قسط نمبر # 17
"داستان ایمان فروشوں کی"
"دوسری بیوی"
قاہرہ سے ڈیڑھ دومیل دور جہاں ایک طرفٍ ریت کے ٹیلے اور باقی ہر طرف صحراریت کے سمندر کی مانند اُفق تک پھیلا ہواتھا، انسانوں کے سمندر تلے دب گیا تھا۔ یہ لاکھوں انسانوں کا ہجوم تھا۔ ان میں شتر سوار بھی تھے اور گھوڑا سوار بھی ۔ بہت سے لوگ گدھوں پر بھی سوار تھے ۔ تعداد ان کی زیادہ تھی ،جن کے پاس کوئی سواری نہیں تھی ۔ لاتعداد ہجوم چار پانچ دنوں سے صحرا کی اس وسعت میں جمع ہونا شروع ہوگیا تھا۔ قاہرہ کے بازاروں میں بھیڑ اور رونق زیادہ ہوگئی تھی ۔ سرائے بھر گئی تھی ۔ یہ لوگ دور دور سے اس سرکاری منادی پر آئے تھے کہ چھ سات روز بعد قاہرہ کے مضافاتی ریگستان میں مصر ی فوج گھوڑ سواری ، شتر سواری، دوڑتے گھوڑوں اور اونٹوں سے تیر اندازی اور بہت سے جنگی کمالات کا مظاہرہ کرے گی ۔منادی میں یہ اعلان بھی کیاگیاتھا کہ غیرفوجی لوگ بھی ان مظاہروں میں جس کسی کو چاہیں تیغ زنی ، کُشتی ، دوڑتے گھوڑوں کی لڑائی اور تیر اندازی وغیرہ کے لیے للکار کر مقابلہ کرسکتے ہیں ۔
یہ منادی صلاح الدین ایوبی نے کرائی تھی ۔ اس کے دومقاصد تھے ۔ ایک یہ کہ لوگوں کو فوج میں بھرتی ہونے کی ترغیب ملے گی اور دوسرے یہ کہ جولوگ ابھی تک سلطان کو فوجی لحاظ سے کمزور سمجھتے ہیں ،ان کے شکوک رفع ہوجائیں ۔ سلطان ایوبی کو جب یہ اطلاعیں ملنے لگیں کہ لوگ چھ روز پہلے ہی تماشہ گاہ میں جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں تو وہ بہت خوش ہوا مگر علی بن سفیان پریشان سا نظر آتاتھا۔ اس نے سلطان کے آگے اس پریشانی کا اظہار کربھی دیاتھا۔ سلطان ایوبی نے مسرت سے اُسے کہاتھا……''اگر تماشائیوں کی تعداد لاکھ ہوجائے تو ہمیں پانچ ہزار سپاہی تو مل ہی جائیں گے ''۔
''محترم امیر!''علی بن سفیان نے کہا…''میں تماشائیوں کے ہجوم کو کسی اور زاویے سے دیکھ رہاہوں ۔ میرے اندازے کے مطابق اگر تماشائیوں کی تعداد ایک لاکھ ہوئی تو اس میں ایک ہزار جاسوس ہوں گے ۔ دیہات سے عورتیں بھی آرہی ہیں ۔ان میں زیادہ تر سوڈانی ہیں ۔ان میں اکثر کا رنگ اتنا گوراہے کہ عیسائی عورت ان میں چھپ سکتی ہے ''۔
''میں تمہاری اس مشکل کو اچھی طرح سمجھتا ہوں علی ! ''سلطان نے کہا……''لیکن تم جانتے ہوکہ میں نے جس میلے کا انتظام کیاہے ، وہ کیوں ضروری ہے۔ تم اپنے محکمے کو اور زیادہ ہوشیار کردو''۔
''میں اس کے حق میں ہوں !'' ……علی بن سفیان نے کہا……''یہ میلہ بہت ہی ضروری ہے ۔ میں نے اپنی پریشانی آپ کو پریشان کرنے کے لیے نہیں بتائی ، صرف یہ اطلاع پیش کی ہے کہ یہ میلہ اپنے سات کیا خطرہ لارہاہے ۔ قاہرہ میں عارضی قحبہ خانے کھل گئے ہیں جو ساری رات شائقین سے بھرے رہتے ہیں ۔تماشائیوں میں سے بعض نے شہر کے باہر خیمے نصب کر لیے ہیں ۔میرے گروہ نے مجھے اطلاع دی ہے کہ ان میں بھی قمار بازوں اور عصمت فروشوں کے خیمے موجود ہیں ۔کل میلے کا دن ہے ۔ ناچنے گانے والیوں نے تماشائیوں سے دولت کے ڈھیر اکٹھے کر لیے ہیں ''۔
''میلہ ختم ہوجائے گا تو یہ غلات بھی ہجوم کے ساتھ ہی صاف ہوجائے گی ''۔سلطان ایوبی نے کہا……''میںاس پر پابندی عائد نہیں کرنا چاہتا ۔ مصر کی اخلاقی حالات اچھی نہیں ۔ رقص اور عصمت فروشی ایک دو دنوں میں ختم نہیں کی جاسکتی ۔ ابھی مجھے زیادہ سے زیادہ تماشائیوں کی ضرورت ہے ۔مجھے فوج تیار کرنی ہے اور تم جانتے ہو علی ! ہمیں بہت زیادہ فوج کی ضرورت ہے ۔ میں نے فوج اور انتظامیہ کے سربراہوں کے افلاس میں یہ ضرورت وضاحت سے بیان کردی تھی ''۔
''میں آپ کو اس وضاحت سے روک نہیں سکاتھا، امیر محترم !''……علی بن سفیان نے کہا……''میری سراغ رساں نگاہوں میں ان سربراہوں میں نصف ایسے ہیں جو ہمارے وفادار نہیں ۔آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان میں کچھ ایسے ہیں جو آپ کو اس گدّی پر نہیں دیکھنا چاہتے اور باقی جو ہیں اُن کی دل چسپیاں سوڈانیوں کے ساتھ ہیں ۔میں نے ان میں سے ہر ایک کے پیچھے ایک ایک آدمی چھوڑ رکھاہے ۔ میرے آدمی مجھے ان کی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے رہتے ہیں ''۔
''کسی کی کوئی خطرناک سرگرمی سامنے آئی ہے ؟سلطان ایوبی نے پوچھا۔
: ''نہیں ۔ ''علی بن سفیان نے جواب دیا……''سوائے اس کے ، کہ یہ لوگ اپنی حیثیت اور رتبوں کو فراموش کرکے راتوں کو مشکوک خیموں میں اور اُن مکانوں میں جاتے ہیں جو عارضی قحبہ خانے اور رقص گاہیں بن گئے ہیں ۔دونے تو ناچنے والی لڑکیوں کو گھروں میں بھی بلایا ہے …… ان سے زیادہ میرا دماغ اُن دوبادبانی کشتیوں پر گھوم رہاہے جو دس روز گزرے ، بحیرۂ روم کے ساحل کے ساتھ دیکھی گئی تھیں''۔
''اُن میں کیاخاص بات تھی ؟''…… سلطان ایوبی نے پوچھا ۔
اس وقت تک بحیرۂ روم کے ساحل سے فوج کو واپس بلالیاگیاتھا، وہاں ڈھکی چھپی جگہوں پر دودو فوجی سمندر پر نظر رکھنے کے لیے بٹھا دئیے گئے تھے ۔علی بن سفیان نے ماہی گیروں اور صحرائی خانہ بدوشوں کے لباس میں ساحلی پر انٹیلی جنس کے چند آدمی مقرر کردئیے تھے ۔ یہ اہتمام ایک تو اس لیے کیاگیا تھا کہ صلیبی اچانک حملہ نہ کردیں اور دوسرے اس لیے کہ ادھر سے صلیبیوں کے جاسوس نہ آسکیں ، مگر ساحل بہت لمبا تھا۔ کہیں کہیں چٹانیں بھی تھیں ، جہاں سمند ر اند آجاتاتھا۔ سارے ساحل پر نظر نہیں رکھی جاسکتی تھی ۔دس روز گزرے ایسی ہی ایک جگہ سے جہاں سمندر چٹانوں کے اندر آیاہوا تھا، دو بادبانی کشتیاں نکلتی دیکھی تھیں ۔ وہ شاید رات کو آئی تھیں۔
انہیں جاتا دیکھ کر سلطان کے دو سوار سر پٹ گھوڑے دوڑاتے اس جگہ پہنچے ، جہاں سے کشتیاں نکل کر گئی تھیں ۔ وہاں کچھ بھی نہ تھا۔کوئی انسان نہیں تھا اور کشتیاں سمندر میں دور چلی گئی تھی کشتیوں اور بادبانوں کی ساخت بتاتی تھی کہ یہ مصر کے ماہی گیروں کی نہیں ۔ سمندر پار معلوم ہوتی تھیں۔ سوار تھوڑی دُور تک صحرا میں گئے ۔ انہیں کسی انسان کا سراغ نہیں ملا۔انہوں نے قاہرہ اطلاع بھجوادی تھی کہ ساحل کے ساتھ دو مشکوک کشتیاں دیکھی گئی ہیں ۔ علی بن سفیان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ ریگزار میں انہیں ڈھونڈ لیتا جو کشتیوں میں سے اُترے تھے ۔ اطلاع پہنچتے پہنچتے تین دِن گزرگئے تھے ۔یہ بھی یقین نہیں تھا کہ کشتیوں سے کون اُترا ہے ۔
علی بن سفیان نے سلطان ایوبی کے اس سوال کے جواب میں کہ ان کشتیوں میں کیا خاص بات تھی،یہ وضاحت کردی اور کہا……''ہم میلے کی منادی ڈیڑھ مہینے سے کرارہے ہیں۔ ڈیڑھ مہینے میں خبریورپ کے وسط تک پہنچ سکتی ہے اور وہاں سے جاسوس آسکتے ہیں ۔ مجھے یقین کی حد تک شک ہے کہ تماشائیوں کے ساتھ صلیبیوں کے جاسوس میلے میں آگئے ہیں ۔قاہرہ میں اس وقت لڑکیاں عارضی طور پر نہیں ، مستقل طور پر فروخت ہورہی ہیں ۔ سلطان سمجھ سکتے ہیں کہ ان کے خریدار معمولی حیثیت کے لوگ نہیں ہوسکتے ۔ ان خریداروں میں قاہرہ کے تاجر، ہماری انتظامیہ اور فوج کے سربراہ اور نامی گرامی بردہ فروش شامل ہیں ۔بکنے والی لڑکیوں میں صلیبیوں کی جاسوس لڑکیاں ہوسکتی ہیں اور یقینا ہوں گی''۔
سلطان ایوبی ان اطلاعوں سے پریشان نہ ہوا۔ بحیرۂ روم میں صلیبیوں کو شکست دئیے تقریباًایک سال گزر گیاتھا۔ علی بن سفیان نے سمندر پار جاسوسی کا انتظام کررکھاتھا جو مضبوط اور سوفیصد قابلِ اعتماد نہیں تھا۔ تاہم یہ اطلاع مل گئی تھی کہ صلیبیوں نے مصر میں جاسوس اور تخریب کار بھیج رکھے ہیں ۔ ابھی یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ مصر کے متعلق ان کے منصوبے کیا ہیں ۔ بغداد اور دمشق سے آنے ولی اطلاعوں سے پتہ چلاتھا کہ صلیبیوں نے زیادہ تر دبائو ادھر ہی رکھا ہواہے ۔ وہاں خصوصاً شام میں ، وہ مسلمان اُمرا کو عیاشیوں اور شراب میں ڈبوتے چلے جارہے تھے ۔سلطان نور الدین زنگی کی موجود گی میں صلیبی ابھی براہِ راست ٹکرلینے کی جرأت نہیں کررہے تھے ۔بحیرۂ روم میں جب صلاح الدین ایوبی نے اُن کا بیڑہ بمع لشکر غرق کردیاتھا ، اُدھر عرب میں سلطان زنگی نے صلیبیوں کی مملکت پر حملہ کرکے انہیں صلح پر مجبور کیا اور جزیہ وصول کرلیاتھا۔ اس معرکے میں بہت سے صلیبی سلطان زنگی کی قید میں آئے تھے ۔جن میں رینالٹ نام کا ایک صلیبی سالار بھی تھا۔ سلطان زنگی نے ان قیدیوں کو رہا نہیں کیا تھا، کیونکہ صلیبیوں نے مسلمان جنگی قیدیوں کو شہید کردیاتھا۔ اس کے علاوہ صلیبی عہد شکنی بھی کرتے تھے ۔
سلطان ایوبی کو اطمینان تھا کہ اُدھر سلطان زنگی سلطنتِ اسلامیہ کی پاسبانی کررہاہے ، پھر بھی وہ فوج تیار کررہاتھا تاکہ صلیبیوں سے فلسطین لیاجائے اور عرب کی سر زمین کو کفار سے پاک کیا جائے ۔ اس کے ساتھ ہی وہ مصر کا دفاع مضبوط کرنا چاہتاتھا۔ بیک وقت حملے اور دفاع کے لیے بے شمار فوج کی ضرورت تھی ۔ مصر میں بھرتی کی رفتار سلطان ایوبی کے عزائم کے مطابق سست تھی ۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ سوڈانیوں کی جو فوج توڑ دی گئی تھی ، اس کے کماندار اور عہدے دار دیہات میں سلطان ایوبی کے خلاف پروپیگنڈا کرتے پھر رہے تھے ۔ اس فوج میں سے تھوڑی سی تعداد سلطان کی فوج میں وفاداری کا حلف اُٹھا کر شامل ہوگئی تھی۔ کچھ فوج مصر سے تیار کرلی گئی تھی اور کچھ سلطان زنگی نے بھیج دی تھی ۔
: مصر کے لوگوں نے ابھی یہ فوج نہیں دیکھی تھی، نہ ہی انہوں نے سلطان ایوبی کو دیکھا تھا ۔سلطان ایوبی نے اس میلے کا علان کرکے اپنے فوجی سربراہوں اور اُن کے ماتحت کمان داروں وغیرہ کو ہدایت دی تھی کہ وہ باہر سے آئے ہوئے لوگوں سے ملیں اور پیار و محبت سے ان کا اعتماد حاصل کریں ۔ انہیں باور کرائیں کہ وہ انہی میں سے ہیں اور ہم سب کا مقصد یہ ہے کہ خدا اور رسول ۖ کی سلطنت کو دُور دُور تک پھیلا نا اور ا سے صلیبی فتنے سے پاک کرنا ہے ۔
میلے سے ایک روز پہلے علی بن سفیان ،سلطان کو جاسوسوں کے خطرے سے آگاہ کررہاتھا۔اس نے کہا…… ''امیرِ محترم ! مجھے جاسوسوں کا کوئی ڈر نہیں ، دراصل خطرہ اپنے ان کلمہ گو بھائیوں سے ہے جو کفار کے اس زمین دوز حملے کو کامیاب بناتے ہیں ۔اگر ان کا ایمان مضبوط ہوتو جاسوسوں کا پورا لشکر بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ میلے کے تماشائیوں میں جو ناچنے والی لڑکیا ں نظر آرہی ہیں ۔وہ صلیبیوں کا جال ہیں، تاہم میرا گروہ دِن رات مصروف ہے''۔
''اپنے آدمیوں سے یہ کہہ دو کہ کسی جاسوس کو جان سے نہ ماریں ''……سلطان ایوبی نے کہا…''زندہ پکڑو ۔ جاسوس دشمن کے لیے آنکھ اور کان ہوتاہے ،لیکن ہمارے لیے وہ زبان ہے ۔وہ تمہیں اُن کی خبریں دے گا، جنہوں نے اُسے بھیجاہے ''۔
٭ ٭ ٭
میلے کی صبح طلوع ہوئی ۔ وہ میدان بہت ہی وسیع تھا جس کے تین اطراف تماشائیوں کا ہجوم تھا،جس طرف ریت کے ٹیلے تھے ادھر کسی کو نہیں جانے دیاگیاتھا۔ جنگی دف بجنے لگے ۔گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں اس طرح سنائی دیں ، جیسے سیلابی دریا آرہاہو۔ گرد آسمان کی طرف اُٹھ رہی تھی ۔ یہ دو ہزار سے زیادہ گھوڑے تھے۔ پہلا گھوڑا سوار میدان میں داخل ہوا۔یہ صلاح الدین ایوبی تھا ۔ اس کے دونوں طرف علم بردار تھے اور پیچھے سواروں کا دستہ تھا ۔ گھوڑوں پر پھول دار چادری ڈالی گئی تھیں ۔ہر سوار کے ہاتھ میں برچھی تھی ۔ بر چھی کے چمکتے ہوئے پھل کے ساتھ رنگین کپڑے کی چھوٹی سی جھنڈی تھی۔ ہر سوار کی کمر سے تلوار لٹک رہی تھی ۔ گھوڑے دُلکی چال آرہے تھے ۔ سوار گردنیں تانے اور سینے پھیلائے بیٹھے تھے ۔ اُن کے چہروں پر جلالی تاثر تھا۔ یوں معلوم ہوتاتھاجیسے یہ تماشائیوں کے دم بخو د ہجوم سے ا علیٰ و برتر ہوں ۔اُن کی آن بان دیکھ کر تماشائیوں پر خاموشی طاری ہوگئی تھی ۔ ان پر رعب چھا گیا تھا ۔
تماشائی نیم دائرے میں کھڑئے تھے ۔ ان کے پیچھے تماشائی گھوڑوں پر بیٹھے تھے اور ان کے پیچھے کے تماشائی اونٹوں پر بیٹھے تھے۔ ایک ایک گھوڑے اور ایک ایک اونٹ پر دودو تین تین آدمی بیٹھے تھے ۔ ان کے آگے ایک جگہ شامیانہ لگایا گیا تھا، جس کے نیچے کر سیاں رکھی تھی۔ یہاں اونچی حیثیت والے تماشائی بیٹھے تھے۔ ان میں تاجر بھی تھے ۔ سلطان کی حکومت کے افسر اور شہر کے معززین بھی ۔ان میں قاہرہ کی مسجدوں کے امام بھی بیٹھے تھے۔ انہیں سب سے آگے بٹھایا گیا تھا،کیونکہ سلطان ایوبی مذہبی پیشوائوں اور علماء کا اس قدر احترام کرتاتھا کہ ان کی موجودگی میں ان کی اجازت کے بغیر بیٹھتا نہیں تھا۔ ان میں سلطان کے وہ افسر بھی بیٹھے تھے جو انتظامیہ کے تھے ، لیکن ان کا تعلق فوج سے تھا۔سلطان نے انہیں خاص طور پر کہا تھا کہ ان زعماء میں بیٹھ کر ان کے ساتھ دوستی پیدا کریں ۔ان میں خادم الدین البرق تھا ۔علی بن سفیان کے بعد یہ دوسرا آدمی تھا جو سلطان ایوبی کے خفیہ منصوبوں ، مملکت اور فوج کے ہر راز سے واقف تھا۔ اس کاکام ہی ایسا تھا اور اس کا عہدہ سالار جتنا تھا۔ جنگ کے منصوبے اور نقشے اسی کے پاس ہوتے تھے ۔ اس کی عمر چالیس سال کے قریب تھی۔ وہ عرب کے مردانہ حسن اور جلال کا پیکر تھا۔ جسم توا نا اور چہرہ ہشاش بشاش تھا۔
البرق کے ساتھ ایک لڑکی بیٹھی تھی ۔ بہت ہی خوب صورت لڑکی تھی۔ وہ نوجوان تھی ۔لڑکی کے ساتھ ایک آدمی بیٹھا تھا جس کی عمر ساٹھ سال سے کچھ زیادہ تھی۔ وہ کوئی امیر کبیر لگتاتھا۔البرق کئی بار اس لڑکی کی طرف دیکھ چکاتھا۔ ایک بار لڑکی نے بھی اسے دیکھا تو مسکرادی ۔ پھر اس نے بوڑھے کی طرف دیکھا تو اس کی مُسکراہٹ غائب ہوگئی۔
گھوڑے تماشائیوں کے سامنے سے گزرگئے تو شتر سوار آگئے ۔ اونٹوں کو گھوڑوں کی طرف رنگ دار چادروں سے سجایا گیا تھا۔ ہر سوار کے ہاتھ میں ایک لمبا نیزہ اور اس کے پھل سے ذرانیچے تین تین انچ چوڑے اور ڈیڑ ھ ڈیڑھ فٹ لمبے دورنگے کپڑے جھنڈیوں کی طرف بندھے ہوئے تھے۔ ہوا میں وہ پھڑ پھڑ اتے بہت ہی خوب صورت لگتے تھے ۔ہر سوار کے کندھوں سے ایک کمان آویزاں اور اقونٹ کی زین کے ساتھ رنگین ترکش بندھی تھی۔ اونٹوں کی گردنیں خم کھا کر اوپر کو اُٹھی ہوئیں اور سر جیسے فخر سے اونچے ہوگئے تھے ۔ سواروں کی شان نرالی تھی ۔گھوڑ سواروں کی طرح ہر شتر سوار سامنے دیکھ رہاتھا۔ اُن کی آنگیں بھی دائیں بائیں نہیں دیکھتی تھیں۔ یہ اونٹ انہی اونٹوں جیسے تھے جن پر تماشائی بیٹھے ہوئے تھے، لیکن فوجی ترتیب ،فوجی چال اور فوجی سواروں کے نیچے وہ کسی اور جہان کے لگتے تھے۔
البرق نے اپنے پاس بیٹھی ہوئی لڑکی کو ایک بار پھر دیکھا ۔اب کے لڑکی نے اسے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا ۔اس کی آنکھوں میں ایسا جادو تھاکہ البر ق نے اپنے آپ میں بجلی کا جھٹکا محسوس کیا۔
لڑکی کے ہونٹوں پر شرم و حیا کا تبسم آگیا اور اس نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے بوڑھے کو دیکھا تو اس کا تبسم نفرت میں بدل گیا۔ البرق کی ایک بیوی تھی، جس میں سے اُس کے چار بچے تھے۔ وہ شاید اس بیوی کو بھول گیاتھا۔ وہ لڑکی کے اس قدر قریب بیٹھا تھا کہ لڑکی کا اُٹھا ہوا ریشمی نقاب ہوا سے اُڑ کر کئی بار البرق کے سینے سے لگا۔ ایک بار ا س نے نقاب ہاتھ سے پرے کیا تو لڑکی نے شرما کر معذرت کی ۔البرق مسکرایا ، منہ سے کچھ نہ کہا۔
شتر سواروں کے پیچھے پیادہ فوج آرہی تھی۔ ان میں تیر اندازوں اور تیغ زنوں کے دستے تھے۔اُ ن کی ایک ہی جیس چال ، ایک ہی جیسے ہتھیار اور ایک ہی جیسا لباس تماشائیوں پر وہی تاثر طاری کررہاتھا۔ جو سلطان ایوبی کرنا چاہتا تھا۔ سپاہیوں کے چہروں پر تندرستی اور توانائی کی رونق تھی اور وہ خوش و خرم اور مطمئن نظر آتے تھے ۔یہ ساری فوج نہیں ، صرف منتخب دستے تھے ۔ ان کے پیچھے منجنیقیں آرہی تھیں، جنہیں گھوڑے گھسیٹ رہے تھے ۔ ہر منجنیق دستے کے پیچھے ایک ایک گھوڑ اگاڑی تھی جس میں بڑے بڑے پتھر اور ہانڈیوں کی قسم کے برتن رکھے تھے ۔ ان میں تیل جیسی کوئی چیز بھری ہوئی تھی جو منجنیقوں سے پھینکی جاتی تھی ۔ جہاں یہ برتن گرتاتھا وہ کئی ٹکڑوں میں ٹوٹ کر سیال مادے کو بہت سی جگہ پر بکھیر دیتا تھا۔ اس پر آتشیں تیر چلائے جاتے تو سیال مادہ شعلے بن جاتاتھا ۔
سلطان ایوبی کی قیادت میں یہ سوار اور پیادہ دستے ، نیم دائرے میں کھڑے اور بیٹھے ہوئے تماشائیوں کے آگے سے دُور آگے نکل گئے ۔ صلاح الدین ایوبی راستے میں سے واپس آگیا۔ اُس کے گھوڑے کے آگے علم برداروں کے گھوڑے ، دائیں ، بائیں اور پیچھے محافظو ںکے گھوڑے اور اُن کے پیچھے نائب سالاروں کے گھوڑے تھے۔ سلطان نے گھوڑا روک لیا، کود کر اُترا اور تماشائیوں کو ہاتھ ہوا میں لہرالہرا کر سلام کرتا شامیا نے کے نیچے چلاگیا،وہاں بیٹھے ہوئے تمام لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے ۔سلطان ایوبی نے سب کو سلام کیا اور اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔
سوار اور پیادہ دستے دُور آگے جاکر ٹیلوں کے عقب میں چلے گئے ۔ میدان خالی ہوگیا۔ ایک گھوڑا سوار سرپٹ گھوڑا دوڑ اتا آیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں گھوڑے کی لگام اور دوسرے میں اونٹ کی رسی تھی ۔ اونٹ گھوڑے کی رفتار کے ساتھ دوڑتا آرہاتھا۔میدان کے وسط میں آکر گھوڑسوار گھوڑے پر کھڑا ہوگیا۔ اس نے باگیں چھوڑدیں ۔ وہ اُچھل کر اونٹ کی پیٹھ پر کھڑا ہوگیا، وہاں سے کود کر گھوڑے پر سوار ہوا۔گھوڑے اور اونٹ کی رفتار میں کوئی فرق نہیں آیاتھا۔ گھوڑے کی پیٹھ سے وہ اونٹ کی پیٹھ پر چلا گیااور دُور آگے جاکر غائب ہوگیا۔
خادم الدین البرق دائیں کو ذراساجھکا۔ اُس کے منہ اور لڑکی کے سر کے درمیان دو تین انچ کا فاصلہ رہ گیاتھا۔ لڑکی نے اسے دیکھا ۔البرق مُسکرایا۔ لڑکی شرماگئی ۔بوڑھے نے دونوں کو دیکھا۔ اس کے بوڑھے ماتھے کے شِکن گہرے ہوگئے ۔
اچانک ٹیلوں کے پیچھے سے ہانڈ یوں کی طرح کے مٹی کے وہ برتن جو گھوڑا گاڑیوں پر لدے ہوئے تھے ،اوپر کو جاتے ، آگے آتے اور میدان میں گرتے نظر آئے ۔بر تن ٹوٹتے تھے تو تیل اچھل کر بکھر جاتاتھا۔کم و بیش ایک سو برتن گرے اور اُن سے نکلا ہوا مادہ تقریباٍ ایک سو گز لمبائی اور اسی قدر چوڑائی میں بکھر گیا۔ایک ٹیلے پر چھ تیر انداز نمودار ہوئے ۔انہوں نے جلتے ہوئے فلیتوں والے تیر چلائے جو سیال مادے والی جگہ گڑگئے ۔
: فوراً وہ تمام جگہ ایک ایسا شعلہ بن گئی جو گھوڑے کی پیٹھ تک بلند اور کوئی ایک سو گز تک پھیلا ہواتھا۔ ایک طرف سے چار گھوڑ سوار گھوڑے پوری رفتار سے دوڑتے آئے ۔ شعلے کے قریب آکر وہ رُکے نہیں ۔رفتار کم بھی نہ کی ۔ چاروں شعلے میں چلے گئے ۔ تماشائی دم بخود تھے کہ وہ جل جائیں گے مگر وہ اتنے وسیع شعلے میں دوڑتے نظر آرہے تھے ۔آخر وہ چاروں شعلے میں سے نکل گئے ۔تماشائیوں نے داد و تحسین کا وہ شور بلند کیا کہ آسمان پھٹنے لگا۔ دوسواروں کے کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی ۔ دونوں بھاگتے گھوڑوں سے ریت پر گرے اور تھوڑی دور لڑھکنیاں کھاتے گئے ۔ان کے کپڑوں کی آگ بجھ گئی۔
البرق اس شور و غل اور سواروں کے کمالات سے نظریں پھیرے ہوئے لڑکی کودیکھ رہاتھا۔لڑکی اس کی طرف دیکھتی اور ذراسا مسکراکر بوڑھے کو دیکھنے لگتی تھی۔ بوڑھا اُٹھ کر جانے کیوں چلاگیا۔ لڑکی اسے جاتا دیکھتی رہی ۔البر ق کو معلوم تھاکہ لڑکی بوڑھے کے ساتھ آئی ہے ۔ اس نے لڑکی سے پوچھا۔
''تمہارے والد صاحب کہاں چلے گئے ہیں؟''
''یہ میرا باپ نہیں ''……لڑکی نے جواب دیا……''میرا خاوند ہے ''۔
''خاوند؟''……البرق نے حیرت سے پوچھا……''کیا یہ شادی تمہارے والدین نے کرائی ہے ؟''
''اس نے مجھے خریداہے ''……لڑکی نے اُداس لہجے میں کہا۔
''وہ کہاں گیاہے ؟''……البرق نے پوچھا۔
''ناراض ہوکر چلاگیاہے ''…لڑکی نے جواب دیا…''اسے شک ہوگیاہے کہ میں آپ کو دلچسپی سے دیکھتی ہوں ''
''کیا تم واقعی مجھے دلچسپی سے دیکھتی ہو؟''……البر ق نے رومانی انداز سے پوچھا۔
لڑکی کے ہونٹوں پر شرمیلی سی مُسکراہٹ آگئی ۔دھیمی سی آواز میں بولی ۔ ''میں اس بوڑھے سے تنگ آگئی ہوں۔اگر کسی نے مجھے اس سے نجات نہ دلائی تو میں خود کشی کرلوں گی''۔
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں