داستان ایمان فروشوں کی
چوتها حصہ : ام عراره کا اغوا
قسط # 22
ام عرارہ کا اغواہ
جون ١١٧١ء کا وہ دن مصر کی گرمی سے جل رہاتھا، جس دن خلیفہ العاضد کے قاصد نے آکر صلاح الدین ایوبی کوپیغام دیا کہ خلیفہ یاد ّفرمارہے ہیں۔ سلطان ایوبی کے تیور بدل گئے۔اس نے قاصد سے کہا……''خلیفہ کو بعد از سلام کہنا کہ کوئی بہت ضروری کام ہے توبتادیں میں آجائوں گا۔اس وقت مجھے ذراسی بھی فرصت نہیں۔ انہیں یہ بھی کہنا کہ میرے سامنے جو کام پڑے ہیں ،وہ حضور کے دربار میں حاضری دینے کی نسبت زیادہ ضروری اور اہم ہیں''۔
قاصد چلاگیا اور سلطان ایوبی بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگا۔ وہ فاطمی خلافت کا دورہ تھا۔ مصر میں اس خلافت کا خلیفہ العاضد تھا۔ اُس دور کا خلیفہ بادشاہ ہوتاتھا۔ جمعہ کے خطبے میں ہر مسجد میں خدا اور رسول ۖ کے بعد خلیفہ کانام لیاجاتا تھا۔ عیش و عشرت کے سوا ان لوگوں کے پاس کوئی کام نہ تھا۔ اگر نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی نہ ہوتے یاوہ بھی دوسرے امراء وزراء کی طرح خوشامدی اور ایمان فروش ہوتے تو اس دور کے خلیفوں نے تو سلطنتِ اسلامیہ کو بیچ کھایا تھا۔العاضد ایسا ہی ایک خلیفہ تھا۔صلاح الدین ایوبی مصر میں گور نر بن کر آیا تو ابتداء میں خلیفہ نے اسے کئی بار بلایاتھا۔سلطان ایوبی سمجھ گیا کہ خلیفہ اسے صرف اس لیے بلاتا ہے کہ اُسے یہ احساس رہے کہ حاکم ایوبی نہیں ، خلیفہ ہے۔وہ سلطان ایوبی کا احترام کرتاتھا۔اسے اپنے ساتھ بٹھاتاتھا،مگر اس کا انداز شاہانہ اور لب و لہجہ آمرانہ ہوتاتھا۔۔اس نے سلطان ایوبی کو جب بھی بلایا،بلامقصد بلایا اور رخصت کردیا۔ صلیبیوں کو بحیرۂ روم میں شکست دے کر اور سوڈانی فوج کی بغاوت کو ختم کرکے صلاح الدین ایوبی نے خلیفہ کو ٹالنا شروع کردیاتھا۔
اس نے خلیفہ کے محل میں جو شان و شوکت دیکھی تھی ،اس نے اس کے سینے میں آگ لگارکھی تھی۔محل میں زر و جواہرات کا یہ عالم تھا کہ کھانے پینے کے برتن سونے کے تھے۔ شراب کی صراحی اور پیالوں میں ہیرے جڑے ہوئے تھے۔حرم لڑکیوں سے بھراپڑاتھا۔ ان میں عربی، مصری ، مراکشی ،سوڈانی اور تُرک لڑکیوں کے ساتھ ساتھ عیسائی اور یہودی لڑکیاں بھی تھیں ۔یہ اس قوم کا خلیفہ تھا جسے ساری دُنیا میں اللہ کا پیغام پھیلانا تھا اور جسے دُنیائے کفر کی مہیب جنگی قوت کا سامنا تھا۔ سلطان ایوبی کو خلیفہ کی کچھ اور باتیں بھی کھائے جارہی تھیں ۔ایک یہ کہ خلیفہ کا ذاتی حفاظتی دستہ سوڈانی حبشیوں اور قبائلیوں کاتھا جن کی وفاداری مشکوک تھی۔دوسرے یہ کہ خلیفہ کے دربار میں سو ڈان کی باغی اور برطرف کی ہوئی فوج کے کمان دار اور نائب سالار خصوصی حیثیت کے مالک تھے۔
صلاح الدین ایوبی کی ہدایت پر علی بن سفیان نے قصرِ خلافت میں نوکروں ااور اندر کے دیگر کام کرنے والوں کے بھیس میں اپنے جاسوس بھیج دئیے تھے۔ خلیفہ کے حرم کی دو عورتوں کو بھی اعتماد میں لے کر جاسوسی کے فرائض سونپے گئے تھے۔ ان جاسوسوں کی اطلاعوں کے مطابق ،خلیفہ سوڈانی کماند داروں کے زیر اثر تھا۔ وہ ساٹھ پینسٹھ سال کی عمر کا بوڑھا تھا، لیکن خوب صورت عورتوں کی محفل میں خوش رہتاتھا۔ اس کی اسی کمزوری سے صلاح الدین ایوبی کے مخالفین فائدہ اُٹھا رہے تھے۔١١٧١ء کے دوسرے تیسرے مہینے میں خلیفہ کے حرم میں ایک جوان اور غیر معمولی طور پر حسین لڑکی کا اضافہ ہواتھا۔ حرم کی جاسوس عورتوں نے علی بن سفیان کو بتایا تھا کہ تین چار آدمی آئے تھے جو عربی لباس میں تھے۔وہ اس لڑکی کو لائے تھے۔ان کے پاس بہت سے تحفے بھی تھے۔ لڑکی بھی تحفے کے طور پر آئی تھی۔ اس کانام اُمِ عرارہ بتایا گیا تھا۔ اس میں خوبی یہ تھی کہ خلیفہ العاضد پر اس نے جادو ساکر دیاتھا۔ بہت ہی چالاک اور ہوشیار لڑکی تھی ۔
سلطان ایوبی کو قصرِ خلافت کی ان تمام خرافات کا علم تھا مگر حکومت پر اس کی گرفت ابھی اتنی مضبوط نہیں ہوتی تھی……کہ وہ خلیفہ کے خلاف کو ئی کاروائی کرسکتا۔ اس سے پہلے کے گورنر اور امیر خلیفہ کے آگے جھکے رہتے تھے ۔اسی لیے مصر بغاوتوں کی سرزمین بن گیا تھا۔ وہاں اسلامی خلافت تو تھی ، مگر اسلام کا پر چم سرنگوں ہوتاجارہاتھا۔ فوج سلطنتِ اسلامیہ کی تھی، مگر سوڈانی جرنیل شہر ی حکومت کی باگ ڈور ہاتھ میں لیے ہوئے تھے۔ اور ان کا رابطہ صلیبیوں کے ساتھ تھا۔ انہی کی بدولت قاہرہ اور اسکندریہ میں عیسائی کنبے آباد ہونے لگے تھے۔ ان میں جاسوس بھی تھے۔ صلاح الدین ایوبی نے سوڈانی فوج کو تو ٹھکانے لگادیاتھا، لیکن ابھی چند ایک سوڈانی جرنیل موجود تھے جو کسی بھی وقت خطرہ بن کر اُبھر سکتے تھے۔ انہوں نے قصرِ خلافت میں اثر و رسوخ پیدا کررکھا تھا۔
سلطان ایوبی خلافت کی تعیش پر ست گدّی کو اس ڈر سے نہیں چھیڑ نا چاہتاتھا کہ خلافت کے متعلق کچھ لوگ جذباتی تھے اور کچھ حامی تھے۔ ان میں خوشامدیوں کے ٹولے کی اکثریت تھی۔اس اکثریت میں وہ اعلیٰ حکام بھی تھے جو مصر کی امارت کی توقع لگائے بیٹھے تھے مگر یہ حیثیت صلاح الدین ایوبی کو مل گئی ۔ سلطان ایوبی ان حالات میں جہاں ملک جاسوسوں اور غداروں سے بھرا پڑا تھا اور صلیبیوں کے جوابی حملے کا خطرہ بھی تھا،ان اعلیٰ اور ادنیٰ حکام کو اپنا دشمن نہیں بنانا چاہتا تھا جو خلافت کے پروردہ تھے، مگر جون ١١٧١ء کے ایک روز جب خلیفہ نے اسے بلایا تو اس نے اسے صاف انکار کردیا۔
اس نے دربان سے کہا……''علی بن سفیان ، بہائوالدین شداد، عیسٰی الہکاری فقہیہ اور الناصر کو میرے پاس جلدی بھیج دو''۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ چاروں سلطان ایوبی کے خصوصی مشیر اور معتمد تھے ۔ سلطان ایوبی نے انہیں کہا……''ابھی ابھی خلیفہ کا قاصد مجھے بلانے آیاتھا۔ میں نے جانے سے انکار کردیاہے ۔میں نے آپ کو یہ بتانے اور رائے لینے کے لیے بلایا ہے کہ میں جمعہ کے خطبہ سے خلیفہ کانام نکلوارہاہوں ''۔
''یہ اقدام ابھی قبل ازوقت ہوگا''……شداد نے کہا……''خلیفہ کو لوگ پیغمبر سمجھتے ہیں ۔رائے عامہ ہمارے خلاف ہوجائے گی''۔
''ابھی تو لوگ اسے پیغمبر سمجھتے ہیں ''……سلطان ایوبی نے کہا……''تھوڑے ہی عرصے بعد وہ اسے خدا سمجھنے لگیں گے۔ اسے پیغمبری اور خدائی دینے والے ہم لوگ ہیں ، جو خطے میں اس کانام خدا اور رسول اکرم ۖ کے ساتھ لیتے ہیں ۔کیوں عیسٰی فقیہہ !آپ کیا مشورہ دیتے ہیں؟''
''میں آپ کی تائید کرتاہوں''……عیسٰی الہکاری فقہیہ نے جواب دیا……''کوئی بھی مسلمان خطبے میں کسی انسان کانام برداشت نہیں کرسکتا۔انسان بھی ایسا جو شراب ، عورت اور ہر طرح کے گناہ کا شیدائی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ صدیوں سے خلیفہ کو پیغمبر وں کا درجہ دیاجارہاہے ، میں چونکہ شہری اور مذہبی امور کا ذمہ دار ہوں ۔اس لیے یہ نہیں بتا سکتاکہ سیاسی اور فوجی لحاظ سے آپ کے فیصلے کاردّعمل کیا ہوگا''۔
''ردّ عمل شدید ہوگا''……بہائوالدین شداد نے کہا……''اور ہمارے خلاف ہوگا۔ اسکے باوجود میں یہی مشورہ دوں گا کہ یہ بدعت ختم ہونی چاہیے یا خلیفہ کو پکا مسلمان بناکر لوگوں کے سامنے لایا جائے جو مجھے ممکن نظر نہیں آتا''۔
''رائے عامہ کو مجھ سے بہتر اور کون جان سکتاہے ''……علی بن سفیان نے کہا جو جاسوسی اور سراغ رسانی کے شعبے کا سربراہ تھا۔ اس نے ملک کے اندر جاسوسوں اور مخبروں کا جال بچھا رکھا تھا۔ اس نے کہا……''عام لوگوں نے خلیفہ کی کبھی صورت نہیں دیکھی ۔وہ العاضد کے نام سے نہیں صلاح الدین ایوبی کے نام سے واقف ہیں ۔میرے محکمے کی مصدقہ اطلاعات نے مجھے یقین دلایا ہے کہ آپ کے دو سالہ دورِ امارت میں لوگوں کی ایسی ضروریات پوری ہوگئی ہیں جن کے متعلق انہوں نے کبھی سو چا بھی نہ تھا۔ شہروں میں ایسے مطب نہیں تھے ،جہاں مریضوں کو داخل کرکے علاج کیاجاسکتا ۔ لوگ معمولی معمولی بیماریوں سے مرجاتے تھے۔اب سرکاری مطب کھول دئیے گئے ہیں ،درس گاہیں بھی کھولی گئی ہیں، تاجروں اور دکان داروں کی لوٹ کھسوٹ ختم ہوگئی ہے ،جرائم بھی کم ہوگئے ہیں اور اب لوگ اپنی مشکلات اور فریادیں آپ تک براہِ راست پہنچا سکتے ہیں ۔آپ کے یہاں آنے سے پہلے لوگ سرکاری اہل کاروں اور فوجیوں سے خوف زدہ رہتے تھے ۔ آپ نے ان کے حقوق بتا دئیے ہیں اور وہ اپنے آپ کو ملک و ملت کا حصہ سمجھنے لگے ہیں ۔خلافت سے انہیں بے انصافی اور بے رحمی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ آپ نے انہیں عدل و انصافاور وقار دیاہے ۔میں وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ قوم خلافت کی بجائے امارت کے فیصلے کو قبول کرے گی''۔
''میں نے قوم کو عدل و انصاف اور وقار دیاہے یا نہیں ''……سلطان ایوبی نے کہا……''میں نے قوم کے حقوق اسے دئیے ہیں یا نہیں ، میں نہیں جانتا ۔میں قوم کو ایک انتہائی بیہودہ روایت نہیں دینا چاہتا۔ میں قوم کو شرک اور کفر نہیں دینا چاہتا ۔ضروری ہوگیاہے کہ اس روایت کو توڑ کر ماضی کے کوڑے کرکٹ میں پھینک دیاجائے جو مذہب کا حصہ بن گئی ہے ۔اگر یہ روایت قائم رہی تو یہ بھی ہوسکتاہے کہ کل پرسوں میں بھی اپنانام خطبے میں شامل کردوں ۔ دئیے سے دیا جلتا ہے ،لیکن میں اس دئیے کو بجھادینا چاہتاہوں جو شرک کی روشنی کو آگے چلارہاہے۔ قصرِ خلافت بدکاری کا اڈہ بناہواہے۔ خلیفہ اُس رات بھی شراب پئے ہوئے حرم کے حسن میں بدمست پڑا تھا جس رات سوڈانی فوج نے ہم پر حملہ کیاتھا، اگر میری چال ناکام ہوجاتی تو مصر سے اسلام کا پرچم اُتر جاتا۔جب اللہ کے سپاہی شہید ہو رہے تھے ، اس وقت بھی خلیفہ شراب پئے ہوئے تھا۔میں اسے احکام کے مطابق یہ بتانے گیا کہ سلطنت پر کیا طوفان آیاتھااور ہماری فوج نے اس کا دم خم کس طرح توڑ اہے تو اس نے مست سانڈکی طرح جھوم کر کہا تھا……''شاباش !ہم بہت خوش ہوئے ۔ہم تمہارے باپ کو خصوصی قاصد کے ہاتھ مبارک باد اور انعام بھیجیں گے''……میں نے اسے کہا کہ یا خلیفة المسلمین!میں نے اپنا فرض اداکیاہے ۔ میں نے یہ فرض اپنے باپ کی خوشنودی کے لیے نہیں، اللہ اور اس کے رسولۖ کی خوشنودی کے لیے اد اکیاہے ۔
جاری ھے ،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں