داستان ایمان فروشوں کی
پانچواں حصہ : لڑکی جو فلسطین سے آئی تهی
قسط نمبر # 31
میرا علاج ہوچکا ''…… العاضد نے کہا ……''میرا ایک پیغام غور سے سن لو ۔ صلاح الدین کو لفظ بہ لفظ پہنچا دینا ۔ میری نبض سے ہاتھ ہٹا لو ۔ میںاب دنیا کی حکمت اور تمہاری دوائیوں سے بے نیاز ہوچکا ہوں ۔ سنو طبیب ! صلاح الدین نے کہنا کہ میںتمہارا دشمن نہ تھا ۔ میں تمہارے دشمنوںکے جال میں آگیاتھا ۔ یہ بدقسمتی میر ی ہے یا صلاح الدین کی کہ میں اپنے گناہوں کا اعتراف اس وقت کر رہا ہوں ۔ جب میں ایک گھڑی کا مہمان ہوں …… صلاح الدین سے کہنا کہ میرے دل میں ہمیشہ تمہاری محبت رہی ہے اور تمہاری محبت کو ہی دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو رہا ہوں ۔ میرا جرم یہ ہے کہ میں زرو جواہرات اور حکمرانی کی محبت بھی اپنے دل میں پیدا کرلی ۔ جو اسلام کے احترام پر غالب آگئی۔ آج سب نشے اُتر گئے ہیں۔ وہ لوگ جو میرے پائوں میں بیٹھا کرتے تھے ، وہ بیگانے ہوگئے ہیں ۔ وہ لونڈیاں بھی میرے مرنے کی منتظر ہیں جو میرے اشاروں پر ناچا کرتی تھیں ۔ میرے دربار میں عریاں رقص کرنے والی لڑکیاں مجھے نفرت کی نگاہوں سے دیکھتی ہیں …… انسان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ انسان کسی انسان کے گناہوں کابوجھ اُٹھا سکتا ۔ ان کم بختوں نے مجھے خدا بنا ڈالا مگر آج جب حقیقی خدا کا بلاواآیا ہے تو مجھ پر یہ حقیقت روشن ہوئی ہے ''۔
''میں نے اس کو نجات کاذریعہ سمجھا ہے کہ اپنے گناہوںکااعتراف کر لوں اور صلاح الدین کو ایسے خطروں سے خبردار کرتاجائوں جن سے شاید وہ واق نہیں ۔ اسے کہنا کہ میرے محافظ دستے کا سالار رجب زندہ ہے اور سوڈان میں کہیں روپوش ہے ۔ وہ مجھے بتا کر گیا تھا کہ فاطمی خلافت کی بحالی کے لیے سوڈانیوں اور قابل اعتماد مصریوں کی فوج تیار کرے گا اور وو صلیبیوں سے جنگی اور مالی امداد لے گا …… صلاح الدین سے کہنا کہ اپنے محافظ دستے پر نظر رکھے ۔ اکیلا باہر نہ جائے ۔ رات کو زیادہ محتاط رہے کیونکہ رجب نے فدائیوں کے ساتھ ایوبی کے قتل کا منصوبہ بنالیاہے ۔ اسے کہنا کہ مصر تمہارے لیے آگ اُگلنے والا پہاڑ ہے۔ تم جنہیں دوست سمجھتے ہو وہ بھی تمہارے دشمن ہیںاور وہ جو تمہاری آواز کے ساتھ آواز ملا کر وسیع سلطنت اسلامیہ کے نعرے لگاتے ہیں ، میں صلیبیوں کے پالے ہوئے سانپ موجود ہیں ''۔
''تمہارے جنگی شعبے میں فیض الفاطمی بڑا حاکم ہے مگر تم نہیں جانتے کہ وہ تمہارے مخالفین میں سے ہے۔ وہ رجب کا دست راست ہے۔ تمہاری فوج میں ترک، شامی اور دوسرے عربی نسل کے جو کماندار اور سپاہی ہیں ان کے سوا کسی پر بھررسہ نہ کرنا ۔ یہ سب تمہارے وفادار اور اسلام کے محافظ ہیں ۔ مصری فوجیوں میں قابل اعتماد بھی ہیں اور بے وفا بھی ۔ تم نہیں جانتے کہ تم نے جب سوڈانی لشکر پر فیصلہ کن حملہ کیاتھا تو حملہ آور دستوں میں دو دستوں کے کماندار تمہاری چال کو ناکام کرنے کرنے لیے تمہاری ہدایات اور احکام پر غلط عمل کرنا چاہتے تھے لیکن تمہارے ترک اور عرب سپاہیوں میں جوش اور جذبہ ایسا تھا کہ اپنے کماندار کے حکم کا انتظار کیے بغیر وہ سوڈانیوں پر قہر بن کر ٹوٹے ، ورنہ یہ دو کماندار جگن کا پانسہ پلٹ کر تمہیں ناکام کردیتے ''۔
العاضد مری مری آواز میں رُک رُک کر بولتا رہا۔ طبیب نے اسے ایک دو مرتبہ بولنے سے روکا تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے چپ کرادیا ۔ اس کے چہرے پر پسینہ اس طرح آگیا تھاجیسے کسی نے پانی چھڑک دیا ہو۔ دونوں عورتوں نے اس کا پسینہ پونچھا لیکن پسینہ چشمے کی طرح پھوٹتا آرہا تھا۔اس نے چند ایک اور انتظامیہ اور فوج کے حکام کے نام بتائے جو سلطان ایوبی کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ ان میں سے زیادہ خطرناک فدائی تھے جن کا پیشہ پُر اسرار قتل تھا ۔ وہ اس فن کے ماہر تھے۔ العاضد نے مصر میں صلیبیوں کے اثر و رسوخ کی بھی تفصیل سنائی اور کہا ……''انہیںمسلماننہ سمجھنا ۔ یہ ایمان فروخت کر چکے ہیں …… صلاح الدین سے کہنا کہ اللہ تمہیں کامیاب کرے اور سرخرو کرے ، لیکن یہ یاد رکھنا کہ ایک تو وہ لوگ ہیں جو چوری چھپے تمہیں دھوکہ دے رہے ہیں اور دوسرے وہ لگو ہیں جو خوشامد سے تمہیں خدا کے بعد کا درجہ دے دیں گ۔ یہ ان لوگوں سے زیادہ خطرناک ہیں جو چوری چھپے دھوکو دیتے ہیں …… سے کہنا کہ دشمنوں کو زیر کر کے جب تم اطمینان سے حکومت کی گدی پر بیٹھو گے تو میری طرح دونوں جہاں کے بادشاہ نہ بن جانا ۔ سدا بادشاہی اللہ کی ہے۔ اسی مصر میں فرعونوں کے کھنڈر دیکھ لو ۔ میرا انجام دیکھ لو ۔ اپنے آپ کو اس انجام سے بچانا ''۔
اس کی زبان لڑکھڑانے لگی ۔ اس کے چہرے پر جہاں کاکرب کاتاثر تھا ۔ وہاں سکون سا بھی نظر آنے لگا ۔ اس نے بولنے کی کوشش کی مگر حلق سے خراٹے سے نکلے ۔ اس کا سر ایک طرف لڑھک گیا اور وہ ہمیشہ کے لیے خاموش گیا۔ واقعہ ستمبر ١١٧١ء کا ہے ۔
طبیب نے سلطان ایوبی کو اطلاع بجھوائی ۔ محل میں العاضد کی موت کی خبر پھیل گئی ۔ محل کے کسی گوشے سے رونا تو دورکی بات ہے ہلکی سی سسکی بھی نہ سنائی دی ۔ صرف ان دو عورتوں کے آنسو بہہ رہے تھے ۔ جو آخری وقت اس کے پاس تھیں …… سلطان ایوبی چند ایک حکام کے ساتھ فوراً محل میں آگیا۔ اس نے دیکھا کہ وہاں برآمدوںاور غلام گردشوں میںکچھ سرگرمی سی تھی ۔ اسے شک ہوا۔ اس نے محافظ دستے کے کماندار کو بلا کر حکم دیاکہ محل کے تمام کمروں میں گھوم جائو۔ تمام مردوں ، عورتوں اور لڑکیوں کوکمروں سے نکا ل کر باہر صحن میںبٹھا دو اور کسی کو باہر نہ جانے دو ۔ کسی کو کیسی ہی ضرورت کیوں نہ ہو ، اصطبل سے کوئی گھوڑا نہ کھولے ۔سلطان ایوبی نے محل پر قبضہ کرنے کا حکم دیا ۔ اس نے عجیب چیز یہ دیکھی کہ العاضد جو اپنے آپ کو بادشاہ بنائے بیٹھا تھا اور جس نے شراب اور عورت کو ہی زندگی جانا تھا ، اس کی میت پر رونے والا کوئی نہ تھا۔ محل مردوں اور عورتوں سے بھراپڑا تھا ۔ مگر کسی کے چہرے پر اداسی کا تاثر بھی نہیں تھا۔
طبیب سلطان ایوبی کو الگ لے گیا اور اسے العاضد کی آخری باتیں سنائیں۔ اس نے اپنی رائے ان الفاظ میں دی کہ آپ کو آخری وقت میںاس کے بلاوے پر آجانا چاہیے تھا ۔ سلطان ایوبی نے اسے بتایا کہ وہ اس خدشے کے پیشِ نظر نہیں آیاکہ اس شخص کا کچھ بھروسہ نہ تھا اوردوسری وجہ یہ تھی کہ اسے ایمان فروشوں سے نفرت تھی مگر اب طبیب کی زبانی العاضد کا آخری پیغام سن کر سلطان ایوبی کو سخت پچھتاوا ہونے لگا تھا ۔ وہ بہت بے چین ہوگیا تھا اور اس نے کہا ……''اگر میں آجاتا تو اس کے منہ سے کچھ اور راز کی باتیں نکلوا لیتا ۔ وہ کوئی راز سینے میں نہ لے گیا ہو ''۔
متعدد مورخین نے اپنی تحریروں میں لکھا ہے کہ العاضد بے شک عیاش اور گمراہ تھا ، اس نے سلطان ایوبی کے خلاف سازشوںکی پشت پناہی بھی کی لیکن اس کے دل میں سلطان ایوبی کی محبت بہت تھی ۔ دو مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر سلطان ایوبی العاضد کے بلاوے پرچلا جاتا تو العاضد اسے اوربھی بہت سی باتیں بتاتا۔ بہرحال تاریخ ثابت کرتی ہے کہ العاضد کے بلاوے میںکوئی فریب نہ تھا ۔ اس نے اپنی روح کی نجات کے لیے اور سلطان ایوبی کی محبت کے لیے گناہوں کی بخشش مانگنے کا یہ طریقہ اختیار کیا تھا ۔ بہت مدت تک سلطان ایوبی تاسف میںرہ گیا کہہ وہ آخری وقت العاضد کی باتیں نہ سن سکا ۔بعد میں ان تمام افراد کے خلاف الزامات صحیح ثابت ہوئے تھے جن کی العاضد نے نشاندہی کی تھی ۔
سلطان ایوبی نے ان تمام افراد کے نام علی بن سفیان کو دے کرحکم دیا کہ ان سب کے ساتھ اپنے جاسوس اور سراغرساں لگا دو لیکن کسی کم مکمل شہادت اور ثبوت کے بغیر گرفتار نہ کرنا ۔ ایسے طریقے اختیار کرو کہ وہ عین موقعہ پر پکڑے جائیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی کے ساتھ بے انصافی ہوجائے ۔ یہ احکام دے کر اس نے تہجیز و تکفن کے انتظامات کرائے۔ اسی شام العاضد عام قبرستا ن میں دفن کر دیا گیا جہاںتھوڑے ہی عرصے بعد قبر کا نام و نشان مٹ گیا ۔ سلطان ایوبی نے محل کی تلاشی لی ۔ وہاںسے اس قدر سونا ، جواہرت اور بیش قیمت تحائف نکلے کہ سلطان ایوبی حیران رہ گیا ۔ اس نے حرم کی تمام عورتوں اور جوان لڑکیوں کوعلی بن سفیان کے حوالے کر دیا اور حکم دیا کہ معلوم کروکون کہاں کی رہنے والی ہے۔ ان میں سے جو اپنے گھروں کو جانا چاہتی ہیں انہیں اپنی نگرانی میں گھروں تک پہنچا دو اور ان میں جو غیر مسلم اور فرنگی ہیں ان کے متعلق پوری طرح چھان بین کرکے معلوم کرو کو وہ کہاں سے آئی تھیں اور ان میں مشتبہ کون کون سی ہیں ۔ مشتبہ کو آزاد نہ کیاجائے بلکہ اس سے معلومات حاصل کی جائیں۔
سلطان ایوبی نے محل سے برآمد ہونے والا مال و دولت ان تعلیمی اداروں ، مدرسوں اور ہسپتالوں میں تقسیم کر دیا جو اس نے مصر میں کھولے تھے ۔
جاری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں