داستان ایمان فروشوں کی
چوتها حصہ : ام عراره کا اغوا
قسط نمبر # 28
یہ جگہ خوش نما تھی ۔سارے صحرا میں سر سبز تھی ۔اندر پانی کا چشمہ تھا،جس نے جھیل بنائی ،درخت تھے،جنہوں نے سایہ دیا۔کسی فرعون کو یہ مقام پسند آیا تو اسے تفریح کا مقام بنایا ۔اپنی خدائی کے ثبوت میں یہ بُت بنایا۔ اس میں تہہ خانہ رکھا اور یہاں عیش کی ۔آسمان نے کوئی اور رنگ دکھایا۔ سورج اُدھر سے اِدھر ہوگیا۔فرعونوں کے ستارے ٹوٹ گئے اور مصر میں دوسرے باطل مذہب آئے ۔ آخر میں حق کی فتح ہوئی اور مصرنے کلمہ ''لا الٰہ الااللہ '' سُنا اور خدا کے حضور سرخرو ہوا،لیکن کسی نے نہ جاناکہ باطل ان پہاڑیوں میں زندہ رہا۔الحمد للہ ،ہم نے خدائے عز وجل سے راہنمائی لی ۔ باطل کا یہ نقش بھی اُکھاڑا اور اس ریگزار کو پاک کیا۔
اس جگہ کو سواروں کے گھیرے میں لے کر فوج نے پتھر کے اس ہیبت ناک بُت کو مسمار کردیا، چبوترہ بھی گرادیا، تہہ خانہ ملبے سے بھر دیا۔باہر سینکڑوں حبشی حیران اور خوف زدہ کھڑے تھے کہ یہ کیا ماجرہ ہے ۔ان سب کو بلاکر اندر لے جایا گیا کہ یہاں کچھ بھی نہیں تھا۔چاروں لڑکیاںاُن کے حوالے کی گئیں ۔چاروں کے باپ اور بھائی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے اپنی اپنی لڑکی لے لی ۔انہیں بتایا گیا کہ یہاں ایک بد کار آدمی رہتاتھا، وہ مگر مچھوں کو کھلادیاگیاہے ۔ان سینکڑوں حبشیوں کو اکٹھا بٹھا کر ان کی زبان میں وعظ دیاگیا۔ وہ سب خاموش رہے ۔انہیں اسلام کی دعوت دی گئی ۔وہ پھر بھی خاموش رہے ۔ کبھی کبھی شک ہوتاتھا، جیسے ان کی آنکھوں میں خون اُتر آیاہے ۔ انہیں یہ الفاظ دھمکی کے لہجے میں کہے گئے……''اگر تم سچے خدا کو دیکھنا چاہتے ہوتو ہم تمہیں دکھائیں گے ۔اگر تم اسی جگہ کو جہاں تم بیٹھے ہو،اپنے جھوٹے خدائوں کا گھر کہتے رہو گے تو ہم ان پہاڑوں کو بھی ریزہ ریزہ کرکے ریت کے ساتھ ملادیں گے ،پھر تم دیکھو گے کہ کون سا خدا سچاہے''۔
اُ دھر قاہرہ میں اُمِّ عرارہ ہوش میں آچکی تھی ۔وہ اپنی داستان سناچکی تھی ،جو اوپر بیان کی گئی ہے ۔کبھی وہ کہتی تھی کہ اس نے کوئی خواب دیکھا ہے ۔اُسے ساری باتیں یاد آگئیں تھیں ۔اس نے بتایا کہ پروہت اسے دِن رات بے آبرو کرتا تھا اور پھول کئی بار اس کی ناک کے ساتھ لگاتاتھا۔ اُمِّ عرارہ کو بتایا گیا کہ اس کی گردن کٹنے والی تھی ، اگر چھاپہ مار بروقت نہ پہنچ جاتے تو اس کا سر غار میں اور جسم مگر مچھوں کے پیٹ میں ہوتا۔نازک سی ، یہ حسین لڑک خوف سے کانپنے لگی۔ اس کے آنسو نکل آئے اس نے سلطان ایوبی کے ہاتھ چوم لیے اور کہا……''خدانے مجھے گناہوں کی سزادی ہے ،میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا چاہتی ہوں ۔خدا کے لیے مجھے پناہ میں لے لیں ''……اس کی ذہنی کیفیت بہت ہی بُری تھی ۔
اس نے شام کے ایک دولت مند تاجر کانام لے کر کہا کہ وہ اس کی بیٹی ہے ۔یہ مسلمان تاجر تھا ۔اس کا دوستانہ شام کے امیروں کے ساتھ تھا۔اُس وقت کے امیر ایک ایک شہر یا تھوڑے تھوڑے رقبے کے خطوں کے حکمران ہواکرتے تھے ،جو مرکزی امارت کے ماتحت تھے ۔مرکزی امارت ، مرکزی وزارت اور خلافت کے ماتحت ہوتی تھی ۔یہ امراء دسویں صدی کے بعد پوری طرح عیاشیوں میں ڈوب گئے تھے ۔بڑے تاجروں سے دوستی رکھتے تھے ، ان کے ساتھ کاروبار بھی کرتے اور رشوت بھی لیتے تھے ۔ ان کے حرموں میں لڑکیوں کی افراط رہتی اور شراب بھی چلتی تھی ۔ اُمِّ عرارہ ایسے ہی ایک دولت مند تاجر کی بیٹی تھی جو اپنے باپ کے ساتھ بارہ تیرہ سال کی عمر میں امراء کی رقص و سرور کی محفلوں میں جانے لگی تھی۔ باپ غالباً دیکھ رہاتھا کہ لڑکی خوب صورت ہے ،اس لیے وہ اسے لڑکپن میں ہی امراء کی سوسائٹی کا عادی بنانے لگاتھا۔ اُمِّ عرارہ نے بتایا کہ وہ چودہ سال کی ہوئی تو امراء نے اس میں دلچسپی لینی شروع کردی تھی ۔دونے اسے بڑے قیمتی تحفے بھی دئیے ۔وہ گناہوں کی اسی دُنیا کی ہوکے رہ گئی۔
عمر کے سولہویں سال وہ باپ کو بتائے بغیر ایک امیر کی در پردہ داشتہ بن گئی ،مگر رہتی اپنے گھر میں تھی ۔ وہ دولت میں جنی پلی تھی ،شرم و حیا سے آشنا نہیں تھی۔ دو تین سال بعد وہ باپ کے ہاتھ سے نکل گئی اور آزادی سے دو اور امراء سے تعلقات پیدا کر لیے ۔ اس نے خوب صورتی ، چرب زبانی اور مردوں کو انگلیوں پر نچانے میں نام پیدا کرلیا ۔باپ نے اس کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا۔گذشتہ چھ سال سے اسے ایک اور ہی قسم کی ٹریننگ ملنے لگی تھی ۔ یہ تین امراء نے مل کر سازش کی تھی،جس میں اس کا باپ بھی شریک تھا۔اسے خلافت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی ٹریننگ دی جارہی تھی ۔آگے چل کر اس سازش میں ایک صلیبی بھی شامل ہوگیا۔یہ امراء خود مختار حاکم بننے کے خواب دیکھ رہے تھے ۔صلیبیو ںکی مدد کے بغیر یہ ممکن نہ تھا۔ اُمِّ عرارہ کو نورالدین زنگی اور خلافت کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لیے بھی استعمال کیاگیا تھا۔ صلیبیوں نے اس مہم میں تین عیسائی لڑکیاں شامل کرکے ایک زمین دو زمحاذ بنالیا۔
انہوں نے جب دیکھا کہ مصر میں صلاح الدین ایوبی نے نام پیدا کرلیاہے اور اس نے دو ایسے کارنامے کر دکھائے ہیں، جس نے اسے مصر کا وزیر اور امیر نہیں ،بلکہ بادشاہ بنادیاہے تو اُمِّ عرارہ کو خلیفہ العاضدکی خدمت میں تحفے کے طور پر بھیجاگیا۔اسے مہم یہ دی گئی کہ خلیفہ کے دِل میں صلاح الدین ایوبی کے خلاف دشمنی پیدا کرے اور سابق سوڈانی فوج کے جو چند ایک حکام فوج میں رہ گئے ہیں ،انہیں العاضد کے قریب کرکے سوڈانیوں کو ایک اور بغاوت پر آمادہ کرے۔اسے دوسری مہم یہ دی گئی تھی کہ خلیفہ العاضد کو آمادہ کرے کہ سوڈانی جب بغاوت کریں تو انہیں ہتھیاروں اور ساز و سامان سے مدد دے اور اگر ممکن ہوسکے تو صلاح الدین ایوبی کی فوج کا کچھ حصہ باغی کرکے سوڈانیوں سے ملادے ۔خلیفہ اور کچھ نہ کرسکے تو اپنا محافظ دستہ سوڈانیوں کے حوالے کرکے خود سلطان ایوبی کے پاس جاپناہ لے اور اسے کہے کہ اس کے محافظ باغی ہوگئے ہیں ۔مختصر یہ کہ صلاح الدین ایوبی کے خلاف ایسا محاذ قائم کرنا تھا جو اُسے مصر سے بھاگنے پر مجبور کردے اور باقی عمر گمنامی میں گزاردے ۔
اُمِّ عرارہ نے سلطان ایوبی کو بتایا کہ وہ مسلمان کے گھر پیدا ہوئی تھی ،لیکن باپ نے اسے مسلمانون کی ہی جڑیں کاٹنے کی تربیت دی اور سلطنتِ اسلامیہ کے اُمراء نے اپنے دشمنوں کے ساتھ مل کر اپنی ہی سلطنت کو تباہ کرنے کی کوشش کی ۔اس لڑکی نے خلیفہ العاضد کا دماغ اپنے قبضہ میں لے لیااور سلطان ایوبی کے خلاف کردیاتھا۔ رجب کو وہ سازش میں شریک کرچکی تھی ۔رجب نے دو اور فوجی حکام کو اپنے ساتھ ملالیاتھا۔ رجب نے اس سلسلے میں یہ کام کیا کہ خلیفہ کے محافظ دستے میں وہ مصریوں کی جگہ سوڈانی رکھتا جارہاتھا۔ اُمِّ عرارہ کو خلیفہ کے پاس لائے ابھی دو اڑھائی مہینے ہوئے تھے ،وہ قصرِ خلافت پر غالب آگئی تھی اور حرم کی ملکہ بن گئی تھی ۔اس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ خلیفہ سلطان ایوبی کو قتل کرانا چاہتا ہے اور رجب نے حشیشین سے مل کر قتل کا انتظام کردیاہے ۔
یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ سلطان ایوبی نے خلیفہ کے بے کار وجود اور عیش پرستی سے تنگ آکر اس کے خلاف کاروائی شروع کردی تھی اور یہ بھی اتفاق تھا کہ اُمِّ عرارہ کو وہی لوگ اغوا کرکے لے گئے ،جنہیں وہ سلطان ایوبی کے خلاف لڑا نا چاہتی تھی اور یہ اتفاق تو بڑاہی اچھا تھا کہ سلطان ایوبی نے رجب سے محافظ دستے کی کمان لے لی اور وہان اپنی پسند کا ایک نائب سالار بھیج دیا تھا، مگر ان اتفاقات نے حالات کا دھارا موڑ کر سلطان ایوبی کے لیے ایک خطرہ پیدا کردیا۔سلطان ایوبی نے اُمِّ عرارہ کو اپنی پناہ میں رکھا۔لڑکی بُری طرح پچھتا رہی تھی اور گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتی تھی۔ قدرت نے ایک ایسا دھچکہ دے کر اس کا دماغ درست کردیاتھا۔ سلطان ایوبی ٹھنڈے دِل سے سوچنے لگا کہ اس سازش میں جو حکام شامل ہیں ، ان کے ساتھ وہ کیا سلوک کرے۔
دوسرے دن النا صر اور بہائوالدین شداد فرعونوں کا آخری نشان مٹاکر فوج واپس لے آئے
.
آٹھ دِنوں بعد……
رات کا پچھلا پہر تھا۔سلطان ایوبی کے جاگنے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی ۔ اُسے ملازم نے جگادیااور کہا کہ الناصر،علی بن سفیان اور دو اور نائب آئے ہیں ۔سلطان اُچھل کر اُٹھا اور ملاقات کے کمرے میں چلاگیا۔ان حکام کے ساتھ ان دستوں میں سے ایک کا کمان دار بھی تھا، جو شہر سے دُور گشت کرتے رہتے تھے ۔ سلطان ایوبی کو بتایاگیا کہ کم و بیش چھ ہزار سوڈانی جن میں برطرف سوڈانی فوج کے افراد ہیں اور اس وحشی قبیلے کے بھی جس کے عقیدے کو ملیا میٹ کیاگیا تھا۔مصرکی سرحد میں داخل ہوکر ایک جگہ پڑائو کیے ہوئے ہیں ۔اس کمان دار نے یہ عقل مندی کی کہ عام لباس میں دوشتر سوار یہ معلوم کرنے کے لیے بھیجے کہ اس لشکر کا کیا ارادہ ہے ۔ان شتر سواروں نے اپنے آپ کو مسافر ظاہر کیا اور معلوم کرلیا کہ یہ لشکر قاہرہ پر حملہ کرنے جارہاہے۔ شتر سواروں نے لشکر کے سربراہوں سے مل کر صلاح الدین ایوبی کے خلاف باتیں کیں اور کہا کہ وہ بہت سے آدمیوں کو اس لشکر میں شامل کرنے کے لیے لائیں گے۔ یہ کہہ کر وہ رخصت ہوآئے ۔ ان کی اطلاع کے مطابق یہ لشکر اِدھر اُدھر سے مزید نفری کا منتظر تھا اور اسے اگلے روز وہاں سے کوچ کرناتھا۔
سلطان ایوبی نے پہلا حکم یہ دیا کہ خلیفہ کے محافظ دستے میں صرف پچاس سپاہی اور ایک کمان دار رہنے دو۔باقی تمام دستے کو چھائونی میں بلالو۔ اگر خلیفہ احتجاج کرے تو کہہ دینا کہ یہ میرا حکم ہے ۔سلطان نے علی بن سفیان سے کہاکہ اپنے شعبے کے کم از کم سو آدمی جو سوڈانی زبان اچھی طرح بول سکتے ہیں ۔ سوڈانی باغیوں کے بھیس میں اس کمان دار کے ساتھ ابھی روانہ کردو۔ کمان دار سے کہا کہ یہ سوآدمی ان دو شتر سواروں کے ساتھ سوڈانیوں کے لشکر میں شامل ہوں گے ۔یہ دو شتر سوار سنتری بتائیں گے کہ وہ وعدے کے مطابق مدد لائے ہیں ۔ان کے لیے ہدایات یہ دیں کہ وہ لشکر کی پیش قدمی کے متعلق اطلاع دیں گے اور یہ دیکھیں گے کہ رات کے وقت اس لشکر کے جانور اور رسد کہاں ہوتی ہے۔ سلطان ایوبی نے الناصر سے کہا کہ تیز رفتار گھوڑ سوا چھاپہ ماروں اور چھوڑی منجنیقوں کے دستے تیار رکھو۔
''میں نے سوچاتھا کہ سیدھی ٹکر لے کر سوڈانیوں کو شہر سے دور ہی ختم کیاجائے ''۔الناصر نے کہا۔
''نہیں !'' ۔سلطان ایوبی نے کہا……''یاد رکھنا الناصر !اگر دشمن کو پہلو سے لو ۔عقب سے لو، ضرب لگائواور بھاگو، دشمن کی رسد تباہ کرو، جانور تباہ کرو، دشمن کو پریشان کرو، اس کے دستے بکھیر دو، اُسے آگے آنے کی مہلت نہ دو، اسے دائیں بائیں پھیل جانے پر مجبور کردو،اگر سامنے سے ٹکر لینا چاہتے ہوتو یہ نہ بھولوکہ یہ صحرا ہے ۔سب سے پہلے پانی کی جگہ پر قبضہ کو۔ سورج اور ہوا کے رُخ کو دشمن کے خلاف رکھو ۔اسے پریشان کرکے اپنی پسند کے میدان میں لائو۔میں تمہیں عملی سبق دوںگا ۔اس لشکر کی یہ خواہش میں پوری نہیں ہونے دوں گا کہ وہ قاہرہ تک پہنچے یا میری فوج اس کے آمنے سامنے جا کر لڑے ''……اس نے علی بن سفیان سے کہا……''تم جن ایک سو آدمیوں کو لشکر میں شامل ہونے کے لیے بھیجو گے،انہیں کہنا کہ وہ سوڈانیوں میں یہ افواہ پھیلادیں کہ چھ ساتھ دنوں تک صلاح الدین ایوبی فلسطین پر حملہ کرنے کے لیے جارہاہے ۔ اس لیے قاہرہ پر حملہ ، اس کی غیر حاضری میں کیاجائے گا''۔
ایسی بہت سی ہدایات اور احکام دے کر سلطان ایوبی نے انہیں بتایا کہ وہ آج شام سے قاہرہ میں نہیں ہوگا۔اس نے انہیں قاہرہ سے بہت دُور ایک جگہ بتائی ۔وہ اپنا ہیڈکوار ٹر دشمن کے قریب رکھنا چاہتا تھاتاکہ جنگ اپنی نگرانی میں لڑا سکے۔ سب نے ملاقات کے کمرے میں ہی صبح کی نماز پڑھی اور سلطان ایوبی کے احکام پر کاروائی شروع ہوگئی۔
سلطان ایوبی تیاری کے لیے اپنے کمرے میں چلاگیا۔
٭ ٭ ٭
سوڈانیوں کے لشکر میں اضافہ ہوتا جارہاتھا۔ دوسال گزرے ،ان کی ایک بغاوت بُری طرح ناکام ہوچکی تھی۔ دوسری کوشش کی تیاریاں اسی وقت شروع ہوگئی تھیں ۔صلیبیوں نے مدد کا وعدہ کررکھاتھا اور جاسوسوں کی بہت بڑی تعداد مصر میں داخل کردی تھی۔سوڈانیوں کا حملہ ایک نہ ایک روز آنا ہی تھا،لیکن یہ اچانک آگیا۔وجہ یہ تھی کہ سلطان ایوبی نے ایک سوڈانی قبیلے کے مذہب پر فوجی حملہ کیااور اس کے دیوتائوں کا مسکن تباہ کردیاتھا۔یہ وجہ معمولی نہیں تھی۔مصر میں جو سلطان صلاح الدین ایوبی کے مخالفین تھے، انہوں نے اس کے اس اقدام کو اس کے خلاف استعمال کیا ۔سوڈانی فوج کے برطرف کیے ہوئے باغی کمان داروں کو بھی موقع مل گیا۔یہ فوراً حرکت میں آگئے ۔ان میں مصری مسلمان بھی تھے ۔انہوں نے اُس قبیلے کے مذہبی جذبات کو بھڑکایا اور انہیں کہاکہ ان کا مذہب سچاہے اور اگر وہ سلطان ایوبی کے خلاف اُٹھیں گے تو ان کے دیوتا اپنی توہین کا انتقام لینے کے لیے ان کی مدد کریں گے۔انہوں نے پانچ سات دنوں میں لشکر جمع کرلیاور قاہرہ پر حملے کے لیے چل پڑے ۔جوں جوں اِدھر اُدھر کے لوگوں کو پتہ چلتاتھا، وہ اس لشکر میں شامل ہوتے جاتے تھے ۔
دوشتر سواروں کے ساتھ جب ایک سو مسلح آدمی اس لشکر میں شامل ہوئے ،یہ لشکر سرحد سے آگے آگیاتھااور ایک جگہ پڑائو کیے ہوئے تھے۔ سلطان ایوبی رات کے وقت اتنا آگے چلاگیا، جاں اسے اس لشکر کی نقل و حرکت کی اطلاع جلدی مل سکتی تھی ۔ ان سو آدمیوں نے حملہ آوروں کے سربراہوں کو بتایا کہ صلاح الدین ایوبی چند دنوں تک فلسطین کی طرف کوچ کررہاہے۔ سربراہ بہت خوش ہوئے ۔انہوں نے یہ پڑائو دو دن اور بڑھادیا۔ اگلی رات سلطان ایوبی کو اس لشکر کی پہلی اطلاعیں ملیں ۔
اس سے اگلی رات اس نے پچاس سوار اور پانچ منجنیقیں بھیجیں ،جن کے ساتھ آتش گیر مادے والی ہانڈیاں تھیں۔ انہیں ایک گھوڑا کھینچتا تھا۔آدھی رات کے وقت جب سوڈانی لشکر سویا ہوا تھا،ان کے اناج کے ذخیرے پر ہانڈیاں گرنے لگیں ۔ معاً بعد آتشیں تیر اآئے اور مہیب شعلے اُٹھنے لگے ۔لشکر میں بھگدڑ مچ گئی ۔منجنیقوں کو وہاں سے فوراً پیچھے بھیج دیا گیا۔ پچاس سواروں نے تین چار حصوں میں تقسیم ہوکر گھوڑے سرپٹ دوڑائے اور لشکر کے پہلوئوں کے آدمیوں کو کچلتے اور برچھیوں سے زخمی کرتے غائب ہوگئے ۔ لشکریوں کو سنبھلنے کا موقعہ نہ ملا۔آگ کے شعلوں سے جہاں اناج کا ذخیرہ جل رہاتھا، وہاں اونٹ اور گھوڑے بدک کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔سلطان ایوبی کے سوار ایک بار پھر آئے اور تیر برساتے گزر گئے ۔ وہ اس کے بعد نہیں آئے۔
دوسرے دن اطلاع ملی کہ سوڈانیوںکے کم و بیش چار سو آدمی آگ سے ،گھوڑوں اور اونٹوں کی بھگدڑ سے اور چھاپہ مار سواروں کے حملوں سے مارے گئے ہیں ۔تمام تر اناج جل گیا اور تیروں کا ذخیرہ بھی نذر آتش ہوگیاتھا۔ لشکر نے وہاںسے کوچ کیا اور رات ایسی جگہ پڑائو کیا،جہاں اِدھر اُدھر مٹی کے ٹیلے تھے ۔اس جگہ شب خون کا خطرہ نہیں تھا۔اب رات کو گشتی دستے بھی پڑائوسے دُور دُور گشت کرتے رہے ،مگر حملہ پھر بھی ہوا۔اس کا انداز بھی گزشتہ رات جیسا تھا۔لشکر کے سربراہوں کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے دوگشتی دستے سلطان ایوبی کے چھاپہ ماروں کی گھات میں آگئے تھے اور مارے گئے ہیں ۔تیر اندازوں نے ٹیلوں سے آتشیں تیر چلائے اور غائب ہوگئے ۔سحر کا دھند لکہ نکھر نے تک یہ شب خون جاری رہے۔ ان سے گزشتہ رات کی نسبت زیادہ نقصان ہوا۔
شام کو علی بن سفیان نے سلطان ایوبی کو اپنے جاسوسوں کی لائی ہوئی یہ اطلاع دی کہ کل دن کے وقت سوڈانی لشکر اس انداز سے پیش قدمی کرے گا کہ شب خون مارنے والوں کا ٹھکانہ معلوم کرکے اسے ختم کیاجائے ۔ سلطان ایوبی نے اپنے قریب کچھ فوج رکھی تھی ۔اس نے رات کے وقت حملہ نہ کرایا۔ اسے معلوم تھا کہ اب دشمن چوکنا ہوگا۔ اگلے روز اس نے چار سو پیادہ سپاہی سوڈانیوں کے لشکر کے دائیں طرف نصف میل دور بھیج دئیے اور چار سو بائیں طرف ۔انہیں یہ ہدایت دی کہ وہ آگے کو چلتے جائیں ۔دونوں دستے جنگی ترتیب میں سوڈانیوں کے پہلو سے گزرے تو سوڈانیوں نے اس خطرے کے پیش نظر اپنے پہول پھیلادئیے کہ یہ دستے پہلو پر یا عقب سے حملہ کریں گے ۔ سلطان ایوبی کی ہدایت کے مطابق اُس کے کماندار اپنے دستوں کو پرے ہٹاتے گئے ۔سوڈانی دھوکے میں آگئے ۔ انہوں نے اپنے لشکر کو دائیںبائیں پھیلادیا۔اچانک سلطان ایوبی کے پانچ سو سواروں نے ٹیلوں کی اوٹ سے نکل کر سوڈانیوں کے وسط میں ہلہ بول دیا۔یہاں ان کی اعلیٰ کمان تھی۔ گھوڑ سواروں کا یہ حملہ اچانک اور بے حد شدید تھا۔سارے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔پہلوئوں سے پیادہ تیر اندازوں نے تیر برسانے شروع کردئیے ۔اس طرح صرف تیرہ سو نفری کی فوج نے کم و بیش چھ ہزار لشکر کو بھگدڑ میں مبتلا کرکے ایسی شکست دی کہ صحرا لاشوں سے اَٹ گیا اور سوڈانی قید میں بھی آئے اور بھاگے بھی۔بھاگنے والوں کی تعداد تھوڑی تھی۔
یہ سوڈانیوں کی دوسری بغاوت تھی جو سلطان ایوبی نے انہی کے خون میں ڈبو دی۔ اب کے سلطان ایوبی نے ڈپلومیسی سے کام نہیں لیا۔ اس نے جنگی قیدیوں سے معلومات حاصل کرکے ان تمام کمان داروں اور دیگر حکام کو قید میں ڈال دیا جو در پردہ بغاوت کی سازش میں شریک تھے۔ تخریب کاروں کی بھی نشاندہی ہوگئی ۔انہیں سزائے موت دی گئی۔رجب جیسے نائب سالاروں کو ہمیشہ کے لیے قید خانے میں ڈال دیاگیا۔ سلطان ایوبی حیران اس پر ہوا کہ بعض ایسے حکام اس سازش میں شریک تھے،جنہیں وہ اپنا وفادار سمجھتاتھا۔ اس نے اپنے معتمد سالاروں اور دیگر حکام سے کہہ دیا کہ مصر کے دفاع اور سلطنت کے استحکام کے لیے سوڈان پر حملہ اور قبضہ ضروری ہوگیاہے۔
اس نے خلیفہ العاضد سے محافظ دستہ واپس لے کر اسے معزول کردیا اور اعلان کر دیا کہ اب مصر خلافتِ عباسیہ کے تحت ہے اور یہ بھی کے خلافت کی گدی بغداد میں ہوگی۔ سلطان ایوبی نے اُمِّ عرارہ کو آٹھ محافظوں کے ساتھ نورالدین زنگی کے حوالے کرنے کے لیے روانہ کردیا۔
٭ ٭ ٭
ام عرارہ کا اغوا کا قصہ بھی یہی ختم ھوا.!
جاری ھے ،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں