اس کی ذات باری نے مجھے تمہاری عصمت کی پاسبانی اور تمہارے بھائی کی صحت کی ذمہ داری سونپی ہے۔ دعا کروکہ میں اس امانت میں خیانت نہ کروں۔ بہن کی دعا عرش کو بھی ہلا دیا کرتی ہے۔ دعا کرو… دعا کرو… اس خدا کی عظمت کو یاد رکھو جس کے خلاف تمہیں گمراہ کیا جارہا ہے''۔
جراح نے اس لڑکی پر طلسم طاری کردیا، ایک تو باتیں ہی ایسی تھیں جو جراح نے اسے بتائی تھیں۔ تاثر تو جراح کے سلوک نے پیدا کیا تھا۔ جراح کے متعلق تو اسے کچھ اور ہی شک ہوگیا تھا لیکن وہ کچھ اور نکلا۔ اسے جیسے احساس ہی نہیں تھا کہ ایسی تنہائی میں اور رات کے وقت اتنی حسین اور جوان لڑکی اس کے رحم وکرم پر ہے… رات آدھی گزر گئی تھی، جراح نے اسے کہا… ''اٹھو تمہیں وہاں تک چھوڑ آئوں اور تمہارے بھائی کو بھی دیکھ آئوں''۔
دونوں گھر سے نکلے اور آہستہ آہستہ چل پڑے۔ رات تاریک تھی، وہ دونوں مکان کے پچھواڑوں کے درمیان سے گزر رہے تھے۔ یہ چھوٹی سی ایک گلی تھی جس میں گزرتے ہی وہ مکان آجاتا تھا جہاں زخمی حشیش قید میں پڑا تھا اور اس کے دروازے پر سنتری کھڑا رہتا تھا وہ دونوں اس گلی میں داخل ہوئے ہی تھے کہ پیچھے سے دونوں کو مضبوط بازوئوں میں جکڑ لیا گیا۔ دونوں کے منہ کپڑوں میں بندھ گئے۔ ان کی آواز بھی نہ نکل سکی، جراح جسمانی لحاذ سے کمزور نہیں تھا مگر وہ بے خبری میں جکڑا گیا تھا۔ حملہ آور چار پانچ معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے دونوں کو اٹھا لیا اور تاریکی میں غائب ہوگئے۔ کچھ دور گھوڑے کھڑے تھے۔ جراح کے ہاتھ پائوں رسیوں سے باندھ دیئے گئے اور اسے گھوڑے پر ڈال کر ایک آدمی
گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ اسے کسی کی آواز سنائی دی جو شارجا سے مخاطب تھی… ''شور نہ کرنا شارجا! تمہارا کام ہوگیا ہے۔ گھوڑے پر سوار ہو جائو۔ یہ تمہارے لیے لائے ہیں''۔
شارجا کے منہ سے کپڑا اتار دیا گیا تھا، جراح کو اس کی آواز سنائی دی… ''اسے چھوڑ دو، اس کا کوئی قصور نہیں، یہ بہت اچھا آدمی ہے''۔
''اس کی تو ہمیں ضرورت ہے'' کسی نے کہا۔
''شارجا!''… کسی نے حکم کے لہجے میں کہا… 'خاموشی سے اپنے گھوڑے پر سوار ہوجائو''۔
''اوہ!'' شارجا کی آواز سنائی دی۔ ''یہ تم ہو؟''
''سوار ہوجائو'' کسی نے پھر حکم دیا۔ ''وقت ضائع نہ کرو''۔
اور گھوڑے سرپٹ دوڑ پڑے۔ ذرا سی دیر میں قاہرہ سے نکل گئے۔ شارجا نہایت اچھی سوار تھی۔
٭ ٭ ٭
صبح سنتری بدلنے کا وقت ہوا، نیا سنتری آیا تو رات والا سنتری وہاں نہیں تھا۔ اس نے اندر جاکے دیکھا تو وہاں زخمی سویا ہوا تھا۔ اس کے اوپر کمبل پڑا ہوا تھا، اس کا منہ بھی ڈھکا ہوا تھا۔ نیا سنتری باہر والے دروازے پر جاکر کھڑا ہوگیا۔ اسے معلوم تھا کہ ابھی جراح زخمی کو دیکھنے آئے گا اور علی بن سفیان بھی آئے گا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ زخمی کی بہن زخمی کے ساتھ رہتی ہے اور اس کے سوا اندر جانے کی کسی کو اجازت نہیں مگر بہن بھی اسے کہیں نظر نہیں آئی تھی۔ سورج طلوع ہوا تو علی بن سفیان آیا۔ اس نے سنتری سے پوچھا کہ جراح آچکا ہے یا زخمی کو دیکھ کر چلا گیا ہے؟ سنتری نے اسے بتایا کہ جراح نہیں آیا۔ پہلا سنتری یہاں نہیں تھا اور اندر زخمی کی بہن بھی نہیں ہے۔ علی بن سفیان یہ سوچ کر اندر گیا کہ زخمی کی تکلیف بڑھ گئی ہوگی اور اس کی بہن جراح کو بلانے چلی گئی ہوگی۔ علی بن سفیان کے لیے ہی نہیں، یہ زخمی سلطنت اسلامیہ کے لیے مصر جتنا قیمتی تھا۔ اس کے صحت یاب ہونے کا انتظار تھا اور ایک بڑی خطرناک سازش کے بے نقاب ہونے کی توقع : وہ تیزی سے اندر گیا، زخمی کے سر سے پائوں تک کمبل پڑا تھا۔ علی بن سفیان کو تازہ خون کی بو محسوس ہوئی۔ اس نے زخمی کے منہ سے کمبل ہٹایا تو یوں بدک کر پیچھے ہٹ گیا جیسے وہ زخمی نہیں اژدہا تھا۔ اس نے وہیں سے باہر کھڑے سنتری کو آواز دی۔ سنتری دوڑتا ہوا اندر گیا۔ علی بن سفیان نے اسے زخمی کا چہرہ دکھاتے ہوئے پوچھا… ''یہ رات والا سنتری تو نہیں؟''… نئے سنتری نے چہرہ دیکھ کر حیرت اور گھبراہٹ سے بوجھل آواز میں کہا… ''یہی تھا، یہ اس بستر میں کیوں سویا ہوا ہے حضور؟ … زخمی کہاں ہے؟''
''یہ سویا ہوا نہیں''۔ علی بن سفیان نے اسے کہا… ''مرا ہوا ہے''۔
اس نے کمبل اٹھا کر پرے پھینک دیا۔ بستر خون سے لال تھا۔ وہ زخمی حشیش نہیں بلکہ رات والے سنتری کی لاش تھی۔ علی بن سفیان نے دیکھا، لاش کے دل کے قریب خنجر کے دو زخم تھے۔ زخمی حشیش غائب تھا۔ علی بن سفیان نے کمرے میں، صحن میں اور باہر زمین کو غور سے دیکھا۔ کہیں خون کا قطرہ بھی نظر نہ آیا۔ ) اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ سنتری کو زندہ اٹھا کر اندر لایا گیا اور بستر پر لٹا کر اس کے دل میں خنجر مارے گئے۔ اسے تڑپنے نہیں دیا گیا ورنہ خون کے چھینٹے بکھرے ہوئے ہوتے۔ وہ مر گیا تو اس پر کمبل ڈال دیا گیا اور قاتل زخمی قیدی کو اٹھا کر لے گئے اور اس کی بہن کو بھی لے گئے۔ صاف ظاہر تھا کہ زخمی کی بہن نے زخمی کے فرار میں مدد دی ہے۔ وہ جوان اور حسین لڑکی تھی۔ اس نے سنتری کو پھانس لیا
ہوگا۔ اسے اندر لے گئی ہوگی، لڑکی کے ساتھیوں نے سنتری کو بے خبری میں پکڑ لیا ہوگا علی بن سفیان کو اپنی اس غلطی پر تاسف ہوا کہ اس نے زخمی کے چار ساتھیوں کو زخمی سے ملنے کی اجازت دی تھی۔ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ زخمی کے چچا زاد اور تایا زاد بھائی ہیں۔ وہ اندر آکر دیکھ گئے تھے کہ یہاں کے حفاظتی اقدامات کیا ہیں۔ اسے بہن کو بھی یہاں رہنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔ اس نے یہ بھی یقین نہیں کیا تھا کہ یہ لڑکی زخمی کی بہن تھی یا اس گروہ کی فرد تھ
علی بن سفیان کو غصہ آیا اور وہ اپنی بھول پر پچھتایا بھی لیکن اس نے دل ہی دل میں زخمی اور اس کے ساتھیوں کے اتنے کامیاب فرار کو سراہا۔ علی بن سفیان جیسے سراغ رساں کو دھوکہ دینا آسان نہیں تھا۔ وہ لوگ اسے بھی جل دے گئے تھے۔ اس نے نئے سنتری سے کچھ باتیں پوچھیں تو اس نے بتایا کہ اس سے پہلے وہ رات کو بھی پہرے پر کھڑا رہ چکا ہے۔ اس نے لڑکی کو جراح کے ساتھ اس کے گھر جاتے اور رات بہت دیر بعد دونوں کو واپس آتے دیکھا تھا۔ اس سے علی بن سفیان کو شک ہوا کہ لڑکی نے جراح کو بھی اپنے حسن وجوانی کے زیر اثر کرلیا تھا۔ علی نے سنتری سے کہا کہ دوڑ کر جائے اور جراح کو بلا لائے۔ سنتری کے جانے کے بعد وہ سراغ ڈھونڈنے لگا۔ باہر گیا۔ زمین دیکھی۔ اسے پائوں کے نشان نظر آئے لیکن نشان اس کی مدد نہیں کرسکتے۔ زخمی شہر میں تو روپوش نہیں ہوسکتا تھا۔ ایک ہی طریقہ رہ گیا تھا، زخمی کے گائوں پر جہاں سے اس کی بہن کو لایا گیا تھا، چھاپہ مارا جائے۔ وہ گائوں بہت دور تھا۔
سنتری نے واپس آکر بتایا کہ جراح گھر نہیں ہے۔ علی بن سفیان اس کے گھر گیا۔ اس کے ملازم نے بتایا کہ جراح رات بہت دیر بعد ایک لڑکی کے ساتھ باہر نکلا تھا، پھر واپس نہیں آیا۔ اس لڑکی کے متعلق اس اس نے بتایا کہ پہلے بھی جراح کے ساتھ آچکی ہے اور دونوں بہت دیر تک اندر بیٹھے رہے تھے۔ علی بن سفیان کو یقین ہوگیا کہ جراح بھی زخمی کے فرار میں شریک ہے اور یہ لڑکی کے حسن کے جادو کا کمال ہے۔ علی نے اپنے محکمے کے سراغ رسانوں کو بلایا اور انہیں فرار کے متعلق بتایا۔ وہ سب ادھر ادھر بکھر گئے۔ ایک جگہ انہیں بہت سے گھوڑوں کے کھروں کے نشان نظر آئے۔ اردگرد کے رہنے والوں میں سے تین چار آدمیوں نے بتایا کہ رات انہوں نے بہت سے گھوڑے دوڑنے کی آوازیں سنی تھیں ۔ سراغ رساں کھروں کو دیکھتے شہر سے نکل گئے مگر آگے جانا بے کار تھا۔ رات کے بھاگے ہوئے گھوڑوں کو اب کھرے دیکھ دیکھ کر پکڑنا کسی پہلو ممکن نہیں تھا۔ انہیں صرف اتنا اتنا پتا چلا کہ مفرور اس سمت کو گئے ہیں۔ علی بن سفیان کے کرنے کا کام اب یہی رہ گیا تھا کہ قائم مقام امیر مصر تقی الدین کو اطلاع دے دے کہ زخمی حشیش کو اس کے ساتھی اغوا کر کے لے گئے ہیں۔ اسے یہ خیال بھی آیا کہ زخمی نے راز کی جو باتیں بتائی تھیں وہ بے بنیاد تھیں اور اس نے اپنی جان بچانے اور فرار کا موقعہ پیدا کرنے کے یے یہ چال چلی تھی۔ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو بھی علی بن سفیان کو بھی الو بنا گیا تھا
: آدھا دن گزر گیا تھا جب علی بن سفیان تقی الدین کو اطلاع دینے کے لیے چلا گیا۔ اس وقت اس کا زخمی قیدی جو کھڑا ہونے کے بھی قابل نہیں تھا، وہ قاہرہ سے بہت دور ایک ویرانے میں پہنچ چکا تھا مگر وہ زندہ نہیں تھا۔ جراح کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے تھے اور وہ ایک گھوڑے پر بے جان چیز کی طرح پڑا تھا۔ اس کی ٹانگیں گھوڑے کے ایک طرف اوپر کا دھڑ اور بازو دوسری طرف تھے۔ رات بھر وہ اسی حالت میں رہا تھا۔ صبح کا اجالا صاف نہیں ہوا تھا جب گھوڑے رکے۔ جراح کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی۔ اسے پٹی باندھنے والا آدمی نظر نہ آسکا کیونکہ اس کا سر نیچے تھا۔ پٹی بندھ جانے کے بعد اس کے پائوں کھول دیئے گئے اور اسے گھوڑے پر بٹھا دیا گیا۔ اس کے ہاتھ بندھے رہے۔ اس کے پیچھے ایک آدمی گھوڑے پر سوار ہوگیا اور گھوڑے ذرا سے آرام کے بعد پھر چل پڑے۔ اسے اتنا ہی پتا چل سکتا تھا کہ اس کے پیچھے چند اورگھوڑے آرہے ہیں اور سوار آہستہ آہستہ باتیں کررہے ہیں…
گھوڑے چلتے گئے اور سورج اوپر اٹھتا گیا پھر جراح نے محسوس کیا کہ گھوڑا چڑھائی چڑھ رہا ہے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دائیں بائیں مڑ رہا ہے۔ یہ نیچے اتر رہا ہے۔ اس سے وہ اندازہ کررہا تھا کہ یہ علاقہ ٹیلوں اور کھائیوں کا ہے۔
بہت دیر بعد جب سورج سر پر آگیا تھا، اسے پیچھے سے بلند آوازیں سنائی دیں جن سے اسے پتا چلا کہ کوئی سوار گر پڑا ہے۔ اس کا گھوڑا رک گیا اور پیچھے کو مڑا۔ اسے اس طرح کی آوازیں سنائی دیں… ''اٹھا لو… سائے میں لے چلو، بے ہوش ہوگیا ہے، اوہ خدایا اس کا خون بہہ رہا ہے''… اسے شارجا کی گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی… جراح کی آنکھیں اور ہاتھ کھول دو۔ وہ خون روک لے گا ورنہ میرا بھائی مر جائے'' … یہ زخمی حشیش تھا جو گھوڑے سے گر پڑا تھا۔ رات بھر کی گھوڑ سواری سے اور گھوڑا اتنی تیز بھگانے سے اس کے پیٹ کا زخم کھل گیا تھا اور ران کے زخم سے بھی خون جاری ہوگیا تھا۔ وہ درد کو برداشت کرتا رہا تھا، خون نکلتا رہا۔ آخر یہاں آکر خون اتنا نکل گیا کہ اس پر غشی طاری ہوگئی اور وہ گھوڑے سے گر پڑا۔ اسے اٹھا کر ایک ٹیلے کے سائے میں لے گئے اس کے منہ میں پانی ڈالا لیکن پانی حلق سے نیچے نہ گیا۔ اس کے کپڑے خون سے تر ہوگئے تھے۔
کی آنکھیں کھول دی گئی اور اسے کہا گیا کہ وہ ادھر ادھر نہ دیکھے۔ اس نے اپنی پیٹھ میں خنجر کی نوک محسوس کی۔ وہ آگے آگے چل پڑا۔ ٹیلے کے دامن میں زخمی پڑا تھا اور شارجا اس کے پاس بیٹھی تھی۔ اس نے جراح سے کہا… ''خدا کے لیے میرے بھائی کو بچائو''… جراح نے سب سے پہلے زخمی کی نبض پر ہاتھ رکھا۔ اس کے لیے حکم تھا کہ وہ ادھر ادھر نہ دیکھے۔ وہ بیٹھ گیا تھا اور زخمی کی نبض دیکھ رہا تھا۔ اس کی پیٹھ میں خنجر کی نوک چبھ رہی تھی، زخمی کی نبض محسوس کرکے وہ تیزی سے اٹھا اور پیچھے کو مڑا، اس کے سامنے چار آدمی کھڑے تھے جن کے چہرے سیاہ نقابوں میں تھے۔ ان کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔ ان میں سے ایک کے ہاتھ میں خنجر تھا۔ جراح نے غصے سے کہا… ''تم سب پر اللہ کی لعنت برسے۔ تم نے اسے بچانے کے بجائے اس کی جان لے لی ہے۔ تم سب اس کے قاتل ہو۔ یہ مر چکا ہے۔ ہم نے اسے چارپائی سے ہلنے بھی نہیں دیا تھا اور تم اسے گھوڑے پر بٹھا کر لائے۔ اس کے زخم کھل گئے اور جسم کا تمام خون ضائع ہوگیا'۔
شارجا بھائی کی لاش پر گر پڑی اور چیخیں مار مار کر ر ونے لگی۔ نقاب پوشوں نے جراح کو شارجا کے رونے اور چلانے کی جگر سوز آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ جراح کے گھوڑے پر جو سوار تھا اس سے جراح نے کہا کہ یہ زخمی بالکل ٹھیک ہوسکتا تھا مگر تم لوگوں نے اسے مار دیا۔ اسے کوئی سزا نہ ملتی، سوار نے کہا… ''ہم اسے زندہ رکھنے کے لیے نہیں لائے تھے، ہم نے دراصل وہ راز اغوا کیا ہے جو اس کے پاس تھا۔ اس کے مرنے کا ہمیں کوئی غم نہیں، ہم خوش ہیں کہ تم اور تمہاری حکومت اس راز سے بے خبر ہے جو اس کے سینے میں تھا''۔
''مجھے تم لوگ کس جرم کی سزا دے رہے ہو؟'' جراح نے پوچھا۔
''ہم تمہیں پیغمبروں کی طرح رکھیں گے''۔ سوار نے جواب دیا… ''تمہیں گرم ہوا بھی نہیں لگنے دی جائے گی۔ ہم تمہیں اس لیے لائے تھے کہ راستے میں زخمی کو تکلیف ہوگئی تو اس کی مرہم پٹی کرو گے مگر ہم نے یہ نہیں سوچا کہ تمہارے پاس نہ کوئی دوائی ہے نہ مرہم۔ تمہیں اغواء کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ہم اس لڑکی کو بھی ساتھ لانا چاہتے تھے۔ ہم اسے ہی لاتے تو تم جو اس کے ساتھ تھے ہمارے تعاقب میں پوری فوج بھگا دیتے۔ اس لیے تمہیں بھی اٹھا لانا ضروری تھا۔ تیسری وجہ یہ
ہے کہ ہمیں ایک جراح کی ضرورت ہے۔ تمہیں ہم اپنے ساتھ رکھیں گے''۔
''میں ایسے کسی آدمی کا علاج نہیں کروں گا جو میری حکومت کے خلاف ہوگا''… جراح نے کہا… ''تم سب صلیبیوں اور سوڈانیوں اور فاطمیوں کے دوست ہو اور ان کے اشاروں پر سلطنت اسلامیہ کے خلاف تخریب کاری کررہے ہو، میں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا''۔
''پھر تم قتل ہوجائو گے''۔ سوار نے کہا۔
''یہ میرے لیے بہتر ہوگا''۔ جراح نے جواب دیا۔
''پھر ہم تمہارے ساتھ وہ سلوک کریں گے جو تمہارے لیے بہتر نہیں ہوگا''… سوار نے جواب دیا… ''پھر تم ہمارا ہر حکم مانو گے لیکن میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ برے سلوک کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ تم نے صلاح الدین ایوبی کی بادشاہی دیکھی ہے۔ ہماری بادشاہی دیکھو گے تو اپنی زبان سے کہو گے کہ میں یہیں رہنا چاہتا ہوں، یہ تو جنت ہے اگر تم نے ہماری جنت کو ٹھکرا دیا تو ہم تمہیں اپنا جہنم دکھائیں گے''۔
گھوڑے چلتے رہے، جراح آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی کے اندھیرے میں اپنے مستقبل کو دیکھنے کی کوشش کرتا رہا۔ وہ فرار کی ترکیبیں بھی سوچتا رہا۔ اسے باربار شارجا کا خیال آتا مگر وہ یہ سوچ کر مایوس ہوجاتا تھا کہ یہ لڑکی بھی اسی گروہ کی ہے وہ اس کی مدد نہیں کرے گی۔
: ان کا سفر اتنا لمبا نہیں تھا لیکن سرحدی دستوں اور ان کے گشتی سنتریوں کے ڈر سے مجرموں کا یہ قافلہ بچ بچ کر، چھپ چھپ کر اور بڑی دور کا چکر کاٹ کر جارہا تھا۔ شام کے بعد بھی یہ قافلہ چلتا رہا اور رات گزرتی رہی۔ آدھی رات سے ذرا پہلے قافلہ رک گیا۔ جراح کو گھوڑے سے اتار کر اس کے ہاتھ کھول دئیے اور چونکہ اندھیرا تھا اس لیے اس کی آنکھوں سے پٹی بھی کھول دی گئی۔ اسے کھانے کو کچھ دیا گیا، پانی بھی پلایا گیا۔ اس کے بعد اس کے ہاتھ بھی باندھ دیئے گئے اور پائوں بھی اور اسے سوجانے کو کہا گیا۔ سوار تھکے ہوئے تھے، اس سے ایک رات پہلے کے جاگے ہوئے تھے۔ لیٹے اور سوگئے۔ گھوڑوں کو زینیں اتار کر ذرا پرے باندھ دیا گیا تھا۔ جراح کے بھاگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ وہ بندھا ہوا تھا وہ بھی سوگیا۔
کچھ دیر بعد اس کی آنکھ کھل گئی وہ سمجھا کہ اسے روانگی کے لیے جگایا جارہا ہے لیکن کوئی اس کے پائوں کی رسی کھول رہا تھا۔ وہ چپ چاپ پڑا رہا۔ وہ مرنے کے لیے بھی تیار ہوگیا، اسے یہ بھی توقع تھی کہ اسے قتل کرکے پھینک جائیں گے لیکن پائوں کی رسی کھلنے کے بعد جب یہ سایہ اس کے ہاتھوں کی رسی کھولنے لگا تو اس نے جھک کر جراح کے کان میں کہا… ''میں نے دو گھوڑوں پر زینیں کس دی ہیں، خاموشی سے میرے پیچھے آئو، میں تمہارے ساتھ چلوں گی۔ وہ بے ہوشی کی نیند سوئے ہوئے ہیں''… یہ شارجا کی آواز تھی۔
جراح آہستہ سے اٹھا اور شارجا کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ ریت پر پائوں کی آہٹ پیدا ہی نہیں ہوتی تھی۔ آگے دو گھوڑے کھڑے تھے۔ ایک پر شارجا سوار ہوگئی، دوسرے پر جراح سوار ہوگیا۔ شارجا نے کہا…'' اگر تم اچھے سوار نہیں ہو تو ڈرنا نہیں، گروگے نہیں ایڑی لگائو اور لگام ڈھیلی چھوڑ دو۔ گھوڑے دائیں کو دائیں بائیں موڑنا تو جانتے ہوگے''… جراح نے جواب دیئے بغیر گھوڑے کو ایڑی لگائی۔ شارجہ کا گھوڑا بھی اس کے ساتھ ہی دوڑا۔ دوڑتے گھوڑے سے شارجا نے کہا…''میرے پیچھے رہو۔ میں راستہ جانتی ہوں۔ اندھیرے میں مجھ سے الگ نہ ہوجانا''۔
: سرپٹ بھاگتے گھوڑوں نے مجرموں کو جگا دیا لیکن تعاقب آسان نہیں تھا۔ انہیں پہلے تو دیکھنا تھا کہ یہ کس کے گھوڑے ہیں، انہیں شارجا کے بھاگنے کا خطرہ ہی نہیں تھا۔ کچھ وقت دیکھنے میں لگ گیا ہوگیا کہ وہ کون تھے اور ذرا دیر بعد ہی انہیں پتا چلا ہوگا کہ شارجا اور جراح بھاگ گئے ہیں۔ پھر انہیں اپنے گھوڑوں پر زینیں ڈالنی تھیں۔ اس میں اتنا وقت صرف ہوگیا ہوگا کہ بھاگنے والے دو اڑھائی میل دور نکل گئے ہوں گے… شارجا اور جراح نے باربار پیچھے دیکھا، آوازیں سننے کی بھی کوشش کی۔ انہیں یقین سا ہورہا تھا کہ ان کے تعاقب میں کوئی نہیں آرہا۔ وہ ابھی گھوڑوں کی رفتار کم کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ اس لیے ایڑی لگاتے چلے گئے۔ آخر وہ حد آگئی جہاں گھوڑے خود ہی آہستہ ہونے لگے لیکن وہ بہت دور نکل گئے تھے۔ جراح نے شارجا سے کہا کہ یہاں کہیں نہ کہیں کوئی سرحدی دستہ ہونا چاہیے مگر اسے معلوم نہیں تھا کہ کہاں ہوگا۔ شارجا کو بھی معلوم نہیں تھا اس نے جراح کو بتایا کہ وہ ان دستوں سے بچنے کے لیے دور کے راستے سے گئے تھے ورنہ اس کا گائوں دور نہیں تھا۔ اس نے اسے یہ یقین دلایا کہ وہ قاہرہ کی صحیح سمت کو جارہے ہیں اور قاہرہ دور نہیں۔
اگلا دن آدھا گزر گیا تھا جب علی بن سفیان قائم مقام امیر مصر تقی الدین کے سامنے بیٹھا تھا۔ تقی الدین کہہ رہا تھا… ''میں اس پر حیران نہیں کہ آپ جیسے تجربہ کار حاکم نے یہ غلطی کی تھی کہ مشکوک لڑکی کو زخمی قیدی کے پاس رہنے کی اجازت دے دی اور چار مشکوک افراد کو بھی زخمی کے پاس لے گئے۔ میں اس پر حیران ہوں کہ یہ گروہ اتنا زیادہ دلیر اور منظم ہے۔ زخمی کو اٹھالے جانا، سنتری کو قتل کرکے زخمی کے بستر پر ڈال جانا، دلیرانہ اقدام بھی ہے اور یہ ایک منظم جرم ہے''۔
''میرا خیال ہے کہ اس جرم کو جراح اور لڑکی نے آسان بنایا ہے''۔ علی بن سفیان نے کہا… ''اس جرم میں بھی ہماری قوم کی اسی کمزوری نے کام کیا ہے جس کے متعلق صلاح الدین ایوبی پریشان رہتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ عورت اور اقتدار کا نشہ ملت اسلامیہ کو لے ڈوبے گا۔ جراح کو میں نیک اور صاحب کردار سمجھتا تھا مگر ایک لڑکی نے اسے بھی اندھا کردیا۔ بہرحال زخمی قیدی کے گائوں کا پتا چل گیا ہے میں نے ایک دستہ روانہ کردیا ہے''۔
''اور جنوب مغربی علاقے کے جس کھنڈر کا زخمی قیدی نے ذکر کیا تھا اس کے متعلق آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟'' تقی الدین نے پوچھا۔
''مجھے شک ہے کہ اس نے جھوٹ بولا تھا''… علی بن سفیان نے جواب دیا۔ ''اس نے اپنی جان بچانے کے لیے یہ بے بنیاد قصہ گھڑا تھا، تاہم اس علاقے کی سراغ رسانی کی جائے گی''۔
وہ اسی مسئلے پر باتیں کررہے تھے کہ دربان نے اندر آکر ایسی اطلاع دی جس نے دونوں کو سن کردیا۔ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے ان کی زبانیں بولنے سے معذور ہوگئی ہوں۔ علی بن سفیان اٹھا اور یہ کہہ کر باہر نکل گیا۔ ''کوئی اور ہوگا''… اس کے پیچھے تقی الدین بھی باہر نکل گیا مگر وہ کوئی اور نہیں ان کا اپنا جراح ان کے سامنے کھڑا تھا اور اس کے ساتھ زخمی قیدی کی بہن شارجا تھی۔ ان کے گھوڑے بری طرح ہانپ رہے تھے، جراح اور شارجا کے چہرے اور سر گرد سے اٹے ہوئے تھے۔ ہونٹ خشک اور منہ کھلے ہوئے تھے۔ علی بن سفیان نے ذرا غصے سے پوچھا… ''قیدی کو کہاں چھوڑ آئے؟''… جراح نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ ہمیں ذرا دم لینے دو۔ دونوں کو اندر لے گئے۔ ان کے لیے پانی اور کھانا وغیرہ منگوایا گیا۔
جراح نے تفصیل سے بتایا کہ وہ کس طرح اغوا ہوا تھا اور سفر میں زخمی قیدی مرگیا ہے۔ اسے بالکل علم نہیں تھا کہ
زخمی قیدی کو بھی اغوا کیا گیا ہے۔ یہ اسے اگلے روز سفر میں پتا چلا جب زخمی گھوڑے سے گرا اور زخم کھل جانے کی وجہ سے مرگیا۔ جراح کو جس طرح شارجا نے آزاد کرایا اور اس کے ساتھ بھاگی وہ بھی تفصیل سے سنایا… شارجا نے اپنا بیان دیا تو علی بن سفیان جان گیا کہ یہ صحرائی لڑکی ہے، اجڈ اور دلیر ہے اور یہ اتنی چالاک نہیں جتنا سمجھا گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنے بھائی کے سہارے اور اسی کی خاطر زندہ تھی۔ اس بھائی کی خاطر وہ جان دینے کے لیے بھی تیار رہتی تھی۔ جراح نے جس خلوص سے اس کے بھائی کا علاج کیا اس سے وہ اتنی متاثر ہوئی کہ اس کی مرید بن گئی۔ جراح کو وہ فرشتہ سمجھنے لگی۔ پہلے روز اس کے ساتھ جو چار آدمی آئے تھے وہ اس کے کچھ نہیں لگتے تھے۔ وہ اس کے چچا اور تایا زاد بھائی نہیں تھے۔ وہ اسی گروہ کے آدمی ہیں جو صلاح الدین ایوبی کو اور اس کے اعلیٰ حاکموں کو قتل کرنا چاہتا ہے۔ جب علی بن سفیان کے آدمی شارجا کے گائوں اسے ساتھ لانے گئے تھے اس وقت یہ چاروں آدمی گائوں میں تھے۔ انہیں پتا چلا کہ شارجا کا بھائی زخمی ہوکر قید ہوگیا ہے تو وہ اس ارادے سے ساتھ چل پڑے کہ زخمی کو اغوا کریں گے۔ انہیں ڈر یہ تھا کہ زخمی کے پاس جو راز ہے وہ فاش نہ ہو۔ وہ جانتے تھے کہ زخمی کہاں اور کس کارروائی میں زخمی ہوا ہے۔
شارجا کے بیان کے مطابق اس کا ارادہ بھی یہی تھا کہ بھائی کو اغوا کرائے گی۔ اس نے بھائی کے پاس رہنے کی جو التجا کی تھی اس سے اس کے دو مقصد تھے۔ ایک یہ کہ بھائی کی خدمت اور دیکھ بھال کرے گی اور دوسرا یہ کہ موقع ملا تو اسے اغوا کرائے گی۔ وہ چاروں آدمی زخمی سے مل کر واپس نہیں گئے بلکہ قاہرہ میں ہی رہے تھے۔ وہ شارجا کے اشارے کے منتظر تھے لیکن جراح نے لڑکی کو اتنا متاثر کیا کہ اس کی سوچ ہی بدل گئی۔ جراح نے اسے یقین دلایا کہ اس کے بھائی کو کوئی سزا نہیں ملے گئی۔ اس کے علاوہ جواح نے اسے ایسی باتیں بتائیں جو اس نے پہلے کبھی نہیں سنی تھیں۔ جراح نے اس کے اندر اسلام کی عظمت بیدار کردی تھی اور اعلیٰ کردار کا مظاہرہ کرکے اسے اپنا مرید بنا لیا تھا۔ وہ ہر وقت جراح کے پاس بیٹھ کر اس کی باتیں سننے کے لیے بیتاب رہنے لگی۔ ایک روز وہ جراح کے گھر جارہی تھی تو اسے ان چاروں میں سے ایک آدمی راستے میں مل گیا۔ اس نے شارجہ سے کہا کہ زخمی کے اغوا میں اب دیر نہیں ہونی چاہیے۔ شارجا نے اسے کہا کہ وہ ارادہ بدل چکی ہے۔ اس کا بھائی یہیں رہے گا۔ اس آدمی نے شارجا سے کہا کہ اگر اس نے شہر میں آکر اپنا دماغ خراب کرلیا ہے تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ زخمی یہاں نہیں رہے گا۔
: شارجا کو توقع تھی کہ یہ چاروں اتنی دلیری سے اس کے بھائی کو اغوا کرلیں گے۔ اس نے انہیں فیصلہ سنا دیا کہ وہ ان کی کوئی مدد نہیں کرے گی۔ اس آدمی نے اسے کہا… ''ہم تمہاری ہر ایک حرکت کو دیکھ رہے ہیں۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ تم نے جراح کو پھانس لیا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ تم خود اس کے جال میں پھنس گئی ہو۔'' ....
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں