داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 33 - اردو ناول

Breaking

منگل, اپریل 30, 2019

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 33

داستان ایمان فروشوں کی

پانچواں حصہ : لڑکی جو فلسطین سے آئی تهی

قسط نمبر # 33 

آپ سوڈان کی طرف سے مصر کی سرحد پر بد امنی پیدا کرتے رہیں '' ۔ کونارڈ نے کہا ……''ملک کے اندر ہم ذہنی اورء دیگر اقسام کی تخریب کاری کر تے رہیں گے۔ ادھر عرب میں کئی ایک مسلمان امراء ہمارے قبضے میںآگئے ہیں ۔ ان میں سے بعض کو ہم نے اس قدر بے بس کر دیا ہے کہ ان سے ہم جزیہ وصول کرتے ہیں ۔ ہم چھوٹے چھوٹے حملے کر کے ان کی تھوڑی تھوڑی زمین پر قبضہ کرتے چلے جارہے ہیں ۔ آپ سوڈان کی طرف سے یہی چال چلیں ۔ مسلمانوں میں صرف دو شخص رہ گئے ہیں ۔ نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی ۔ان کے ختم ہوتے ہی اسلامی دنیا کا سورج غروب ہوجائے گا۔ بشرطیکہ آپ لوگ ثابت قدم رہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مصر آپ کا ہوگا '' ۔

اس قسم کی بنیادی گفت و شنید کے بعد بہت دیر تک ان میں طریقہ کار اور لائحہ عمل پر بحث ہوتی رہی ۔ آخر کار رجب کو تین بڑی ہی دلکش اور بے حد چالاک لڑکیاں او سونے کے ہزار ہا سکے دئیے گئے ۔ اسے قاہرہ کے دو آدمیوں کے پتے دئیے گئے ۔ ان میں کسی ایک تک ان لڑکیوں کو خفیہ طریقے سے پہنچانا تھا ۔ ان دو آدمیوں میں سے ایک سلطان ایوبی کے جنگی شعبے کا ایک حاکم فیض الفاطمی تھا ۔ رجب کو یہ نہیں بتایا گیا کہ لڑکیوں کو کس طرح استعمال کیا جائے گا ۔ اسے اتنا ہی بتایا گیا کہ فیض الفاطمی کے ساتھ ان کا رابطہ ہے ۔ وہ لڑکیوں کا استعمال جانتا ہے اور لڑکیوں کو بھی معلوم ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے ۔یہ تینوں عرب اور مصر کی زبان روانی سے بول سکتی تھیں ۔

اسی روز تینوں لڑکیاںاور دس محافظ رجب کے ساتھ کرکے اسے روانہ کر دیا گیا۔ اسے سب سے پہلے سوڈان کے اسی پہاڑی خطے میں جانا تھا جہاں لڑکی کی قربانی دی جاتی تھی اور جہاں سلطان ایوبی کے جانبازوں نے اُمِّ عرارہ کو حبشیوں سے چھڑا کر پروہت کو ہلاک کیا اور فرعونوں کے وقتوں کی عمارتیں تباہ کی تھیں ۔ رجب نے سوڈانیوں کی شکست اور العاضد کی خلافت سے معزولی کے بعد بھاگ کر اسی جگہ پناہ لی اور اسی جگہ کو اپنا اڈہ بنا لیا تھا ۔ اسے نے اپنے گرد حبشیوں کا وہ قبیلہ جمع کر لیا تھا جس کے پروہت کو سلطان ایوبی نے ہلاک کرایا تھا ۔ یہ لوگ ابھی تک اس جگہ کو دیوتائوں کا مسکن کہتے تھے اور پہاڑیوںکے اندر نہیںجاتے تھے ۔ اندر صرف چار بوڑھے حبشی جاتے تھے ۔ ان میں ایک اس قبیلے کا مذہبی پیشوا تھا ۔ اس نے اپنے آپ کو مرے ہوئے پروہت کا جانشیں بنالیا تھا ۔اس نے تین آدمی اپنے محاظوں کے طور پر منتخب کر لیے تھے ۔ جو اس کے ساتھ پہاڑیوں کے اندر جاتے تھے ۔ رجب نے اسی چھوٹے سے خطبے کے ایک ڈھکے چھپے گوشے کو اپنا گھر بنا لیا تھا ۔فرار ہو کر وہاں گیا اور پھر مصر میں مقیم کسی صلیبی ایجنٹ کے ساتھ فلسطین چلا گیا تھا ۔

٭ ٭ ٭

حبشیوں کا یہ قبیلہ جو انگوک کہلاتا تھا ، خوفزدہ تھا ۔ ایک تو ان کے دیوتا کی قربانی پوری نہیں ہوئی ، دوسرے ان کا پروہت مارا گیا ، تیسرے ان کے دیوتاکا بت اور مسکن ہی تباہ کر دیا گیا اور چوتھی مصیبت یہ نازل ہوئی کہ قبیلے کے سینکڑوں جوان دیوتا کی توہین کا انتقام لینے گئے تو انہیں شکست ہوئی اور زیادہ تر مارے گئے ۔ اس قبیلے کے گھر گھر میں ماتم ہورہا تھا ۔ان میں سے بعض لوگ یہ بھی سوچنے لگے تھے کہ جس نے ان کا دیوتا کا بت توڑا ہے وہ کوئی بہت ہی بڑا دیوتا ہوگا ۔ مرے ہوئے پروہت کے جانشیں نے جب اپنے قبیلے کا یہ حال دیکھا تو اس نے پہلے یہ کہا کہ دیوتا کے مگر مچھ بھوکے ہیں ، ان کے پیٹ بھرو۔ حبشیوں نے کئی ایک بکریاں مگر مچھوں کے لیے بھیج دیں ۔ ایک نے تو اونٹ پروہت کے حوالے کر دیا ۔یہ جانور کئی دن تک مگر مچھوں کی جھیل میں پھینکے جاتے رہے مگر قبیلے سے خوف کم نہ ہوا ۔

ایک رات نئے پروہت نے قبیلے کو پہاڑی جگہ سے باہر جمع کیا اور اس نے دیوتائوں تک رسائی حاصل کی ہے ۔ دیوتائوں نے یہ اشارہ دیا ہے کہ چونکہ وقت پر لڑکی کی قربانی نہیں ہوئی اس لیے قبیلے پر یہ مصیبت نازل ہوئی ہے ۔ دیوتائوں نے کہا کہ اب بیک وقت دو لڑکیوں کی قربانی دی جائے گی تو مصیبت ٹل سکتی ہے ۔ ورنہ دیوتاسارے قبیلے کو چین نہیں لینے دیں گے ۔ پروہت نے یہ بھی کہا کہ لڑکیاں انگوک نہ ہوں اور سوڈان کی بھی نہ ہوں ۔ ان کا سفید فام ہونا ضروری ہے ……اتنا سننا تھا کہ قبیلے کے بہت سے دلیر اور نڈر آدمی اٹھ کھڑے ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ مصر سے دو فرنگی یا مسلمان لڑکیاں اٹھا لائیں گے ۔

ادھر سے رجب فلسطین سے تین صلیبی لڑکیاں دس محافظوں کے ساتھ لا رہا تھا ۔ اس کا سفر بہت لمبا تھا اور یہ سفر خطرناک بھی تھا ۔ وہ سلطان ایوبی کی فوج کا بھگوڑا اور باغی سالار تھا ۔ اسے معلوم تھا کہ سرحد کے ساتھ ساتھ سلطان ایوبی نے کشتی پہرے کا انتظام کر رکھا ہے ، اس لیے وہ اپنے قافلے کو دور کا چکر کاٹ کر لا رہا تھا ۔ اس کے قافلے میں تین اونٹ تھے جن پر پانی ، خوراک اور صلیبیوں کا دیا ہوا بہت سارا سامان لدا ہوا تھا ۔ باقی سب گھوڑوں پر سوار تھے ۔ کئی دنوں کی مسافت کے بعد وہ دیوتائوں کے پہاڑی مسکن میں پہنچ گئے ۔ اس سے ایک ہی روز پہلے قبیلے کے پروہت نے کہا تھا کہ وہ سفید فام اور سوڈان کے باہر کی لڑکیوں کی قربانی دینی ہے ۔ رجب سب سے پہلے پروہت سے ملا۔ پروہت نے اس کے ساتھ تین سفید فام اور بہت ہی حسین لڑکیاں دیکھیں تو اس کی آنکھیں چمک اُٹھیں ۔ یہ لڑکیاں قربانی کے لیے موزوں تھیں ۔ اس نے رجب سے لڑکیوں کے متعلق پوچھا تو رجب نے اسے بتایا کہ انہیں وہ خاص مقصد کے لیے اپنے ساتھ لایا ہے ۔

رجب لڑکیوں کو پہاڑیوں کے اندر ایک ایسی جگہ لے گیا جو سر سبز اور خوشنما تھی او ر تین اطراف سے پہاڑیوں میں گھری ہوئی تھی ۔ وہاں رجب نے خیمے گاڑ دئیے تھے ۔ لڑکیوں کو چوری چھپے موقع محل دیکھ کر قاہرہ میں ان دو آدمیوں کے حوالے کرنا تھا ۔ جن کے اتے پتے اسے صلیبیوں نے دئیے تھے ۔ لڑکیوں کے آرام و آسائش کا پورا انتظام تھا ۔ رجب نے وہاں شراب کا بھی انتظام کر رکھا تھا ۔ رات اس نے سفر سے کامیاب لوٹنے کی خوشی میں جشن منایا ۔ صلیبی محافظوں کو بھی شراب پلائی ۔ لڑکیوں نے بھی پی ۔

آدھی رات کے بعد جب محافظ اور اس کے چند ایک ساتھی جو پہلے ہی وہاںموجود تھے سوگئے تو رجب نے ایک لڑکی کو بازو سے پکڑکر اپنے خیمے میں جانے لگا ۔ لڑکی اس کی نیت پھانپ گئی ۔ اس نے اسے کہا ……'' میں طوائف نہیں ہوں ۔ میں یہاں صلیب کا فرض لے کر آئی ہوں ۔ میں آپ کے ساتھ شراب پی سکتی ہوں مگر بدی قبول نہیں کروںگی ''۔

رجب نے اسے ہنستے ہوئے اپنے خیمے کی طرف گھسیٹا تو لڑکی نے اپنا بازو چھڑا لیا ۔ رجب نے دست درازی کی تو الڑکی دوڑ کر اپنی ساتھی لڑکیوں کے پاس چلی گئی ۔ وہ دونوں بھی باہر آگئیں ۔ انہوں نے رجب کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ انہیں غلط نہ سمجھے ۔

رجب کو غصہ آگیا ۔اس نے کہا …… '' میں جانتا ہوں تم کتنی پاک بازہو۔ بے حیائی تمہارا پیشہ ہے ''۔

''اس پیشے کا استعمال ہم وہاںکرتی ہیں جہاں اپنے فرض کے لیے ضروری ہوتاہے ''۔ لڑکی نے کہا ……''ہم عیاشی کی خاطر عیاشی نہیں کیا کرتیں ''۔

رجب ان کی کوئی بات نہیں سمجھنا چاہتاتھا ۔ آخر لڑکیوں نے اسے کہا ……''ہمارے ساتھ دس محافظ ہیں ۔ وہ ہماری حفاظت کے لیے ساتھ آئے ہیں ۔ انہیں کل واپس چلے جانا ہے ۔اگر ہم نے ان کی ضرورت محسوس کی تو ہم انہیں یہاں روک سکتی ہیں یا خود یہاںسے جاسکتی ہیں ''۔

جب چپ ہوگیا مگر اس کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ لڑکیوں کو بخشے گا نہیں۔ وہ رات گزر گئی ۔ دوسرے دن رجب نے فلسطین سے ساتھ لائے ہوئے محافظوں کو رخصت کر دیا …… دن گزر گیا۔ شام کے وقت رجب لڑکیوں کے ساتھ بیٹھا ادھر ادھر کی باتیں کر رہا تھا کہ پروہت اپنے چارحبشیوں کے ساتھ آگیا۔اس نے سوڈانی زبان میں رجب سے کہا ……''ہمارے دیوتاہم سے ناراض ہیں ۔ انہوں نے دو فرنگی یامسلمان لڑکیوں کی قربانی مانگی ہے۔ یہ لڑکیاں قربانی کے لیے موزوں ہیں ۔ ان میں سے دو لڑکیاں ہمارے حوالے کر دو ''۔

رجب چکر اگیا ۔ اس نے جواب دیا ……''یہ لڑکیاں قربانی کے لیے نہیں ہیں ۔ ان سے ہمیں بہت کام لینا ہے اور انہی کے ہاتھوں ہمیں تمہارے دیوتائوں کے دشمن کو مروانا ہے ''۔

''تم جھوٹ بولتے ہو ''…… پروہت نے کہا …… ''تم ان لڑکیوں کو تفریح کے لیے لائے ہو ''۔ ہم ان میں سے دو لڑکیوں کو قربان کریں گے ''۔

رجب نے بہت دلیلیں دیں مگر پروہت نے کسی ایک بھی دلیل کو قبول نہ کیا ۔ اس کے دماغ پر دیوتا سوار تھے۔ اس نے اُٹھ کر دو لڑکیوں کے سروں پر باری باری ہاتھ رکھے اور کہا …… ''یہ دونوں دیوتا کے لیے ہیں ۔ انگوک کی نجات ان دو لڑکیوں کے ہاتھ میں ہے ''…… یہ کہہ کر وہ چلا گیا ۔ رُک کر رجب سے کہا ……''لڑکیوں کو ساتھ لے کر بھاگنے کی کوشش نہ کرنا ۔ تم جانتے ہو کہ ہم تمہیں فوراً ڈھونڈ لائیں گے ''۔

لڑکیاں سوڈان کی زبان نہیں سمجھتی تھیں ۔حبشی پروہت نے ان کے سروں پر ہاتھ رکھا ۔ رجب کو پریشان دیکھا تو انہوں نے رجب سے پوچھا کہ یہ حبشی کیا کہہ رہا تھا۔ رجب نے انہیں صاف صاف بتا دیا کہ وہ انہیں قربانی کے لیے مانگتا ہے ۔ لڑکیوں کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ تمہارے سر کاٹ کر خشک ہونے کے لیے رکھ دیں گے اور جسم جھیل میں پھینک دیں گے مگر مچھ جسموں کو کھا جائیں گے ۔ لڑکیوں کے رنگ فق ہوگئے ۔ انہوں نے رجب سے پوچھا کہ اس نے انہیں بچانے کے لیے کیا سوچا ہے۔ رجب نے جوا ب دیا ……''میں نے اسے سمجھانے کی ساری دلیلیں دے ڈالی ہیں مگر اس نے ایک بھی نہیں سنی ۔ میں ان لوگوں کے رحم و کرم پر ہوں ۔ میں تو انہیں ساتھ ملانا چاہتا ہوں ۔ یہ میری فوج میں شامل ہونے کے لیے تیا ر ہیں ۔ لیکن اپنے عقیدے کے اتنے پکے ہیں کہ پہلے دیوتائوں کو خوش کریں گے ، پھر میری بات سنیں گے ''۔

رجب کی باتوں اور انداز سے لڑکیوں کو شک ہو گیا کہ وہ انہیں بچا نہیں سکے گا ۔ یا انہیں خوش کرنے کے لیے بچانے کی کوشش نہیں کرے گا ۔ انہوں نے گزشتہ رات رجب کی نیت کی ایک جھلک دیکھ بھی لی تھی ۔ اس لیے وہ اس سے مایوس ہوگئی تھیں ۔ رجب نے انہیں رسمی طور پر بھی تسلی نہ دی کہ وہ انہیں بچا لے گا ۔ لڑکیاں خیمے میں چلی گئیں ۔ انہوں نے صورتِ حال پر غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچیں کہ وہ یہاں رجب کی عیاشی کا ذریعہ بننے یا حبشیوں کے دیوتا کی بھینٹ چڑھنے کے لیے نہیں آئیں ۔ وہ بے مقصد موت نہیں مرنا چاہتی تھیں ۔ انہوں نے وہاں سے فرار کا ارادا کیا ۔ فرار ہو کر فلسطین خیریت سے پہنچنا آسان کام نہ تھا مگر کوئی چارہ کار بھی نہ تھا ۔ یہ لڑکیاں صرف خوبصورت اور دلکش ہی نہیں تھیں ،گھوڑ سواری اور سپاہ گری کی بھی انہیں تربیت دی گئی تھی تا کہ ضرورت پڑے تو اپنا بچائو خود کر سکیں ۔ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ یہاں سے بھاگ کر فلسطین چلی جائیں گی ۔

وہ رات خیریت سے گزر گئی ۔ دوسرے دن لڑکیوں نے اچھی طرح دیکھا کہ رات کو گھوڑے کہاں بندھے ہوتے ہیں اور وہاں سے نکلنے کا راستہ کون سا ہے۔ حبشی پروہت دن کے وقت بھی آیا او رجب کے ساتھ باتیں کر کے چلا گیا ۔ لڑکیوں نے اس سے پوچھا کہ و کیا کہہ گیا ہے۔ رجب نے انہیں بتایا کہ وہ کل رات تمہیں یہاں سے لے جائیں گے ۔ وہ مجھے دھمکی دے گیا ہے کہ میں نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو وہ مجھے قتل کر کے مگر مچھوں کی جھیل میں پھینک دیں گے ۔ لڑکیوں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ وہ فرار کا فیصلہ کر چکی ہیں کیونکہ انہیں رجب کی نیت پر شک ہوگیا تھا ۔ وہ غیر معمولی طور ذہین لڑکیاں تھیں ۔ انہوں نے رجب کے ساتھ ایسی باتیں کیں اور ایسی باتیں اس کے منہ سے کہلوائیں جن سے پتہ چلتا تھا جیسے وہ انہیں بچانے کی بجائے حبشیوں کو خوش کرنا چاہتا ہے تا وہ اسے وہیں چھپائے رکھیں اور اسے سلطان ایوبی کے خلاف فوج تیار کرنے میں مدد دیں ۔ لڑکیوں کہ یہ بھی شک ہوا کہ رجب انہیں ایسی قیمت کے عوض بچانے کی کوشش کرے گا جو وہ اسے دینا نہیں چاہتیں تھیں ۔

جاری ھے ،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں