قسط # 25 داستاں ایمان فروشوں کی
خلیفہ نے محافظ دستے کے ناک میں دم کررکھا تھا۔تمام تر محافظ دستہ دھوپ میں کھڑا تھا۔ سورج غروب ہونے میں کچھ دیر باقی تھی ۔ اس دستے کو صبح کھڑا کیا گیاتھا۔ کمان داروں اور عہدے داروں کو بھی کھانے کی اجازت دی گئی تھی،نہ پانی پینے کی ۔رجب بار بار آتا اور اعلان کرتا تھا کہ لڑکی محافظوں کی مدد کے بغیر اغواء نہیں کی جاسکتی تھی۔جس کسی نے اغوا میں مدددی ہے، وہ سامنے آجائے ،ورنہ تمہیں یہیں بھوکا اور پیاسا مار دیاجائے گا۔ اگر لڑکی خود باہر گئی ہوتی تو تم میں سے کسی نہ کسی نے ضرور دیکھی ہوتی ……ان دھمکیوں کا کچھ اثر نہیں ہورہاتھا۔ سب کہتے تھے کہ وہ بے گناہ ہیں ۔
خلیفہ رجب کو ٹکنے نہیں دے رہاتھا۔ اس نے رجب سے کہاتھا۔ ''مجھے لڑکی کا افسوس نہیں ، پریشانی یہ ہے کہ جو اتنے کڑے پہرے سے لڑکی کو اغوا کر سکتے ہیں ،وہ مجھے بھی قتل کرسکتے ہیں ۔مجھے یہ ثبوت چاہیے کہ لڑکی کو صلاح الدین ایوبی نے اغوا کرایا ہے ''۔
رجب نے ہی اغواکا بہتان سلطان ایوبی کے سر تھوپا تھا، مگر خلیفہ اسے کہہ رہاتھا کہ ثبوت لائو،رجب ثبوت کہاں سے لاتا،اس کی جان پر بن گئی تھی۔وہ ایک بار پھر محافظ دستے کے سامنے گیا، غصے سے وہ بائولا ہوا جارہاتھا۔ وہ کئی بار دی ہوئی دھمکی ایک بار پھر دینے ہی لگا تھا کہ دروازے پر کھڑے سنتریوں نے دروازے کھول دئیے اور اعلان کیا……''امیرِ مصر تشریف لارہے ہیں''۔
بڑے دروازے میں سلطان ایوبی کا گھوڑا داخل ہوا۔ اس کے آگے وہ محافظ سواروں کے گھوڑے تھے۔آٹھ سوار پیچھے تھے ۔ ایک دائیں اور بائیں تھا۔ ان کے پیچھے سلطان ایوبی کے حاکم اور مشیر تھے ۔ ان میں علی بن سفیان بھی تھا۔ رجب نے خلیفہ کو اطلاع بھیج دی کہ صلاح الدین ایوبی آیاہے ۔ سب نے دیکھا کہ سلطان ایوبی کے اس جلوس کے پیچھے چار پہیوں والی ایک گاڑی تھی۔جس کے آگے دو گھوڑے جُتے ہوئے تھے ۔گاڑی پر دولاشیں پڑی تھیں ۔ ایک سیدھی اور دوسری اُلٹی ۔تیر ابھی تک لاشوں میں اُترے ہوئے تھے ۔ ان لاشوں کے ساتھ وہ تین شترسوار تھے، جنہوں نے ان حبشیوں کا مارا تھا۔
خلیفہ باہر آگیا۔ سلطان ایوبی اور اس کے تمام سوار گھوڑوں سے اُترے ۔ سلطان ایوبی نے اسی احترام سے خلیفہ کو سلام کیا جس احترام کا وہ حق دار تھا۔ جھک کر اس سے مصافحہ کیا اور ہاتھ چوما۔
''مجھے آپ کا پیغام مل گیاتھا کہ میں آپ کے حرم کی لڑکی واپس کردوں ''۔ سلطان ایوبی نے کہا……''میں آپ کے دو محافظوں کی لاشیں لایاہوں ۔یہ لاشیں مجھے بے گناہ ثابت کردیں گی اور میں حضور اقدس میں یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ صلاح الدین ایوبی آپ کی فوج کا سپاہی نہیں ہے، جس خلافت کی آپ نمائندگی کررہے ہیں ،وہ اس کا بھیجا ہواہے''۔
خلیفہ نے صلاح الدین ایوبی کے تیور بھانپ لیے۔اس فاطمی خلیفہ کا ضمیر گناہوں کے بوجھ سے کراہ رہاتھا۔ وہ سلطان ایوبی کی بارعب اور پُر جلال شخصیت کا سامنا کرنے کے قابل نہیں تھا۔اس نے سلطان ایوبی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا……''میں تمہیں اپنے بیٹوں سے زیادہ عزیز سمجھتا ہوں ،صلاح الدین ایوبی اندر آئو''۔
''میری حیثیت ابھی ملزم کی ہے ''۔سلطان ایوبی نے کہا……''مجھے ابھی صفائی پیش کرنی ہے کہ میں اغوا کا ملزم نہیں ہوں ۔ خدائے ذوالجلال نے میری مددفرمائی ہے اور دولاشیں بھیجی ہیں ۔یہ لاشیں بولیں گی نہیں ، ان کی خاموشی اور ان میں اُترے ہوئے تیر گواہی دیں گے کہ صلاح الدین ایوبی اس جرم کا مجرم نہیں ہے ، جو قصرِ خلافت میں سرزد ہوا ہے۔میں جب تک اپنے آپ کو بے گناہ ثابت نہ کرلوں گا، اندر نہیں جائوں گا''……وہ لاشوں کی طرف چل پڑا۔
خلیفہ کھچا ہوا اُس کے پیچھے پیچھے گیا۔ تھوڑی دُور چار ساڑھے چار سو نفری کا محافظ دستہ کھڑا تھا ۔سلطان ایوبی نے لاشیں اُٹھوا کر اس دستے کے سامنے رکھ دیں اور بلند آواز سے کہا …… ''آٹھ آٹھ سپاہی آگے آئو اور لاشوں کو دیکھ کر بتائوکہ یہ کون ہیں ؟'' …… پہلے کمان دار اور عہدے دار آئے ۔انہوں نے لاشیں دیکھ کر ان کے نام بتائے اور کہا…… ''یہ ہمارے دستے کے سپاہی تھے''……ان کے بعد آٹھ سپاہی آئے ، انہوں نے بھی لاشوں کو دیکھ کر کہا کہ یہ ان کے ساتھی تھے ۔آٹھ اور سپاہی آئے ، پھر آٹھ اور آئے ۔اسی طرح آٹھ آٹھ سپاہی آتے رہے اور بتاتے رہے کہ یہ لاشیں ان کے فلاں فلاں ساتھیوں کی ہیں ۔
''صلاح الدین ایوبی !'' ……خلیفہ نے کہا……''میں نے مان لیاہے کہ یہ لاشیں قصرِ خلافت کے دو محافظوں کی ہیں ۔میں اس سے آگے سننا چاہتاہوں کہ انہیں کس نے ہلاک کیا ہے ''۔
صلاح الدین ایوبی نے اس گشتی سنتری سے ، جس نے انہیں ہلاک کیا تھا ،کہا کہ اپنا بیان دہرائے ۔اُس نے سارا واقعہ خلیفہ کو سنادیا۔ وہ ختم کرچکا تو سلطان ایوبی نے خلیفہ سے کہا……''لڑکی میرے پاس نہیں لائی گئی ۔وہ سوڈانی حبشیوں کے میلے میں فروخت ہونے کے لیے گئی ہے''۔
خلیفہ کھسیانہ ہوا جارہاتھا۔ اس نے سلطان ایوبی سے کہا کہ وہ اندر چلے ۔سلطان ایوبی نے اندر جانے سے انکار کردیا اور کہا……''میں اس لڑکی کو زندہ یا مردہ بر آمد کرکے آپ کے حضور حاضری دوںگا ۔ابھی میں اتنا ہی کہوں گا کہ حرم کی ایک ایسی لڑکی اغوا جو تحفے کے طور پر آئی تھی اور جو آپ کی منکوحہ بیوی نہیں داشتہ تھی ، میرے لیے ذرہ بھر اہمیت نہیں رکھتی ۔خداوند تعالیٰ نے مجھے اس سے اہم فرائض سونپے ہیں ''۔
''میری پریشانی یہ نہیں کہ ایک لڑکی اغواہوگئی ہے ''۔ خلیفہ نے کہا……''اصل پریشانی یہ ہے کہ اس طرح لڑکیاں اغوا ہونے لگیں تو ملک میں قانون کا کیا حشر ہوگا''۔
''اور میری پریشانی یہ ہے کہ سلطنتِ اسلامیہ اغواہورہی ہے ''۔۔سلطان ایوبی نے کہا……''آپ زیادہ پریشان نہ ہوں ۔میرا شعبہ سراغ رسانی لڑکی کو برآمد کرنے کی پوری کوشش کرے گا''۔
خلیفہ سلطان ایوبی کو ذراپرے لے گیا اور کہا……''صلاح الدین ! میں ایک عرصے سے دیکھ رہاہوں کہ تم مجھ سے کھچے کھچے رہتے ہو۔ میں نجم الدین ایوب )سلطان صلاح الدین ایوبی کے والد محترم (کا بہت احترام کرتاہوں ،مگر تمہارے دل میں میرے لیے ذرہ بھر احترام نہیں ہے اور مجھے آج بتایا گیا ہے کہ جامع مسجد کے خطیب امیر العالم نے یہ گستاخی کی ہے کہ خطبے سے میرا نام ہٹادیاہے ۔مجھے رجب نے بتایا ہے کہ میں اسے اس گستاخی کی سزا دے سکتاہوں ۔ میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس نے تمہای شہ پر تو ایسا نہیں کیا؟''
''میری شہہ پر نہیں ، میرے حکم پر اس نے خلیفہ کانام خطبہ سے حذف کیاہے ''۔ سلطان ایوبی نے کہا……''صرف آپ کانام نہیں ،بلکہ ہر اس خلیفہ کانام خطبے سے ہٹادیاگیاہے جو آپ کے بعد آئے گا اور جو اُس کے بعد آئے گا''۔
''کیا یہ حکم فاطمی خلافت کمزور کرنے کے لیے جاری کیاگیاہے ؟''خلیفہ نے پوچھا……''مجھے شک ہے کہ یہاں عباسی خلافت لائی جارہی ہے''۔
''حضور بہت بوڑھے ہوگئے ہیں ''۔سلطان ایوبی نے کہا ……''قرآن نے شراب کو اسی لیے حرام کہاہے کہ اس سے دماغ مائوف ہوجاتاہے ''……سلطان نے ذرا سوچ کر کہا……''میں نے فیصلہ کیا ہے کہ کل سے آپ کے محافظ دستے میں ردوبدل ہوگا اور رجب کو میں واپس لے کر آپ کو نیا کمان داردوں گا''۔
''لیکن میںرجب کویہاں رکھنا چاہتا ہوں '' خلیفہ نے کہا۔
''میں حضور سے درخواست کرتاہوں کہ فوجی معاملات میں دخل دینے کی کوشش نہ کریں ۔ سلطان ایوبی نے کہا اور علی بن سفیان کی طرف متوجہ ہوا جو پانچ حبشی محافظو کو ساتھ لیے آرہاتھا۔
'' یہ پانچوں اُسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں '' علی بن سفیان نے کہا…… ''میں نے اس دستے سے مخاطب ہو کر کہا کہ اس قبیلے کے کوئی آدمی یہاں ہوں تو باہر آجائیں ۔یہ پانچ صفوں سے باہر آگئے ۔ ان کے متعلق مجھے ان کے کمان دار نے بتایا ہے کہ پرسوں سے چُھٹی پر جا رہے تھے ۔ میں انہیں اپنے ساتھ لے جارہاہوں ۔لڑکی کے اغوا میں ان کا ہاتھ ہوسکتاہے ''۔
صلاح الدین ایوبی نے رجب کو بلا کر کہا…… ''کل یہاں دوسرا کمان دار آرہاہے ، آپ میرے پاس آجائیں گے ۔ میں آپ کو منجنیقوں کی کمان دینا چاہتا ہوں۔
رجب کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
اُمِّ عرارہ کو گھوڑے پر ڈالئے ہوئے جب وہ دو حبشی اتنی دُور نکل گئے ،جہاں انہیں تعاقب کا خطرہ نہ رہاتو انہوں نے نے گھوڑے روک لیے ۔لڑکی ایک بار پھر آزاد ہونے کو تڑپنے لگی۔ حبشیوں نے اسے کہا کہ اس کا تڑپنا بے کار ہے۔اب اگر اُسے وہ آزاد بھی کردیں تو وہ اس ریگستان سے زندہ نہیں نکل سکے گی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اسے بے آبرو نہیں کرنا چاہتے ۔ اگر اُن کی نیت ایسی ہوتی تو وہ اس کے ساتھ وحشیوں جیسا سلوک کر چکے ہوتے۔ اُمِّ عرارہ حیران تھی کہ انہوں نے اسے چھیڑا تک نہیں تھا۔ انہیں تو جیسے احساس ہی نہیں تھا کہ اتنی دلکش لڑکی ان کے رحم و کرم پر ہے۔ ان میں سے ایک نے جو مارا جا چکاتھا، مرنے سے پہلے اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر التجا کی تھی کہ وہ تڑپ تڑپ کر اپنے آپ کو اذیت میں نہ ڈالے۔اُمِّ عرارہ نے ان سے پوچھا کہ اسے کہاں لے جایا جارہاہے تو اسے جواب دیاگیا کہ وہ اسے آسمان کے دیوتاکی ملکہ بنانے کے لیے لے جارہے ہیں۔
: انہوں نے لڑکی کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور اُٹھا کر گھوڑے پر بٹھا دیا ۔اس نے آزاد ہونے کی کوشش ترک کر دی۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ کوشش بے سود ہے ۔گھوڑے چل پڑے اوراُمِّ عرارہ ایک حبشی کے آگے گھوڑے پر بیٹھی محسوس کیا کہ رات ہوگئی ہے ۔گھوڑے رُک گئے ۔اس وقت تک اس نازک لڑکی کا جسم مسلسل گھوڑ سواری سے ٹوٹ چکا تھا۔ دہشت سے اس کا دماغ بے کار ہوگیاتھا۔ اسے گھوڑے رُکتے ہی اپنے ارد گرد تین چار مردوں اور تین عورتوں کی ملی جلی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ یہ زبان اس کی سمجھ سے بالا تھی۔ یہی حبشی راستے میں اس کے ساتھ عربی زبان میں باتیں کرتے تھے۔ ان کا لہجہ عربی نہیں تھا۔
ابھی اس کی آنکھوں سے پٹی نہیں کھولی گئی تھی۔ اس کی تو جیسے زبان بھی بند ہوگئی تھی۔ اُسے کسی نے اُٹھا کر کسی نرم چیز پر بٹھا دیا۔ یہ پالکی تھی ۔پالکی اوپر کو اُٹھی اور اس کا ایک اور سفر شروع ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی دف کی ہلکی ہلکی گونج دار تھاپ سنائی دینے لگی اور عورتیں گانے لگیں۔اس گانے کے الفاظ تو وہ نہ سمجھ سکتی تھی، اس کی لَے میں جادو کا اثر تھا ۔یہ اثر ایسا تھا، جس نے اُمِّ عرارہ کے خوف میں اضافہ کردیا، لیکن اس خوف میں ایسا تاثر بھی پیدا ہونے لگا جیسے اس پر نشہ یا خمار طاری ہورہاہو۔ رات کی خنکی خمار میں لذت سی پیدا کررہی تھی۔ اُمِّ عرارہ نے یہ چاہتے ہوئے کہ وہ پالکی سے کود جائے اور بھاگ اُٹھے اور یہ لوگ اُسے جان سے ماردیں،اس نے ایسی جرأت نہ کی ۔وہ محسوس کررہی تھی کہ وہ ان انسانوں کے قبضے میں نہیں بلکہ کوئی اور ہی طاقت ہے جس نے اس پر قابو پالیا ہے اور اب وہ اپنی مرضی سے کوئی حرکت نہیں کر سکے گی۔
وہ محسوس کرنے لگی کہ پالکی بردار سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں ، وہ چڑھتے گئے ۔کم و بیش تیس سیڑھیاں چڑھ کر وہ ہموار چلنے لگے اور چند قدم چل کر رُک گئے ۔پالکی زمین پر رکھ دی گئی۔اُمِّ عرارہ کی آنکھوں سے پٹی کھول کر کسی نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔تھوڑی دیر بعد ان ہاتھوں کی انگلیاں کھلنے لگی اور لڑکی کو روشنیاں دکھائی دینے لگی۔ آہستہ آہستہ ہاتھ اُس کی آنکھوں سے ہٹ گئے ۔ وہ ایک ایسی عمارت میں کھڑی تھی جو ہزاروں سال پرانی نظر آتی تھی۔ گول ستون اوپر تک چلے گئے تھے ۔ایک وسیع ہال تھا جس پر فرش روشنیوں میں چمک رہاتھا ۔دیواروں کے ساتھ ڈنڈے سے لگے ہوئے تھے اور ڈنڈوں کے سروں پر مشعلو ں کے شعلے تھے ۔اندر کی فضا میں ایسی خوشبو تھی جس کی مہک اس کے لیے نئی تھی۔ دف کی ہلکی ہلکی تھاپ اور عورتوں کا گیت اسے سنائی دے رہاتھا۔ یہ تھاپ اور یہ لَے ہال میں ایسی گونج پیدا کررہی تھی، جس میں خواب کا تاثر تھا۔
اُس نے سامنے دیکھا ۔ایک چبوترہ تھا جس کی آٹھ دس سیڑھیاں تھیں ۔چبوترے پر پتھر کے بُت کا منہ اور سر تھا۔اس کی ٹھوڑی کے نیچے تھوڑی سی گردن تھی۔ٹھوڑی سے ماتھے تک یہ پتھر کا چہرہ قد آور انسان سے بھی ڈیڑھ دو فٹ اونچا تھا۔منہ کھلاہوا تھا جو اتنا چوڑا تھا کہ ایک آدمی ذراسا جھک کر اس میں داخل ہوسکتا تھا۔ منہ میں سفید دانت بھی تھے۔یوں لگتا تھا جیسے یہ چہرہ قہقہے لگا رہاہو۔ اس کے دونوں کانوں سے ڈنڈے نکلے ہوئے تھے،جن کے باہر والے سروں پر مشعلیں جل رہی تھی۔اچانک اس کی آنکھیں جو کم و بیش گز گز بھر چوڑی تھیں ،چمکنے لگیں ۔ان سے روشنی پھوٹنے لگی ۔ عورتوں کے گیت کی لَے بدل گئی ۔ دف کی تھاپ میں جوش پیدا ہوگیا ۔ پتھر کے منہ کے اندر روشنی ہوگئی ۔لمبے لمبے سفید چغے پہنے ہوئے دو آدمی جھک کر منہ سے باہر آئے۔منہ سے باہر آکر ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔
اس کے بعد پتھر کے منہ میںسے ایک اور آدمی نمودار ہوا۔وہ بھی جھک کر باہر آیا۔وہ ذرا بوڑھا لگتا تھا۔ اس کا چغہ سرخ رنگ کاتھا اور اس کے سر پر تاج تھا۔ ایک سانپ جو مصنوعی تھا اسکے دائیں کندھے پر کنڈلی مارے اور پھن پھیلائے بیٹھا تھا اور ایک بائیں کندھے پر ۔ دونوں سانپوں کے رنگ سیاہ تھے۔ اُمِّ عرارہ پر ایسا رعب طار ی ہوا کہ وہ سُن ہوکے کھڑی رہی ۔یہ آدمی جو اس قبیلے کا مذہبی پیشوا یا پروہت تھا، چبوترے کی سیڑھیاں اُتر آیا۔ وہ آہستہ آہستہ اُمِّ عرارہ تک آیا اور دونوں گھٹنے فرش پر رکھ کر اس نے لڑکی کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر چوم لیے۔ اس نے لڑکی سے عربی زبان میں کہا……''تم ہو وہ خوش نصیب لڑکی جسے میرے دیوتا نے پسند کیا ہے۔ہم تمہیں مبارک باد پیش کرتے ہیں ''۔
''یہاں جو بھی آتی ہے ،یہی کہتی ہے ''۔ پروہت نے کہا……''لیکن اُس پر اس مقدس جگہ کا راز کھلتا ہے تو کہتی ہے کہ میں یہاں سے جانا نہیں چاہتی ۔میں جانتاہوں تم مسلمانوں کے خلیفہ کی محبوبہ ہو، مگر جس نے تمہیں پسند کیا ہے،،اس کے آگے دنیا کے خلیفے اور آسمانوں کے فرشتے سجدے کرتے ہیں ۔تم جنت میں آگئی ہو''۔ اس نے چغے کے اندرسے ایک پھول نکالا اور اُمِّ عرارہ کی ناک کے ساتھ لگادیا۔ اُمِّ عرارہ حرم کی شہزادی تھی۔اس نے ایسے ایسے عطر سونگے تھے جو اس جیسی شہزادیوں کے سوا اور کوئی خواب میں بھی نہیں سونگ سکتاتھا، مگر اس پھول کی بو اس کے لیے انوکھی تھی۔یہ بو اسکی روح تک اُتر گئی ۔اس کی سوچوں کا رنگ ہی بدل گیا۔اس کی نظروں کے زاویے ہی بدل گئے ۔پروہت نے کہا……''یہ دیوتا کا تحفہ ہے''…… اور اس نے پھول اس کی ناک سے ہٹالیا۔
اُمِّ عرارہ نے ہاتھ آہستہ آہستہ آگے کیا اور پروہت کا پھول والا ہاتھ پکڑ کر اپنی ناک کے قریب لے آئی۔پھول سونگھ کر خمار آلود آواز میں بولی۔''کتنا دل نشین تحفہ ہے۔آپ یہ مجھے دیں گے نہیں ؟''
''کیا تم نے تحفہ قبول کرلیاہے؟'' ۔پروہت نے پوچھا ۔اس کے ہونٹوں پر مُسکراہٹ تھی۔''ہاں اُمِّ عرارہ نے جواب دیا……''میں نے یہ تحفہ قبول کرلیاہے ''……اس نے پھول کو ایک بار پھر سونگھا اور اس نے آنکھیں بند کرلیںجیسے مہک کو ا پنے وجود میں جذب کرنے کی کوشش کررہی ہو۔
''دیوتانے بھی تمہیں قبول کرلیاہے''۔ پروہت نے کہا اور پوچھا……''تم اب تک کہاں تھیں ؟''
لڑکی سوچ میں پڑگئی جیسے کچھ یاد کرنے کی کوشش کررہی ہو۔سر ہلا کر بولی……''میں یہیں تھی……نہیں ۔میں ایک اورجگہ تھی ……مجھے یاد نہیں کہ میں کہاں تھی''۔
''تمہیں یہاں کون لایاہے؟''
''کوئی بھی نہیں ''……اُمِّ عرارہ نے جواب دیا……''میں خود آئی ہوں''
''تم گھوڑے پر نہیں آئی تھیں؟''
''نہیں ''۔لڑکی نے جواب دیا……''میں اُڑتی ہوئی آئی ہوں''۔
''کیا راستے میں صحرا اور پہاڑ اور جنگل اور ویرانے نہیں تھے؟''
''نہیں تو!''۔ لڑکی نے جواب دیا……''ہر طرف سبزہ زار اور پھول تھے''۔
''تمہای آنکھوں پر کسی نے پٹی نہیں باندھی تھی؟''
''پٹی ؟……نہیں تو''۔لڑکی نے جواب دیا……''میری آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور میں نے رنگ برنگ پرندے دیکھے تھے،پیارے پیارے پرندے۔''
پروہت نے اپنی زبان میں بلند آواز سے کھچ کہا۔اُمِّ عرارہ کے عقب سے چار لڑکیاں آئیں ۔انہوں نے اس کے کپڑے اُتار دئیے۔وہ مادر زاد ننگی ہوگئی ۔اُس نے مُسکراکر پوچھا ……''دیوتا مجھے اس حالت میں پسند کریں گے؟''پروہت نے کہا……''نہیں تمہیں دیوتا کے پسند کے کپڑے پہنا ئے جائیں گے''……لڑکیوں نے اس کے کندھوں پر چادر سی ڈال دی جو اتنی چوڑی تھی کہ کندھوں سے پائوں تک اس کا جسم مستور ہوگیا۔اس چادر کے کناروں پر رنگ دار رسیوں کے ٹکڑے تھے۔چادر آگے کرکے ان ٹکڑوں کا گانٹھیں دے دی گئیں اور چادر نہایت موزوں چغہ بن گئی۔ اُمِّ عرارہ کے بال ریشم جیسے ملائم اور سیاہی مائل بھور ے تھے۔ایک لڑکی نے اس کے بالوں میں کنگھی کرکے اس کے شانوں پر پھیلا دئیے ۔اسکا حسن اور زیادہ بڑھ گیا۔
پروہت نے اسے مُسکراکر دیکھا اور گھوم کر پتھر کے مہیب چہرے کی طرف چل پڑا۔دولڑکیوں نے اُمِّ عرارہ کے ہاتھ تھام لیے اور پروہت کے پیچھے پیچھے چل پڑیں ۔اُمِّ عرارہ شہزادیوں کی طرح چل پڑی ۔ اس نے اِدھر اُدھر نہیں دیکھاکہ ماحول کیسا ہے۔اس کی چال میں اور ہی شان تھی۔عورتوں کاراگ اسے پہلے سے زیادہ طلسماتی اور پُر سوز معلوم ہونے لگا۔وہ پروہت کے پیچھے ،ہاتھ لڑکیوںکے ہاتھوں پر رکھے چبوترے کی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ پروہت پتھر کے پہاڑ جیسے چہرے کے منہ میں داخل ہوگیا۔ اُمِّ عرارہ بھی تین سیڑھیاں چڑھ کر بُت کے منہ میں جھک کر داخل ہوگئی۔ دونوں لڑکیاں وہیں کھڑی رہیں ۔اُمِّ عرارہ کا ہاتھ پروہت نے تھام لیا۔ منہ کی چھت اتنی اونچی تھی کہ وہ سیدھے چل رہے تھے ۔ حلق میں پہنچے تو آگے سیڑھیاں تھیں۔ وہ سیڑھیاں اُتر گئے۔یہ ایک تہہ خانہ تھا جہاں قندیلیں روشن تھیں۔ایک کمرے میں بھی مہک تھی۔یہ کمرہ کشادہ نہیں تھا،چھت اونچی نہیں تھی۔اس کی دیوار یں اور چھت درختوں کے پتوں اور پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ فرش پر ملائم گھاس اور گھاس پر پھول بچھے ہوئے تھے۔ایک کونے میں خوشمنا صراحی اور پیالے رکھے تھے۔ پروہت نے صراحی سے دو پیالے بھرے ۔ایک اُمِّ عرارہ کو دیا ،دونوں نے پیالے ہونٹوں سے لگائے اور خالی کردئیے۔
''دیوتا کب آئے گا؟'' اُمِّ عرارہ نے پوچھا۔
''تم نے ابھی اسے پہچانا نہیں ؟'' پروہت نے کہا……''تمہارے سامنے کون کھڑ اہے ؟''
اُمِّ عرارہ اس کے پائوں میں بیٹھ گئی اور بولی……''ہاں ! میں نے اسے پہچان لیا ہے۔تم وہ نہیں ہو جسے میں نے اوپر دیکھا تھا۔ تم نے مجھے قبول کرلیا ہے؟''
''ہاں !'' پروہت نے کہا ……''آج سے تم میری دلہن ہو''۔
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں