چوتها حصہ : ام عراره کا اغوا
قسط # 24
صلاح الدین ایوبی نے اسی وقت سلطان نو رالدین زنگی کے نام پیغام لکھا ، جس میں اسے اطلاع دی کہ اس نے جمعے کے خطبے میں سے خلیفہ کانام نکلوادیا ہے۔عوام کی طرف سے اچھے ردِّ عمل کا اظہار ہواہے۔لہٰذا آپ بھی مرکزی خلافت کو خطبے سے خارج کردیں ۔ اب لُبِ لباب کا طویل پیغام لکھ کر اُس نے حکم دیا کہ قاصد کو علی الصبح روانہ کردیاجائے جو یہ پیغام نور الدین زنگی کو دے کر واپس آجائے ۔اس کے بعد اس نے علی بن سفیان سے کہا کہ خلیفہ کے محل میں جاسوسوں کو چوکنا کردیاجائے۔وہاں ذراسی بھی مشکوک حرکت ہوتو فوراً اطلاع دیں ۔رجب کو سلطان ایوبی جانتاتھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ رجب خلیفہ کا منہ چڑھانائب سالار ہے ۔سلطان ایوبی نے علی بن سفیان سے کہا……''رجب کے ساتھ ایک آدمی سائے کی طرح لگا رہنا چاہیے ''۔
اُس رات خلیفہ کی محفل عیش و طرب میں رجب نہیں تھا۔ وہ سلطان ایوبی کے قتل کا انتظام کرنے چلاگیا تھا۔ اسے حسن بن صباح کے حشیشین سے ملنا تھا۔ خلیفہ روز مرہ کی طرح باہر کی دُنیا سے بے خبر اور اُمِ عرارہ کے طلسماتی حسن اور ناز و ادا میں گم تھا۔ اسے کسی نے بتایا ہی نہیں تھا کہ خطبے میں سے اس کا نام حذف ہوچکا ہے ۔وہ خوش تھاکہ صلاح الدین ایوبی کے قتل کا انتظام ہونے والا ہے ۔ اُمِ عرارہ نے اسے جلدی سلا نے اور بے ہوش کرنے کے لیے زیادہ شراب پلادی اور شراب میں خواب آور سفوف بھی ملادیا ۔ اس بوڑھے سے جلدی چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے وہ یہی نسخہ استعمال کیا کرتی تھی۔اُسے سلا کر اور قندیلیں بجھاکر وہ کمرے سے نکل گئی ۔وہ اپنے مخصوص کمرے کی طرف جارہی تھی جس میں رجب رات کو چوری چھپے اس کے پاس آیا کر تاتھا۔
وہ کمرے میں داخل ہوئی ہی تھی کہ کواڑوںکے پیچھے سے کسی نے اس پر کمبل پھینکا ۔اس کی آواز بھی نہ نکلنے پائی تھی کہ اس کے منہ پر جہاں پہلے ہی کمبل لپٹ گیاتھا، ایک اور کپڑا باندھ دیاگیا ۔ اسے کسی نے کندھوں پر ڈال لیا اور کمرے سے نکل گیا۔ یہ دو آدمی تھے ۔وہ محل کی بھول بھلیوں اور چور راستوں سے واقف معلوم ہوتے تھے ۔ وہ اندھیری سیڑھیوں پرچڑھ گئے ۔اوپر سے انہوں نے رسہ باندھ کر نیچے لٹکا یا۔ لڑکی کو کندھوں پر ڈالے ہوئے وہ آدمی رسے سے نیچے اُتر گیا ۔اس کے پیچھے دوسرا اُترا اور دونوں اندھیرے میں غائب ہوگئے ۔ کچھ دور چار گھوڑے کھڑے تھے اور ان کے پاس دوآدمی بیٹھے ہوئے تھے۔انہوں نے اپنے ساتھیوں کو اندھیرے میں آتے دیکھا اور یہ بھی دیکھ لیا کہ ایک نے کندھے پر کچھ اُٹھا رکھاہے۔وہ گھوڑوں کو آگے لے گئے ۔سب گھوڑوں پر سوار ہوگئے ایک سوار نے لڑکی کو اپنے آگے ڈال لیا۔ ان میں سے کسی نے کہا……''گھوڑوں کو ابھی دوڑانا نہیں ۔ٹاپو سارے شہر کو جگادیں گے''……گھوڑے آہستہ آہستہ چلتے گئے اور شہر سے نکل گئے ۔
''یہ صلاح الدین ایوبی کاکام ہے''۔
''امیرِ مصر کے سو ا ایسی جرأت اور کوئی نہیں کرسکتا''۔
''اس کے سوا اور ہو ہی کون سکتا ہے''۔
قصرِ خلافت میں یہی شور و غوغا بپاتھا کہ اُمِّ عرارہ کو صلاح الدین ایوبی نے اغوا کرایا ہے۔ رجب واپس آگیا تھا۔ محل کے کونے کونے کی تلاشی لی جاچکی تھی۔ محافظ دستہ کمان داروں کے عتاب کا نشانہ بناہواتھا۔ خود کمان دار بھی سپاہیوں کی طرح تھر تھر کانپ رہے تھے۔ ایک لڑکی کا اغوا معمولی واردات نہیں تھی اور لڑکی بھی ایسی جسے خلیفہ حرم کا ہیرا سمجھتاتھا ۔ محل کے پچھواڑے سے ایک رسّہ لٹک رہاتھا۔ زمین پر پائوں کے نشان تھے ۔ جو تھوڑی دُور جا کر گھوڑوں کے نشانات میں ختم ہوگئے تھے ۔ان سے یہ ثبوت مل گیاتھا کہ لڑکی کو رسّے سے اُتارا گیا ہے ۔ اس شک کا اظہار بھی کیاگیا کہ لڑکی اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ گئی ہے۔خلیفہ نے اس شک کو مسترد کردیاتھا ۔ وہ کہتاتھا کہ اُمِّ عرارہ اس پر جان چھر کتی تھی۔
''یہ صلاح الدین ایوبی کاکام ہے ''……رجب نے العاضد سے کہا……'' قصرِ خلافت میں ہر کسی کی زبان پر یہی الفاظ ہیں کہ اس کے سوا اور کوئی بھی ایسی جرأت نہیں کرسکتا''۔
ہر کسی کے کانوں میں یہ الفاظ رجب نے ہی ڈالے تھے۔اسے جونہی اُمِّ عرارہ کی گمشدگی کی اطلاع ملی تھی، اس نے سارے محل میں گھوم پھر کر ہر کسی سے لڑکی کے متعلق پوچھا اور ہر کسی سے کہاتھا……''یہ سلطان ایوبی کاکام ہے ''……قصرِ صدارت کے اعلیٰ حاکم سے ادنیٰ ملازم تک انہی الفاظ کو دہرائے چلے جارہے تھے اور رجب یہ الفاظ خلیفہ العاضد کے کانوں میں پڑے تو اُس نے ذرہ بھر سوچنے کی ضرورت نہ سمجھی کہ یہ الزام بے بنیاد ہوسکتاہے ۔اس کے کانوں میں یہ تو پہلے ہی ڈالا جاچکاتھا کہ سلطان ایوبی عورتوں کا شیدائی ہے۔ اُمِّ عرارہ نے اسے یہ بتایاتھا کہ صلاح الدین ایوبی حرم کی چار لڑکیوں کو خراب کر چکاہے۔خلیفہ نے اسی وقت اپنے خصوصی قاصد کو بلایا اور اُسے کہا کہ امیرِ مصر کے پاس جائو اور اسے کہوکہ پردے میں لڑکی واپس کردو،میں کوئی کاروائ نہیں کرونگا
: جس وقت خلیفۂ قاصد کو یہ پیغام دے رہاتھا، اس وقت قاہرہ سے دس بارہ میل دُور تین شتر سوار قاہرہ کی طرف خراماں خراماں آرہے تھے ۔ وہ مصرکی فوج کے گشتی سنتری تھے۔مصر کے سیاسی حالات چونکہ اچھے نہیں تھے۔جاسوسوں اور تخریب کاروں کی سرگرمیاں رُکنے کی بجائے بڑھتی جارہی تھیں ۔سلطان ایوبی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ملک میں غداری اور بغاوت کی چنگاریاں بھی سلگ رہی ہیں ۔ اُس سوڈانی فوج کی طرف سے جسے اُس نے بر طرف کردیاتھا، خطرہ پوری طرح ٹلانہیں تھا۔ اس فوج کے کمان دار ، عہدے دار اور سپاہی تجربہ کار عسکری تھے۔کسی بھی وقت ملک کے لیے خطرہ بن سکتے تھے ۔ سب سے بڑا خطرہ تو یہ تھا کہ سلطان ایوبی کے مخالفین نے صلیبیوں سے دوستانہ کر رکھاتھا۔ان کے جاسوسوں کو وہ پناہ ، اڈہ اور مدد مہیا کرتے تھے ۔ان خطرات کے پیشِ نظر دار الحکومت سے بہت دُور دُور اور ہر طرف فوج کے چند ایک دستے رکھے گئے تھے۔ان کے گشتی سنتری دن رات صحرائوں اور ٹیلوں ٹیکریوں کے علاقوں میں گھوڑوں اور اونٹوں پر گشت کرتے رہتے تھے ،تاکہ آنے والے خطرے کی اطلاع قبل ازوقت دی جاسکے۔
وہ تین شتر سوار انہی دستوں کے گشتی سنتری تھے جو اپنی ذمہ داری کے علاقے میں گشت کرکے واپس آرہے تھے۔آگے مٹی اور پتھروںکی پہاڑیوں اور چٹانوں کا وسیع علاقہ تھا۔وہ ایک وادی میں سے گزررہے تھے ،انہیں کسی عورت کی آہ و زار سنائی دی۔ مردانہ آوازیں بھی سنائی دیں ۔ان سے صاف پتہ چلتاتھا کہ لڑکی پر زبردستی کی جارہی ہے۔ ایک شتر سوار اُترا اور اس چٹان پر چڑھ گیا ، جس کی دوسری طرف آوازیں آرہی تھی اس نے چھپ کر دیکھا،اُدھر چار گھوڑے کھڑے تھے اور چار آدمی بھی تھے۔ چاروں سوڈانی حبشی تھے……ایک بڑی ہی خوب صورت لڑکی تھی، جو دوڑی جارہی تھی۔ ایک حبشی نے اسے پکڑلیا اور اسے بازوئوں میں دبوچ کر اُٹھا لیا اور اُسے اپنے ساتھیوں کے درمیان کھڑا کرکے اس کے سامنے گھٹنوں کے بل ہوگیا۔ اس نے اپنے سینے پر ہاتھ باندھ کرکہا''تم مقدس لڑکی ہو۔اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر ہمیں گناہ گار نہ کرو۔ دیوتائوں کا قہر ہمیں جلا ڈالے گا یا ہمیں پتھر بنادے گا''۔
''میں مسلمان ہوں''……لڑکی نے چلا کر کہا……''تمہارے دیوتائوں پر لعنت بھیجتی ہوں، مجھے چھوڑ دو ورنہ میں تم سب کو خلیفہ کے کتوں سے بوٹی بوٹی کرادوں گی''۔
''تم اب خلیفہ کی ملکیت نہیں ''……ایک حبشی نے اسے کہا……''اب تم اس دیوتا کی ملکیت ہو جس کے ہاتھ میں آسمان کی بجلیوں کا قہر، ناگوں کا زہر اور شیروں کی طاقت ہے ۔اس نے تمہیں پسند کرلیاہے۔ اب جوکوئی تمہیں اس سے چھیننے کی کوشش کرے گا، اسے صحرا کی ریت جلا کر راکھ کردے گی''۔
ایک حبشی نے دوسرے سے کہا……''میں نے تمہیں کہاتھا کہ یہاں نہ رکو، مگر تم آرام کرنا چاہتے تھے۔ اسے بندھا ہوا چلے چلتے اور شام سے پہلے پہلے منزل پر پہنچ جاتے''۔
''کیا ہمارے گھوڑے تھک نہیں گئے تھے؟''……حبشی نے جواب دیا……''ہم ساری رات کے جاگے ہوئے نہیں تھے؟اسے پھر باندھ لو اور چلو''۔
اس نے لڑکی کو دبوچ لیا۔اچانک اس کی پیٹھ میں ایک تیر اُتر گیا۔اُس کی گرفت لڑکی سے ڈھیلی ہوگئی ۔لڑکی اُسے دھکادے کر بھاگنے لگی تو دوسرے آدمی نے اسے پکڑ کر گھسیٹا اور گھوڑوں کی اوٹ میں ہوگیا۔ ایک اور تیر آیا جو ایک آدمی کی گردن میں لگا۔ وہ آدمی بُری طرح تڑپنے لگا،جس آدمی نے لڑکی کو پکڑا تھا، و ہ گھوڑے کی باگ پکڑ کر لڑکی اور گھوڑے کو نشیبی جگہ لے گیا، جو بالکل قریب تھی۔ایک حبشی اور بھی رہ گیاتھا، وہ بھی دوڑ کر نشیب میں اُترگیا……یہ تیر اُس شتر سوار سنتری نے چلائے تھے جو چٹان پر چڑھ گیا تھا ۔اس نے بعد میں جو بیان دیا، اس میں اس نے کہاتھا کہ وہ دیوتائوں کے نام سے ڈر گیا تھا، لیکن لڑکی نے جب یہ کہا کہ میں مسلمان ہوں اور میں دیوتائوں پر لعنت بھیجتی ہوں تو سنتری کا ایمان بیدار ہوگیا۔ لڑکی نے جب خلیفہ کانام لیا تو سنتری سمجھ گیا کہ یہ حرم کی لڑکی ہے۔اس کالباس ، اس کی شکل و صورت اور اس کی ڈیل ڈول بتارہی تھی کہ یہ معمولی درجے کی لڑکی نہیں ،اسے اغوا کیا جارہاہے اور اسے سوڈان میں لے جاکر فروخت کیاجائے گا۔ سنتری کو یہ معلوم تھا کہ تھوڑے دنوں بعد سوڈانی حبشیوں کا ایک میلہ لگنے والا ہے ،جس میں لڑکیوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔
فوج کو سلطان ایوبی نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ عورت کی عزت کی حفاظت کی جائے گی ۔ایک عورت کی عزت کو بچانے کے لیے ایک درجن آدمیوں کے قتل کی بھی اجازت تھی۔ سنتری نے یہ ساری باتیں سامنے رکھ کر فیصلہ کرلیا کہ اس لڑکی کو بچانا ہے۔اس نے دو تیر چلائے اور دو حبشی مار ڈالے ۔اس نے غلطی یہ کی کہ باقی دو حبشیوں کو پکڑنے کے لیے نیچے اُتر آیا۔اپنے اونٹ پر سوار ہوا، اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ بردہ فروشوں کا تعاقب کرنا ہے۔وہ تینوں اونٹوں کو دوڑاتے دوسری طرف گئے مگر انہیں چٹان کا چکر کاٹ کر جانا پڑا۔ اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ اونٹ گھوڑے کا تعاقب کر سکتاہے
یا نہیں۔ان تینوں میں سے تیر کمان صرف اسی سنتری کے پاس تھا ۔باقی دو کے پاس برچھیا ں اور تلواریں تھیں ۔
وہ اس جگہ پہنچے جہاں لڑکی اور حبشیوں کو دیکھا گیا تھا تو وہاں دو لاشوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ سوڈانی حبشی لڑکی کو بھی لے گئے اور اپنے مرے ہوئے ساتھیوں کے گھوڑوں کو بھی ۔شتر سواروں نے تعاقب میں اونٹ دوڑائے لیکن وہ ٹیلوں اور چٹانوں کا علاقہ تھا۔راستہ گھومتا اور مڑتا تھا۔ انہیں بھاگئے گھوڑوں کے ٹاپو سنائی دے رہے تھے جو دورہوتے گئے اور خاموش ہوگئے ۔شتر سواروں نے دونوں لاشیں اونٹوں پر لادیں اور واپس آگئے ۔انہیں معلوم تھا کہ یہ لاشیں کس کی ہیں۔یہ عام قسم کے بردہ فروشوں کی بھی ہوسکتی تھیں،انہیں اُٹھا لانا ضروری نہ تھا،لیکن لڑکی خلیفہ کی معلوم ہوتی تھی۔ اس لیے لاشیں اُٹھانا ضروری سمجھا گیا تا کہ یہ معلوم ہوسکے کہ اغو ا کرنے والے کون ہیں.
صلاح الدین ایوبی پریشانی اور غصے کے عالم میں ٹہل رہاتھا۔کمرے میں اس کے مشیر اور معتمد بیٹھے تھے۔یہ اس کے دوست بھی تھے ۔وہ سرجھکائے بیٹھے تھے۔ سلطان ایوبی اپنے آپ کو ہمیشہ قابو میں رکھتاتھا۔ وہ کبھی جذباتی نہیں ہواتھا،وہ غصہ پی جایا کرتاتھا اور ذہن کو پوری طرح قابو میں رکھ کر سوچا اور فیصلہ کیا کرتاتھا۔ایسے حالات نے بھی اسے آزمایاتھا، جن میں جابر جنگجو بھی ہتھیار ڈال دیا کرتے تھے ۔ وہ محاصروں میں بھی لڑا تھا اور اس حال میں بھی محاصرے میں رہاتھا کہ اس کے سپاہیوں کے حوصلے ٹوٹ گئے تھے ،قلعے میں کھانے پینے کے لیے بھی کچھ نہ رہاتھااور سپاہیوں کے ترکش بھی خالی ہوگئے تھے۔ اس کے سپاہی اس انتظار میں تھے کہ وہ ہتھیار ڈال کر انہیں اس اذیت اور موت سے بچالے گا، لیکن سلطان ایوبی نے صرف اپنا حوصلہ ہی مضبوط نہ رکھابلکہ سپاہیوں میں بھی نئی روح پھونک دی ، مگر اس روز سلطان ایوبی کو اپنے اوپر قابو نہیں رہاتھا، چہرے پر غصہ بھی تھا اور گھبراہٹ بھی ۔ یہی وجہ تھی کہ سب خاموش بیٹھے تھے ۔
''آج پہلی بار میرا دماغ میرا ساتھ چھوڑ گیا ہے ''…… اس نے کہا۔
''کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ خلیفہ کے اس پیغام کو نظر انداز کردیں ؟''…… اس کے نائب سالار الناصر نے کہا۔
''میں اسی کوشش میں مصروف ہوں ''……سلطان ایوبی نے کہا……''لیکن الزام کی نوعیت دیکھو جو مجھ پر عائد کیاگیاہے ۔ میں نے اس کے حرم کی ایک لڑکی اغوا کروائی ہے۔ استغفر اللہ ۔اللہ مجھے معاف کرے۔اس نے میری توہین میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔پیغام بلکہ دھمکی قاصد کی زبانی بھیجی ہے،وہ مجھے بلا لیتا ،میرے ساتھ براہِ راست بات کرتا''۔
''میں پھر بھی یہی مشورہ دوں گا کہ اپنے آپ کو ٹھنڈا کیجئے ''……بہائوالدین شداد نے کہا۔
''میں سوچ یہ رہاہوں کہ کیا واقعی حرم سے کوئی لڑکی اغوا ہوئی ہے''……سلطان ایوبی نے کہا……''یہ جھوٹ معلوم ہوتاہے ،اسے پتہ چل گیا ہوگا کہ میں نے خطبے سے اس کانام نکلوادیاہے۔اس کے جواب میں اس نے مجھ پر یہ الزام لگایا کر کہ میں نے اس کے حرم کی ایک لڑکی اغواکرائی ہے،انتقام لینے کی کوشش کی ہے''……سلطان ایوبی نے عیسٰی الہکاری فقیہہ سے کہا ……''ایک حکم نامہ مصرکی تمام مسجدوں کے نام جاری کردو کہ آئندہ کسی مسجد میں خطبے میں خلیفہ کا ذکر نہیں کیا جائے گا۔
''آپ اس کے ہاں چلے جائیں اور اس سے بات کریں''……الناصر نے کہا……''اسے صاف الفاظ میں بتادیں کہ خلیفہ قوم کی عزت کا نشان ہوتاہے ،لیکن اس کا حکم نہیں چل سکتا، خصوصاً اس صورتِ حال میں جب حالات جنگی ہیں اور دشمن کا خطرہ باہر سے بھی ہے اور اندر سے بھی موجود ہے ۔میں تو یہاں تک مشورہ دوں گا کہ اس کے محافظ دستے کی نفری کم کردیں ۔سوڈانی حبشیوں کی جگہ مصری دستہ رکھیں اور اس کے محل کے اخراجات کم کردیں ۔ میں اس کے نتائج سے آگاہ ہوں ، ہمیں مقابلہ کرنا ہی پڑے گا، ہمیں اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے''۔
''میں نے ہمیشہ اپنے اللہ پر بھروسہ کیاہے''……سلطان ایوبی نے کہا……''خدائے ذوالجلال مجھے اس ذلت سے بھی بچالے گا''۔
دربان اندر آیا، سب نے اس کی طرف دیکھا ۔اس نے کہا۔ ''صحرا کے گشتی دستے کا کمان دار اپنے تین سپاہیوں کے ساتھ آیاہے ۔وہ سوڈانیوں کی لاشیں لائے ہیں ''۔
سب نے دربان کی مداخلت کو اچھی نظر سے نہ دیکھا ۔اس وقت سلطان ایوبی بڑے ہی اہم اور خفیہ اجلاس میں مصروف تھا، لیکن سلطان نے دربان سے کہا۔''انہیں اندر بھیج دو''……سلطان ایوبی نے اپنے دربان سے کہہ رکھا تھا کہ جب بھی اسے کوئی ملنے آئے ،وہ اسے اطلاع دے اور اگر رات اسے جگانے کی ضرورت محسوس ہوتو فوراً جگا لے۔ سلطان کوئی بات اور کوئی ملاقات التوا میں نہیں ڈالا کرتاتھا۔
عہدے دار اندر آیا۔ اس کا چہرہ گرد سے اٹا ہوا اور تھکا تھکا نظر آتاتھا۔سلطان ایوبی نے اسے بٹھایا اور دربان سے کہاکہ اس کے لیے پینے کے لیے کچھ لے آئو۔عہدے دار نے سلطان کو بتایا کہ اس کے گشتی سنتریوں نے چار سوڈانی حبشیوں سے ایک مغویہ لڑکی کو چھڑانے کی کوشش میں دو کو تیروں سے مار ڈالا ہے اور وہ لڑکی کو اُٹھا کر بھاگ گئے ہیں۔عہدے دار نے بتایا کہ سنتریوں کے بیان کے مطابق لڑکی خانہ بدوش یا کسی عام گھرانے کی نہیں تھی۔ وہ بہت ہی امیر لگتی تھی اور اس نے کہاتھا کہ وہ خلیفہ کی ملکیت ہے۔
''معلوم ہوتاہے ''……سلطان ایوبی نے کہا……''خدائے ذوالجلال میری مدد کو آگیاہے''……وہ باہر نکل گئے ۔کمرے میں بیٹھے ہوئے سب حاکم اس کے پیچھے چلے گئے ۔
باہر زمین پر دو لاشیں پڑی تھیں ۔ایک لاش پیٹ کے بل تھی۔اس کی پیٹھ میں تیر اُترا ہواتھا۔ دوسری لاش کی گردن میں تیر پیوست تھا۔ پاس تین سپاہی کھڑے تھے۔انہوں نے امیرِ مصرکو جو اُن کا سالار اعلیٰ بھی تھا، شاید پہلی بار دیکھا تھا۔وہ فوجی انداز سے سلام کرکے پرے ہٹ گیا۔ سلطان ایوبی نے ان کے سلام کا صرف جواب ہی نہیں دیا، بلکہ ان سے ہاتھ ملایا اور کہا……''یہ شکار کہاں سے مار لائے ہو مومنو؟'' ……اس سنتری نے جس نے چٹان سے تیر چلا کر دو آدمیوں کو مارا تھا ۔سلطان ایوبی کو سارا واقعہ پوری تفصیل سے سنادیا۔
''کیا یہ ممکن ہوسکتاہے کہ وہ لڑکی خلیفہ کی ہی داشتہ ہو؟''……سلطان ایوبی نے اپنے مشیروں سے پوچھا۔
معلوم یہی ہوتاہے ''……علی بن سفیان نے کہا……''ان کے خنجر دیکھئے ''۔ اس نے دو خنجر سلطان ایوبی کو دکھائے ،جس وقت سپاہی واقعہ سنارہاتھا۔ علی بن سفیان لاشوں کی تلاشی لے رہاتھا۔ انہوں نے سوڈان کا قبائلی لباس پہن رکھاتھا۔ کپڑوں کے اندر ان کے کمربندتھے ،جن کے ساتھ ایک ایک خنجر تھا۔یہ خلیفہ کے حفاظتی دستے کے خاص ساخت کے خنجر تھے ۔ ان کے دستوں پر قصرِ خلافت کی مہریں لگی ہوئی تھی۔ علی بن سفیان نے کہا……''اگر انہوں نے یہ خنجر چوری نہیں کیے تو یہ دونوں قصرِ خلافت کے حفاظتی دستے کے سپاہی ہیں۔ یہ کہاجاسکتاہے کہ لڑکی وہی ہے جو خلیفہ کے حرم سے اغواہوئی ہے اور اغوا کرنے والے خلیفہ کے محافظوں میں سے ہیں ''۔
''لاشیں اُٹھوائو اور خلیفہ کے پاس لے چلو''……سلطان ایوبی نے کہا ۔
''پہلے یقین کرلیاجائے کہ یہ واقعی خلیفہ کے محافظوں میں سے ہیں ''۔علی بن سفیان نے کہا اور وہاں سے چلاگیا۔
زیادہ وقت نہیں گزراتھا کہ علی بن سفیان کے ساتھ قصرِ خلافت کا ایک کمان دار آگیا۔ اسے دونوں لاشیں دکھائی گئیں۔ اس نے فوراً پہچان لیا اور کہا……''یہ دونوں محافظ دستے کے سپاہی ہیں ، گزشتہ تین روز سے چُھٹی پر تھے ۔ ان کی چُھٹی سات دن رہتی تھی''۔
''کو ئی اور سپاہی بھی چُھٹی پر ہے ؟''……سلطان ایوبی نے پوچھا۔
''دو اور ہیں ''۔
''کیا وہ اِن کے ساتھ چُھٹی پر گئے تھے؟''
''اکٹھے گئے تھے''۔کمان دار نے جواب دیا اور ایک ایسا انکشاف کیا جس نے سب کو چونکادیا۔اس نے کہا……''یہ سوڈان کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو خون خواری میں مشہور ہے۔ ان میں فرعونوں کے وقت کی کچھ رسمیں چلی آرہی ہیں ۔یہ قبیلہ ہر تین سال بعد ایک جشن مناتا ہے ۔یہ ایک میلہ ہوتاہے جو تین دن اور تین راتیں رہتاہے۔دن ایسے مقرر کرتے ہیں کہ چوتھی رات چاند پوراہوتاہے ۔میلے میں وہ لوگ بھی جاتے ہیں جن کا اس قبیلے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔وہ صرف عیاشی کے لیے جاتے ہیں ۔میلے میں لڑکیوں کی خرید و فروخت کے لیے باقاعدہ منڈی لگتی ہے ۔اس میلے سے ایک ماہ پہلے ہی اِرد گرد ،بلکہ قاہرہ تک کے لوگ جن کی بیٹیاں جوان ہوگئی ہیں ،ہوشیار اور چوکس ہوجاتے ہیں ۔ وہ لڑکیوں کو باہر نہیں جانے دیتے ۔ ان دنوںخانہ بدوش بھی اس علاقے سے دور چلے جاتے ہیں۔ لڑکیاں اغواہوتی ہیں اور اس میلے میں فروخت ہوجاتی ہیں ۔ یہ چاروں سوڈانی اسی میلے کیلئے چُھٹی پر گئے تھے ۔ میلہ تین روز بعد شروع ہورہاہے ''۔
''کیا ان کے متعلق یہ کہاجاسکتاہے کہ خلیفہ کے حرم کی لڑکی انہوں نے اغوا کی ہوگی؟''……علی بن سفیان نے پوچھا۔
''میں یقین سے نہیں کہہ سکتا ''۔ کمان دار نے جواب دیا ……''یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان دنوں میں اس قبیلے کے لوگ جان کا خطرہ مول لے کر بھی لڑکیا ں اغوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ خون خوار اتنے ہیں کہ اگر کسی لڑکی کے وارث میلے میں چلے جائیں اور اپنی لڑکی لینے کی کوشش کریں تو انہیں قتل کردیاجاتا ہے۔لڑکیوں کے گاہکوں میں مصرکے امیر، وزیر اور حاکم بھی ہوتے ہیں ۔ میلے میں ایسے قحبہ خانے بھی کھل جاتے ہیں ،جہاں جواء ، شراب اور عورت کے شدائی دولت لُٹاتے ہیں ۔ اس جشن کی آخری رات بڑی پُر اسرار ہوتی ہے۔ کسی خفیہ جگہ ایک نوجوان اور غیر معمولی طور پر حسین لڑکی کو قربان کیا جاتاہے ۔ یہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ لڑکی کو کہاں اور کس طرح قربان کیاجاتاہے ۔یہ کام ان کا ایک مذہبی پیشوا ، جسے حبشی خدابھی کہتے ہیں ،کرتاہے ۔ اس کے ساتھ بہت تھوڑے سے خاص آدمی اور چار پانچ لڑکیاں ہوتی ہیں ۔ لوگوں کو لڑکی کا کٹاہوا سر اور خون دکھایا جاتاہے ، جسے دیکھ کر یہ قبیلہ پاگلوں کی طرح ناچتا اور شراب پیتاہے ۔
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں