داستان ایمان فروشوں کی
چوتها حصہ : ام عراره کا اغوا
قسط # 23
اس بڈھے خلیفہ نے کہا……''صلاح الدین ایوبی !تم ابھی بچے ہو، مگر کام تم نے بڑوں والا کردکھایاہے''۔
''اس نے میرے ساتھ اس طرح بات کی تھی جیسے وہ مجھے اپنا غلام اور اپنے حکم کا پابند سمجھتا ہے ۔یہ بے دین انسان قومی خزانے کے لیے سفید ہاتھی بناہواہے ''……سلطان ایوبی نے ایک خط نکال کر سب کو دکھایا اور کہا……چھ سات دن گزرے نور الدین زنگی نے مجھے یہ پیغام بھیجا ہے ۔انہوں نے لکھا ہے کہ خلافت تین حصوں میں بٹ گئی ہے ۔بغداد کی مرکزی خلافت کا دونوں ماتحت خلیفوں پر اثر ختم ہوچکاہے۔ آپ یہ خیال رکھیں کہ مصر کا خلیفہ خود مختار حاکم نہ بن جائے۔وہ سوڈانیوں اور صلیبیوں سے بھی ساز باز کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ میں سوچ رہاہوں کہ خلافت صرف بغداد میں رہے اور ذیلی خلیفے ختم کردئیے جائیں ،لیکن میں ڈرتاہوں کہ ان لوگوں نے ہمارے خلاف سازشیں تیار کررکھی ہیں ۔اگر آپ مصر کے خلیفہ کی بادشاہی اس کے محل کے اندر ہی محدود رکھنے کی کوشش کریں گے تو میں آ پ کو فوجی اور مالی امداد دوں گا ۔احتیاط کی بھی ضرورت ہے کیونکہ مصر کے اندرونی حالات ٹھک نہیں ۔مصر میں ایک بغاوت اور بھی ہوگی۔سوڈانیوں پر کڑی نظر رکھیں''۔
سلطان ایوبی نے خط پڑھ کر کہا……''اس میں کیا شک ہے کہ خلافت سفید ہاتھی ہے۔کیا آپ دیکھتے نہیں کہ خلیفہ العاضد دورے پر نکلتا ہے تو آپ کی آدھی فوج اس کی حفاظت کے لیے ہر طرف پھیلادی جاتی ہے؟لوگوں کو مجبور کیا جاتاہے کہ وہ خلیفہ کے راستے میں چادریں اور قالین بچھائیں۔خلیفہ کا حفاظتی دستہ دورے سے پہلے لوگوں کو دھمکیاں دے کر مجبور کردیتا ہے کہ ان کی عورتیں اور جوان بیٹیاں خلیفہ پر پھولوں کی پتیاں پھینکیں ۔اس کے دوروں پر خزانے کی وہ رقم تباہ کی جاتی ہے جو ہمیں سلطنتِ اسلامیہ کے دفاع اور توسیع کے لیے اور قوم کی فلاح و بہبود کے لیے درکار ہے۔اس کے علاوہ اس پہلو پر بھی غور کروکہ ہمیں مصری عوام پر،یہاں کے عیسایویں اور دیگر غیر مسلموں پر یہ ثابت کرنا ہے کہ اسلام شہنشاہوں کا مذہب نہیں۔ یہ عرب کے صحرائوں کے گڈریوں، کسانوں اور شتر بانوں کا سچامذہب ہے اور یہ انسان کو انسانیت کا وہ درجہ دینے والا مذہب ہے جو خدا کو عزیزہے''۔
''یہ بھی ہوسکتاہے کہ خلیفہ کے خلاف کا روائی کرنے سے آپ کے خلاف یہ بہتان تراشی ہونے لگے کہ خلیفہ کی جگہ آپ خود حا کم بننا چاہتے ہیں ''شداد نے کہا……''آج جھوٹ اور باطل کی جڑیں صرف اس لیے مضبوط ہوگئی ہیں کہ مخالفت اور مخالفانہ ردّعمل سے ڈر کر لوگوں نے سچ بولنا چھوڑ دیاہے ۔حق کی آواز سینوں میں دب کررہ گئی ہے۔ شاہانہ دوروں نے اور شہنشاہیت کے اظہار کے اوچھے طریقوں نے رعایا کے دلوں سے وہ وقار ختم کردیاہے جو قوم کا طرزِ امتیاز تھا۔ عوام کو بھوکا رکھ کر اور ان پر زبردستی اپنی حکمرانی ٹھونس کر انہیں غلامی کی ان زنگیروں میں باندھا جارہاہے ،جنہیں ہمارے رسول اکرم ۖ نے توڑ اتھا۔ ہمارے بادشاہوں نے قوم کو اس پستی تک پہنچا دیاہے کہ یہ بادشاہ اپنی عیاشیوں کی خاطر صلیبیوں سے دوستانہ کررہے ہیں، ان سے پیسے مانگتے ہیں اور صلیبی آہستہ آہستہ سلطنتِ اسلامیہ پر قابض ہوتے چلے جارہے ہیں آپ نے شداد ! مخالفت کی بات کی ہے ۔ہمیں مخالفت سے نہیں ڈرناچاہیے''۔
''قابلِ احترامِ امیر!'' سلطان ایوبی کے نائب سالار الناصر نے کہا''ہم مخالفت سے نہیں ڈرتے ۔آپ نے ہمیں میدانِ جنگ میں دیکھا ہے۔ہم اس وقت بھی نہیں ڈرے تھے ، جب ہم محاصرے میں لڑے تھے۔ ہم بھوکے اور پیاسے بھی لڑے تھے ۔صلیبیوںکے طوفان ہم نے اس حالت میں بھی روکے تھے، جب ہماری تعداد کچھ بھی نہیں تھی، مگر میں آپ کو آپ کی ہی کہی ہوئی ایک بات یاد دلاچاہتاہوں ۔آپ نے ایک بار کہاتھا کہ حملہ جو باہر سے آتا ہے اُسے ہم قلیل تعداد میں بھی روک سکتے ہیں ،لیکن حملہ جو اندر سے ہوتاہے اور جب حملہ آور اپنی قوم کے افراد ہوتے ہیں تو ہم ایک بار چونک اُٹھتے اور سُن ہوجاتے ہیں کہ یا خدائے ذو الجلال یہ کیاہوا۔ قابلِ احترام امیرِ مصر ! جب ملک کے حاکم ملک کے دشمن ہوجائیں تو آ پ کی تلوار نیام کے اندر تڑپتی رہے گی، باہر نہیں آئے گی''۔
''آپ نے درست کہا الناصر!''…… سلطان ایوبی نے کہا……''میری تلوار نیام میں تڑپ رہی ہے۔ یہ اپنے حاکموں کے خلاف باہر نہیں آنا چاہتی ۔میرے دل میں قوم کے حکمرانوں کا ہمیشہ احترام رہاہے ۔ملک کا حکمران قوم کی عظمت کا نشان ہوتاہے ،قوم کے وقار کی علامت ہوتاہے ،لیکن آپ سب غور کریں کہ ہمارے حکمرانوں میں کتنی کچھ عظمت اور کتنا کچھ وقار رہ گیاہے۔میں صرف خلیفہ العاضد کی بات نہیں کررہا۔علی بن سفیان سے پوچھو ۔اس کا محکمہ موصل، حلب ، دمشق ، مکہ اور مدینہ منورہ کی جو خبریں لایا ہے وہ یہ ہیں کہ خلافت کی تعیش پرستی کی وجہ سے جہاں جہاں کوئی امیرحاکم ہے، وہ وہاں کا مختارِ کُل بن گیا ہے۔ سلطنتِ اسلامیہ ٹکڑوں میں بٹتی جارہی ہے۔خلافت اس قدر کمزور ہوگئی ہے کہ اس نے اُمرا اور حکام کو ذاتی سیاست بازیوں کے لیے استعمال کرنا شروع کردیاہے۔ میں اس خطرے سے بے خبر نہیں کہ قوم کے بکھرے ہوئے شیرازے کو ہم جب یکجا کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ اور بکھرے گا۔ ہمارے سامنے پہاڑ کھڑے ہو جائیں گے، لیکن میں گھبرائوں گا نہیں اور مجھے اُمید ہے کہ آپ بھی نہیں گھبرائیں گے۔ میں آپ کے مشوروں کا احترام کروں گا،لیکن میں آئندہ خلیفہ کے بلاوے پر صرف اس صورت میں جائوں گا ، جب کوئی ضروری کام ہوگا۔ فوری طور پر میں خطبے سے خلیفہ کا نام اور ذکر نکلوارہاہوں''۔
سب نے سلطان ایوبی کے اس اقدام کی حمایت کی اور اسے اپنی پوری مدد اور ہرطرح کی قربانی دینے کا یقین دلایا۔ خلیفہ العاضد اس وقت اپنے ایک خصوصی کمرے میں تھا ۔ جب قاصد نے اسے بتایا کہ صلاح الدین ایوبی نے کہا ہے کہ اگر کوئی ضروری کام ہے تو میں آسکتاہوں،ورنہ میں بہت مصروف ہوں۔ خلیفہ آگ بگولہ ہوگیا۔اس نے قاصد سے کہا کہ رجب کو میرے پاس بھیج دو۔ رجب اس کے حفاظتی دستے کا کمان دار تھا جس کا عہدہ نائب سالار جتنا تھا۔ وہ مصر ی فوج کا افسر تھا۔ اسے خلیفہ کے باڈی گارڈز کی کمان دی گئی تھی۔ اس نے قصرِ خلافت اور خلیفہ کے حفاظتی دستوں میں چُن چُن کر سوڈانی حبشیوں کو رکھا تھا۔ وہ سلطان ایوبی کے مخالفین میں سے اور خلیفہ کے خوشامدیوں میں سے تھا۔
اُس وقت خلیفہ کے اس خصوصی کمرے میں اُمِ عرارہ موجود تھی جب قاصد صلاح الدین ایوبی کا جواب لے کے آیاتھا۔ اس نے خلیفہ سے کہا……''صلاح الدین ایوبی آپ کا نوکر ہے، آپ نے اسے سر پر چڑھا رکھاہے،آپ کیوں نہیں اسے معزول کردیتے ہیں ؟کیوں نہیں اپنے سپاہی بھیج کر اسے حراست میں یہاں بلوالیتے ؟''
''اس لیے کہ اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے''……خلیفہ نے غصے کے عالم میں کہا……''فوج اس کی کمان میں ہے ، وہ میرے خلاف فوج استعمال کرسکتاہے''……اتنے میں رجب آگیا۔اس نے جھک کر فرشی سلام کیا۔ العاضد نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں اسے کہا……''میں پہلے ہی جانتاتھا کہ یہ کم بخت خود سر اور سرکش آدمی ہے……یہ صلاح الدین ایوبی ……میں نے اسے بلایا تو یہ کہہ کر آنے سے انکار کردیاہے کہ کوئی ضروری کام ہے تو آئوں گا، ورنہ آپ کا بلاوا میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا ، کیونکہ میرے سامنے ضروری کام پڑے ہیں ''۔
غصے میں بولتے بولتے اسے ہچکی آئی ، پھر کھانسی اُٹھی اور اس نے دل پر ہاتھ رکھ لیا ۔اس کا رنگ زرد ہوگیا۔اس حالت میں کمزور سی آواز میں کہا ……''بد بخت کو یہ بھی احساس نہیں کہ میں بیمار ہوں ۔میرا دل مجھے لے بیٹھے گا۔ میرے لیے غصہ ٹھیک نہیں ۔مجھے اپنی صحت کا غم کھائے جارہاہے اور اسے اپنے کا موں کی پڑی ہے''۔
''آپ نے اسے کیوں بلایا تھا؟''……رجب نے پوچھا ……''مجھے حکم دیجئے''۔
''میں نے اسے صرف اس لیے بلایا تھا کہ اسے احساس رہے کہ اس کے سر پر ایک حاکم بھی ہے''……خلیفہ نے دِل پر ہاتھ رکھے ہوئے کراہتی ہوئی آواز میں کہا……''تم ہی نے مجھے بتایا تھا کہ کہ صلاح الدین خود مختار ہوتا جارہا ہے۔میں اسے بار بار یہاں بلانا چاہتا ہوں،تاکہ اسے اپنے پائوں کے نیچے رکھوں ۔یہ ضروری اُم عرارہ نے شراب کا پیالہ اس کے ہونٹوں سے لگا کر کہا……''آپ کو سوبار کہاہے کہ غصے میں نہ آجایا کریں۔آپ کے دِل اور اعصاب کے لیے غصہ ٹھیک نہیں''…… اس نے سونے کی ایک ڈبیہ میں سے نسواری رنگ کے سفوف میں سے ذراسا خلیفہ کے منہ میں ڈالا اور پانی پلادیا۔ خلیفہ نے اس کے بکھرے ہوئے ریشمی بالوں میں انگلیاں اُلجھا کر کہا……''اگر تم نہ ہوتی تو میرا کیا ہوتا۔ سب کو میری دولت اور رتبے سے دلچسپی ہے ۔میری ایک بھی بیوی ایسی نہیں جسے میری ذات کے ساتھ دلچسپی ہو ۔ تم تو میرے لیے فرشتہ ہو'' ……اس نے لڑکی کو اپنے قریب بٹھا کر بازو اس کی کمر میں ڈال دیا۔
''خلیفة المسلمین ''!…… رجب نے کہا……''آپ بڑے ہی نرم دل اور نیک انسان ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی نے یہ گستاخی کی ہے ۔ آپ نے یہ بھی فراموش کردیاہے کہ وہ عربی نسل سے نہیں۔ وہ آپ کی نسل سے نہیں۔ وہ کُردہے، میں حیران ہوں کہ اسے اتنی بڑی حیثیت کس نے دے دی ہے، اگر اس میں کچھ خوبی ہے تو صرف یہ ہے کہ وہ اچھا عسکری ہے۔ میدانِ جنگ کا استاد ہے ،لڑنا بھی جانتاہے اور لڑانا بھی جانتا ہے مگر یہ وصف اتنا اہم نہیں کہ اسے مصر کی امارت سونپ دی جاتی ……اُس نے سوڈان کی اتنی بڑی اور اتنی تجربہ کار فوج یوں توڑ کر ختم کردی ہے،جس طرح بچہ کوئی کھلونہ توڑدیتاہے ۔آپ ذرا غور فرمائیں کہ کہ جب یہاں سوڈانی باشندوں کی فوج تھی، ناجی اور ادروش جیسے سالار تھے تو رعایا آپ کے کتوں کے آگے بھی سجدے کرتی تھی۔ سوڈانی لشکر کے سالار آپ کی دہلیز پر حاضر رہتے تھے۔ اب یہ حال ہے کہ آپ اپنے ایک ماتحت کو بلاتے ہیںتو وہ آنے سے انکار کردیتا ہے''۔
''رجب!'' خلیفہ نے اچانک گرج کر کہا…… ''تم ایک مجرم ہو''۔
رجب کا رنگ پیلا پڑگیا۔اُم عرارہ بدک کر العاضد سے الگ ہوگئی ۔العاضد نے اسے پھر بازو کے گھیرے میں لے کر اپنے ساتھ لگالیا اور پیار سے بولا……''کیا میں نے تمہیں ڈرادیاہے؟میں رجب سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ آج دوسال بعد مجھے بتارہاہے کہ ہماری پرانی فوج اور اسکے سالار اچھے تھے اور صلاح الدین ایوبی کی بنائی ہوئی فوج خلافت کے حق میں اچھی نہیں ۔کیوں رجب! تم یہ بات پہلے بھی جانتے تھے؟چپ کیوں رہے؟اب جب کہ یہ امیرِ مصر اپنی جڑیں مضبوط کر چکاہے ،مجھے بتارہے ہوکہ وہ خلافت کا باغی اور سرکش ہے''۔
''میں حضورکے عتاب سے ڈرتاتھا''……رجب نے کہا……'سلطان ایوبی کا انتخاب بغداد کی خلافت نے کیا تھا۔ یہ آپ کے مشورے سے ہی ہواہوگا۔ میں خلافت کے انتخاب کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ آج امیرِ مصر کی گستاخی اور اس کے زیرِ اثر آپ کے دل کے دورے نے مجھے مجبور کردیاہے کہ زبان کھولوں۔ میں کب سے دیکھ رہاہوں کہ صلاح الدین ایوبی کئی بار آپ کے حضور گستاخی کر چکاہے۔ میرا فرض ہے کہ آپ کو خطروں سے آگاہ کروں اور بچائوں ''۔
اس دوران اُم عرارہ خلیفہ کے گالوں سے گال رگڑتی رہی اور اس کے انگلیوں میں اُنگلیاں اُلجھا کر بچوں کی طرح کھیلتی رہی ۔ ایک بار اس نے خلیفہ کے گالوں کو ہاتھوں میں تھا کر پوچھا……''طبیعت بحال ہوئی ؟''
خلیفہ نے اس کی ٹھوڑی کو چھیڑ تے ہوئے کہا……''دوائی نے اتنا اثر نہیں کیا، جتنا تیرے پیار نے کیا ہے۔ خدانے تجھے وہ حسن اور وہ جذبہ دیاہے جو میرے ہر روگ کے لیے اکسیر ہے''……اس نے اُمِ عرارہ کا سر اپنے سینے پرڈال کر رجب سے کہا……''روزِ قیامت جب مجھے جنت میں بھیجیں گے تو میں خدا سے کہوں گا کہ مجھے کوئی حور نہیں چاہیے، مجھے اُمِ عرارہ دے دو''۔
''اُمِ عرارہ صرف حسین ہی نہیں ''……رجب نے کہا……''یہ بہت ہوشیار اور ذہین بھی ہے۔حضور کا حرم سازشوں کا گھر بناہوا تھا۔ اس نے آکر سب کو لگام ڈال دی ہے۔اب کسی کی جرأ ت نہیں کہ کوئی عورت کسی عورت کے خلاف یا کوئی اہل کار قصرِ خلافت میں ذراسی بھی گڑ بڑکرے''۔
''جب صلاح الدین ایوبی کے متعلق بات کررہے تھے''…… اُمّ عرارہ نے کہا۔''ان کی باتیں غور سے سنیں اور صلاح الدین ایوبی کو لگام ڈالیں ''۔
''تم کیا کہہ رہے تھے رجب!'' ……خلیفہ نے پوچھا ۔
''میں یہ عرض کررہاتھا کہ میں نے اس ڈر سے زبان بندرکھی کہ امیرِ مصر کے خلاف کوئی بات خلافت کو گوارہ نہ ہوگی''……رجب نے کہا……''صلاح الدین ایوبی قابل سالار ہوسکتاہے ''۔
''مجھے اس کا صرف یہی وصف پسند ہے کہ میدانِ جنگ میں وہ اسلام کا پرچم سرنگوں نہیں ہونے دیتا''خلیفہ نے کہا ……''ہمیں سلطان ایوبی جیسے ہی سالاروں کی ضرورت ہے جو خلافتِ اسلامیہ کا وقار میدانِ جنگ میں قائم رکھیں''۔
''میں گستاخی کی معافی چاہتاہوں خلیفة المسلمین !''…… رجب نے کہا……''خلافت نے ہمیں میدان ِ جنگ میں نہیں آزمایا ۔ صلاح الدین ایوبی کے متعلق میں یہ کہنے کی جرأت کروں گا کہ وہ خلافتِ اسلامیہ کے وقار کے لیے نہیں لڑتا، بلکہ اپنے وقار کے لیے لڑتا ہے ۔آپ فوج کے سالار سے ہی تک پوچھ لیں۔ صلاح الدین ایوبی انہیں یہ سبق دیتا رہتاہے کہ وہ ایسی سلطنتِ اسلامیہ کے قیام کے لیے لڑیں، جس کی سرحدیں لامحدودہوں۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ ایسی سلطنت کے خواب دیکھ رہاہے،جس کا بادشاہ وہ خود ہوگا۔نور الدین زنگی اس کی پشت پناہی کرہاہے ۔اس نے صلاح الدین ایوبی کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے دوہزار سواروں اور اتنے ہی پیادہ عسکریوں کی فوج بھیجی تھی۔ کیا اس نے خلیفۂ بغداد کی اجازت سے یہ فوج بھیجی تھی؟کیا خلافت کا کوئی ایلچی آپ سے مشورہ لینے آیاتھا کہ مصر میں فوج کی ضرورت ہے یا نہیں ؟جو کچھ ہوا خلافت سے بالاتر ہوا''۔
''تم ٹھیک کہتے ہو''……خلیفہ نے کہا……''مجھ سے نہیں پوچھا گیا تھا اور مجھے خیال آیاہے کہ اُدھر سے آئی ہوئی اتنی زیادہ کمک واپس نہیں بھیجی گئی''۔
''واپس اس لیے نہیں بھیجی گئی کہ یہ کمک مصر پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی اور اسی لیے یہاں رکھی گئی ہے''……رجب نے کہا……''مصر کی پرانی فوج کے سپاہیوں کو کسان اور بھکاری بنانے کے لیے یہ کمک آئی تھی۔ ناجی، ادروش ، کاکیش ،عبدیزدان، ابی آذر اور اُن جیسے آٹھ اور سالار کہاں ہیں؟حضور نے کبھی سوچانہیں ۔ان سب کو صلاح الدین ایوبی نے خفیہ طور پر قتل کرادیاتھا۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ صلاح الدین ایوبی سے زیادہ قابل سالار تھے۔یہ قتل کس کی گردن پر ہے؟صلاح الدین ایوبی نے حاکموں کی مجلس میں کہاتھا کہ خلیفۂ مصر نے ان سب کو غداری اور بغاوت کے جرم میں سزائے موت دے دی ہے''۔
'' جھوٹ ''……خلیفہ نے بھڑک کر کہا……''سفید جھوٹ ۔مجھے صلاح الدین ایوبی نے بتایاتھا کہ یہ سب غدا ر ہیں ۔میں نے اسے کہاتھا کہ گواہ لائو اور مقدمہ چلائو۔
''اس نے مقدمہ چلائے بغیر وہ فیصلہ خود کیا جو خلافت کی مُہر کے بغیر بے کار ہوتاہے ''……رجب نے کہا……''ان بد قسمت سالاروں کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے صلیبی بادشاہ سے رابطہ قائم کیاتھا۔ان کا مقصد کچھ اور تھا ، وہ یہ تھا کہ صلیبیوں سے بات چیت کرکے جنگ و جدل ختم کیا جائے اور ہم اپنے ملک اور رعایا کی خوشحالی اور فلاح و بہبود کی طرف توجہ دے سکیں ۔ آپ شاید تسلیم نہ کریں، مگر یہ حقیقت ہے کہ صلیبی ہمیں اپنا دشمن نہیں سمجھتے ۔ وہ ہمارے خلاف جنگی طاقت صرف اس لیے تیار رکھتے ہیں کہ نور الدین زنگی اور شیر کوہ جیسے مسلمانوں سے انہیں حملے کا خطرہ رہتاہے ۔ شیر کوہ مرگیا تو صلاح الدین ایوبی کو اپنی جگہ چھوڑ گیا۔ یہ شخص شیر کوہ کا پروردہ ہے۔اس نے ساری عمر عیسائی قوم سے لڑتے اور اسلام کے دشمن پیدا کرتے اور دشمنوں میں اضافہ کرتے گزاری ہے۔ اگرصلاح الدین ایوبی کی جگہ مصر کا امیر کسی اور کو مقرر کیاجاتا تو آج عیسائی بادشاہ آپ کے دربار میں دوستوں کی طرح آتے،قتل و غارت نہ ہوتی، اتنے پرانے اور تجربہ کار سالار قتل ہوکر گمنام نہ ہوجاتے ''۔
'' مگر رجب!'' …… خلیفہ نے کہا……'' صلیبیوں نے بحیرۂ روم سے حملہ جو کیا تھا ؟''
'' صلاح الدین ایوبی نے ایسے حالات پیداکیے تھے کہ صلیبی اپنے دفاع کے لیے حملے میں پہل کرنے پر مجبور ہوگئے''……رجب نے کہا……''صلاح الدین ایوبی کو معلوم تھا کہ حملہ آرہاہے،کیونکہ حالات اسی نے پیدا کیے تھے۔اس لیے اس نے حملہ روکنے یعنی دفاع کا انتظام پہلے ہی کررکھاتھا۔ یہ شخص فرشتہ تو نہیں تھا کہ اسے غیب کا حال معلوم ہوگیاتھا۔ اس نے ایک ایسا ناٹک کھیلاتھا جس میں ہزار ہا بچے یتیم اور ہزار ہا عورتیں بیوہ ہوگئیں۔اس پر آپ نے اسے میری موجود گی میں خراجِ تحسین پیش کیا۔پھر اس نے سوڈانی فوج کو جو آپ کی وفادار تھی،جنگی مشق کے بہانے رات کو باہر نکالا اور اندھیرے میں اس پر اپنی نئی فوج سے حملہ کردیا۔مشہور یہ کیا کہ ناجی کی فوج نے بغاوت کردی تھی۔اس پر بھی آپ نے اسے خراجِ تحسین پیش کیا ۔آپ اتنے سادہ دِل اور مخلص ہیں کہ آپ اس چال اور اس دھوکے کو سمجھ نہ سکے''۔
اس دوران اُمِ عرارہ جو عرب کے حسن کا شاہکار تھی ۔خلیفہ العاضدکے ساتھ ''بڑی معصومیت'' سے کچھ ایسی فحش حرکتیں کرتی رہی کہ العاضد پر شراب کا نشہ دُگناہوگیا۔ اس کی ذہنی کیفیت اس لڑکی کے قبضے میں تھی ۔رجب کی باتیں اور دلیلیں اُس کے دماغ میں اُترتی جارہی تھیں۔اُس کی زیادہ تر توجہ اُمِ عرارہ پر مرکوز تھی۔ رجب کی باتیں تو وہ ضمنی طور پر سُن رہاتھا۔ رجب نے صلاح الدین ایوبی پر ایک انتہائی بے ہودہ وار کیا ۔ اس نے کہا……''اُس نے ایک اور فریب کاری شروع کررکھی ہے۔کسی خوب صورت اور جوان لڑکی کو پکڑ کر اس کی آبرو ریزی کرتاہے اور چند دن عیش کرکے اسے یہ کہہ کر مروادیتا ہے کہ یہ جاسوس ہے۔عیسائیوںکے خلاف قوم میں نفرت پیدا کرنے کے لیے اس نے فوج اور عوام میں یہ مشہور کر رکھاہے کہ صلیبی اپنی لڑکیوں کو مصر میں جاسوسی کے لیے بھیجتے ہیں اور وہ بدکار عورتوں کو بھی یہاں بھیجتے ہیں جو قوم کا اخلاق تباہ کرتی ہیں۔میں اسی ملک کا باشندہ ہوں۔یہاں جتنے قحبہ خانے ہیں،وہاں مصری اور سوڈانی عورتیں ہیں، اگر کوئی عیسائی عورت ہے تو وہ کسی کی جاسوس نہیں ،یہ اس کا پیشہ ہے''۔
''مجھے حرم کی تین چار لڑکیوں نے بتایا ہے کہ سلطان ایوبی نے انہیں اپنے گھر بلایا اور خراب کیاتھا''…اُمِ عرارہ نے کہا۔
خلیفہ بھڑک اُٹھا اور کہا……''میرے حرم کی لڑکیاں ؟تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا''۔
''اس لیے کہ آپ کی بیماری میں یہ خبر آپ کے لیے اچھی نہیں تھی''……اُمِ عرارہ نے کہا……''اب بھی یہ بات میرے منہ سے بے اختیار نکل گئی ہے۔ میں نے ایسا انتظام کردیاہے کہ اب کوئی لڑکی کسی کے بلانے پر باہر نہیں جاسکتی''۔
''میں اُ سے ابھی بلاکر دُرّ ے لگوائوں گا''…… خلیفہ نے کہا……''میں انتقام لوں گا''۔
''انتقام لینے کے طریقے اور بھی ہیں ''……رجب نے کہا……''اس وقت عوام صلاح الدین ایوبی کے ساتھ ہیں ۔یہ لوگ آپ کے خلاف ہوجائیں گے''۔
''تو کیا میں اپنی یہ توہین برداشت کرلوں ؟''……خلیفہ نے کہا۔
''نہیں ''……رجب نے کہا……''اگر آپ مجھے اجازت دیں اور میری مدد کریں تو میں صلاح الدین ایوبی کو اسی طرح غائب کردوں گا جس طرح اس نے مصر کی پرانی فوج کے سالاروں کو گُم کردیاہے''۔
''تم یہ کام کس طرح کروگے ؟''……خلیفہ نے پوچھا۔
''حشیشین یہ کام کردکھائیں گے '' ……رجب نے کہا……''وہ رقم بہت زیادہ طلب کرتے ہیں ''۔
''رقم کا مطالبہ جس قدر ہوگا، وہ میں دوں گا''……خلیفہ نے کہا……''تم انتظام کرو''۔ *****
دو روزبعد جمعہ تھا۔قاہرہ کی جامعہ مسجد کے خطیب کو عیسٰی الہکاری فقہیہ نے کہہ دیا تھا کہ خطبے میں خلیفہ کانام نہ لیا جائے ۔ یہ خطیب تُرک تھے، جن کاپورا نام تاریخ میں محفوظ نہیں ۔وہ امیر العالم کے نام سے مشہور تھے ۔اس دور کے دستاویزی ثبوت ایسے بھی ملے ہیں جن کے مطابق خطیب امیر العالم نے کئی بار اس بدعت کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا اوریہ انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ خلیفہ کا نام خطبے سے حذف کیاگیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ صلاح الدین ایوبی کو امیر العالم نے ہی مشورہ دیا تھا کہ اس بدعت کے خاتمے کے احکام جاری کریں اور دو وقارع نگار اس کا سہرا عیسٰی الہکاری فقہیہ کے سر باندھتے ہیں ۔ہوسکتاہے یہ منصوبہ خطیب امیر العالم اور مذہبی امور کے مشیر عیسٰی الہکاری فقہیہ کے پیشِ نظر بھی ہو، لیکن صلاح الدین ایوبی کی گفتگو کی جو دستاویر ات مل سکی ہیں،اُن سے پتہ چلتاہے کہ یہ دلیرانہ اقدام سلطان ایوبی کا ہی تھا۔ بہر حال اس میں کوئی شک نہیں رہتا کہ اُس وقت سچے مسلمان موجود تھے۔
خطیب امیر العالم نے خطبے میں خلیفہ کانام نہ لیا۔ جامع مسجد میںصلاح الدین ایو بی درمیانی صفوں میں موجود تھا۔علی بن سفیان اس سے تھوڑی دُور کسی صف میں بیٹھا تھا۔سلطان ایوبی کے متعدد دیگر مشیر اور معتمد بکھر کر عوام میں بیٹھے تھے تاکہ ان کا رد عمل بھانپ سکیں ۔علی بن سفیان کے مخبروں کی بہت بڑی تعداد مسجد میں موجود تھی۔ خلیفہ کانام خطبے میں سے غائب کرنا ایک سنگین اقدام نہیں ،بلکہ خلافت کے احکام کے مطابق سنگین جرم تھا ۔اس کا ارتکاب کردیاگیا۔ سربراہوں میں سے اگر کوئی مسجد میں نہیں تھا تو وہ خلیفہ العاضد تھا۔
نماز کے بعد سلطان ایوبی اُٹھا ۔ خطیب کے پاس گیا۔ ان سے مصافحہ کیا ۔ان کے چغے کا بوسہ لیا اور کہا……''اللہ آپ کا حامی و ناصر ہے''۔ خطیب امیر العالم نے جواب دیا……''یہ حکم صادر فرماکر آپ نے جنت میں گھر بنالیا ہے''……واپس چند قدم چل کر سلطان ایوبی رُک گیا اور خطیب کے قریب جاکر کہا……''اگر آپ کو خلیفہ کا بلاوا آجائے تو اس کے پاس جانے کے بجائے میرے پاس آجانا۔ میں آپ کے ساتھ چلوں گا''۔
''اگر امیرِمصر گستاخی نہ سمجھیں ''……امیر العالم نے کہا……''تو عرض کروں کہ باطل اور شرک کے خلاف عمل اور حق گوئی اگر جرم ہے تو اس کی سزامیں اکیلا بھگتوں گا۔میں آپ کا سہارا نہیں ڈھونڈوں گا۔ خلیفہ نے بلایا تو اکیلا جائوں گا۔ میں نے خلیفہ کے نام کو آپ کے حکم سے نہیں ، خدا کے حکم سے حذف کیا ہے ۔ میں آپ کو مبارک باد پیش کرتاہوں ''۔
شام کے بعد صلاح الدین ایوبی علی بن سفیان ، بہائوالدین شداد اور چند ایک اور مشیروں سے دن کی رپورٹ لے رہاتھا۔ سارے شہر میں شہریوں کے بھیس میں مخبر اور جاسوس پھیلادئیے گئے تھے ،جنہوں نے لوگوں کی رائے معلوم کر لی تھی ۔علی بن سفیان نے سلطان ایوبی کو بتایا کہ کہیں سے بھی اسے ایسی اطلاع نہیں ملی ،جہاں کسی نے یہ کہا ہو کہ خطبے میںخلیفہ کانام نہیں لیاگیا تھا۔علی بن سفیان کے بعض آدمیوں نے دو تین جگہوں پر یہ بھی کہا کہ جامع مسجد کے خطیب نے آج خطبے میں خلیفہ کانام نہیں لیا تھا، یہ اُس نے بہت بُرا کیا ہے ۔اس پر کچھ آدمی اس طرح حیران ہوئے جیسے انہیں معلوم ہی نہیں کہ خطبے میں خلیفہ کانام لیاگیا تھا یا نہیں ۔ ان میں سے چار پانچ نے اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا کہ اس سے کیا فرق پڑ تا ہے ۔خلیفہ خدایا پیغمبر تو نہیں ۔ ان اطلاعات سے سلطان ایوبی کو اطمینان ہوگیا کہ عوام کے جس ردِّعمل سے اسے ڈرایاگیا تھا، اس کا کہیں بھی اظہار نہیں ہوا۔
جاری ھے.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں