داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 32 - اردو ناول

Breaking

منگل, اپریل 30, 2019

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 32

داستان ایمان فروشوں کی

پانچواں حصہ : لڑکی جو فلسطین سے آئی تهی

قسط نمبر # 32 

العاضد نے مرنے سے پہلے اپنے محافظ دستے کے سالار رجب کے متعلق بتایا تھا کہ وہ سوڈان میں روپوش ہے جہاں وہ سلطان ایوبی کے خلاف فوج تیار کر رہا ہے اور وہ صلیبیوں سے بھی مدد لے گا۔ علی بن سفیان نے چھ ایسے جانباز منتخب کیے جو لڑاکا جاسوس تھے ۔ ان کا کماندار رجب کو پہچانتا تھا ۔ انہیں تاجروں کے بھیس میں سوڈان روانہ کر دیا گیا ۔ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ ممکن ہو سکے تو اسے زندہ پکڑ لائیں ورنہ وہیں قتل کر دیں ۔

جس وقت یہ پارٹی سوڈان کو روانہ ہوئی اس وقت رجب سوڈان میں نہیں بلکہ فلسطین کے ایک مشہور اور مضبوط قلعے شوبک میں تھا ۔ فلسطین پر صلیبیوں کا قبضہ تھا ۔ انہوں نے اس خطے کو اڈہ بنا لیا تھا ۔ مسلمانوں پر انہوں نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا ۔ مسلمان وہاں سے کنبہ در کنبہ بھاگ رہے تھے ۔ وہاں کسی مسلمان کی عزت محفوظ نہیں تھی ۔ صلیبی ڈاکوئوں کی صورت بھی اختیار کرتے جا رہے تھے ۔ وہ مسلمانوں کے قافلوں کو لوٹ کر فلسطین میں آجاتے تھے ۔ لڑکیوں کو بھی اغواکر کے لاتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ سلطان ایوبی سب سے پہلے فلسطین کو تہ تیغ کرنا چاہتا تھاتا کہ مسلمانوں کے جان و مال اور آبرو کو محفوظ کیا جا سکے ۔ اس سے بھی بڑی وجہ یہ تھی کہ قبلہ اول پر صلیبی قابض تھے ، مگر مسلمان امراء کا یہ عالم تھا کہ و ہ صلیبیوں کے ساتھ دوستی کرتے پھرتے تھے ۔ رجب بھی ایک مسلمان فوجی سربراہ تھا ۔ وہ سلطان کے خلاف مدد حاصل کرنے کے لیے صلیبیوں کے پاس پہنچ گیا تھا ۔

اس کے اعزاز میں قلعے میں رقص کی محفل گرم کی گئی تھی ۔ رجب نے یہ دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ برہنہ ناچنے والیوں میں زیادہ تعداد مسلمان لڑکیوں کی تھی جنہیں صلیبیوں نے کمسنی میں اغوا کر لیا اور رقص کی تربیت دی تھی ۔ اپنی قوم کی بیٹیوں کو وہ کافر کے قبضے میں ناچتا دیکھتا رہا اور ان کے ہاتھوں شراب پیتا رہا تھا ۔ اس کے ساتھ وہ مسلمان کماندار بھی تھے ۔ رات بھر وہ شراب اور رقص میں بدمست رہے اور صبح صلیبیوں کے ساتھ بات چیت کے لیے بیٹھے ۔ اس اجلاس میں صلیبیوں کے مشہور بادشاہ گائی لوزینان اور کونارڈ موجود تھے ۔ ان کے علاوہ چند ایک صلیبی فوج کے کمانڈر بھی تھے ۔ رات کو رجب انہیں بتا چکا تھا کہ سلطان ایوبی نے سوڈانیوں کے حبشی قبیلے کے مبعد کو مسمار کر کے ان کے پروہت کو ہلاک کر دیا ہے ۔ اس پر سوڈانیوں نے حملہ کیا جسے سلطان ایوبی نے پسپا کیا اور اسن نے خلیفہ العاضد کی خلافت ختم کر کے عباسی کا اعلان کر دیا مگر مصر میں کوئی خلیفہ نہیں رہے گا۔ رجب نے انہیں بتایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سلطان ایوبی مصر کا خود مختار حکمران بننا چاہتا ہے ۔ رجب نے صلیبیوں کو اس اجلاس میں بتایا کہ وہ ان سے جنگی اور مالی مدد لینے آیا ہے اور وہ سوڈان جا کر فوج تیا ر کرے گا ۔ مصر میں بد نظمی او ابتری پھیلانے کے لیے بھی اس نے صلیبیوں سے مدد مانگی ۔

''فوری طور پر دو پہلو سامنے آتے ہیں جن پر ہمیں توجہ مرکوز کرنی چاہیے ''…… کونارڈ نے کہا ……''جس حبشی قبیلے کے مذہب میں صلاح الدین ایوبی نے ظالمانہ دخل اندازی کی ہے اسے انتقام کے لیے بھڑکایا جائے ۔ اس کے ساتھ سارے سوڈان میں جتنے بھی عقیدے اور مذہب ہیں ان کے پیرو کاروں کو صلاح الدین کے خلاف یہ کہہ کو مسلح کیا جائے کہ یہ مسلمان بادشاہ لوگوں کی عبادت گاہیں اور اور ان کے دیوتائوں کے بت توڑتاپھر رہا ہے۔ پیشتر اس کے کہ وہ کسی اور عقیدے پر حملہ آور ہو اسے مصر میں ہی ختم کردیا جائے ۔ اس طرح لوگوں کے مذہبی جذبات مشتعل کر کے انہیں مصر پر حملے کے لیے آسانی سے تیار کیا جاسکتا ہے ''۔

''ہم مصر کے مسلمانوں تک کو صلاح الدین کے خلاف کھڑا کر سکتے ہیں ۔ ''……ایک صلیبی کمانڈر نے کہا ……''اگر محترم رجب برا نہ مانیں تو میں انہی کے فائدے کی بات کہہ دوں ۔مسلمان میں مذہبی جنون پیدا کر کے مسلمان کو مسلمان کے ہاتھوں مروا دینا کوئی مشکل نہیں ۔ جس طرح ہمارے مذہب میں بعض پادریوں نے اپنے آپ کو گرجوں کا حکم بنا کر اپنا وجود انسان اور خدا کے درمیان کھڑا کر دیا ہے ، بالکل اسی طرح اسلام میں بھی بعض اماموں نے مسجد پر قبضہ کر کے اپنے آپ کو خدا کا ایجنٹ بنا لیاہے ۔ ہمارے پاس دولت ہے جس کے ذور پر ہم مسلمان مولوی تیار کرکے مصر کی مسجدوںمیں بٹھا سکتے ہیں ۔ ہمارے پاس ایسے عیسائی بھی موجود ہیں جو اسلام اور قرآن سے بڑی اچھی طرح واقف ہیں ۔ انہیں ہم مسلمان اماموں کے روپ میں استعمال کریں گے ۔ صلاح الدین کے خلاف کسی مسجد میں کوئی کہنے کی ضرورت نہیں ۔ ان مولویوں کی زبان سے ہم مسلمانوں میں ایسی توہم پرستی پیدا کریں گے کہ ان کے دلو ں میں صلاح الدین کی وہ عظمت مٹ جائے گی جو اس نے پیدا کر رکھی ہے ''

'' یہ مہم فوراً شرع کردینی چاہیے ''…… رجب نے کہا ……''سلطان ایوبی نے مصر میں مدرسے کھول دئیے ہیں جہاں بچوں اور نوجوانوں کو مذہب کے صحیح رُخ سے روشناس کیا جارہاہے ۔ اس سے پہلے وہاں کوئی ایسا مدرسہ نہیں تھا ۔ لوگ مسجد میں خطبے سنتے تھے ، جن میں خلیفہ کی مدح سرائی زیادہ ہوتی تھی ۔ صلاح الدین نے خطبوں سے خلیفہ کاذکر ختم کرادیاہے۔ اگر لوگوں میں علم کی روشنی اور مذہبی بیداری پیدا ہوگئی تو ہمارا کام مشکل ہو جائے گا ۔ آپ جانتے ہیںکہ حکومت کے استحکام کے لیے لوگوں کو ذہنی طور پر پسماندہ اور جسمانی طور پر محتاج رکھنا لازمی ہے ''۔

''محترم رجب !''…… ایک صلیبی کمانڈر مُسکرا کربولا ……''آپ کو اپنے ملک کے متعلق بھی علم نہیں کہ وہاں درپردہ کیاہو رہاہے ۔ ہم نے یہ مہم اسی روز شروع کردی تھی جس روز صلاح الدین نے ہمیں بحیرئہ روم میں شکست دی تھی ۔ ہم کھلی تخریب کاری کے قائل نہیں ۔ ہم ذہنوں میں تخریب کاری کیا کرتے ہیں ۔ ذرا غور فرمائیں محترم! دو سال پہلے قاہرہ میں کتنے قحبہ خانے تھے اور اب کتنے ہیں ؟ کیا ان میں بے پناہ اضافہ نہیں ہوگیا ؟ کیا دولت مند مسلمان گھرانوں میں لڑکوں اور لڑکیوں میں قابل اعتراض معاشقے شروع نہیں ہوگئے ؟ ہم نے وہاں جو عیسائی لڑکیاں بھیجی تھیں وہ مسلمان لڑکیوں کے روپ میں مسلمان مردوں کے درمیان رقابت پیدا کرکے خون خرابے کراچکی ہیں ۔ قاہرہ میں ہم نے نہایت دلکش جواء بازی رائج کردی ہے دو مسجدوں میں ہمارے بھیجے ہوئے آدمی امام ہیں ۔ وہ نہایت خوبی سے اسلام کی شکل و صورت بگاڑ رہے ہیں ۔ وہ جہاد کے معنی بگاڑ رہے ہیں ۔ ہم نے وہاں عالموں اور فاضلوں کے بھیس میں بھی کچھ آدمی بھیج رکھے ہیں جو مسلمانوں کو جنگ و جدل کے خلاف تیار کر رہے ہیں ۔ وہ دوست اور دشمن کا تصور بھی بدل رہے ہیں ۔ مجھے ذاتی طور پر یہ توقع ہے کہ مسلمان چند برسوں تک اس ذہنی کیفیت میں داخل ہو جائیں گے جہاں وہ اپنے آپ کو بڑے فخر سے مسلمان کہیں گے مگران کے ذہنوں پر ان کے تہذیب و تمدن پر صلیب کا اثر ہوگا ''۔

''صلاح الدین کا جاسوسی کا نظا مبہت ہوشیار ہے ''…… رجب نے کہا …… ''اگر اس کے شعبہ جاسوس اور سراغرسانی کے سربراہ علی بن سفیان کو قتل کر دیا جائے تو صلاح الدین اندھااور بہرہ ہوجائے ''۔

''اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ خود کچھ بھی نہیں کر سکتے ''…… کونارڈ نے کہا …… ''آپ ایک حاکم کو قتل بھی نہیں کرا سکتے ۔ اگر آپ عقل کے لحاظ سے اتنے کمزور ہیں تو آپ ہمارے آدمیوں کو بھی پکڑوا کر مروائیں گے اور ہماری دولت بھی برباد کر دیں گے ''۔

''یہ کام میں خودکر الوں گا ''…… رجب نے کہا ……''میں نے فدائیوں سے بات کرلی ہے ۔ وہ تو صلاح الدین ایوبی کے قتل کے لیے بھی تیا ر ہیں ''۔
جاری ھے ،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں