صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر.30۔" قاھرہ میں بعاوت اورسلطان ایوبی"
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لیکن اُسے کوئی کامیابی نہ ہوئی۔بعد کی شہادتوں اور واقعات سے جو واردات سامنے آئی ، وہ کچھ اس طرح بنتی ہے کہ قتل کی رات سے اگلی رات مصلح الدین اپنے گیا تو پہلی بیوی نے اُسے کمرے میں بلایا۔ اُس نے بیس اشرفیاں مصلح الدین کے آگے کرتے ہوئے کہا …… ''خضر الحیات کا قاتل یہ بیس اشرفیاں واپس کر گیا ہے اور کہہ گیا ہے کہ تم نے پچاس اشرفیاںاور سونے کے دو ٹکڑے کہے تھے۔ میں تمہارا کام کر دیا تو تم نے صرف بیس اشرفیاں بھیجی ہیں۔ یہ میں تمہاری بیوی کو واپس دے چلا ہوں ۔ تم نے مجھے دھوکہ دیا ہے۔ اب ایک سو اشرفیاں اور سونے کے دو ٹکڑے لوں گا، اگر دو دن تک مال نہ پہنچا تو ویسا ہی تیر جو خضر کے دل میں اُترا ہے ، تمہارے دل میں بھی اُتر جائے گا''۔
مصلح الدین کا رنگ اُڑگیا ، سنبھل کر بولا …… ''تم کیا کہہ رہی ہو؟ کون تھا وہ؟ میں نے کسی کو خضر الحیات کے قتل کے لیے یہ رقم نہیں دی تھی ؟''
''تم خضر کے قاتل ہو''۔ بیوی نے کہا …… ''مجھے معلوم نہیں کہ قتل کی کیا وجہ ہے ۔ اتنا ضرور معلوم ہے کہ تم نے اُسے قتل کرایا ہے''۔
یہ مصلح الدین کی پہلی بیوی تھی۔ اُس کی عمر زیادہ نہیں تھی ۔ بمشکل تیس سال کی ہوگی ۔ خاصی خوبصورت عورت تھی۔ کوئی ایک ماہ قبل وہ گھر میں ایک غیر معمولی طور پر خوبصورت اور جوان لڑکی لے آیا تھا۔ ایک خاوند کے لیے دو بیویوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ اُس زمانے میں زیادہ بیویاں رکھنے کارواج تھا۔ کوئی بیوی دوسری بیوی سے حسد نہیں کرتی تھی، مگر مصلح الدین نے پہلی بیوی کو بالکل نظر انداز کرد یا تھا۔ جب سے نئی بیوی آئی تھی اُس نے پہلی بیوی کے کمرے میں جانا ہی چھوڑ دیا تھا …… بیوی نے اُسے کئی بار بلایا تو بھی وہ نہ گیا۔ بیوی کے اندر انتقامی جذبہ پیدا ہوگیاتھا۔ یہ آدمی جو اُسے بیس اشرفیاں دے گیا تھا۔ غالباً مصلح الدین سے بڑاہی سنگین لینا چاہتا تھا۔ اسی لیے اس نے اس کی پہلی بیوی کو بتا دیا تھا کہ خضر الحیات کو مصلح الدین نے قتل کرایا تھا۔
''تم اپنی زبان بند رکھنا''۔ مصلح الدین نے بیوی کو بارعب لہجے میں کہا …… ''یہ میرے کسی دشمن کی چال ہے۔ وہ میرے اور تمہارے درمیان دشمنی پیدا کرنا چاہتا ہے''۔
''تمہارے دل میں میری دشمنی کے سوا اور رہا ہی کیا ہے؟'' بیوی نے پوچھا ……۔
''میرے دل میں تمہاری پہلے روز والی محبت ہے''۔ مصلح الدین نے کہا …… ''کیا تم اس آدمی کو پہچانتی ہو؟''
''اُس نے چہرے پر نقاب ڈال رکھا تھا''۔ بیوی نے کہا …… ''مگر تمہارا نقاب اُتر گیا ہے۔ میں نے تمہیں پہچان لیا ہے''…… مصلح الدین نے کچھ کہنے کی کوشش کی، مگر بیوی نے اُسے بولنے نہ دیا۔ اُس نے کہا …… ''مجھے شک ہے تم نے بیت المال کی رقم ہضم کی ہے، جس کا علم خضرالحیات کو ہوگیا تھا۔ تم نے کرائے کے قاتل سے اُسے راستے سے ہٹا دیا ہے؟''
''مجھ پر جھوٹے الزام عائد نہ کرو''…… مصلح الدین نے کہا …… ''مجھے رقم ہضم کرنے کی کا ضرورت ہے؟''
''تمہیں نہیں ، اُس فرنگن کو رقم کی ضرورت ہے، جسے تم نے نکاح کے بغیر گھر رکھا ہوا ہے''۔ بیوی نے جل کر کہا …… ''تمہیں شراب کے لیے رقم کی ضرورت ہے۔ اگر یہ الزام جھوٹا ہے تو بتائو کہ یہ چار گھوڑوں کی بگھی کہاں سے آئی ہے؟ گھر میں آئے دن ناچنے والیاں جو آتی ہیں، وہ کیا مفت آتی ہیں؟ شراب کی جو دعوتیں دی جاتی ہیں، اُن کے لیے رقم کہاں سے آتی ہے؟''
''خدا کے لیے چپ ہوجائو''۔ مصلح الدین نے غصے اورپیار کے ملے جلے لہجے میں کہا …… ''مجھے معلوم کرلینے دو ، وہ آدمی کون تھا جو یہ خطرناک چال چل گیا ہے ۔ اصل حقیقت تمہارے سامنے آ جائے گی''۔
''میں جب چپ نہیں رہ سکوں گی''۔ بیوی نے کہا …… ''تم نے میرا سینہ انتقام سے بھر دیا ہے۔ میں سارے مصر کو بتائوں گی کہ میرا خاوند قاتل ہے۔ ایک مومن کا قاتل ہے۔ تم میری محبت کے قاتل ہو۔ اس قتل کا انتقام لوں گی''۔
مصلح الدین منت سماجت کرکے اُسے چپ کرانے لگا اور اُسے قائل کر لیا کہ وہ صرف دو روز چپ رہے ، تاکہ و اس آدمی کو تلاش کرکے ثابت کرسکے کہ وہ قاتل نہیں ہے۔ اُس نے بیوی کو یہ بھی بتایا کہ غیاث بلبیس نے چند ایک مشتبہ افراد پکڑ لیے ہیں اور قاتل بہت جلدی پکڑا جائے گا
: رات گزر گئی۔ اگلا دن بھی گزر گیا۔ مصلح الدین گھر سے غائب رہا۔ اس کی دوسری بیوی یاداشتہ بھی کہیں نظر نہیں آئی۔ شام کے بعد مصلح الدین گھر آیا اور پہلی بیوی کے کمرے میں چلاگیا۔ اُس کے ساتھ پیار محبت کی باتیں کرتا رہا۔ بیوی اُس کے فریب میں نہیں آنا چاہتی تھی ، مگر پیار کے دھوکے میں آگئی۔ مصلح الدین نے اُسے کہا کہ وہ اس آدمی کو ڈھونڈرہا ہے، جو بیس اشرفیاں دے گیا تھا …… کچھ دیر بعد بیوی سو گئی۔ اُس رات مصلح الدین نے ملازموں کو چھٹی دے دی تھی۔ گھر میں ایسی خاموشی تھی جو پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ مصلح الدین بہت دیر سوئی ہوئی بیوی کے کمرے میں رہا، پھر اُٹھ کر کمرے سے نکل گیا۔
آدھی رات کا عمل تھا ۔ ایک آدمی اس گھر کی باہر والی دیوارکے ساتھ پیٹھ لگا کر کھڑا ہوگیا۔ ایک آدمی اُس نے کندھوں پر چڑھ گیا ۔ تیسرا آدمی ان دونوں کو سیڑھی بنا کر اوپر گیا اور دیوار سے لٹک کر اندرکی طرف کود گیا۔ اس نے اندر سے بڑا دروازہ کھول دیا۔ اس کے دونوں ساتھی اندر آگئے۔ اس گھر میں رکھوالی کتا ہر رات کھلا رہتا تھا، اس رات وہ بھی ڈربے میں بند تھا۔ شاید ملازم جاتے ہوئے بھول گئے تھے کہ اُسے کھلا رہناہے۔ تینوںآدمی برآمدے میں چلے گئے۔ اندھیرا گہرا تھا۔ وہ دبے پائوں چلتے گئے۔ گھپ اندھیرے میں ایک دوسرے کے پیچھے چلتے ایک نے اُس کمرے کے دروازے پر ہاتھ رکھا ، جس میں مصلح الدین کی پہلی بیوی جسے وہ فاطمہ کے نام سے بلایا کرتا تھا، سوئی ہوئی تھی۔ کواڑ کھل گیا۔ کمرہ تاریک تھا۔ تینوں آدمی اندر گئے اور اندھیرے میں ٹٹولٹے ہوئے فاطمہ کے پلنگ تک پہنچ گئے۔ ایک آدمی کا ہاتھ فاطمہ کے منہ پر لگا تو اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ سمجھی کہ مصلح الدین کا ہاتھ ہے۔ اس نے ہاتھ پکڑ لیا اور پوچھا …… ''کہا جارہے ہیں آپ؟''
اس کے جواب میں ایک آدمی نے اس کے منہ پر کپڑا رکھ کر اس کا کچھ حصہ اُس کے منہ میں ٹھونس دیا۔ فوراً بعد تینوں نے اُسے بازوئوں میں جکڑلیا۔ ایک نے منہ پر ایک اور کپڑا کس کر باندھ دیا ۔ ایک نے ایک بوری کی طرح کا تھیلا کھولا۔ دوسرے دو آدمیوں نے فاطمہ کو دہرا کرکے رسیوں سے اُس کے ہاتھ اور پائوں باندھے اور اُسے تھیلے میں ڈال کر تھیلے کا منہ بند کردیا۔ انہوں نے تھیلا اُٹھایا اور باہر نکل گئے۔ بڑے دروازے سے بھی نکل گئے۔ گھرمیں کوئی مرد ملازم نہیں تھا۔ خادمائیں بھی اس رات چھٹی پر تھیں۔ تھوڑی دور ایک درخت کے ساتھ گھوڑے بندھے ہوئے تھے۔ تینوں آدمی گھوڑوں پر سوار ہوئے۔ ایک نے تھیلا اپنے آگے رکھ لیا۔ تینوں گھوڑے قاہرہ سے نکل گئے اور سکندریہ کا رُخ کر لیا۔
صبح ملازم آگئے ۔ صلح الدین نے فاطمہ کے متعلق پوچھا ، دو خادمائوں نے اسے تلاش کرکے بتایا کہ وہ گھر میں نہیں ہے۔بہت دیر تک جب اس کا کوی سراغ نہ ملا تو مصلح الدین ایک خادمہ کو الگ لے گیا۔ بہت دیر تک اُس کے ساتھ باتیں کرتا رہا، پھر اُسے غیاث بلبیس کے پاس چلا گیا۔ اُسے کہا کہ اُس کی بیوی لاپتہ ہوگئی ہے۔ اس نے اس شک کا اظہار کیا کہ خضرالحیات کو فاطمہ نے قتل کرایا ہے اور خضر مرتے مرتے انگلی سے ''مصلح ''جو لکھا تھا ، وہ دراصل مصلح کی بیوی لکھنا چاہتا تھا، لیکن موت نے تحریر پوری نہ ہونے دی ۔ اس کے ثبوت میں اُس نے اپنی خادمہ سے کہا کہ وہ بلبیس کو اس آدمی کے متعلق بتائے۔ خادمہ نے بیان دیا کہ پرسوں شاک ایک اجنبی آیا، جس کے چہرے پر نقاب تھا۔ اُس وقت مصلح الدین گھر پر نہیں تھا۔ اُس آدمی نے دروازے پر دستک دی تو یہ خادمہ باہر گئی۔ اجنبی نے کہا کہ وہ فاطمہ سے ملنا چاہتا ہے۔ خادمہ نے کہا کہ گھر میں کوئی مرد نہیں، ال لیے وہ فاطمہ سے نہیں مل سکتا۔ اس نے کہا کہ فاطمہ سے یہ کہہ دو کہ وہ اشرفیاں واپس کرنے آیا ہے، کہتا ہے کہ میں پوری رقم لوںگا۔ خادمہ نے فاطمہ کو بتایا تو اُس نے اس آدمی کو اندر بلا لیا۔
خادمہ نے بیان میں کہا کہ فاطمہ نے اُسے برآمدے میں کھڑا رہنے کوکہا اوریہ ہدایت دی کہ کوئی آجائے تو میں اسے خبردار کردوں۔ خادمہ کمرے کے دروازے کے ساتھ کھڑ ی رہی۔ اندرکی باتیں جو اُسے سنائی دیں،ان میں اس آدمی کا غصہ اور فاطمہ کی منت سماجت تھی۔ ان باتوں سے صاف پتا چلتا تھا کہ فاطمہ نے اس آدمی سے کہا تھا کہ علی بن سفیان کے نائب حسن بن عبداللہ کو قتل کرنا ہے، جس کے عوض وہ اسے پچاس اشرفیاں اور دو ٹکڑے سونا دے گی۔ خادمہ کو یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ فاطمہ نے اس آدمی کو بیس اشرفیاں کس وقت اور کہاں بھیجی تھیں اور کون لے گیا تھا۔ وہ پوری پچاس اشرفیاں مانگ رہا تھا۔ فاطمہ اُسے کہہ رہی تھی کہ اُس نے غلط آدمی کو قتل کیاہے۔ (اسلام اور انسان تاریخ اسلام اور انسانیت پر مبنی فیسبک پیج سے آپ پڑھ رہیں ، صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ، داستان ایمان فروشوں کی)یہ نقاب
پوش اجنبی کہہ رہا تھا کہ تم نے یقین کے ساتھ بتایا تھا کہ حسن بن عبداللہ فلاں وقت خضر الحیات کے گھر جائے گا۔ وہ گھات میں بیٹھ گیا۔ اُس نے ایک آدمی کو خضر کے گھر کے دروازے کے قریب جاتے دیکھا۔ اُس کا قد بت حسن بن عبد اللہ کی طرح تھا۔ قتل کرتے وقت اتنی مہلت نہ ملی کہ شکار کو اچھی طرح دیکھ کر یقین لیا جائے۔ تم نے جو وقت بتایا تھا ، یہ وہی وقت تھا۔ میں نے تیر چلا دیا اور وہاں سے بھاگنے کی کی ۔
وہ فاطمہ سے پچاس اشرفیاں مانگ رہا تھا۔ فاطمہ نے پہلے تو منت سماجت کی ، پھر وہ بھی غصے میں آگئی اور کہا کہ اصل آدمی کو قتل کرو گے تو ان بیس اشرفیوں کے علاوہ پچاس اشرفیاں اور سونے کے دو ٹکڑے دوں گی۔ اس آدمی نے کا کہ میں نے کام کر دیا ہے، اس کی پوری اُجرت لوںگا۔ فاطمہ نے انکار کردیا۔ وہ آدمی بڑے غصے میںیہ کہہ کر چلا گیا کہ میں پوری اُجرت وصول کرلوں گا ۔ فاطمہ نے خادمہ کو سختی سے کہا کہ وہ اس آدمی کے متعلق کسی سے ذکر نہ کرے۔ اُس نے خادمہ کو دو اشرفی انعام دیا۔ آج صبح وہ اس کمرے میں گئی تو فاطمہ وہاں نہیں تھی۔ اُسے شک ہے کہ اس آدمی نے انتقاماً اسے اغوا کر لیا ہے۔
غیاث بلبیس نے کچھ سوچ کر مصلح الدین کو باہر بھیج دیا اور خادمہ سے پوچھا …… ''ٍ یہ بیان تمہیں کس نے پڑھایا ہے؟ فاطمہ یا مصلح الدین نے ؟''
''فاطمہ تو یہاں نہیں ہے''۔ اُس نے کہا …… ''یہ میرا اپنا بیان ہے''۔
''مجھے سچ بتا دو''۔ بلبیس نے کہا …… ''فاطمہ کہا ں ہے؟ وہ کس کے ساتھ گئی ہے؟'' خادمہ گھبرانے لگی۔ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکی ۔ بلبیس نے کہا …… ''کوتوالی کے تہہ خانے میں جانا چاہتی ہو؟ اب تم واپس نہیں جاسکو گی''۔
وہ غریب عورت تھی ۔ اُسے معلوم تھا کہ کوتوالی کے تہہ خانے میں جا کر سچ اور جھوٹ الگ الگ ہوجاتے ہیں اور اس سے پہلے جسم کے جوڑ بھی الگ الگ ہوجاتے ہیں۔ وہ رو پڑی اور بولی…… ''سچ کہتی ہوں تو آقا سزا دیتا ہے،جھوٹ بولتی ہوں تو آپ سزا دیتے ہیں ''…… بلبیس نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور اُسے تحفظ کا یقین دلایا۔ خادمہ نے کہا …… ''میں نے قتل کے دوسرے روز صرف اتنا دیکھا تھا کہ ایک نقاب پوش آیا تھا۔ آقا مصلح الدین گھر نہیں تھے۔ نقاب پوش نے فاطمہ کو باہر بلایا تھا۔ و ہ بڑے دروازے کے باہر اور فاطمہ اندر تھی ۔ وہ اس کے سامنے نہیں ہوئی۔ ملازموں نے اُسے دیکھا تھا، لیکن کسی نے بھی قریب جا کر نہیں سنا کہ ان کے درمیان کیا باتیں ہوئیں۔ نقاب پوش چلا گیا تو فاطمہ اندر آئی۔ اُس نے چھوٹی سی ایک تھیلی اُٹھا رکھی تھی ۔ فاطمہ کا سر جھکا ہوا تھا ۔ وہ کمرے میں چلی گئی تھی …… دوسری شام مصلح الدین نے چاروں ملازموں اور سائیس کو رات بھر کی چھٹی دے دی تھی۔ چار ملازموںمیں دو مرد اور دو عورتیں ہیں''۔
''اس سے پہلے ملازموں کو کبھی رات بھر کے لیے چھٹی دی گئی ہے؟''…… بلبیس نے پوچھا۔
''کبھی نہیں''۔ اس نے جواب دیا…… ''کوئی ایک ملازم کبھی چھٹی لے لیتا ہے ، سب کو کبھی چھٹی نہیں دی گئی''۔خادمہ نے سوچ کر کہا …… ''عجیب بات یہ ہے کہ آقا نے کہا تھا کہ آج رات کتے کو بندھا رہنے دینا۔ اس سے پہلے ہر رات کتاکھلا رکھا جاتا تھا۔ بڑا خون خوار کتا ہے۔ اجنبی کو بُو پر چیر پھاڑنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے''۔
''مصلح الدین کے تعلقات فاطمہ کے ساتھ کیسے تھے ؟''غیاث بلبیس نے پوچھا۔
''بہت کچھے ہوئے''۔ خادمہ نے بتایا…… ''آقا ایک بڑی خوبصورت اورجوان لڑکی لایا ہے جس نے آقا کو اپنا غلام بنا لیاہے۔ فاطمہ کے ساتھ آقا کی بول چال بھی بند ہے''۔
غیاث بلبیس نے خادمہ کو الگ بٹھا کر مصلح الدین کو اندر بلا لیا اور باہر نکل گیا۔ واپس آیا تو اس کے ساتھ دو سپاہی تھے۔ انہوں نے مصلح الدین کو دائیں اور بائیں بازوئوں سے پکڑلیا اور باہر لے جانے لگے۔ مصلح الدین نے بہت احتجاج کیا ۔ بلبیس یہ حکم دے کر باہر نکل گیا کہ اسے قید میںڈال دو۔ اُس نے دوسرا یہ حکم دیا کہ مصلح الدین کے گھر پر پہر ہ کھڑا کردو، کسی کو باہر نہ جانے دو۔
٭ ٭ ٭
: اُس وقت فاطمہ قاہرہ سے بہت دُور شمال کی طرف ایک ایسی جگہ پہنچ چکی تھی جہاں اِرد گِرد اونچے ٹیلے، سبزہ اور پانی بھی تھا۔ یہ جگہ عام راہِ گزر سے ہٹی ہوئی تھی۔ وہاں وہ سورج نکلنے کے وقت پہنچی تھی، گھوڑے رُک گئے ۔ اُسے تھیلے سے نکالاگیا، اُس کے منہ سے کپڑا ہٹا دیا گیا اور ہاتھ پائوں بھی کھول دئیے گئے۔ اُس کے ہوش ٹھکانے نہیں تھے۔ وہ تین نقاب پوشوں کے نرغے میں تھی۔ تین گھوڑے کھڑے تھے۔ فاطمہ چیخنے چلانے لگی۔ نقاب پوشوں نے اُسے پانی پلایا اور کچھ کھانے کو دیا۔ وہ ہاتھ نہیں آرہی تھی۔ اُس کے پیٹ میں پانی اورکھانا گیا اور تازہ ہوا لگی تو جسم میں طاقت آگئی۔ وہ اچانک اٹھی
اور دوڑ پڑی۔ تینوں بیٹھے دیکھتے رہے۔ کوئی بھی اس کے تعاقب میں نہ گیا۔ دُور جا کروہ ایک ٹیلے کی اوٹ میں چلی گیء تو ایک نقاب پوش گھوڑے پر سوارہوا۔ ایڑ لگائی اور فاطمہ کو جا لیا۔ وہ دوڑ دوڑ کر تھک گئی، لیٹ گئی۔ نقاب پوش نے اُسے اُٹھا کر گھوڑے پر ڈال لیا اور خود اس کے پیچھے سوال ہوکر واپس اپنے ساتھیوں کے پاس لے گیا۔
''بھاگو''۔ایک نے اُسے تحمل سے کہا۔ ''کہاں تک بھاگو گی۔ یہاں سے توکوئی تنومند مرد بھی بھاگ کر قاہرہ نہیں پہنچ سکتا''۔ فاطمہ روتی ،چیختی اور گالیاں دیتی تھی۔ ایک نقاب پوش نے اُسے کہا…… ''اگر ہم تمہیں قاہرہ واپس لے چلیں تو بھی تمہارے لیے کوئی پناہ نہیں ۔ تمہیں تمہارے خاوند نے ہمارے حوالے کیا ہے''۔
''یہ جھوٹ ہے''۔ فاطمہ نے چلا کر کہا ۔
''یہ سچ ہے''۔ اس نے کہا ۔ ''ہم نے تمہیں اُجرت کے طور پر لیا ہے۔ تم نے مجھے پہچانا نہیں۔ میں تمہارے ہاتھ میں بیس اشرفیوں کی تھیلی دے آیا تھا۔ تم نے خاوند نے کہہ دیا کہ تم قاتل ہو اور تم نے بے وقوفی یہ کی کہ اُسے یہ بھی کہہ دیا کہ تم کوتوال کو بتادوگی۔ وہ تم سے پہلے ہی تنگ آیاہوا تھا۔ اُس کی داشتہ نے اُس کے دل اور اس کی عقل پر قبضہ کر لیا تھا۔ میں تمہیں یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ لڑکی کون ہے اور کہاں سے آئی ہے اورکیا کرنے آئی ہے۔ دوسرے دن تمہارا خاوند ہمارے ٹھکانے پر آیا۔ ایسا بے ایمان آدمی ہے کہ اس نے ہمیں خضرالحیات کے قتل کے عوض پچاش اشرفی اور سونے کے دو ٹکڑے دینے کا وعدہ کیا تھا ، مگر کام ہوگیا تو صرف بیس اشرفی بھیجی۔ میں نے تمہیں استعمال کیا اور یہ رقم تمہارے ہاتھ میں دے دی، تا کہ تمہیں بھی اس راز کا عمل ہوجائے۔ ہمارا تیر نشانے پر بیٹھا۔ دوسرے دن وہ ہمارے ٹھکانے پر آیا اور پچاس اشرفیاں دینے لگا۔ سونے کے ٹکڑے پھر بھی ہضم کر رہاتھا۔ میرے ان ساتھیوں نے کہا کہ اب ہم بہت زیادہ اُجرت لیںگے۔ اگر وہ نہیں دے گا تو ہم کسی نہ کسی طرح کوتوال تک خبر پہنچا دیں گے۔ اسے اب خطرہ یہ نظر آرہا تھا کہ تمہیں بھی پتا چل گیا تھا کہ قاتل وہی ہے اس کا علاج اس نے یہ سوچا کہ ہمیں کہا تم میری بیوی کو اُٹھا لے جائو۔ میں تمہارے لیے راستہ صاف کردوں گا۔ ہم جان گئے کہ وہ اپنی داشتہ کے زیر اثر تم سے جان چھڑانا چاہتا ہے اور اب وہ اس لیے تمہیں غائب کرنا چاہتاتھا کہ تم اس کے جرم کی گواہ بن گئی ہو اور اُسے کہہ بھی چکی ہو کہ تم کوتوال کوخبر کردوں گی''۔
فاطمہ کے آنسو خشک ہو چکے تھے۔ وہ حیرت زدہ ہو کر اُن تینوں کو باری باری دیکھتی تھی۔ اُن کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔ یہ آنکھیں ڈرائونی اور خوفناک تھیں۔ اُن کی زبان میں مٹھاس اور اپنائیت کی جھلک ضرور تھی ۔ انہوں نے اُسے دھمکی نہیں دی ، بلکہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس کا تڑپنا، رونا اور بھاگنا بے کار ہے۔
''میں نے تمہیں دیکھا تھا''۔ نقاب پوش نے اُسے کہا …… ''جب مصلح الدین نے کاہ کہ میری بیوی کو اُجرت کے طور پر اُٹھالے جائو تو میں نے سکندریہ کی منڈی کے بھائو سے تمہاری قیمت کا اندازہ کیا۔ تم ابھی جوان ہو اور خوبصورت بھی ہو۔ تم بڑے اچھے داموں بک سکتی ہو۔ ہم مان گئے۔ اگر تمہارا خاوند ہمیں اتنی زیادہ اُجرت نہ دیتا تم ہم نے اسے بتا دیا تھا کہ اُسے زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا اور اس کی داشتہ کو اغوا کر لیا جائے گا۔ اُس نے ہمیں بتایاکہ آج رات اُس کے گھر میں کوئی ملازم نہیں ہوگا۔ کتا بھی بندھا ہوا ہواگا۔ البتہ بڑا دروازہ اندر سے بند ہوگا کہ تم دیکھ لو تو شک نہ کرو …… ہم تینوں نے ایک دوسرے کے اوپڑ کھڑے ہو کر تمہارے گھر کی دیوار پھلانگی ۔ ہم نے ہاتھوں میں خنجر لے رکھے تھے اورہم سنبھل سنبھل کر چل رہے تھے ، کیونکہ تمہارے خاوند پر بھروسہ نہیں تھا۔ وہ ہمیں مروا سکتا تھا ، لیکن ایسا نہ ہوا۔ ہمارے لیے راستہ واقعی صاف تھا ۔ تمہیں اُٹھایا اور لے آئے''۔
''اِس نے یہ کہانی تمہیں اس لیے سنائی ہے کہ تم اپنے خاوند کے گھر کو دل سے نکال دو''…… دوسرے نقاب پوش نے کہا …… ''ہم تمہیں یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ ہم تین آدمی اکیلی عورت کی مجبوری کا فائدہ نہیں اُٹھائیں گے۔ ہم بیوپاری ہیں۔ کرائے کا قتل اور اغوا ہمارا پیشہ ہے۔ ہم تمہارے جسم کے ساتھ کھیل کر خوش ہونے والے نہیں۔ تین مرد ایک عورت کو اغوا اور مجبور کرکے تفریح کریں تو یہ کوئی فخر والی بات نہیں ''۔
''تم سکندریہ کے بازار میں بیچو گے ؟''فاطمہ نے بے بسی کے لہجے میں پوچھا …… ''میری قسمت میں اب عصمت فروشی لکھی ہے؟''
''نہیں''۔ ایک نقاب پوش نے جواب دیا…… ''عصمت فروشی کے لیے جنگلی اور صحرائی لڑکیاں خریدی جاتی ہیں۔ تم حرم کی چیز ہو۔ کسی باعزت امیر کے پاس جائو گی۔ ہمیں بھی تو اچھی قیمت چاہیے۔ ہم تمہیں مٹی میں نہیں پھینکیں گے۔ تم اب رونا اور غم کرنا چھوڑ دو ، تاکہ تمہارے چہرے کی دلکشی اور رونق قائم رہے، ورنہ تم عصمت فروشی کے قابل رہ جائو گی ۔ تھوڑی دیر کے لیے سوجائو''۔
٭ ٭ ٭
یہ دیکھ کر ان لوگوں نے اس کے ساتھ کوئی بے ہودہ حرکت نہیں کی ، دست درازی نہیں کی ، فاطمہ کو کچھ سکون سا محسوس ہوا۔ رات بھیر وہ اذیت میں بھی رہی تھی ۔ تھیلے میں دہری کرکے اسے بند کیا گیاتھا، جسم درد کر رہا تھا۔ وہ لیٹی اور اس کی آنکھ لگ گئی۔ تھوڑی ہی دیر بعد اُس کی آنکھ کھل گئی۔ اُس کا دل خوف اور گھبراہٹ کی گرفت میں تھا۔ اس صورت حال کو وہ قبول نہیں کر سکتی تھی۔ اُس نے دیکھا کہ تینوں نقاب پوش سوئے ہوئے ہیں۔ وہ بھی رات بھر کے جاگے ہوئے تھے۔ فاطمہ نے پہلے تو یہ سوچا کہ کسی ایک کا خنجر نکال کر تینوں کو قتل کردے، لیکن اتنی جرأ ت نہیں کر سکی۔ تینوں کو قتل کرنا آسان نہیں تھا۔ اُس نے گھوڑے دیکھے۔ ان لوگوں نے زینیں نہیں اُتاری تھیں۔ وہ آہستہ سے اُٹھی اور دبے پائوں ایک گھوڑے تک پہنچی۔ سورج ٹیلوں کے پیچھے جاتا رہا تھا اور فاطمہ کو معلوم ہی نہ تھا کہ وہ قاہرہ سے کسی طرف اور کتنی دورہے۔ اس نے یہ خطرہ مول لے لیا اور صحرا کی وسعت میں بھٹک بھٹک کر مرجائے گی ، ان لوگوں کے ہاتھوں سے ضرور نکلے گی۔
اُسے نے گھوڑے پرسوارہوتے ہی ایڑ لگا دی ۔ ٹاپوئوں نے نقاب پوش کو جگادیا۔ انہوں نے فاطمہ کو ٹیلے کی اوٹ میں جاتے دیکھ لیا تھا۔ دو نقاب پوش گھوڑوں پر سوار ہوئے اور تعاقب میں گھوڑے سرپت بھگا دئیے۔ فاطمہ کے لیے مشکل یہ تھی کہ اُسے ٹیلوں کے قید خانے سے نکلنے کا راستہ معلوم نہیں تھا ۔ صحرائی ٹیلے بھول بھلیوں جیسے ہوتے ہیں ۔ صرف صحرا کے بھیدی ان سے واقف ہوتے ہیں۔ فاطمہ ایسے رُخ ہولی جہاں آگے ایک اور ٹیلے نے راستہ روک رکھا تھا۔اُس نے وہاں جا کر پیچھے دیکھا تو نقاب پوش تیزی سے اس کے قریب آرہے تھے۔ اس نے گھوڑے کو ٹیلے پر چڑھایا اور ایڑ مارتی گئی، گھوڑا اچھا تھا۔ اوپر جا کر پرے اُتر گیا۔ وہ ایک طرف کو گھوڑا موڑ لے گئی۔ آگے راستہ مل گیا۔ نقاب پوش بھی پہنچ گئے۔ فاصلہ کم ہو رہا تھا۔ فاطمہ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا، جب اُس نے اپنے سامنے سمندر کی طرح کھلا صحرا اور چار شتر سوار اپنی سمت آتے دیکھے۔ اُس نے چلانا شروع کر دیا …… ''بچائو ، ڈاکوئوں سے بچائو''…… وہ اُن تک پہنچ گئی۔
اُس کے پیچھے دونوں نقاب پوشوں کے گھوڑے باہر آئے۔ شتر سواروں کو دیکھ کر انہوں نے گھوڑوں کی باگیں کھینچیں اور گھوڑے موڑے بھی۔ شتر سواروں نے اونٹ دوڑادئیے۔ ایک نے کمان میں تیر رکھ کر چھوڑا تو تیر ایک گھوڑے کی گردن میں اُتر گیا ۔ گھوڑا درد سے تڑپا، اُچھلا اور بے قابو ہوگیا۔ سوار کود گیا۔ شتر سواروں نے انہیں للکارا تو دوسرے نے گھوڑا روک لیا۔ انہیں معلوم تھا کہ چار شتر سوار تیر اندازوں کی زد میں ہیں۔ فاطمہ نے انہیں بتایا کہ ان کا ایک ساتھی اندرہے۔ ان دونوںکو پکڑ لیا گیا…… یہ چاروں سلطان ایوبی کی فوج کے کسی کشتی دستے کے سپاہی تھے۔ سلطان ایوبی نے سارے صحرا میں کشتی پہرے کا انتظام کر رکھا تھا ، تا کہ اچانک حملے کا خطرہ نہ رہے اور صلیبی تخریب کار مصر میں داخل نہ ہو سکیں۔ ان گشتی دستوں کا بہت فائدہ تھا۔ انہوں نے کئی مشتبہ لوگ پکڑے تھے۔ اب یہ نقاب پوش اُن کے پھندے میں آگئے ۔ فاطمہ نے انہیں بتایا کہ اُسے کس طرح یہاں تک لایا گیا ہے ، وہ کس کی بیوی ہے۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ ناظم مالیات خضرالحیات قتل ہوگیا ہے۔ قتل اس کے خاوند مصلح الدین نے کرایا ہے ، جو شہر کا ناظم ہے اور قاتل ان تینوں میں سے ایک ہے۔
تیسرے نقاب پوش کو بھی پکڑ لیا گیا۔ اُن سے خنجر لے لیے گئے۔ ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ دئیے گئے۔ ان کاایک گھوڑا تیر لگنے سے بھاگ گیا تھا۔ ایک گھوڑے پر دو نقاب پوشوں کو اور تیسرے پر ایک کو بٹھا کر سپاہی اپنے کمانڈر کے پاس لے چلے۔ فاطمہ کو انہوں نے اونٹ پر بٹھالیا۔ اس اونٹ کا سوار اپنے ایک ساتھی کے پیچھے سوار ہوگیا۔ اس قافلے کے سامنے چار میل کی مسافت تھی جو انہوں نے سورج غروب ہونے تک طے کرلی۔ وہ ایک نخلستان تھا ، جہاں خیمے بھی نصب تھے۔ یہ اس دستے کا ہیڈ کواٹر تھا۔ فاطمہ کو اس کمان دار کے سامنے پیش کیا گیا۔ تینوں نقاب پوشوں کو پہرے میں بٹھا دیا گیا ۔ انہیں اگلے روز قاہرہ بھیجنا تھا۔
٭ ٭ ٭
صلیبیوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ کرک میں بیٹھے بیٹھے صلاح الدین ایوبی کا انتظار نہیں کریں گے۔ انہوں نے فوج کو تقسیم کرنا شروع کردیا۔ فرانس کی فوج کو انہوں نے سلطان ایوبی کی فوج کو راستے میں روکنے کے لیے تیاری کا حکم دیا ۔ ریمانڈ کی فوج مسلمانوں کی فوج پر عقب سے حملے کے لیے مقرر ہوئی۔ کرک کے قلعے کے دفاع کے لیے جرمنی کی فوج تھی، جس کے ساتھ فرانس اور انگلستان کے کچھ دستے تھے۔ انہیں جاسوسوں نے بتا دیا تھا کہ سلطان ایوبی نئی فوج تیار کر رہا ہے۔ صلیبی حکمرانوں نے اس اقدام کا جائزہ لیا کہ وہ صلاح الدین ایوبی کے ٹریننگ کیمپ پر حملہ کرکے پیچھے ہٹ آئیں، لیکن اُن کی انٹیلی جنس نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ دلیل یہ دی کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے دفاع کی تین تہیں بنا رکھی ہیں، جن میں ایک تہہ متحرک ہے۔ اس کے علاوہ اس کے دیکھ بھال کے دستے دور دورتک گھومتے پھرتے ہیں اور صحرا میںہلتی ہوئی ہر چیز کو قریب جا کر دیکھتے ہیں۔ ان دفاعی انتظامات کو دیکھ کر صلیبیوں نے اس حملے کا خیال دل سے نکال دیا۔
ایک امرکی مصنف انٹینی ویسٹ نے متعدد مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ صلیبیوں کے پاس صلاح الدین ایوبی کی نسبت چار گناہ فوج تھی، جس میں زرہ پوش پیادہ اور سوار دستوں کی بہتات تھی۔ اگر یہ فوج صلاح الدین ایوبی پر براہِ راست حملہ کردیتی تو مسلمان زیادہ دیر جم نہ سکتے ، مگر صلیبی فوج کو شوبک کی شکست میں جو نقصان اُٹھانا پڑا، اس کی ایک دہشت بھی تھی جو میدانِ جنگ سے بھاگے ہوئے فوجیوں پر طاری تھی۔ صلیبیوں کامورال متز لزل تھا، جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ شوبک کو وہ لوہے کا قلعہ سمجھتے تھے۔ وہ اپنی فوج کو صحرا میں بھیج کر اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ سلطان ایوبی کو قلعوں سے دور ہی ختم کردیں گے۔ وہ کرک کے دفاع میں بیٹھے رہے اور ایوبی نے شوبک نے لیا اور صحرا میں صلیبیوں کو آمنے سامنے کی جنگ کا موقع دئیے بغیر انہیں چھاپہ ماروں سے مروا دیا ۔ اس کی ''آگ کی ہانڈیوں'' نے گھوڑوں اور اونٹوں کو اتنا دہشت زدہ کیا کہ خاصے عرصے تک جانور معمولی سی آگ دیکھ کر بھی بدک جاتے تھے۔ انٹینی ویسٹ نے یہ ثبوت بھی مہیا کیا ہے کہ صلیبی فوج مختلف بادشاہوں اور ملکوں کی مرکب تھی جوبظاہر متحد تھی ، لیکن یہ اتحاد برائے نام تھا کیونکہ ہر بادشاہ او اس کی فوج کا اعلیٰ کمانڈر ملک گیری اور بادشاہی کی توسیع کا خواہش مند تھا۔ ان میں صرف یہ جذبہ مشترکہ تھا کہ مسلمان کو ختم کرنا ہے، مگر ان کے دلوں میں جو اختلافات تھے، وہ اُن کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے تھے۔
: مورج لکھتے ہیں کہ صلیبی سازشوں کے ماہر تھے اور مسلمانوں کے جس علاقے پر قابض ہوجاتے تھے، وہاںقتل عام اور آبروریزی شروع کردیتے تھے۔ اس کے برعکس صلاح الدین ایوبی محبت اور اخلاقی قدروں کو ایسی خوبی سے استعمال کرتا تھا کہ دشمن بھی اس کے گرویدہ ہوجاتے تھے۔ اس کے علاوہ اُس نے اپنی فوج میں یہ خوبی پیدا کردی تھی کہ دس سپاہیوںکا چھاپہ مار دستہ ایک ہزار نفری کے فوجی کیمپ کو تہس نہس کرکے غائب ہوجاتا تھا۔ یہ لوگ جان قربان کرنے کو معمولی سی قربانی سمجھتے تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی جس اندازسے میدانِ جنگ میں تھوڑی سی فوج کو ترتیب دیتا تھا ، وہ بڑی سے بڑی فوج کو بھی بے بس کردیتی تھی۔ شوبک اور کرک کے میدان میں بھی اس نے اسی جنگی دانشمندی کامظاہرہ کیا تھا۔ صلیبیوں نے اس کا جائزہ لیا، اپنی فوج کی جسمانی اور جذباتی کیفیت دیکھی تو انہوں نے براہ راست حملے کا خیال چھوڑ دیا اور کوئی دوسرا ڈھونگ لیا، لیکن اس ڈھنگ کے متعلق بھی انہیں شک تھا۔ اس کاعلاج انہوں نے یہ کیا کہ مصر میں بغاوت بھڑکانے اور سوڈانیوں کو مصر پر حملہ کرنے پر اُکسانے کا اہتمام کرلیا۔
مصر کے نائب ناظم امور شہری مصلح الدین کی طرف سے انہیں اُمید افزا رپورٹیں مل رہی تھیں، وہاں ابھی یہ اطلاع نہیں پہنچی تھی کہ مصر کا ناظم خضرالحیات قتل ہوگیا ہے اور مصلح الدین پکڑا گیا ہے۔ کرک تک یہ اطلاع پہنچنے کے لیے کم از کم پندرہ دن درکار تھے، کیونکہ راستے میں سلطان صلاح الدین کی فوج تھی۔ قاصد بہت دُور کا چکر کاٹ کر اور قدم پھونک پھونک کر کر ک جاسکتے تھے۔ بہت دنوں کا چلا ہواایک قاصد اُس رات وہاںپہنچا ، جس رات فاطمہ اغوا ہوئی تھی۔ اُس نے رپورٹ دی کہ بغاوت کے لیے فضا سازگار ہے، لیکن سوڈانی ابھی حملے کے لیے تیار نہیںہیں۔ ن کے ہاں گھوڑوں کی کمی ہے، ان کے پاس اونٹ زیادہ ہیں۔ انہیں کم و بیش پانچ سو اچھے گھوڑوں کی ضرورت ہے۔ اتنی ہی زینیں درکار ہیں۔ فرانسیسی فوج کے کمانڈر نے کہا کہ پانچ سو گھوڑے فوراً روانہ کر دئیے جائیں اور ان کے ساتھ صلیبی فوج کے پانچ سات افسروں کو بھی بھیج دیا جائے جو سوڈانیوں کی جنگی اہلیت اور کیفیت کا جائزہ لے کرحملہ کرائیں۔
صلیبیوں کے پاس گھوڑوں کی کمی تھی ۔ انہوں نے کرک میں اعلان کردیاکہ مصر پر حملے کے لیے پانچ سو گھوڑوں کی فوری ضرورت ہے۔ عیسائی باشندوں نے تین دنوں میں گھوڑے مہیا کردئیے جو ایسے راستے سے روانہکر دئیے گئے، جس کے متعلق یقین تھا کہ پکڑے نہیں جائیں گے۔ اس کا راہنما وہی جاسوس تھا جو گھوڑے مانگنے آیاتھا۔ وہ سوڈانی تھا اور تین سال سے جاسوسی کر رہا تھا۔ ان گھوڑوں کے ساتھ آٹھ صلیبی فوج کے افسر تھے، جنہیں سوڈانے حملے کی قیادت کرنی تھی۔ انہیں یقین دلایا گیاتھا کہ صلاح الدین ایوبی کی فوج کویہاں سے نکلنے نہیں دیاجائے گا…… سلطان صلاح الدین ایوبی کو صرف یہ معلوم تھا کہ مصر کے حالات ٹھیک نہیں ، لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ حالات آتش فشاں پہاڑ بن چکے ہیں جو پھٹنے والا ہے۔ علی بن سفیان نے اسے یہ تسلی دے رکھی تھی کہ اُس نے جاسوسی کا جو جال بچھایا ہے، وہ خطروں سے قبل از وقت خبردار کردے گا۔ انہیں خضرالحیات کے قتل اور مصلح الدین کی گرفتاری کا بھی علم نہیں تھا۔ غیاث بلبیس کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو اطلاع بجھوادے ، لیکن اُس نے یہ کہہ کر اس مشورے پر عمل نہیں کیا تھا کہ تفتیش مکمل کرکے اصل صورت حال سے سلطان ایوبی کو آگاہ کرے گا۔
فاطمہ کو گشتی دستے کے کمانڈر نے رات الگ خیمے میں رکھا۔ سحر کا دُھندلگا ابھی صاف نہیں ہوا تھا۔ اب اُسے اور تینوں نقاب پوشوں کو آٹھ محافظوں کے ساتھ قاہرہ کے لیے روانہ کر دیا گیا۔ یہ قافلہ سورج غروب ہونے کے بعد قاہرہ پہنچا اور سیدھا کوتوالی گیا۔ غیاث بلبیس اس واردات کی تفتیش میں مصروف تھا۔ اُس وقت وہ تہہ خانے میں تھا۔ اُس نے مصلح الدین کے گھر کے تلاشی لی اور وہاں سے اُس کی داشتہ کر برآمد یاتھا۔ وہ اپنے آپ کو ازبک مسلمان بتاتی تھی۔ اُس نے بلبیس کو گمراہ کرنے کی بہت کوشش کی۔ اس کے جواب میں بلبیس نے اُسے اُس کوٹھری کی جھلک دکھائی ، جہاں بڑے بڑے سخت جان مرد بھی سینے کے راز اُگل دیا کرتے تھے۔ لڑکی نے اعتراف کرلیا کہ وہ یروشلم سے آئی ہے اورعیسائی ہے۔ اُس نے اعتراف کے ساتھ بلبیس کو اپنے جسم اوردولت کے لالچ دینے شروع کردئیے۔ بلبیس نے مصلح الدین کے گھرکی تلاشی میں جو دولت برآمد کی تھی، اس نے اُس کا دماغ ہلا دیا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ مصلح الدین کیوں صلیبیوں کے جال میں پھنس گیا تھا۔ خود لڑکی اس قدر پر کشش اورچرب زبان تھی کہ اُسے ٹھکرانے کے لیے پتھر دل کی ضرورت تھی۔
بلبیس نے اپنا ایمانت ٹھکانے رکھا۔ اُس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ تو کوئی بہت بڑی سازش تھی جس کی کڑیاں یروشلم سے جا ملتی ہیں۔ اُس نے لڑکی سے کہاکہ وہ ہر ایک بات بتا دے۔ لڑکی نے جواب میں کہا …… ''فا طمہ کو گشتی دستے کے کمانڈر نے رات الگ خیمے میں رکھا۔ سحر کا دُھندلگا ابھی صاف نہیں ہوا تھا۔ اب اُسے اور تینوں نقاب پوشوں کو آٹھ محافظوں کے ساتھ قاہرہ کے لیے روانہ کر دیا گیا۔ یہ قافلہ سورج غروب ہونے کے بعد قاہرہ پہنچا اور سیدھا کوتوالی گیا۔ غیاث بلبیس اس واردات کی تفتیش میں مصروف تھا۔ اُس وقت وہ تہہ خانے میں تھا۔ اُس نے مصلح الدین کے گھر کے تلاشی لی اور وہاں سے اُس کی داشتہ کر برآمد یاتھا۔ وہ اپنے آپ کو ازبک مسلمان بتاتی تھی۔ اُس نے بلبیس کو گمراہ کرنے کی بہت کوشش کی۔ اس کے جواب میں بلبیس نے اُسے اُس کوٹھری کی جھلک دکھائی ، جہاں بڑے بڑے سخت جان مرد بھی سینے کے راز اُگل دیا کرتے تھے۔ لڑکی نے اعتراف کرلیا کہ وہ یروشلم سے آئی ہے اورعیسائی ہے۔ اُس نے اعتراف کے ساتھ بلبیس کو اپنے جسم اوردولت کے لالچ دینے شروع کردئیے۔ بلبیس نے مصلح الدین کے گھرکی تلاشی میں جو دولت برآمد کی تھی، اس نے اُس کا دماغ ہلا دیا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ مصلح الدین کیوں صلیبیوں کے جال میں پھنس گیا تھا۔ خود لڑکی اس قدر پر کشش اورچرب زبان تھی کہ اُسے ٹھکرانے کے لیے پتھر دل کی ضرورت تھی۔
بلبیس نے اپنا ایمانت ٹھکانے رکھا۔ اُس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ تو کوئی بہت بڑی سازش تھی جس کی کڑیاں یروشلم سے جا ملتی ہیں۔ اُس نے لڑکی سے کہاکہ وہ ہر ایک بات بتا دے۔ لڑکی نے جواب میں کہا …… ''میں جو کچھ بتا سکتی تھی ، بتا دیا ہے۔ اس سے آگے کچھ بتائوں گی تو یہ صلیب کے ساتھ دھوکا ہوگا۔ میں صلیب پر ہاتھ رکھ کر حلف اُٹھا چکی ہوں کہ اپنے فرض کی ادائیگی میں جان دے دوں گی۔ میرے سا تھ جو سلوک کرنا چاہو کرلو، کچھ نہیںبتائوں گی۔ اگر مجھے آزاد کرکے یروشلم یاکرک پہنچا دو گے تو منہ مانگی دولت تمہارے قدموں میں رکھ دی جائے گی۔ مصلح الدین تمہاری قید میں ہے۔ اس سے پوچھ لو، وہ تمہارا بھائی ہے۔ شاید کچھ بتا دے''۔
بلبیس نے اُس سے مزید کچھ بھی نہ پوچھا۔ وہ مصلح الدین کے پاس چلا گیا۔ مصلح الدین بڑی بری حالت میں تھا۔ اسے چھت کے ساتھ اس طرح لٹکایا گیا تھا کہ رسہ کلائیوں سے بندھا تھا اوراس کے پائوں فرش سے اوپر تھے۔ بلبیس نے جاتے ہی اُس سے پوچھا …… ''مصلح دوست! جو پوچھتا ہوں ، بتادو۔ تمہاری بیوی کہاں ہے؟ اور اسے کس سے اغوا کرایا ہے؟ اب تمہیں کچھ اور باتیں بھی بتانی پڑیں گی۔ تمہاری داشتہ اپنے آپ کو بے نقاب کرچکی ہے''۔
''کھول دے مجھے ذلیل انسان!''…… مصلح الدین نے غصے اور درد سے دانت پیس کر کہا …… ''امیر مصر کو آنے دے۔ میں تیرا یہی حشر کرائوں گا''۔
اتنے میں بلبیس کے ایک اہل کار نے آکر اس کے کان میں کچھ کہا۔ حیرت سے اُس کی آنکھیں ٹھہر گئیں۔ وہ دوڑتا ہوا تہ خانے سے نکلا اور اوپر چلا گیا۔ وہاں مصلح الدین کی بیوی اور اُسے اغوا کرنے والے تین آدمی بیٹھے تھے۔ فاطمہ نے اُسے بتایا کہ وہ کس طرح اغوا ہوئی اور تینوں کس طرح پکڑے گئے ہیں۔ بلبیس فاطمہ اور تین مجرموں کو تہ خانے میں لے گیااور مصلح الدین کے سامنے جا کھڑا کیا۔ مصلح الدین نے انہیں دیکھا اور آنکھیں بند کرلیں۔ بلبیس نے
پوچھا …… ''ان تینوں میں سے قاتل کون ہے؟''…… مصلح الدین خاموش رہا۔ بلبیس نے تین دفعہ پوچھا۔ وہ پھربھی خاموش رہا۔ بلبیس نے تہ خانے کے ایک آدمی کواشارہ کیا۔ وہ آدمی آگے گیا اور مصلح الدین کی کمر کے گرد بازو ڈال کراس کے ساتھ لٹک گیا۔ اس آدمی کاوزن مصلح الدین کی کلائیاں کاٹنے لگا جو رسے سے بندھے ہوئی تھیں۔ اُس نے درد سے چیختے ہوئے کہا …… ''درمیان والا''۔
بلبیس تینوں کو الگ لے گیا اور انہیں کہا کہ وہ بتادیں کو وہ کون ہیں اور یہ سارا سلسلہ کیا ہے، ورنہ یہاں سے زندہ نہیں نکل سکیں گے۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور بولنے پر رضا مند ہوگئے۔ بلبیس نے انہیں الگ الگ کر دیا اور فاطمہ کو اوپر لے گیا۔ فاطمہ نے اُسے وہی بات سنائی جو سنائی جا چکی ہے۔ اُس نے اپنے متعلق یہ بتایا کہ اس کی ماں سوڈانی اورباپ مصر ی ہے۔ تین سال گزرے، وہ اپنے باپ کے ساتھ مصر آئی۔ مصلح الدین نے اُسے دیکھ لیا اور اس کے باپ کے پاس آدمی بھیجے۔ اسے یہ معلوم نہیں کہ رقم کتنی طے ہوئی۔ اب اسے مصلح الدین کے گھر چھوڑا گیا اور ایک تھیلی لے کر چلا گیا۔ مصلح الدین نے ایک عالم اور چند ایک آدمیوں کو بلا کرباقاعدہ نکاح پڑھوایا اور وہ اس کی بیوی بن گئی۔ اُسے شک تھاکہ باپ اُسے یہاں بیچنے کے لیے ہی لایاتھا۔ مصلح الدین کے خلاف اُسے کبھی بھی شک نہیں ہوا تھا کہ وہ اتنا برا آدمی ہے۔ وہ شراب نہیں پیتا تھا۔ اس کی باہر کی سرگرمیوں کے متعلق فاطمہ کو کچھ بھی معلوم نہیں
: لدین ایوبی نے شوبک کی طرف کوچ کیا تواس کے فوراً بعد مصلح الدین میں ایک تبدیلی آئی ۔ وہ رات بہت دیر تک باہر رہنے لگا۔ ایک رات فاطمہ نے دیکھا کہ وہ شراب پی کر آیاہے۔ فاطمہ کا باپ شرابی تھا۔ وہ شراب کی بواور شرابی کو پہچان سکتی تھی ۔ اُس نے مصلح الدین کی محبت کی خاطر یہ بھی برداشت کیا۔ پھر گھر میں رات کے وقت اجنبی سے آدمی آنے لگے۔
٭ ٭ ٭
جاری ھے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں