چوتها حصہ : ام عراره کا اغوا
قسط نمبر # 27
انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ ان کے درمیان اللہ کے پانچ سو سپاہی گھوم پھر رہے ہیں اور بارہ انسان دیوتائوں کے پایۂ تخت کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں ……صلاح الدین ایوبی کے بارہ چھاپہ ماروں کو بتایا گیا تھا کہ پہاڑیوں کے اندرونی علاقے میں داخل ہونے کا راستہ کہاں ہے ،لیکن وہاں سے وہ داخل نہیں ہوسکتے تھے ،کیونکہ وہاں پہرے کا خطرہ تھا۔انہیں بہت دشوار راستے سے اندر جاناتھا۔انہیں بتایا گیا تھا کہ پہاڑوں کے اِرد گرد کوئی انسان نہیں ہوگا، مگر وہاں انسان موجود تھے ،جس کا مطلب یہ تھا کہ اس حبشی نے علی بن سفیان کو غلط بتایاتھا کہ اس علاقے کے گرد کوئی پہرہ نہیں ہوتا۔ پہاڑیوں کا خطہ ایک میل بھی لمبا نہیں تھا اور اسی قدر چوڑا تھا۔وہ چونکہ تربیت یافتہ چھاپہ مارتھے ۔ اس لیے وہ بکھر کر اور احتیاط سے آگے گئے تھے ۔ایک چھاپہ مار کو اتفاق سے ایک درخت کے قریب ایک متحرک سایہ نظر آیا۔چھاپہ مار چھپتا اور رینگتا اس کے عقب میں چلاگیا۔ قریب جاکر اس پر جھپٹ پڑا۔ اس کی گردن بازو کے شکنجے میں لے کر خنجر کی نوک اس کے دِل پر رکھ دی ۔ گردن ڈھیلی چھوڑ کر اس سے پوچھا کہ تم یہاںکیا کررہے ہو اور یہاں کس قسم کا پہرہ ہے؟
وہ حبشی تھا۔چھاپہ مار عربی بول رہاتھا جو حبشی سمجھ نہیں سکتا تھا۔اتنے میں ایک اور چھاپہ مار آگیا۔اس نے بھی خنجر حبشی کے سینے پر رکھ دیا،انہوں نے اشاروں سے پوچھا تو حبشی نے اشاروں میں جواب دیا، جس سے شک ہوتاتھا کہ یہاں پہرہ موجود ہے ۔اس حبشی کی شہ رگ کاٹ دی گئی اور چھاپہ مار اور زیادہ محتاط ہوکر آگے بڑھے ۔یکلخت جنگل آگیا۔ آگے پہاڑی تھی۔چاند اوپر اُٹھتا آرہاتھا ،لیکن درختوں اور پہاڑیوں نے اندھیرا کررکھا تھا۔وہ پہاڑی پر ایک دوسرے سے ذرا دُور اوپر چڑھتے گئے ۔
اندر کے علاقے میںجہاں لڑکی کو پروہت کے حوالے کیاگیا تھااور ہی سرگرمی تھی۔ پتھر کے چہرے کے سامنے چبوترے پر ایک قالین بچھا ہواتھا۔ اس پر چوڑے پھل والی تلوار رکھی تھی ۔ اس کے قریب ایک چوڑا برتن رکھاتھا اور قالین پر بھول بکھرے ہوئے تھے ۔اس کے قریب آگ جل رہی تھی ۔ چبوترے کے چاروں کناروں پر دئیے جلا کر چراغاں کیاگیا تھا۔وہاں چار لڑکیاں گھوم پھر رہی تھیں ، ان کا لباس دودو چوڑے پتے تھے اور باقی جسم برہنہ ۔چار حبشی تھے ، جنہوں نے کندھوں سے ٹخنوں تک سفید چادریں لپیٹ رکھی تھی۔ اُمِّ عرارہ تہہ خانے میں پروہت کے ساتھ تھی ۔پروہت اس کے بالوں سے کھیل رہاتھا اور وہ مخمور آواز میں کہہ رہی تھی ……''میں انگوک کی ماں ہو، تم انگوک کے باپ ہو،میرے بیٹے مصر اور سوڈان کے بادشاہ بنیں گے۔میرا خون انہیں پلادو۔میرے لمبے لمبے سنہری بال ان کے گھروں میں رکھ دو ۔تم مجھ سے دور کیوں ہٹ گئے ہو، میرے قریب آئو''……پروہت اس کے جسم پر تیل کی طرح کوئی چیز مَلنے لگا ۔
انگوک غالباً اس قبیلے کانام تھا۔ایک عربی لڑکی کونشے کے خمار نے اس قبیلے کی ماں اور پروہت کی بیوی بنادیاتھا۔ وہ قربان ہونے کے لیے تیار ہوگئی تھی ۔ پروہت آخری رسوم پوری کررہاتھا۔
بارہ چھاپہ مار رات کے کیڑوں کی طرح رینگتے ہوئے پہاڑیوں پر چڑھتے ،اُترتے اور ٹھوکریں کھاتے آرہے تھے ۔بہت ہی دشوار گزار علاقہ تھا۔بیشتر جھاڑیاں خاردار تھیں ۔چاند سر پر آگیاتھا۔انہیں درختوں میں سے روشنی کی کرنیں دکھائی دینے لگیں ۔ان کرنوں میں انہیں ایک حبشی کھڑا نظر آیا ، جس کے ایک ہاتھ میں برچھی اور دوسرے میں لمبوتری ڈھال تھی ۔وہ بھی دیوتائوں کے پایۂ تخت کا پہرہ دار تھا۔اسے خاموشی سے مارنا ضروری تھا ۔وہ ایسی جگہ کھڑا تھا،جہاں اس پر عقب سے حملہ نہیں کیا جاسکتاتھا۔ آمنے سامنے کا مقابلہ موزوں نہیں تھا۔ ایک چھاپہ مار جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھ گیا ۔ دوسرے نے اس کے سامنے ایک پتھر پھینکا ، جس نے گر کر اور لڑھک کر آواز پیدا کی ۔حبشی بدکا اور اس طرف آیا۔وہ جوں ہی جھاڑی میں چھپے ہوئے چھاپہ مار کے سامنے آیا، اُس کی گردن ایک بازو کے شکنجے میں آگئی اور ایک خنجر اس کے دِل میں اُترگیا۔ چھاپہ مار کچھ دیر وہاں رُکے اور احتیاط سے آگے چل پڑے ۔
اُمِّ عرارہ قربانی کے لیے تیار ہوچکی تھی۔پروہت نے آخری بار اسے اپنے سینے سے لگایا اور اس کا ہاتھ تھام کر سیڑھیوں کی طرف چل پڑا ۔باہر کے چار حبشی مردوں اور لڑکیوں کو پتھر کے سر اور چہرے کے منہ میں روشنی نظر آئی تو وہ منہ کے سامنے سجدے میں گرگئے ۔پروہت نے اپنی زبان میں ایک اعلان کیا اور منہ سے اُترآیا ۔اُمِّ عرارہ اس کے ساتھ تھی۔ اسے وہ قالین پر لے گیا۔مرد اور لڑکیا ں اس کے اِرد گرد کھڑی ہوگئیں ۔اُمِّ عرارہ نے عربی زبان میں کہا……''میں انگوک کے بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے اپنی گردن کٹوارہی ہوں ۔ میں ان کے گناہوں کا کفارہ ادا کررہی ہوں ۔میری گردن کاٹ دو۔ میرا سر انگوک کے دیوتا کے قدموں میں رکھ دو۔ دیوتا اس سر پر مصر اور سوڈان کا تاج رکھیں گے''……چاروں آدمی اور لڑکیاں ایک بار پھر سجدے میں گر گئیں ۔پروہت نے اُمِّ عرارہ کو قالین پر دوزانو بٹھا کر اس کا سر آگے جُھکا دیا او روہ تلوار اُٹھالی ،جس کا پھل پورے ہاتھ جتنا چوڑا تھا۔
ایک چھاپہ مار جو سب سے آگے تھا ، رُک گیا۔اس نے سر گوشی کرکے پیچھے آنے والے کو روک لیا۔پہاڑی کی بلندی سے انہیں چبوترہ اور پتھر کا سر نظر آیا……چبوترے پر ایک لڑکی دو زانو بیٹھی تھی ۔جس کا سر جھکاہواتھا۔شفافچاندنی ، چراغاں اور بڑی مشعلوں نے سورج کی روشنی کا سماں بنارکھاتھا۔ لڑکی کے پاس کھڑے آدمی کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ دوزانو بیٹھی ہوئی لڑکی برہنہ تھی۔اس کے جسم کا رنگ بتارہاتھا کہ حبشی قبیلے کی لڑکی نہیں ۔چھاپہ ماردُور تھے اور بلندی پر بھی تھے، وہاں سے تیر خطاجانے کا خطرہ تھا، مگر وہ جس پہاڑی پر تھے ۔اس کے آگے ڈھلان نہیں تھی ، بلکہ سیدھی دیوار تھی ، جس سے اُتر ناناممکن تھا۔وہ جان گئے کہ لڑکی قربان کی جارہی ہے اور اسے بچانے کے لیے وقت اتنا تھوڑاہے کہ وہ اُڑ کر نہ پہنچے تو اسے بچانہیں سکیںگے ۔ انہوں نے چوٹی سے نیچے دیکھا۔چاندنی میں انہیں ایک جھیل نظر آئی ۔انہیں بتایاگیا تھا کہ وہاں ایک جھیل ہے جس میں مگر مجھ رہتے ہیں ۔
دائیں طرف ڈھلان تھی ،لیکن وہ بھی تقریباً دیوار کی طرح تھی ۔وہاں جھاڑیاں اور درخت تھے ۔ انہیں پکڑ پکڑ کر اور ایک دوسرے کے ہاتھ تھام کر دوہ ڈھلان اُترنے لگے ۔ان میں سے آخری جانباز نے اتفاق سے سامنے دیکھا۔چاندنی میں سامنے کی چوٹی پر اسے ایک حبشی کھڑا نظر آیا۔اس کے ایک ہاتھ میں ڈھال تھی اور دوسرے ہاتھ میں برچھی ، جو اس نے تیر کی طرح پھینکنے کے لیے تان رکھی تھی۔چھاپہ ماروں پر چاندنی نہیں پڑرہی تھی ۔حبشی ابھی شک میں تھا۔آخری چھاپہ مارنے کمان میں تیر ڈالا ۔رات کی خاموشی میں کمان کی آواز سنائی دی ۔تیر حبشی کی شہ رگ میں لگا او روہ لڑھکتا ہوا،نیچے آرہا۔چھاپہ مار ڈھلان اُترتے گئے ۔گرنے کاخطرہ ہر قدم پر تھا۔
٭ ٭ ٭
پروہت نے تلوار کی دھار اُمِّ عرارہ کی گردن پر رکھی اور اوپر اُٹھائی۔لڑکیوں اور مردوں نے سجدے سے اُٹھ کردو زانوں بیٹھتے ہوئے پُر سوز اور دھیمی آواز میں کوئی گانا شروع کردیا۔یہ ایک گونج تھی جو اس دُنیا کی نہیں لگتی تھی ۔ پہاڑیوں میں گھری ہوئی اس تنگ سی وادی میں ایسا طلسم طاری ہوا جارہاتھا جو باہر کے کسی بھی انسان کو یقین دِلا سکتا تھا کہ یہ انسانوں کی نہیں ،دیوتائوں کی سرزمین ہے ……پروہت تلوار کو اوپر لے گیا۔اب تو ایک دوسانسوں کی دیر تھی ۔تلوار نیچے کو آنے ہی لگی تھی کہ ایک تیر پروہت کی بغل میں دھنس گیا۔اس کا تلوا روالا ہاتھ ابھی نیچے نہیں گراتھا کہ تین تیر بیک وقت اس کے پہلو میں اُتر گئے ۔لڑکیوں کی چیخیں سنائی دیں ۔مرد کسی کو آواز دینے لگے ۔تیروں کی ایک اور باڑ آئی جس نے دو مردوں کو گرادیا۔لڑکیاں جدھر منہ آیا، دوڑ پڑیں ۔ اُمِّ عرارہ اس شور و غل اور اپنے ارد گرد تڑپتے ہوئے اور خون میں ڈوبے ہوئے جسموں سے بے نیاز سر جھکائے بیٹھی تھی۔
چھاپہ مار بہت تیز دوڑتے آئے ۔چبوترے پر چڑھے اوراُمِّ عرارہ کو ایک نے اُٹھا لیا۔وہ ابھی تک نشے کی حالت میں باتیں کررہی تھی۔ایک جانباز نے اپنا کرتہ اُتا ر کر اسے پہنا دیا ۔اسے لے کر چلے ہی تھے کہ ایک طرف سے بارہ حبشی برچھیاں اور ڈھالیں اُٹھائے دوڑتے آئے ۔چھاپہ مار بکھرگئے ۔ان میں چار کے پاس تیر کمانیں تھیں ۔انہوں نے تیر برسائے ۔باقی چھاپہ مار ایک طرف چھپ گئے اور جب حبشی آگے آئے تو عقب سے ان پر حملہ کردیا۔ایک تیر انداز نے کمان میں فلیتے والا تیر نکالا ۔فلیتے کو آگ لگائی اور کمان میں ڈال کر اوپر کو چھوڑدیا۔تیر دُور اوپر جاکر رُکا تو اس کا شعلہ جو رفتا ر کی وجہ سے دب گیاتھا، رفتار ختم ہوتے ہی بھڑکا اور نیچے آنے لگا۔
میلے کی رونق ابھی ماند نہیں پڑی تھی ۔تماشایوں میں سے پانچ سو تماشائی میلے سے الگ ہوکر اس پہاڑی خطے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ انہیں دُور فضا میں ایک شعلہ سا نظر اآیا جو بھڑک کر نیچے کو جانے لگا۔ وہ گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار ہوئے ۔ان کے کمان دار ساتھ تھے ۔پہلے تو وہ آہستہ آہستہ چلے تاکہ کسی کو شک نہ ہو ۔ذرا دُور جاکر انہوں نے گھوڑے دوڑادئیے ۔ تماشائی میلے میں شراب ، جوئے اور ناچنے گانے والی لڑکیوں اور عصمت فروش عورتوں میں اتنے مگن تھے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ ان کے دیوتائوں پر کیا قیامت ٹو ٹ پڑی ہے ۔
چھاپہ مارنے اس خطرے کی وجہ سے آتشیں تیر چلادیاتھا کہ حبشیوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ،مگر فوج وہاں پہنچی تو وہاں بارہ تیرہ لاشیں حبشیوں کی اور دو لاشیں چھاپہ مار شہیدوں کی پڑی تھیں ۔وہ برچھیوں سے شہید ہوئے تھے۔کمان داروں نے وہاں کاجائزہ لیا ۔پتھر کے منہ میں گئے اور تہہ خانے میںجاپہنچے ،وہاں انہیں جو چیزیں ہاتھ لگیں ،وہ اُٹھالیں۔اُن میں ایک پھول بھی تھا جو قدرتی نہیں ، بلکہ کپڑے سے بنایا گیا تھا۔احکام کے مطابق فوج کووہیں رہنا تھا،لیکن پہاڑیوں میں چھپ کر ۔چھاپہ ماروں نے اُمِّ عرارہ کو گھوڑے پر ڈالا اور قاہرہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
صبح طلوع ہوئی ۔
میلے کی رونق ختم ہوگئی تھی ۔بیشتر تماشائی رات شراب پی پی کر ابھی تک مدہوش پڑے تھے ۔دوکان دار جانے کے لیے مال اسباب باندھ رہے تھے ۔لڑکیوں کے بیوپاری بھی جارہے تھے ۔صحرا میں روانہ ہونے والوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں ۔ میلے کے قریب جو گائوں تھا وہاں کے لوگ بے تابی سے اس لڑکی کے بالوں کا انتظار کررہے تھے ،جسے رات قربان کیاگیاتھا۔اس قبیلے کے لوگ جودُور دراز دیہات کے رہنے والے تھے ،پہاڑی جگہ سے دور کھڑ ے دیوتائوں کے مسکن کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کے بڑے بوڑھے انہیں بتارہے تھے کہ ابھی پروہت آئے گا۔ وہ دیوتائوں کی خوشنودی کا پیغام دے گا اور ان میں بال تقسیم کرے گا، مگر ابھی تک کوئی نہیں آیا تھا۔ دیوتائوں کے مسکن پر سکوت طاری تھا۔ اس منتظر ہجوم کو معلوم نہ تھا کہ وہاں فوج مقیم ہے اور اب وہاںسے دیوتائوں کا کوئی پیغام نہیں آئے گا……دن گزرتاگیا۔قبیلے کے جن نوجوانوں نے قربانی کی باتیں سنی تھیں ،انہیں شک ہونے لگا کہ یہ سب جھوٹ ہے ۔دِن گزر گیا۔ سورج انہی پہاڑیوں کے پیچھے جا کر ڈوب گیا۔کسی میں اتنی جرأت نہیںتھی کہ وہ وہاں جاکر دیکھتا کہ پروہت کیوں نہیں آیا۔
٭ ٭ ٭
''طبیب کو بلالائو''……سلطان ایوبی نے کہا……''لڑکی پر نشے کا اثر ہے ''۔
اُمِّ عرارہ اس کے سامنے بیٹھی تھی اور کہہ رہی تھی ……''میں انگوک کی ماں ہوں ۔تم کون ہو؟تم دیوتا نہیں ہو۔ میرا شوہر کہاں ہے ۔میرا سرکا ٹو اور دیوتا کو دے دو۔مجھے میرے بیٹوں پر قربان کردو''……وہ بولے جارہی تھی ،مگر اب اس پر غنودگی بھی طاری ہورہی تھی ۔اس کا سرڈول رہاتھا۔
''طبیب کو بلالائو''……سلطان ایوبی نے کہا……''لڑکی پر نشے کا اثر ہے ''۔
اُمِّ عرارہ اس کے سامنے بیٹھی تھی اور کہہ رہی تھی ……''میں انگوک کی ماں ہوں ۔تم کون ہو؟تم دیوتا نہیں ہو۔ میرا شوہر کہاں ہے ۔میرا سرکا ٹو اور دیوتا کو دے دو۔مجھے میرے بیٹوں پر قربان کردو''……وہ بولے جارہی تھی ،مگر اب اس پر غنودگی بھی طاری ہورہی تھی ۔اس کا سرڈول رہاتھا۔
طبیب نے آتے ہی اس کی کیفیت دیکھی اور اسے کوئی دوائی دے دی ۔ذراسی دیر میں اس کی آنکھیں بند ہوگئیں ۔ اسے لٹا دیاگیااور وہ گہری نیند سوگئی ۔سلطان ایوبی کو تفصیل سے بتایا گیا کہ پہاڑی خطے میں کیا ہوا اور وہاں سے کیا ملاہے ۔اس نے اپنے نائب سالا الناصر اور بہائوالدین شداد کو حکم دیا کہ پانچ سوسوارلے جائیں ،ضروری سامان لے جائیںاور اس بُت کو مسمار کردیں ، مگر اس جگہ کو فوج کے گھیرے میں رکھیں ۔حملے کی صورت میں مقابلہ کریں ۔اگر وہ لوگ دب جائیں اور لڑنہ سکیں تو انہیں وہ جگہ دکھا کر پیار اور محبت سے سمجھائیں کہ یہ محض ایک فریب تھا۔
شداد نے اپنی ڈائری میں جو عربی زبان میں لکھی گئی تھی،اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے کہ وہ پانچ سو سواروں کے ساتھ وہاں پہنچا ۔راہنمائی اس فوج کے کمان دار نے کی جو پہلے ہی وہان موجود تھا۔سینکڑوں سوڈانی حبشی دُور دُور کھڑے تھے۔ان میں سے بعض گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تھے ۔ان کے پاس برچھیاں ،تلواریں اور کمانیں تھیں ۔ہم نے اپنے تمام تر سواروں کو اس پہاڑی جگہ کے اِرد گرد اس طرح کھڑا کردیا کہ ان کے منہ باہر کی طرف اور ان کی کمانون میں تیر تھے اور جن کے پاس کمانیں نہیں تھیں ، ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں ۔خطرہ خون ریز لڑائی کاتھا۔ میں الناصر کے ساتھ اندر گیا۔بُت کودیکھ کر میں نے کہا کہ فرعونوں کی یاد گار ہے ۔حبشیوں کی لاشیں پڑی تھیں ۔ہر جگہ گھوم پھر کر دیکھا، دو پہاڑیوں کے درمیان ایک کھنڈر تھا ،جوفرعونوں کے وقتوں کی خوشنما عمارت تھی ۔دیواروں پر اُس زمانے کی تحریریں تھیں ۔ الفاظ لکیروں والی تصویروں کی مانند تھے ۔کوئی شبہہ نہ رہاکہ یہ فرعونوں کی جگہ تھی ……دیوار جیسی ایک پہاڑی کے دامن میں جھیل تھی ، جس کے اندر اور باہر دو دو قدم لمبے مگر مچھ تھے ۔جھیل کا پانی پہاڑی کے دامن کو کاٹ کر پہاڑی کے نیچے چلاگیاتھا۔ پانی کے اوپر پہاڑی کی چھت تھی ۔جگہ خوف ناک تھی ۔ہمیں دیکھ کر بہت سارے مگر مچھ کنارے پر آگئے اور ہمیں دیکھنے لگے۔
میں نے سپاہیوں سے کہا،حبشیوں کی لاشیں جھیل میں پھینک دو، یہ بھوکے ہیں ۔وہ لاشیں گھسیٹ کر لائے اور جھیل میں پھینک دیں ،مگر مچھوں کی تعداد اکا اندازہ نہیں ،پوری فوج تھی ۔لاشوں کے سر باہر رہے اور یہ سر پانی میں دوڑتے پہاڑی کے اندر چلے گئے ۔پھر پروہت کی لاش آئی ۔اس نے دوسرے انسانوں کو مگر مچھوں کے آگے پھینکا تھا، ہم نے اسے بھی جھیل میں پھینک دیا……وہ سپاہی چار سوڈانی لڑکیوں کو لائے ۔وہ کہیں چھپی ہوئی اور عریاں تھیں۔کمرکے ساتھ ایک پتہ آگے اور پیچھے بندھاہواتھا۔میںنے اور الناصر نے منہ پھیر لیے ۔سپاہیوںسے کہاکہ انہیں مستور کرو۔ جب ان کے جسم کپڑون میں چھپ گئے تو دیکھا کہ وہ بہت خوب صورت تھیں ۔روتی تھیں ،ڈرتی تھیں۔ہمارے ترجمان کو انہوں نے وہاں کاحال اپنی زبان میں بیان کیا جو بہت شرم ناک تھا۔مسلمان کو عورت ذات کا یہ حال برداشت نہیں کرنا چاہیے۔ عورت اپنی ہو،کسی اور کی ہو،کافر ہو ،اسلام اسے بیٹی کہتاہے ۔ان چار لڑکیوں کا بیان ظاہر کرتاتھا کہ وہ فرعونوں کو خدامانتی ہیں ۔ان کا قبیلہ انسان کو خدامانتا ہے ۔ جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں