داستان ایمان فروشوں کی
پانچواں حصہ : لڑکی جو فلسطین سے آئی تهی
قسط نمبر # 29
"لڑکی جو فلسطین سے آئ تهی"
سلطان صلاح الدین ایوبی نے کمرے ٹہلتے ہوئے آہ بھری اورکہا ……''قوم متحد ہو سکتی ہے اور ہو بھی جاتی ہے ۔ قوم کا شیرازہ امراء اور حکام بکھیرا کرتے ہیں یا وہ خود ساختہ قائد جو امیر، وزیر یا حاکم بننا چاہتے ہیں ۔ تم نے دیکھ لیا ہے علی ! مصر کے لوگوں کی زبان پر ہمارے خلاف کوئی شکایت نہیں ۔ غداری اور تخریب کاری صرف بڑے لوگ کر رہے ہیں ۔ ان بڑے لوگوں کو میری ذات کے ساتھ کوئی عداوت نہیں ۔ میں انہیں اس لیے برا لگتا ہوں کہ میں اسی گدی پر بیٹھ گیا ہوں جس کے وہ خواب دیکھ رہے تھے ''۔
سلطان ایوبی اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا ۔ علی بن سفیان اور بہائو الدین شداد بیٹھے سُن رہے تھے ۔ وہ ستمبر کے پہلے ہفتے کی ایک شام تھی ۔جون اور جولائی میں سلطان ایوبی نے سوڈانیوں کی بغاوت کو کچلا اور اس کے فوراً بعد العاضد کو خلافت کی گدی سے ہٹایا تھا ۔ اس سے پہلے اس نے سوڈانیوں کی بغاوت کو نہایت اچھی جنگی حکمت عملی سے دبا کر سوڈانی فوج توڑ دی تھی ۔ مگر بغاوت کرنے والے کسی بھی قائد، کمانڈر یا عسکری کو سزا نہیں دی تھی ۔ ڈپلومیسی سے کام لیاتھا ۔اس طرح اس کی جنگی اہمیت کی بھی دھاک بیٹھ گئی تھی اور ڈپلومیسی کی بھی ۔اب کے سوڈانیوں نے پھر سر اُٹھایا تو سلطان ایوبی نے اس سر کو ہمیشہ کے لیے کچل دینے کے لیے پہلے تو میدانِ جنگ میں سوڈانیوں کی لاشوں کے انبار لگا ئے، پھر جو بھی پکڑا گیا ، اس کے عہدے اور رُتبے کا لحاظ کیے بغیر اسے انتہائی سزا دی ۔ اکثریت کو تو جلاد کے حوالے کیا، باقی جو بچے انہیں لمبی قید میں ڈال دیا یا ملک بدر کر کے سوڈان کی طرف نکال دیا ۔
''آج دو مہینے ہو گئے ''……سلطان ایوبی نے کہا ……''میں سلطنت کے انتظام اورقوم کی فلاح و بہبود کی طرف توجہ نہیں دے سکا ۔ مجرم لائے جا رہے ہیں اور میں سوچ بچار کے بعد انہیںسزائے موت دیتا چلا جا رہا ہوں ۔ یوں دل کو تکلیف ہو رہی ہے جیسے میں قتل عام کررہاہوں ۔ میرے ہاتھوں مرنے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے ''۔
''محترم امیر!''…… بہائو الدین شداد نے کہا ۔ '' ایک کافر اور ایک مسلمان ایک ہی قسم کے گناہ کریں تو زیادہ سزامسلمان کو ملنی چاہیے کیو نکہ اس تک اللہ کے سچے دین کی روشنی پہنچی پھر بھی اس نے گناہ گیا ۔ کافر تو عقل کا بھی اندھا ہے ، مذہب کا بھی اندھا۔ آپ اس پر غم نہ کریں کہ آپ نے مسلمانوں کو سزا دی ہے۔ وہ غدار تھے۔ سلطنت اسلامیہ کے باغی تھے، انہوں نے اسلام کا نام مٹی میں ملانے کے لیے کافروں سے اتحاد کیا ''۔
'' میرا اصل غم یہ ہے شداد !''…… سلطان ایوبی نے کہا ……''کہ میں حکمران بن کے مصر نہیں آیا ۔ اگر مجھے حکومت کرنے کا نشہ ہوتا تو مصر کی موجودہ فضا میرے لیے سازگار تھی ۔ جنہیں صرف امارت کی گدی سے پیار ہوتا ہے ، وہ سازشی ذہن کے حاکموں کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ وہ قوم کو کچھ دئیے بغیر لوگوں کو دلکش مگر جھوٹے رنگوں کی تصویریں دکھاتے رہتے ہیں ۔ اپنے ذاتی عملے میں شیطانی خصلت افراد کو رکھتے ہیں ۔ وہ اپنے ماتحت حاکموں کو شہزادوں کا درجہ دئیے رکھتے ہیں۔اورخود شہنشاہ بن جاتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ مجھ سے یہ گدی لے لو لیکن مجھ سے وعدہ کرو کہ میرے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ ہو ۔ میں جو مقصد لے کر گھر سے نکلا ہوں وہ مجھے پورا کر لینے دو ۔ نورالدین زنگی نے ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر اور دریائے نیل کوعرب کے مجاہدوں کے خون سے سرخ کرکے شام اور مصر کا اتحاد قائم کیا ہے ۔ مجھے اس متحد سلطنت کو وسعت دینی ہے ۔ سوڈان کو مصر میں شامل کرنا ہے ۔ فلسطین کو صلیبیوں سے چھڑانا ہے ۔صلیبیوں کو یورپ کے وسط میں لے جا کر کسی گوشے میں گھنٹوں بٹھانا ہے اور مجھے یہ فتوحات اپنی حکمرانی کے لیے نہیں اللہ کی حکمرانی کے لیے حاصل کرنی ہیں مگر مصر میرے لیے دلدل بن گیا ہے ۔ وہ کون سا گوشہ ہے جہاں سازش، بغاوت اور غداری نہیں ''۔
'' ان تمام سازشوں کے پیچھے صلیبی ہیں ''……سلطان ایوبی نے کہا ……'' میں حیران ہوں کہ وہ کس بے دردی سے اپنی جوان لڑکیوںکو بے حیائی کی تربیت دے کر ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں ۔ان لڑکیوں کی خوبصورتی کا اپنا جادو ہے ، ان کا طلسم ان کی زبان میں ہے ''۔
'' زبان کا وار تلوار کے وار سے گہرا ہوتا ہے ''……سلطان ایوبی نے کہا ……'' وہ عقل جو تمہاری کمزوریوں کو بھانپ سکتی ہے علی ! وہ اپنی زبان سے ایسے انداز سے اور ایسے موقع پر ایسے الفاظ کہلوائے گی کہ تم اپنی تلوار نیام میں ڈال کر دشمن کے قدموں میں رکھ دو گے۔ صلیبیوں کے پاس دو ہی تو ہتھیار ہیں ، الفاظ اور حیوانی جذبہ جسے انسانی جذبے پر غالب کرنے کے لیے وہ اپنی جوان اور خوبصورت لڑکیوں کو استعمال کر رہے ہیں ۔ انہوں نے مسلمان امراء اور حکام کے دلوں سے مذہب تک نکال دیا ہے ''۔
'' صرف حکام نہیں امیر محترم !''…… علی بنی سفیان نے کہا ……'' مصر کے عام لوگوں میں بدکاری عام ہوگی ہے ۔ یہ صلیبیوں کاکمال ہے۔ دولت مند مسلمانوں کے گھروں میں بھی بے حیائی شروع ہوگئی ہے ''۔
'' یہی سب سے بڑا خطرہ ہے '' …… علی بن سفیان نے کہا ……''میں صلیبیوں کے سارے لشکر کا مقابلہ کر سکتا ہوں اور کیا ہے مگر میں ڈرتا ہوں کہ صلیبیوں کے اس وار کو نہیں روک سکوں گا اور جب میری نظریں مستقبل میں جھانکتی ہیں ، تو میں کانپ اُٹھتا ہوں۔مسلمان برائے نام مسلمان رہ جائیں گے ۔ ان میں بے حیائی صلیبیوں والی ہوگی اور ان کے تہذیب و تمدان پر صلیبی رنگ چڑھا ہوا ہوگا ۔میں مسلمانوں کی کمزوریاں جانتا ہوں ۔ مسلمان اپنے دشمن کو نہیں پہچانتے ۔ اس کے بچھائے ہوئے خوبصورت جال میں پھنس جاتے ہیں ۔میں صلیبیوں کی کمزوریاں بھی جانتا ہوں وہ بے شک مسلمان کے خلاف متحد ہو گئے ہیں لیکن ان کے اندر سے دل پھٹے ہوئے ہیں ۔ فرانسیسی اور جرمن ایک دوسرے کے خلاف ہیں ۔ برطانوی اور اطالوی ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے ۔وہ مسلمان کو مشترک دشمن سمجھ کر اکھٹے ہیں لیکن ان میں عداوت کی حد تک اختلاف ہیں ۔ ان کا شاہ آگسٹس دوغلا بادشاہ ہے ۔ باقی بھی ایسے ہی ہیں مگر انہوں نے مسلمان امراء کو عورت کے حسن اور زرو جواہرات کی چمک دمک سے اندھا کر رکھا ہے ۔ اگر مسلمان امراء متحد ہو جائیں تو صلیبی چند دنوں میں بکھر جائیں۔ اب فاطمی خلافت کو ختم کر کے میں نے اپنے دشمنوں میں اضافہ کر لیا ہے ۔ فاطمی اپنی گدی کی بحالی کے لیے سوڈانیوں اور صلیبیوں کے ساتھ ساز باز کر رہے ہیں ''۔
'' ان کے شاعر کو کل سزائے موت دے دی گئی ہے '' …… علی بن سفیان نے کہا ۔
'' جس کا مجھے بہت افسوس ہے ''…… سلطان ایوبی نے کہا ……'' عمارتہ المینی کی شاعری نے میرے دل پر بھی گہرا اثر کیاتھا۔ مگر اس نے الفاظ اور ترنم کو چنگاریاں بنا کر اسلام کے خرمن کو جلانے کی کوشش کی ہے ''۔
عمارةالمینی اس دور کامشہور شاعر تھا۔اس دور میںاور اس سے پہلے بھی لوگ شاعروں کو پیروں اور پیغمبروں جتنا درجہ دیتے تھے ۔ شاعر الفاظ اور ترنم سے فوجوں میں جذبے کی نئی روح پھونک دیا کرتے تھے ۔یہی درجہ اس مسلمان شاعر کو حاصل تھا ۔ اس نے لوگوں جو مقام پیدا کر رکھا تھا ، اسے اس نے اس طرح استعمال کرنا شروع کر دیا تھا کہ ایک طرف وہ لوگوں میں جہاد کا جذبہ پختہ کرتا تھا اور ساتھ ہی فاطمی خلافت کی غظمت کی دھاک لوگوں کے دلوں میں بٹھاتا تھا ۔ اسے فاطمی خلافت کی اتنی پشت پناہی حاصل تھی کہ اس نے سلطان ایوبی کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا تھا۔ اس کے آخری اشعار یہ تھے ……'' مجھے فاطمی خلافت کی محبت کا طعنہ دینے والو ! مجھ پر لعنت بھیجو ۔ میں تمہیں لعنت کے لائق سمجھتا ہوں …… فاطمی محلات کی ویرانی پر آنسو بہائو ۔ ان میں رہنے والوں کو میرا پیغام دو کہ میں نے تمہارے لیے جو زخم کھائے ہیں وہ کبھی مندمل نہ ہوں گے ''۔
جاری ھے ،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں