داستان ایمان فروشوں کی
تیسرا حصہ : دوسری بیوی
قسط نمبر # 20
ہدایت کے مطابق یہ عورت اُس وقت البرق کے گھر میں گئی جب وہ گھر میں نہیں تھا۔ دوسری ہدایت کے مطابق و ہ سارے گھر میں پھری تو اُسے آصفہ نظر آگئی۔ یہ عورت البرق کی پہلی بیوی سے ملی ۔اپنی ''فریاد'' پیش کی اور کہا کہ وہ ) البرق کی پہلی بیوی( البرق سے اس کی سفارش کرے ۔باتوں باتوں میں اس نے کہا ……''آپ کی بیٹی کی شادی ہوگئی ہے یا ابھی کنواری ہے؟'' ……اسے جواب ملا ……''یہ میری بیٹی نہیں ، میرے خاوند کی دوسری بیوی ہے ۔تین مہینے ہوئے انہوں نے شادی کی ہے''۔
علی بن سفیان کے لیے یہ اطلاع حیران کن تھی۔اس کے دل میں یہی شک پیدا ہوگیا کہ رات کو باہر جانے والی اس کی نئی بیوی ہوسکتی ہے ۔علی نے ایک اور عورت کے ہاتھ البرق کی پہلی بیوی کو پیغام بھیجاکہ وہ اُسے کہیں باہر ملنا چاہتا ہے ، مگر البرق کو پتہ نہ چلے ، اس نے یہ بھی کہلا بھیجا کہ ان کے گھر کے متعلق کوئی بہت ہی ضروری بات کرنی ہے۔ علی نے ملاقات کے لیے ایک جگہ بھی بتادی اور وقت وہ بتا دیا جب البر ق دفتر میں مصروف ہوتاتھا…… وہ آگئی ۔علی بن سفیان کے دل میں اس معزز عورت کا بہت ہی احترام تھا ۔اس نے البرق کی بیوی سے کہا کہ اسے معلوم ہوا ہے کہ البرق نے دوسری شادی کرلی ہے ۔بیوی نے جواب دیا……''خدا کا شکر ہے کہ اس نے دوسری شادی کی ہے ۔چوتھی اور پانچویں نہیں کی''۔
باتیں کرتے کرتے علی بن سفیان نے پوچھا ۔''وہ کیسی ہے؟''
''بہت خوب صورت ہے ''۔بیوی نے جوا ب دیا۔
''شریف بھی ہے ؟''…… علی بن سفیان نے پوچھا ……''آپ کو اس پر کسی قسم کا شک تو نہیں؟…… کچھ دیر تک وہ گہری سوچ میں پڑی رہی ۔علی نے کہا……''اگر میں یہ کہوں کہ وہ کبھی کبھی رات کو باہر چلی جاتی ہے تو آپ بُرا تو نہ جانیں گی ؟''
وہ مُسکرائی اور کہنے لگی……''میں خود پریشان تھی کہ یہ بات کس سے کروں ۔ میرے خاوند کا یہ حال ہے کہ اس کا غلام ہوگیاہے ۔ مجھ سے تو اب بات بھی نہیں کرتا۔ میں اس لڑکی کے خلاف خاوند کے ساتھ بات کروں تو وہ مجھے گھر سے نکال دے ۔وہ سمجھے گا کہ میں حسد سے شکایت کررہی ہوں ۔یہ لڑکی صاف نہیں ۔ ہمارے گھر میں شراب کی بو بھی کبھی نہیں آئی تھی ۔ اب وہاں مٹکے خالی ہوتے ہیں ''۔
''شراب ؟'' علی بن سفیان نے چونک کر پوچھا……''البرق شراب بھی پینے لگاہے ؟''
''صرف پیتا نہیں ''۔بیوی نے کہا ……''بد مست اور مدہوش ہوجاتا ہے۔میں نے چھ بار اس لڑکی کو رات کے وقت باہر جاتے اور بہت دیر بعد آتے دیکھا ہے ۔میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جس رات لڑکی کو باہر جاناہوتا ہے ،ا س رات البرق بے ہوش ہوتاہے ۔صبح بہت دیر سے اُٹھتا ہے ۔ لڑکی بدمعاش ہے ۔اسے دھوکہ دے رہی ہے''۔
''لڑکی بدمعاش نہیں''۔ علی بن سفیان نے کہا…''وہ جاسوس ہے۔و ہ البرق کو نہیں ، قوم کو دھوکہ دے رہی ہے''۔
''جاسوس ؟'' بیوی نے چونک کر کہا……''میرے گھر میں جاسوس ؟'' وہ اُٹھ کھڑی ہوئی ۔دانت پیس کر بولی……''آپ جانتے ہیں کہ میں شہید کی بیٹی ہوں ۔البرق پکا مسلمان تھا ۔ اس نے زندگی اسلام کے نام پر وقف کررکھی تھی۔میں بچوں کو جہاد کے لیے تیار کرہی ہوں اور آپ کہتے ہیں کہ میرے بچوں کا باپ ایک جاسوس لڑکی کے قبضے میں آگیا ہے۔ میں اپنے بچوں کے باپ کو قربان کرسکتی ہوں ، قوم اور اسلام کو قربان ہوتا نہیں دیکھ سکتی ۔ میں دونوں کو قتل کردوں گی''۔
علی بن سفیان نے اسے بڑی مشکل سے ٹھنڈا کیا اور اسے سمجھا یا کہ ابھی یہ یقین کرنا ہے کہ یہ لڑکی جاسوس ہے اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ البرق بھی جاسوسوں کے گروہ میں شامل ہوگیاہے یا اسے شراب پلا کر صرف استعمال کیاجارہاہے ۔ اس عورت کو یہ بھی بتایا گیا کہ جاسوسوں کو قتل نہیں ، گرفتار کیا جاتاہے اور ان کے دوسرے ساتھیوں کے متعلق پوچھا جاتاہے ۔ علی بن سفیان نے اسے کچھ ہدایات دیں اور اُسے کہا کہ وہ لڑکی کی ہر حرکت پر نظر رکھے ……یہ عورت چلی گئی ۔یوں معلوم ہوتاتھا جیسے علی بن سفیان کی ہدایات پر ٹھنڈے دل سے عمل کرے گی ، مگر اس کی چال اور اسکے انداز سے یہ بھی معلوم ہوتاتھا کہ کسی بھی وقت بے قابوہوجائے گی ۔ وہ حرم کی عورت نہیں تھی، وہ خاوند کی وفادار بیوی اور ملک و ملت پر جان نثار کرنیوالی قوم کی بیٹی تھی۔
٭ ٭ ٭
خادم الدین البرق اور علی بن سفیان صرف رفیق کار ہی نہیں تھے۔ ان کی گہری دوستی بھی تھی۔وہ ہم عمر تھے ۔ انہوں نے اکٹھے معرکے لڑے تھے۔ دونوں سلطان ایوبی کے پرانے ساتھی تھے ۔ اتنی گہری دوستی کے باوجود البرق نے علی بن سفیان سے دوسری شادی چھپا رکھی تھی ۔علی کو معلوم ہواتو اس نے البرق کے ساتھ اس ضمن میں کوئی بات نہیں کی۔ وہ اس کی بیوی کی وساطت سے اس کے گھر کا معمہ حل کرنے کی کوششوں میں لگا ہواتھا۔ اس نے البر ق کے مکان اور اُس مکان کے درمیان اپنے جاسوسوں میں اضافہ کردیا تھا، جہاں البرق کی نئی بیوی رات کو جایا کرتی تھی ۔البرق کی پہلی بیوی کے ساتھ باتیں کیے دو راتیںگزر گئی تھیں ۔ لڑکی باہر نہیں نکلی تھی۔ جاسوس پوری پوری رات بیدار رہے تھے۔
تیسری رات، نصف شب سے ذرا پہلے علی بن سفیان گہری نیند سویا ہوا تھا۔ اس نے اپنے عملے اور اپنے ملازموں سے کہہ رکھا تھا کہ وہ جب چاہیں اسے جگا سکتے ہیں۔وہ ان حاکموں سے مختلف تھا جو کسی کو آرام میں مخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے تھے ۔اُس رات علی کو ملازم نے گہری نیند سے بیدار کیا اور کہا……''عمرآیا ہے،گھبرایا ہواہے''۔
علی بن سفیان کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح کمرے سے نکلا ،صحن دوتین چھلانگوں میں عبور کیا اور ڈیوڑھی سے باہر نکل گیا۔ اس کے عملے کا ایک آدمی باہر کھڑا تھا۔اس نے کہا …… ''ملا زم کو دوڑائیں ۔دس بارہ سوار فوراً منگوائیں۔ اپنا گھوڑا جلدی تیار کریں،پھر آپ کو بتاتا ہوں کہ کیا ہواہے''۔
علی بن سفیان نے ملاز کو چودہ مسلح سوار اور اپنا گھوڑا اور تلوار لانے کو دوڑا یا اور عمر سے پوچھا…''کہو کیا بات ہے''۔
عمر اور آذر نام کے دوجاسوس آصفہ کو دیکھنے کے لیے متعین تھے۔ علی بن سفیان نے انہیں حکم دے رکھا تھا کہ لڑکی گھر سے نکل کر کہیں جائے تو اسے فوراً اطلاع دی جائے ۔ عمر بڑی خطرناک اطلاع لے کر آیا۔ اس نے بتایا کہ تھوڑی دیر گزری ، البرق کے گھر سے سیاہ چادر میں سر سے پائوں تک لپٹی ہوئی ایک عورت نکلی ۔پچاس ساٹھ گز آگے گئی تو البرق کے گھر سے اسی لباس میں ایک اور عورت نکلی ۔وہ بہت تیز تیز اگلی عورت کے پیچھے چلی گئی۔جب اُس سے ذرا دُور رہ گئی تو اگلی عورت رُک گئی۔ دونوں جاسوس چھپے ہوئے تھے۔ انہیں کوئی دیکھ نہ سکا۔ وہ تعاقب بھی چھپ کر کرتے تھے دونوں عورتوں میں نہ جانے کیا بات ہوئی۔ ان میں سے ایک نے تالی بجائی، کہیں قریب سے ایک آدمی نکلا ۔اس نے بعد میں آنے والی عورت کو پکڑنا چاہا۔ عورت نے اس پر کسی ہتھیار کا وار کیا جو اندھیرے میں نظر نہیں آتا تھا۔ا س آدمی نے بھی اس پر کسی ہتھیار سے وار کیا۔
جو عورت پہلے آئی تھی، اس کی آواز سنائی دی……''اِسے اُٹھا کر لے چلو''……دوسری عورت نے اس پر وار کیا۔ اس کی چیخ سنائی دی۔ دوسری عورت نے اس پر ایک اور وار کیا اور آدمی کا وار بچایا بھی ۔ دونوں عورتیں زخمی ہوگئیں تھیں ۔عمر علی بن سفیان کو اطلاع دینے دوڑ پڑا۔آذر وہیں چھپا رہا۔اُسے یہ دیکھنا تھا کہ یہ لوگ کہاں جاتے ہیں۔
علی بن سفیان نے اس قسم کے ہنگامی حالات کے لیے تیز رفتار اور تجربہ کار لڑا کا سواروں کا ایک دستہ تیار رکھا ہوا تھا۔ یہ سوار اپنے گھوڑوں کے قریب سوتے تھے ۔ زینیں اور ہتھیار اُن کے پاس رہتے تھے ۔ انہیں یہ مشق کرائی جاتی تھی کہ رات کے وقت ضرورت پڑنے پر وہ چند منٹوں میں تیار ہوکر ضرورت کی جگہ پہنچیں ۔وہ اس قدر تیز ہوگئے تھے کہ علی بن سفیان کے ملازم نے دستے کے کمان دار کو اطلاع دی کہ چودہ سوار بھیج دو تو وہ علی بن سفیان کے کپڑے بدلنے اور اس کا گھوڑا تیار ہونے تک پہنچ گئے ۔
علی بن سفیان کی قیادت اور عمر کی راہنمائی میں وہ واردات کی جگہ پہنچے ۔دوسواروں کے ہاتھوں میں ڈنڈوں کے ساتھ تیل میں بھیگے ہوئے کپڑوں کی مشعلیں تھی، وہاں دو لاشیں پڑی تھیں ۔علی بن سفیان نے گھوڑے سے اُتر کر دیکھا، ایک البرق کی پہلی بیوی تھی ،دوسرآ ذر تھا، عمر کا ساتھی۔دونوں زندہ تھے اور خون میں ڈوبے ہوئے تھے ۔آذر نے بتایا کہ وہ البرق کی بیوی کو پھینک کر چلے گئے تو وہ اس کے پاس گیا۔ اچانک پیچھے سے کسی نے اُس پر خنجر کے تین وار کیے۔ وہ سنبھل نہ سکا،حملہ آور بھاگ گیا۔ آذر نے بتایا کہ دوسری عورت البرق کے گھر کی طرف نہیں گئی، بلکہ اُدھر گئی ہے، جہاں وہ پہلے جایا کرتی تھی ۔عمر کو اس گھر کا علم تھا۔
علی بن سفیان نے دو سواروں سے کہا کہ وہ دونوں زخمیوں کو فوراً جراح کے پاس لے جائیں اور ان کا خون روکنے کی کوشش کریں ۔ باقی سواروں کو وہ عمر کی راہنمائی میں اُس مکان کی طرف لے گیا ،جہاں آصفہ پہلے کئی بار جاتے دیکھی گئی تھی ۔ وہ پرانے زمانے کا بڑا مکان تھا۔ اس سے ملحق کئی اور مکان تھے۔ پچھواڑے سے گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز آئی ۔علی نے اپنے سواروں کو مکان کے دونوں طرف سے پیچھے بھیجا۔دوسواروں کو مکان کے سامنے کھڑا کردیا اور کہا کہ کوئی بھی اندر سے نکلے تو اسے پکڑ لو، بھاگنے کی کوشش کرے تو پیچھے سے تیر مارو اور ختم کردو۔
سوار ابھی چکر کاٹ کر پچھواڑے کی طرف جاہی رہے تھے کہ دوڑتے گھوڑوں کے ٹاپو سنائی دینے لگے۔ علی بن سفیان نے ایک سوار سے کہا…''سر پٹ جائو، اپنے کمان دار سے کہو کہ اس مکان کو گھیرے میں لے کر اندر داخل ہو جائیں ، اندر کے تمام افراد کو گرفتار کرلے''… سوار کیمپ کی طرف روانہ ہوگیا۔علی بن سفیان نے بلند آواز سے اپنے جاسوسوں کو حکم دیا…''ایڑ لگائو، تعاقب کرو۔ ایک دوسرے کو نظر میں رکھو''۔…اور اس نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی ۔یہ رسالے کے چنے ہوئے گھوڑے تھے اور ان کے سوار سلطان ایوبی سے کئی بار خراجِ تحسین حاصل کرچکے تھے ۔مفرور بھی شاہ سوار معلوم ہوتے تھے ۔اُن کے گھوڑوں کے ٹاپو بتاتے تھے کہ اچھی نسل کے بہت تیز دوڑنے والے گھوڑے ہیں۔یہ شہر کا علاقہ تھا، جہاں مکان کی رکاوٹیں تھیں ۔گلیاں تھیں ،جو گھوڑوں کی دوڑ کے لیے کشادہ نہیں تھیں ،اِن سے آگے کھلا میدان تھا۔
اندھیرے میں گھوڑے نظر نہیں آتے تھے ۔ اُن کی آوازوں پر تعاقب ہورہاتھا۔ وہ جب کھلے میدان میں گئے تو اُن کا چھپنا مشکل ہوگیا ۔اُفق کے پس منظر میں وہ سایوں کی طرح صاف نظر آنے لگے۔وہ چار تھے۔ انہوں نے کم و بیش ایک سو گز کا فاصلہ حاصل کرلیاتھا۔ وہ پہلو بہ پہلو جارہے تھے ۔علی بن سفیان کے حکم پر دوسواروں نے اسی رفتار سے گھوڑے دوڑآتے ہوئے تیر چلائے ۔تیر شاید خطا گئے تھے ، بھاگنے والے دانش مند معلوم ہوتے تھے ۔تیر ان کے قریب سے یا درمیان سے گر ے تو انہوں نے گھوڑے پھیلادئیے۔وہ اکٹھے جارہے تھے ۔ان کے گھوڑے کھلنے لگے۔ نہایت اچھے طریقے سے گھوڑے ایک دوسرے سے خاصے دور ہٹ گئے ۔ علی بن سفیان کا دستہ بہت تیز تھا، فاصلہ کم ہوتا جارہاتھا،مگر بھاگنے والوں کے گھوڑے اور زیادہ ایک دوسرے سے ہٹتے جارہے تھے۔ آگے کھجور کے پیڑو ں کا جھنڈ آگیا۔اُن کے گھوڑے وہاں اس طرح ایک دوسرے سے دورہٹ گئے کہ دو دائیں طرف اور دو کھجوروں کے بائیں طرف ہوگئے ۔یہ جگہ اونچی تھی، گھوڑے اوپر اُٹھے اور غائب ہوگئے ۔
تعاقب کرنے والے بلند ی پر گئے تو انہیں آگے جو بھاگتے سائے نظر آئے ،وہ ایک دوسرے سے بہت ہی دُور ہوگئے تھے ۔پھر وہ اتنی دور دور ہوگئے کہ ان کے رُخ ہی بدل گئے ۔علی بن سفیان جان گیا کہ وہ اس کے سواروں کو منتشر کرنا چاہتے ہیں ۔ علی نے بلند آواز سے کہا…''ہر سوار کے پیچھے تقسیم ہوجائو۔ ایک دوسرے کو بتادو۔ ایڑ لگائو، فاصلہ کم کرو، کمانوں میں تیر ڈال لو''۔
سوار تقسیم ہوگئے ۔سب نے کندھوں سے کمانیں اُتار کر تیر ڈال لیے اور تقسیم ہوکر ایک ایک گھوڑے کے پیچھے گئے ۔ ان کے گھوڑوں کی رفتار اور تیز ہوگئی ۔ٹاپوئوں کے شور و غل میں کمانوں سے تیر نکلنے کی آوازیں سنائی دیں ۔ کسی نے للکار کر کہا……''ایک کو مارلیا، گھوڑا بے قابو ہوگیاہے ''……ادھر علی بن سفیان کے ساتھ جو دوسوار تھے ،انہوں نے بیک وقت تیر چلائے ۔ اندھیرے میں تیر خطاجانے کاڈر تھا اور تیر خطا جابھی رہے تھے ۔ پھر بھی انہوں نے ایک اور گھوڑے کو نشانہ بنالیا۔ یہ گھوڑا بے قابو ہوکر اور گھوم کر پیچھے کو آیا ۔ ایک سوار نے اس کی گردن میں برچھی ماری ۔ دوسرے نے اپنے گھوڑے سے جھک کر اس کے پیٹ میں برچھی داخل کردی ،مگر گھوڑا توانا تھا، گرانہیں۔سوار زندہ پکڑ ناتھا۔ علی کے ایک سوار نے بازو بڑھا کر ایک سوار کی گردن جکڑ لی نیچے گھوڑا زخمی تھا۔ وہ رُکتے رُکتے رک گیا۔ اس پر ایک آدمی سوار تھااور ایک لڑکی جسے سوار نے آگے بٹھا رکھا تھا۔ لڑکی شاید بے ہوش تھی۔
جاری ھے.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں