داستان ایمان فروشوں کی
تیسرا حصہ : دوسری بیوی
قسط نمبر # 21
صحرا کی تاریک رات میں اب کسی سر پٹ دوڑ تے گھوڑے کے ٹاپو نہیں سنائی دیتے تھے ۔سواروں کی آوازیں اور دُلکی چلتے گھوڑوں کے ٹاپو سنائی دیتے تھے۔ سوار ایک دوسرے کو پکار رہے تھے ۔ان کی آوازوں سے پتہ چلتاتھا کہ انہوں نے بھاگنے والوں کو پکڑ لیاہے۔ علی بن سفیان نے سب کو اکٹھا کرلیا۔ بھاگنے والے پکڑے گئے تھے۔ ان کے دوگھوڑے زخمی تھے۔ ان گھوڑوں کو مرنے کے لیے صحرامیں چھوڑدیاگیا۔ بھاگنے والے پانچ تھے۔ چار آدمی اور ایک لڑکی۔ لڑکی گر پڑی تھی ۔ بھاگنے والوں میں سے ایک نے کہا……''ہمارے ساتھ تم لوگ جو سلوک کرنا چاہوکر لو ، مگر یہ لڑکی زخمی ہے۔ہم اُمید رکھیں گے کہ تم اسے پریشان نہیں کروگے''َ
ایک گھوڑے کی زین کے ساتھ مشعل بندھی ہوئی تھی ۔کھول کر جلائی گئی ۔لڑکی کو دیکھا گیا۔ بہت ہی خوب صورت اور نوجوان لڑکی تھی ۔اس کے کپڑے خون سے سرخ ہوگئے تھے۔ اس کے کندھے پر، گردن کے قریب ،خنجر کا گہرا زخم تھا۔ اس سے اتناخون نکل گیا تھا کہ لڑکی کا چہرہ لاش کی طرح سفید اور آنکھیں بند ہوگئی تھیں۔ علی بن سفیان نے زخم میں ایک کپڑا ٹھونس کر اوپر ایک اور کپڑا باندھ دیا اور اُسے ایک گھوڑے پر ڈال کر سوار سے کہا کہ جلدی جرّاح تک پہنچے ۔ وہاں جلدی کا تو سوال ہی نہیں تھا،وہ شہر سے میلوں دُور نکل گئے تھے ۔قیدیوں میں ایک بوڑھا تھا۔
یہ قافلہ جب قاہرہ پہنچا تو صبح طلوع ہورہی تھی ۔ سلطان کو رات کے واقعہ کی اطلاع مل گئی تھی ۔علی بن سفیان ہسپتال گیا ۔جراح اور طبیب قیدی لڑکی کی مرہم پٹی میں اور ہوش میں لانے میں مصروف تھے ۔سوار نے اسے تھوڑی دیر پہلے پہنچا دیاتھا۔ البرق کی پہلی بیوی اور آذر ہوش میں آگئے تھے،مگر اُن کی حالت تسلی بخش نہیں تھی۔سلطان ایوبی ہسپتال میں موجود تھا۔ اس نے علی بن سفیان کو الگ کرکے کہا۔''میں بہت دیر سے یہاں ہوں۔میں نے البرق کو بلانے کے لیے دو آدمی بھیجے تو اس نے عجیب بات بتائی ہے۔وہ کہتاہے کہ البرق ہوش میں نہیں ۔اس کے کمرے میں شراب کے پیالے اور صراحی پڑی ہے ۔کیا وہ شراب بھی پینے لگاہے؟اُسے اتنا بھی ہوش نہیں کہ اس کی بیوی گھر سے باہر زخمی پڑی ہے۔میں نے اس کی بیوی سے ابھی کوئی بات نہیں کی ۔طبیب نے منع کردیاہے''۔
''اس کی ایک نہیں، دوبیویاں زخمی ہیں''……علی بن سفیان نے کہا ……''یہ لڑکی جسے ہم نے صحرا سے جا کر پکڑا ہے، البرق کی دوسری بیوی ہے۔ذرازخمیوں کو بولنے کے قابل ہونے دیں۔ہم نے بہت بڑا شکار ماراہے''۔
البرق سورج نکلنے کے بعد جاگا۔ ملازم کے بتانے پر وہ دوڑتا آیا۔اس کی دونوں بیویاں زخمی پڑی تھیں ۔ اسے چاروں جاسوس دکھائے گئے۔ وہ بوڑھے کو دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ اسے وہ آصفہ کا بوڑھا خاوند سمجھتارہاتھا۔ سلطان ایوبی نے یہ واردات اپنی تحویل میں لے لی، کیونکہ یہ جاسوسوں کے پورے گروہ کی واردات تھی اور اس میں اس کا معتمد ملوث تھا جسے فوج کے تمام راز اور آئندہ منصوبے معلوم تھے۔
جوں ہی زخمی بیان دینے کے قابل ہوئے ، ان سے بیان لیے گئے ۔ان سے یہ کہانی یوں بنی کہ البرق کی پہلی بیوی کو جب علی بن سفیان نے بتایا کہ اس کے خاوند کی دوسری بیوی مشتبہ چال چلن کی ہے اور وہ جاسوس معلوم ہوتی ہے تو وہ سخت غصے کے عالم میں گھر چلی گئی۔ وہ اپنے خاوند کو اور آصفہ کو قتل کردینا چاہتی تھی، لیکن علی بن سفیان نے اُسے کہاتھا کہ جاسوسوں کو زندہ پکڑا جاتاہے،تاکہ ان کے چھپے ہوئے ساتھیوں کا سراغ لیاجاسکے۔ اس نے اپنے آپ پر قابو پایا اور آصفہ پر گہری نظر رکھنے لگی۔ اس نے رات کا سونا بھی ترک کردیا تھا-
موقع دیکھ کر اس نے ان کے سونے والے کمرے کے اس دروازے میں چھوٹا سا سوراخ کرلیا جو دوسرے کمرے میں کھلتاتھا۔ رات کو اس سوراخ میں سے انہیں دیکھتی رہتی تھی۔دو راتیں تو اس نے یہی دیکھا کہ لڑکی البرق کو شراب پلاتی تھی اور عریانی کا پورا مظاہرہ کرتی تھی ۔ وہ سلطان ایوبی کی باتیں ایسے انداز سے کرتی تھی جیسے وہ اس کا پیر اور مرشد ہو۔ صلیبیوں کو بُرا بھلا کہتی اور وہی باتیں کرتی جو سلطان ایوبی کے جنگی منصوبے میں شامل تھیں۔البرق اسے بتاتا تھا کہ سلطان کیا کررہاہے اور کیا سوچ رہاہے ۔
البرق کی پہلی بیوی نے دوراتیں یہی کچھ دیکھا اور سنا ۔تیسری رات وہ ناٹک کھیلاگیا جس کا البرق کی پہلی بیوی کو بے تابی سے انتظار تھا۔ آصفہ نے البرق کو شراب پلانی شروع کی اور اسے بالکل حیوان بنادیا۔ آصفہ دونوں پیالے اُٹھا کر اور یہ کہہ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی…''دوسری لاتی ہوں''…وہ واپس آئی تو پیالوں میں شراب تھی۔اس نے ایک پیالہ البرق کودے دیا ۔ دوسرا خود منہ سے لگا لیا۔ اس کے بعد اس نے بے حد ننگی حرکتیں کیں اور البرق بے سدھ لیٹ گیا ۔ آصفہ نے کپڑے پہنے اور البرق کو آہستہ آہستہ بلایا۔ وہ نہ بولا، پھر اسے ہلایا۔ ہاتھ سے اس کے پپوٹے اوپر کیے،مگر ااس کی آنکھیں نہ کھلیں ۔اس نے پیالے دوسرے کمرے میں لے جا کر شراب میں بے ہوش کرنے والی کوئی چیز البرق کے پیالے میں ملادی تھی۔
آصفہ نے کپڑے پہنے ۔اوپر سیاہ چادر اس طرح لے لی کہ سر سے پائوں تک چھپ گئی ۔ آدھی رات ہونے کوتھی۔ اس نے قندیل بجھائی اور باہر نکل گئی۔پہلی بیوی آگ بگولہ ہوگئی۔ اس نے خنجر اُٹھایا۔ اوپر لباد اوڑھا، وہ کمرے سے نکلنے لگی تو دیکھا کہ آصفہ ایک ملازمہ کے ساتھ کُھسر پُھسر کررہی تھی۔ اس سے پتہ چلا کہ ملازمہ کو اس نے ساتھ ملارکھاتھا۔ آصفہ باہر نکل گئی ۔ملازمہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔پہلی بیوی بڑے دروازے سے باہر نکل گئی ۔ وہ تیزتیز چلتی آصفہ کے تعاقب میں گئی۔وہ اس کے قدموں کی آہٹ پر جارہی تھی۔وہ صرف یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ کہاں جارہی ہے۔آصفہ کو شاید اس کے قدموں کی آہٹ سنائی دی تھی۔ وہ رُک گئی۔پہلی بیوی اندھیرے میں اچھی طرح دیکھ نہ سکی ۔وہ آصفہ کے قریب چلی گئی اور رُک گئی۔ اچانک آمنے سامنے آجانے سے پہلی بیوی فیصلہ نہ کر سکی کہ کیا کرے ۔ اس کے منہ سے نکل گیا…''کہاں جارہی ہوآصفہ؟
پہلی بیوی کو معلوم نہ تھا کہ لڑکی کی حفاظت کے لیے آدمی چھپ چھپ کر اس کے ساتھ جاتاہے جو کسی کو نظر نہیں آتا۔ آصفہ نے اپنے ہاتھ پر پاتھ مارا اور البرق کی پہلی بیوی سے ہنس کر کہا…'' آپ میرے پیچھے آئی ہیں یا کہیں جارہی ہیں؟''…اتنے میں پیچھے سے کسی نے پہلی بیوی کو بازوئوں میں جکڑ لیا، مگر اس عورت نے گرفت مضبوط ہونے سے پہلے ہی جسم کو زور سے جھٹکادیا اور آزاد ہوگئی ۔اس نے تیزی سے خنجر نکال لیا۔ اس کے سامنے ایک آدمی تھا۔ عورت نے اس پر وار کیا جو وہ بچاگیا۔ آدمی نے ایسا وار کیا کہ خنجر عورت کے پہلو میں اُترگیا۔ اس آدمی نے دیکھ لیاتھا کہ عورت کے پاس خنجر ہے۔وہ فوراً پیچھے ہٹ گیا۔ پہلی بیوی نے آصفہ پر حملہ کیا اور خنجر اس کی گردن اور کندھے کے درمیان اُتاردیا۔لڑکی نے زور سے چیخ ماری۔ آدمی نے پہلی بیوی پر وار کیا جو یہ عورت پھرتی سے بچاگئی ۔ اس نے وار کیاتو اس آدمی نے اس کابازو اپنے بازو سے روک لیا ۔
آصفہ گرپڑی تھی ۔البرق کی پہلی بیوی کوبھی گہرا زخم آیاتھا جو پہلو سے پیٹ تک چلاگیا تھا۔ وہ ڈگمگانے لگی ۔وہ آدمی آصفہ کو اُٹھا کر کہیں چلا گیا۔ علی بن سفیان کے دوجاسوس عمر اور آذر چھپ کر دیکھ رہے تھے ۔انہیں معلوم نہیں تھا کہ دوسری عورت کون ہے ۔عمر اس آدمی کے پیچھے چھپ چھپ کر گیا جو آصفہ کو اُٹھالے گیاتھا۔ وہ اسی مکان میں لے گیا جہاں وہ جایا کرتی تھی ۔وہاں سے عمر علی بن سفیان کو اطلاع دینے چلاگیا۔آذر نے بتایا کہ وہ وہیں چھپا رہا۔ زخمی عورت وہیں پڑی تھی وہاں اور کوئی نہ تھا۔ آذر اس عورت کے پاس جاکر بیٹھ گیاپیچھے سے کسی نے اس پر خنجر سے تین وار کیے اور حملہ آور بھاگ گیا۔ آذر وہیں بے ہوش ہوگیا۔
شام تک البرق کی پہلی بیوی آذر کی حالت بگڑ گئی ۔جراحوںاور طبیبوں نے بہت کوشش کی ،مگر وہ زندہ نہ رہ سکے۔ البرق کی بیوی نے علی بن سفیان سے کہاتھا کہ میں اپنے خاوند کو قربان کرسکتی ہوں اسلام اورقوم کی عزت کو قربان ہوتا نہیں دیکھ سکتی ۔اس نے قوم کے نام پر جان دے دی۔
سلطان ایوبی کے حکم سے خادم الدین البرق کو قید خانے میں ڈال دیاگیا ۔اس نے یقین دلانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ اس نے یہ جرم دانستہ نہیں یا۔وہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں بے وقوف بن گیاتھا، مگر یہ ثابت ہوچکاتھا کہ اس نے حکومت اور فوج کے راز شراب اور حسین لڑکی نشے میں دشمن کے جاسوسوں تک پہنچائے ہیں ۔سلطان ایوبی قتل کا جرم بخش سکتاتھا ۔شراب خوری اور عیاشی کا اور دشمن کو راز دینے کے رائم نہیں بخشا کرتاتھا۔
آصفہ سے اس روز کوئی بیان نہ لیاگیا۔ اس پر زخم کا اتنا اثر نہیں تھا، جتنا خوف کا تھا۔وہ جاسوس لڑکی تھی ۔ سپاہی نہیں تھی ۔ا سے شہزادی کے کے روپ میں شہزادوں سے بھید لینے کی ٹریننگ دی گئی تھی ۔ اس نے سو٢چا بھی نہ تھا کہ اس کا یہ حشر بھی ہوسکتاہے ۔اس پر زیادہ خوف اس کا تھا کہ وہ مسلمانوں کی قیدی ہے اور مسلمان اسے بہت خراب کریں گے۔ ایک خطرہ یہ بھی اسے نظر آیاتھا کہ مسلمان اس کے زخم کا علاج نہیں کریں گے۔ا س نے اس خطرے کا اظہار ہر اُس آدمی سے کیا جو س کے قریب گیا۔ وہ ڈرے ہوئے بچے کی طرح روتی تھی ۔ علی بن سفیان نے اسے بہت تسلی دی کہ اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو کسی مسلمان زخمی عورت کے ساتھ کیاجاتاہے ، مگر وہ سلطان ایوبی سے ملنا چاہتی تھی ۔ آخر سلطان کو بتایا گیا۔
سلطان ایوبی اس کے پاس اور اس کے سر پر ساتھ رکھ کر کہا کہ اس حالت میں وہ اسے اپنی بیٹھی سمجھتا ہے ۔
''میں نے سناتھا کہ سلطان ایوبی تلوار کا نہیں ،دل کا بادشاہ ہے''……آصفہ نے روتے ہوئے کہا……''اتنا بڑا بادشاہ جسے شکست دینے کے لیے عیسائیوں کے سارے بادشاہ اکٹھے ہوگئے ہیں ۔ایک مجبور لڑکی کو دھوکا دیتے اچھا نہیں لگتا ……ان لوگوں سے کہو کہ مجھے فور اً زہر دے دیں۔ میں اس حالت میں کوئی اذیت برداشت نہیں کرسکوں گی''۔
''کہو تو میں ہروقت تمہارے پاس موجود رہوں گا''…… سلطان ایوبی نے کہا۔''میں تمہیں دھوکہ بھی نہیں دوں گا، اذیت بھی نہیں دوں گا، مگر وعدہ کرو کہ تم بھی مجھے دھوکہ نہیں دوگی، تم ذرا اور بہتر ہولو، طبیب نے کہاہے کہ تم ٹھیک ہو جائوگی۔ اگر تمہیں اذیت دینی ہوتی تو میں اسی حالت میں قید خانے میں ڈال دیتا ۔تمہارے زخم پر نمک ڈالا جاتا۔ تم چیخ چیخ اور چلاچلا کر اپنے جرم اور اپنے ساتھیوں سے پردے اُٹھاتی، مگر ہم کسی عورت کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیاکرتے۔البرق کی بیوی مرگئی ہے،لیکن تمہیں زندہ رکھنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے''۔
''میں ٹھیک ہوجائوں گی تو میرے ساتھ کیا سلوک کروگے؟''اس نے پوچھا۔
''یہاں تمہیں کوئی مرد اس نظر سے نہیں دیکھے گا کہ تم ایک نوجوان اور خوب صورت لڑکی ہو''……سلطان ایوبی نے کہا……''تم یہ خدشہ دل سے نکال دو۔ تمہارے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو اسلامی قانون میں لکھاہے''۔
اس مکان کی تلاشی لی گئی تھی جہاں آصفہ جایا کرتی تھی ۔ وہ کسی کا گھر نہیں تھا۔ جاسوسوں کا اڈہ تھا۔ اندر اصطبل بناہواتھا ۔ اندر سے پانچ آدمی برآمد ہوئے تھے ،انہیں گرفتار کرلیاگیا تھا۔ان پانچ نے ان چاروں نے جنہیں تعاقب میں پکڑا گیاتھا، جرم کا اعتراف کرنے سے انکار کردیا۔ آخر انہیں اس تہہ خانے میں لے گئے جہاں پتھر بھی بول پڑتے تھے۔بوڑھے نے تسلیم کرلیا کہ اس نے اس لڑکی کو دانے کے طور پر پھینک کر البرق کو پھانسا تھا۔ اس نے سارا ناٹک سنادیا۔دوسروں نے بھی بہت سے پردے اُٹھائے ا ور اس مکان کا راز فاش کیا، جسے شہر کے لوگ احترام کی نگاہوں سے دیکھتے تھے ۔اس مکان میں بہت سی لڑکیاں رکھی گئی تھیں جو دومقاصد کے لیے استعمال ہوتیں۔ایک جاسوسی لیے اور حاکموں اور اونچے گھرانے کے مسلمان نوجوانوں کے اخلاق تباہکرنے کے لیے وہ جاسوسوں اور تخریب کاروں کا اڈہ تھا۔
ان جاسوسوں نے یہ بھی بتایا کہ سلطان ایوبی کی فوج میں انہوں نے اپنے آدمی بھرتی کرادئیے ہیں ،جنہوں نے سپاہیوں میں جوئے بازی کی عادت پیدا کردی ہے ۔وہ ہاری ہوئی بازی جیتنے کے لیے ایک دوسرے کے پیسے چراتے اور چور بنتے جارہے ہیں ۔ شہر میں انہوں نے پانچ سو سے کچھ زیادہ فاحشہ عورتیں پھیلادی ہیں جو نوجوانوں کو پھانس کر انہیں عیاشی کی راہ پر ڈال رہی ہیں ۔خفیہ قمار خانے بھی کھول دئیے گئے ہیں ۔ان لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ اُن سوڈانیوں کو سلطان کے خلاف بھڑ کایا جارہاہے، جنہیں فوج سے نکال دیاگیاتھا۔ سب سے اہم انکشاف یہ تھا کہ انہوں نے چھ ایسے مسلمان افسروں کے نام بتائے جو سلطان ایوبی کی حکومت میں اہم حیثیت رکھتے تھے مگر سلطان ایوبی کے خلاف کام کررہے تھے ۔ آصفہ عیسائی لڑکی تھی اس کانام فلیمنگو بتایا گیا۔ وہ یونانی تھی ۔اسے تیرہ سال کی عمر سے اس کام کی ٹریننگ دی جارہی تھی۔ اسے مصر کی زبان سیکھائی گئی ۔ایسی سینکڑوں لڑکیاں مسلمان علاقوں میں استعمال کرنے کے لیے تیار کی گئی تھیں، جنہیں چوری چھپے اِدھر بھیجا گیاتھا۔
اس لڑکی نے بھی کچھ نہ چھپایا۔ پندرہ روز بعد اس کا زخم ٹھیک ہوگیا۔اسے جب بتایا گیا کہ اُسے سزائے موت دی جارہی ہے تو اس نے کہا……''میںخوشی سے یہ سزاقبول کرتی ہوں ۔میں نے صلیب کا مشن پورا کردیا ہے''……اسے جلاد کے حوالے کردیاگیا۔
دوسروں کی ابھی ضرورت تھی ۔ان کی نشاند ہی پر چند اور لوگ پکڑے گئے ، جن میں چند ایک مسلمان بھی تھے۔ان سب کو سزائے موت دی گئی ۔البرق کو ایک سو بید کی سزادی گئی جو وہ برداشت نہ کرسکا اور مرگیا۔ا سکے بچوں کو سلطان ایوبی نے سرکاری تحویل میں لے لیا۔ ان کے لیے سرکاری خرچ پر ملازہ اور اتالیق مقرر کیے گئے ۔وہ البرق کے بچے نہیں ، ایک مجاہدہ کے بچے تھے ۔ان کی ماں شہید ہوگئی تھی۔
دوسری بیوی کا قصہ یہیں تمام ہوتا ہے.
جاری ھے.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں