چوتها حصہ : ام عراره کا اغوا
قسط نمبر # 26
''میں آپ کو اور کچھ نہیں بتاسکتا ۔میرے باپ نے مجھے بتایا تھا کہ پروہت لڑکی کو پھول سونگھاتا ہے جس کی خوشبو سے لڑکی کے ذہن سے نکل جاتاہے کہ وہ کیا تھی، کہاں سے آئی ہے اور کس طرح لائی گئی ہے۔وہ پروہت کی لونڈی بن جاتی ہے اور اسے دُنیا کی گندی چیز یں بھی خوب صورت دکھائی دیتی ہیں ۔پروہت تین راتیں اسے اپنے ساتھ تہہ خانے میں رکھتا ہے''۔
یہ انکشاف ان پانچ سوڈانی حبشیوں میں سے ایک نے علی بن سفیان کے سامنے بیان کررہاتھا ،جنہیں اس نے خلیفہ کے محافظ دستے میں سے نکالاتھا۔ یہ پانچوں اسی قبیلے میں سے تھے، جس قبیلے کے وہ چاروں تھے،جنہوں نے اُمِّ عرارہ کو اغوا کیاتھا۔ اپنے ساتھ لے جاکر علی بن سفیان نے ان پانچوں سے کہاتھا کہ چونکہ وہ اسی قبیلے کے ہیں جو تیسرے سال کے آخر میں جشن مناتاہے اور وہ چُھٹی پر جارہے تھے۔ اس لیے انہیں معلوم ہوگا کہ لڑکی کس طرح اغوا ہوئی ہے۔ ان پانچوں نے کہا کہ انہیں اغوا کا علم ہی نہیں ۔علی بن سفیان نے انہیں یہ لالچ بھی دیا کہ وہ سچ بتادیں گے تو انہیں کوئی سزانہیں دی جائے گی، پھر بھی وہ لاعلمی کا اظہار کرتے رہے ۔یہ قبیلہ وحشیانہ مزاج اور خون خواری کی وجہ سے مشہور تھا۔ا نہیں سزا کا ذرّہ بھر ڈرنہ تھا۔ پانچوں بہت دلیری سے انکار کررہے تھے۔ آخر علی بن سفیان کو وہ ریقے آزمانے پڑے جو پتھر کو بھی پگھلادیتے ہیں ۔
پانچوں کو الگ الگ کرکے علی بن سفیان انہیں اس جگہ لے گیا جہاں چیخیں اور آہ و بکا کوئی نہیں سنتاتھا۔ مسلسل اذیت اور تشدد سے کوئی ملزم مرجائے تو کسی کو پروانہیں ہوتی تھی۔ یہ پانچوں سوڈانی بڑے ہی سخت جان معلوم ہوتے تھے۔ وہ رات بھر اذیت سہتے رہے۔علی بن سفیان رات بھر جاگتا رہا ۔آخر انہیں اس امتحان میں ڈالا گیا جو آخری حربہ سمجھا جاتا تھا، یہ تھا''چکر شکنجہ ''۔ رہٹ کی طرح چوڑے اور بہت بڑے پہئے پر ملزم کو اُلٹا لُٹا کر ہاتھ رسیوں سے چکر کے ساتھ باندھ دئیے جاتے اور پائوں ٹخنوں سے رسیاں ڈال کر فرش میں گاڑے ہوئے کیلو ں سے کس دئیے جاتے تھے۔ پہئے کو ذراسا آگے چلایا جاتا تو ملزم کے بازو کندھوں سے اور ٹانگیں کولہوں سے الگ ہونے لگتی تھیں۔ بعض اوقات ملزم کو کھینچ کر پہئے کو ایک جگہ روک لیاجاتاتھا۔ اذیت کا یہ طریقہ ملزموں کو بے ہوش کر دیتا تھا۔
سحر کے وقت ایک ادھیڑ عمر حبشی نے علی بن سفیان سے کہا……''میں سب کچھ جانتاہوں ، لیکن دیوتا کے ڈر سے نہیں بتایا۔ دیوتا مجھے بہت بُری موت ماریں گے''۔
''کیا اس سے بڑھ کر کوئی بُری موت ہوسکتی ہے ،جو میں تمہیں دے رہاہوں؟''علی بن سفیان نے کہا……''اگر تمہارے دیوتا سچے ہوتے تو وہ تمہیں اس شکنجے سے نکال نہ لیتے ؟تم اگر مرنے سے ڈرتے ہوتو موت یہاں بھی موجود ہے ۔تم بات کرو۔ میرے ہاتھ میں ایک ایسا دیوتا ہے جو تمہیں تمہارے دیوتا سے بچالے گا''۔
یہ سوڈانی حبشی کئی باربے ہوش ہوچکاتھا۔ اسے دیوتا نہیں موت صاف نظر آرہی تھی۔علی بن سفیان نے اس کی زبان کھول لی۔ اسے شکنجے سے کھول کر کھلایا اور پلایا اور آرام سے لٹا دیا۔اس نے اعتراف کیا کہ اُمِّ عرارہ کو اُ ن کے قبیلے کے چار آدمیوں نے اغوا کیا تھا۔ وہ چاروں چُھٹی پر چلے گئے تھے۔انہوں نے اغوا کی رات اور وقت بتادیاتھا ۔یہ پانچ حبشی جو علی بن سفیان کے قبضے میں ،اُس رات پہرے پر تھے۔اغوا کرنے والوں میں سے دو کو اندر آناتھا۔انہیں بڑے دروازے سے داخل کرنے کا انتظام انہوں نے کیا تھا اور انہیں اغوا اور فرار میں پوری مدد دی تھی ۔اس حبشی نے بتایا کہ اس لڑکی کو دیوتا کی قربان گاہ پر قربان کیا جائے گا۔ہر تین سال بعد ان کا قبیلہ چار روزہ جشن مناتا ہے ،لیکن لڑکی اپنے قبیلے کی نہیں ہوتی۔شرط یہ ہے کہ لڑکی غیر ملکی ہو، سفید رنگ کی ہو،اونچے درجے کے خاندان کی اور اتنی خوب صورت ہو کہ لوگ دیکھ کر ٹھٹھک جائیں ''۔
''تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر تین سال بعد تمہارا قبیلہ باہر سے ایک خوب صورت لڑکی اغوا کرکے لاتاہے''۔ علی بن سفیان نے پوچھا۔
''نہیں ۔یہ غلط ہے''۔ سوڈانی حبشی نے جواب دیا……''تین سال بعد صرف میلہ لگتا ہے ۔لڑکی کی قربانی پانچ میلوں کے بعد یعنی ہر پندرہ سال بعد دی جاتی ہے۔مشہور یہی ہے کہ ہر تین سال بعد لڑکی قربان کی جاتی ہے''۔
اس نے اپنے باپ کے حوالے سے وہ جگہ بتائی جہاں قربانی دی جاتی تھی۔ پروہت کو وہ دیوتا کا بیٹا کہتاتھا،جہاں میلہ لگتا تھا ، اس سے ڈیڑ ھ ایک میل جتنی دُور ایک پہاڑی علاقہ تھا ،جہاں جنگل بھی تھا۔یہ علاقہ زیادہ وسیع اور عریض نہیں تھا۔اس کے متعلق مشہور تھا کہ وہاں دیوتا رہتے ہیں اور ان کی خدمت کے لیے جن اور پریاں بھی رہتی ہیں۔لوگ اس لیے یہ باتیں مانتے تھے کہ ہر طرف صحرا اور اس میں جزیرے کی طرح کچھ علاقہ پہاڑی اور سر سبز تھاجو قدرت کا ایک عجوبہ تھا۔یہ دیوتائوں کا مسکن ہی ہوسکتا تھا۔ اس علاقے میں فرعونوں کے وقتوںکے کھنڈر تھے،
: وہاں ایک جھیل بھی تھی جس میں چھوٹے مگر مچھ رہتے تھے۔
قبیلے کا کوئی آدمی سنگین جرم کرے تو اسے پروہت کے حوالے کردیاجاتاتھا۔ پروہت اسے زندہ جھیل میں پھینک دیتا ،جہاں مگر مجھ اسے کھاجاتے تھے۔پروہت انہی کھنڈروں میں رہتا تھا۔وہاں ایک بہت بڑا پتھر کا سر اور منہ تھا جس میں دیوتا رہتا تھا۔ ہر پندرھویں سال کے آخری دنوں میں باہر سے ایک لڑکی اغوا کرکے لائی جاتی جو پروہت کے حوالے کردی جاتی تھی پروہت لڑکی کو ایک پھول سونگھاتاتھا جس کی خوشبو سے لڑکی کے ذہن سے نکل جاتاتھاکہ وہ کیا تھی،کہاں سے آئی تھی اور اسے کون لایا تھا۔اس پھول میں کوئی نشہ آور بوڈالی جاتی تھی ،جس کے اثر سے وہ پروہت کو دیوتا اور اپنا خاوند سمجھ لیتی تھی۔اسے وہاں کی گندی چیزیں بھی خوب صورت دکھائی دیتی تھیں۔
لڑکی کی قربانی انہی کھنڈرات میں دی جاتی تھی۔لڑکی کو پروہت تہہ کانے میں اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ اس جگہ چار مرد اور چار خوب صورت لڑکیاں رہتی تھیں۔ ان کے سوا اور کسی کو پہاڑوں کے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔لڑکی کو جب قربان گاہ پر ل جایا جاتا تو اسے احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ اس کی گردن کاٹ دی جائے گی۔وہ فخر اور خوشی سے مرتی تھی۔ اس کا دھڑ مگر مچھوں کی جھیل میں پھینک دیاجاتا اور بال کاٹ کر قبیلے کے ہر گھر میں تقسیم کر دئیے جاتے تھے۔ ان بالوں کو مقدس سمجھا جاتا تھا۔لڑکی کا سر خشک ہونے کے لیے رکھ دیاجاتا تھا، جب گوشت ختم ہوکر صرف کھوپڑی رہ جاتی تو اُسے ایک غار میں رکھ دیاجاتاتھا۔ لڑکی کسی کو دکھائی نہیں جاتی تھی۔
''پندرہ سال پورے ہورہے ہیں ۔اب کے لڑکی کی قربانی دی جائے گی''……اس حبشی نے کہا……''ہم نو آدمی مصرکی فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ہمیں چونکہ نڈر اور وحشی سمجھا جاتاہے۔اس لیے ہمیں خلیفہ کے محافظ دستے کے لیے منتخب کرلیاگیا۔دو مہینے گزرے ہم نے اس لڑکی کو دیکھا۔ایسی خوب صورت لڑکی ہم نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ہم سب نے فیصلہ کر لیا کہ اس لڑکی کو اُٹھالے جائیں گیاور قربانی کے لیے پیش کریں گے۔ہمارے ایک ساتھی نے جو کل ماراگیاہے۔اپنے گائوں جاکر قبیلے کے بزرگ کو بتادیاتھاکہ اس بار قربانی کے لیے ہم لڑکی لائیں گے۔ ہم نے لڑکی کو اغوا کرلیاہے''۔
یہ قصہ صلاح الدین ایوبی کو سنایا گیا تو وہ گہری سوچ میں کھوگیا۔علی بن سفیان اس کے حکم کا منتظر تھا۔سلطان ایوبی نے نقشہ دیکھا اور کہا……''اگر جگہ یہ ہے تو یہ ہماری عمل داری سے باہر ہے۔تم نے شہر کے پرانے لوگوں سے جو معلومات حاصل کی ہیں ،ان سے یہ ثابت ہوتاہے کہ فرعون تو صد یاں گزریں مرگئے ہیں ،لیکن فرعونیت ابھی باقی ہے۔ بحیثیت مسلمان ہم پر فرض عائد ہوتاہے کہ ہم اگر دُور نہ پہنچ سکیں تو قریبی پڑوس سے تو کفر اور شرک کا خاتمہ کریں۔آج تک معلوم نہیں کتنے والدین کی معصوم بیٹیاں قربان کی جاچکی ہیں اور اس میلے میں کتنی بیٹیاں اغوا ہوکر فروخت ہوجاتی ہیں۔ہمیں دیوتائوں کا تصور ختم کرنا ہے ۔لوگوں کو دیوتائوں کا تصور دے کر نام نہاد مذہبی پیشوا لڑکیا اغوا کرواکے بدکاری اور عیاشی کرتے ہیں''۔
''میرے مخبروں کی اطلاعوں نے یہ بے ہودہ انکشاف کیا ہے کہ ہماری فوج کے کئی کمان دار اور مصر کے پیسے والے لوگ اس میلے میں جاتے اور لڑکیاں خریدتے یا چند دنوں کے لیے کرائے پر لاتے ہیں''……علی بن سفیان نے کہا……''کردار کی تباہی کے علاوہ یہ خطرہ بھی ہے کہ سوڈانیوں کی برطرف فوج کے عسکری اس میلے میں زیادہ تعداد میں جاتے ہیں۔ہماری فوج اور ہمارے دوسرے لوگوں کا سوڈانی سابقہ فوجیوں کے ساتھ ملنا جلنا اور جشن منانا ٹھیک نہیں۔یہ مشترکہ تفریح ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے''……علی بن سفیان نے ذراجھجک کر کہا……''اور لڑکی کو قربان ہونے سے پہلے بچانا اور خلیفہ کے حوالے کرنا، اس لیے بھی ضروری ہے کہ اسے معلوم ہوجائے کہ اس نے آپ پر اغوا کا جو الزام عائد کیاہے،وہ کتنا بے بنیاد اور لغو ہے''۔
''مجھے اس کی کوئی پروانہیں علی!''……سلطان ایوبی نے کہا……''میری توجہ اپنی ذات پر نہیں ۔مجھے کوئی کتنا ہی حقیر کہے،میں اسلام کی عظمت کے فروغ اور تحفظ کو نہیں بھول سکتا ۔میری ذات کچھ بھی نہیں اور تم بھی یاد رکھو علی!اپنی ذات سے توجہ ہٹا کر سلطنت کے استحکام اور فلاح و بہبود پر مرکوز کردو۔اسلام کی عظمت کا امین خلیفہ ہوا کرتاتھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خلیفہ اپنی ذات میں گم ہوتے گئے اور اپنے نفس کا شکار ہوگئے ۔اب ہماری خلافت اسلام کی بہت بڑی کمزوری بن گئی ہے۔صلیبی ہماری اس کمزوری کو استعمال کررہے ہیں ۔اگر تم کامیابی سے اپنے فرائض نبھانا چاہتے ہوتو اپنی ذات اور اپنے نفس سے دست بردار ہوجائو…… خلیفہ نے مجھ پر جو الزام عائد کیاہے ،اسے میں نے بڑی مشکل سے برداشت کیاہے ۔میں اوچھے وار کا جواب دے سکتاتھا، مگر میرا وار بھی اوچھا ہوتا۔پھر میں ذاتی سیاست بازی میں اُلجھ جاتا ۔
: مگر میرا وار بھی اوچھا ہوتا۔پھر میں ذاتی سیاست بازی میں اُلجھ جاتا ۔مجھے خطرہ یہی نظر آرہاتھا کہ ملتِ اسلامیہ کسی دور میں جاکر اپنے ہی حکمرانوں کی ذاتی سیاست بازیوں،خود پسندی ، نفس پرستی اور اقتدار کی ہوس کی نذر ہوجائے گی''۔
''گستاخی کی معافی چاہتاہوں محترم امیر!''……علی بن سفیان نے کہا……''اگر آپ اس لڑکی کو قربان ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو حکم صادر فر مائیے۔وقت بہت تھوڑا ہے ۔ پرسوں سے میلہ شروع ہورہاہے ''۔
''فوج میں یہ حکم فوراً پہنچا دو کہ اس میلے میں کسی فوجی کو شریک ہونے کی اجازت نہیں ''……سلطان ایوبی نے نائب سالار کو بلاکر کہا……''خلاف ورزی کرنے والے کو اس کے عہدے اور رتبے سے قطع نظر پچاس کوڑے سر عام لگائے جائیں گے''۔
اس حکم کے بعد سکیم بننے لگی۔متعلقہ حکام کو سلطان ایوبی نے بلالیاتھا۔ اس نے سب سے کہاتھا کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس طلسم کو توڑنا ہے ۔ یہ جگہ فرعونیت کی آخری نشانی معلوم ہوتی ہے……پہلے فوج کشی زیرِ بحث آئی جو اس وجہ سے خارج از بحث کردی گئی کہ اسے اس قبیلے کے لوگ اپنے اوپر باقاعدہ حملہ سمجھیں گے۔لڑائی ہوگی جس میں میلہ دیکھنے والے بے گناہ لوگ بھی مارے جائیں گے اور عورتوں اور بچوں کے مارے جانے کا خطرہ بھی ہے۔یہ حل بھی پیش کیاگیا کہ اس سوڈانی حبشی کو ساتھ لے جانا پسند نہیں کیا، کیونکہ دھوکے کا خطرہ تھا۔اس وقت تک سلطان ایوبی کے حکم کے مطابق چھاپہ ماروں اور شب خون مارنے والوں کا ایک دستہ تیار کیاجاچکاتھا۔ اسے مسلسل جنگی مشقوں سے تجربہ کار بنادیا گیاتھا کہ وہ جانبازوں کا دستہ تھا، جنہیں جذبے کے لحاظ سے اس قدر پختہ بنادیاگیا تھا کہ وہ اس پر فخر محسوس کرنے لگے کہ انہیں جس مہم پر بھیجاجائے گا، اس زندہ واپس نہیں آئیں گے۔
نائب سالار الناصر اور علی بن سفیان کے مشوروں سے یہ طے ہوا کہ صرف بارہ چھاپہ مار اس پہاڑی جگہ کے اندر جائیں گے ،جہاں پروہت رہتاہے اور لڑکی قربان کی جاتی ہے ۔حبشی کی دی ہوئی معلومات کے مطابق اس رات میلے میں زیادہ رونق ہوتی ہے،کیونکہ وہ میلے کی آخری رات ہوتی ہے ۔قبیلے کے لوگوں کے سوا کسی اور کو معلوم نہیں ہوتاکہ لڑکی قربان کی جارہی ہے، جسے معلوم ہوتاہے وہ یہ نہیں جانتا کہ قربان گاہ کہاں ہے ۔ان معلومات کی روشنی میں یہ طے کیاگیا کہ پانچ سو سپاہی میلہ دیکھنے والوں کے بھیس میں تلواروں وغیر ہ سے مسلح ہوکر اس رات میلے میں موجود ہوں گے۔ان میں سے دوسو کے پاس تیر کمان ہوں گے۔اُس زمانے میں ان ہتھیاروں پر پابندی نہیں تھی۔چھاپہ ماروںکے ذہنوں میں واضح تصور کی صورت میں جگہ نقش کردی جائے گی۔ وہ براہِ راست حملہ نہیں کریں گے۔ چھاپہ ماروں کی طرح پہاڑی علاقے میں داخل ہوں گے ۔پہرہ داروں کو خاموشی سے ختم کریں گے اور اصل جگہ پہنچ کر اس وقت حملہ کریں گے جب لڑکی قربان گاہ میں لائی جائے گی۔ اس سے قبل حملے کا یہ نقصان ہوسکتاہے کہ لڑکی کو تہہ خانے میں ہی غائب یا ختم کردیاجائے گا۔
یہ معلوم ہوگیا تھا کہ قربانی آدھی رات کے وقت پورے چاند میں ہی دی جاتی ہے۔پانچ سوسپاہیوں کو اس وقت سے پہلے قربان گاہ والی پہاڑیوںکے اِرد گرد پہنچنا تھا۔چھاپہ ماروں کے لیے گھیرے میں آجانے یا مہم ناکام ہونے کی صورت میں یہ ہدایت دی گئی کہ وہ فلیتے والا ایک آتشیں تیراوپر کو چلائیں گے۔اس تیر کا شعلہ دیکھ کر یہ پانچ سو نفری حملہ کردے گی ۔
اسی وقت بارہ جانباز منتخب کر لیے گئے اور اس فوج میں سے جو دوسال پہلے نور الدین زنگی نے سلطان ایوبی کی مدد کے لیے بھیجی تھی،پانچ سوذہین اور بے خوف سپاہی ،عہدے دار اور کمان دار منتخب کر لیے گئے ۔یہ لوگ عرب سے آئے تھے ،مصر اور سوڈان کی سیاست بازیوں اور عقائد کا ان پر کچھ اثر نہ تھا۔وہ صرف اسلام سے آگاہ تھے اور یہی ان کا عقیدہ تھا۔وہ ہر اس عقیدے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے تھے، جسے وہ غیر اسلامی سمجھتے تھے۔انہیں بتایا گیا کہ وہ ایک باطل عقیدے کے خلاف لڑنے جارے ہیں اور ہوسکتاہے کہ انہیں اپنے سے زیادہ نفری سے مقابلہ کرنا پڑے اور لڑائی خونریز ہو اور یہ بھی ہوسکتاہے کہ اُن کے سامنے کوئی ٹھہر ہی نہ سکے اور بغیر لڑائی کے مہم سر ہوجائے ۔انہیں سکیم سمجھادی گئی اور ان کے ذہنوں میں پہاڑی علاقے کا اور ان پہاڑویوں کی بلندی، جو زیادہ نہیں تھی اور ان میں گھر ی ہوئی قربان گاہ کا تصور بٹھادیا گیا۔بارہ جانبازوں کو بھی ان کے ہدف کا تصور دیاگیا۔انہیں ٹریننگ بڑی سختی سے دی گئی تھی۔پہاڑیوں پر چڑھنا اور ریگستانوں میں دوڑنا،بھوک اور پیاس اونٹ کی طرح برداشت کرنا ،اُن کے لیے مشکل نہیں تھا۔
: قربانی کی رات کو چھ روز باقی تھے ۔تین دن اور تین راتیں چھاپہ ماروں اور پانچ سوسپاہیوں کو مشق کرائی گئی۔ چوتھے روز چھاپہ ماروں کو اونٹوں پر روانہ کردیاگیا۔اونٹوںکی میانہ چال سے ایک دن اور آدھی رات کا سفر تھا۔شتر بانوں کی حکم دیاگیا تھا کہ چھاپہ ماروں کو پہاڑی علاقے سے دُور جہاں وہ کہیں اُتار کر واپس آجائیں ۔پانچ سوکے دستے کو تماشائیوں کے بھیس میں دو دو چارچار ٹولیوں میں گھوڑوں اور اونٹوں پر روانہ کیا گیا۔ انہیں جانور اپنے ساتھ رکھنے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے کمان دار بھی اسی بھیس میں چلے گئے ۔
٭ ٭ ٭
میلے کی آخری رات تھی۔
پورا چاند اُبھر تا آرہاتھا ۔صحرا کی فضا شیشے کی طرح شفاف تھی ۔میلے میں انسانوںکے ہجوم کا کوئی شمار نہ تھا۔کہیں نیم برہنہ لڑکیاں رقص کررہی تھیں اور کہیں گانے والیوں نے مجمع لگارکھا تھا۔سب سے زیادہ بھیڑ اس چبوترے کے اِردگرد تھی ،جہاں لڑکیاں نیلام ہورہی تھیں ۔ایک لڑکی کو چبوترے پر لایا جاتا ۔گاہک اسے ہر طرف سے دیکھتے ۔اس کا منہ کھول کر دانت دیکھتے ،بالوں کو اُلٹا پلٹا کر دیکھتے ،جسم کی سختی اور نرمی محسوس کرتے اور بولی شروع ہوجاتی ۔وہاں جواء بھی تھا، شراب بھی تھی ،اگر وہاں نہیں تھا تو قانون نہیںتھا۔پوری آزادی تھی ۔دُور دُور سے آئے ہوئے لوگوں کے خیمے میلے کے اِرد گرد نصب تھے ۔تماشائی مذہب اور اخلاق کی پابندیوں سے آزاد تھے ۔انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان سے تھوڑی ہی دُور جو پہاڑیاں ہیں ، ان میں ایک خوب صورت لڑکی کو ذبح کرنے کے لیے تیار کیاجارہاہے اور وہاں ایک انسان دیوتا بناہواہے۔وہ اتناہی جانتے تھے کہ ان پہاڑیوں میں گھراہوا علاقہ دیوتائوں کا پایۂ تخت ہے،جہاں جن اور بھوت پہرہ دیتے ہیں اور کوئی انسان وہاں جانے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔
جاری یے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں