داستان ایمان فروشوں کی
تیسرا حصہ : دوسری بیوی
قسط نمبر # 18
میدان میں سوار اور پیادہ فوجی حیران کن کرتب دکھارہے تھے اور حرب و ضرب کے مظاہرے کرہے تھے ۔ تماشائیوں نے جنگی مظاہرے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ انہوں نے صرف سوڈانی فوج دیکھی تھی جو خزانے کے لیے سفید ہاتھی بنی ہوئی تھی ۔ اس کے کمان دار بادشاہوں کی طرف باہر نکلتے تھے ۔ ان کے ساتھ اگر فوج کا دستہ ہوتو وہ دیہات کے لیے مصیبت بن جاتے تھے۔ مویشی تک کھول کر لے جاتے تھے ۔ کسی کے پاس اچھی نسل کا اونٹ ، گھوڑا دیکھتے تو زبردستی لے جاتے تھے۔ لوگوں کے دِل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ فوج رعایا پر ظلم و تشدد کرنے کے لیے رکھی جاتی ہے ،لیکن سلطان کی فوج بہت مختلف تھی ۔ایک تو وہ دستے تھے جو مظاہرے میں شریک تھے ۔باقی فوج کو سلطان کی ہدایات کے مطابق تماشائیوں میں پھیلادیاگیا تاکہ وہ لوگوں کے ساتھ گھل مل کر ان پر یہ تاثر پیدا کریں کہ فوجی ان کے بھائی ہیں اور انہی میں سے ہیں ۔بد تمیزی یا بد اخلاقی کرنے والے فوجی کے لیے بڑی سخت سزا مقرر کی گئی تھی۔
خادم الدین البرق جو سلطان ایوبی کی جنگی مشاورتی محکمے کا سربراہ اور راز داں تھا، سلطان کی ہدایات اور میلے کے شور و غل سے بالکل ہی لاتعلق ہوگیاتھا۔ لڑی ایک جادو بن کر اس کی عقل پر غالب آگئی تھی ۔اس نے لڑکی میں دلچسپی کا ظہار کیا، اسے لڑکی نے قبول کرلیاتھا۔ اس سے دونوں کے لیے سہولت پیدا ہوگئی ۔ البرق نے کہیںملنے کو کہا تو لڑکی نے جواب دیا کہ وہ خریدی ہوئی لونڈی ہے اور بوڑھے نے اسے قید میں رکھا ہواہے ۔وہ اس پر ہر وقت نظر رکھتا ہے ۔لڑکی نے یہ بھی بتایا کہ بوڑھے کے گھر چار بیویاں ہیں … البرق نے اپنے رُتبے کو فراموش کردیا۔ عشق باز نوجوان کی طرح اُس نے ملاقات کی وہ جگہیں بتانی شروع کردیں جہاں آوارہ آدمیوں کے سوا کوئی نہیں جاتا تھا۔ ان جگہوں میں ایک جگہ لڑکی کو پسند آگئی۔ یہ شہر سے باہر قدیم زمانے کاکوئی کھنڈر تھا۔ البرق نے لڑکی سے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ اسے بوڑھے سے آزاد کرانے کی کوشش کرے گی..
تیسری رات البرق گھر سے نکلا وہ حاکموں کی شان سے گھر سے نکلاکرتاتھا،مگراس رات وہ چوروں کی طرح باہر نکلا۔ اِدھر اُدھر دیکھا اور ایک طرف چل پڑا ۔ قاہرہ پر سکوت طاری تھا۔ فوجی میلہ ختم ہوئے دو دِن گزرگئے تھے ۔ باہر سے آئے ہوئے تماشائی جاچکے تھے۔ سرکاری حکم کے تحت عارضی قحبہ خانے اٹھا دئیے گئے تھے۔ علی بن سفیان کا محکمہ اب یہ سراغ لگاتا پھر رہاتھا کہ باہر سے آئی ہوئی کتنی لڑکیا ں اور کتنے مشکوک لوگ شہر یا مضافاتی دیہات میں رہ گئے ہیں ۔میلے کا مقصد پورا ہوگیا تھا۔ دوہی دنوں میں چار ہزار جوان فوج میں بھرتی ہوگئے تھے اور مزید بھرتی کی توقع تھی۔
البرق شہر سے نکل گیا اور اس نے اُس کھنڈر کا رُخ کیا جہاں لڑکی کو آناتھا۔ صحرائی گیدڑوں کے سوا زمین و آسمان گہری نیند سوگئے تھے ۔ لڑکی نے البرق سے کہاتھا کہ وہ بوڑھے کی قیدی ہے اورو ہ اُس پر ہر وقت نظررکھتا ہے ، پھر بھی البرق اس اُمید پر جارہاتھا کہ لڑکی ضرور آئے گی ۔ممکنہ خطروں سے نمٹنے کے لیے اس کے پاس ایک خنجر تھا۔ عورت ایسا جادو ہے کہ جس پر طاری ہوجائے وہ کسی کی پرواہ ہیں کیا کرتا ۔عقل و دانش اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔ البرق پختہ عمر کا آدمی تھا مگر وہ نادان نوجوان بن گیا تھا،اسے اندھیرے میں کھنڈر کے قریب ایک تاریک سایہ، سر سے پائوں تک لبادے میں لپٹا ہوا نظر آیا اور کھنڈر کے کھڑے سیاہ بھوت میں جذب ہوگیا تو وہ تیز تیز چلتا کھنڈر میں پہنچا گری ہوئی دیوار کے شگاف سے وہ اندر آگیا۔ آگے اندھیرہ کمرہ تھا۔ چھت میں بڑی زور سے کوئی بہت بڑا پرندہ پھڑ پھڑا یا۔ البرق نے ہوا کے تیز جھونکے محسوس کیے اور اچانک اس کے منہ پر تھپڑ پڑا اس کے ساتھ ہی اسے ''چی چی''کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ وہ جان گیا کہ یہ بڑے چمگادڑ ہیں جن کے پنجے اس کا منہ نوچ ڈالیں گے۔ وہ بیٹھ گیا اور پائوں پر سر کتا کمرے سے نل گیا ۔ کمرہ اڑتے چمگادڑوں سے بھر گیا تھا۔ آگے صحن تھا، جس کے ارد گرد گول برآمدہ تھا۔ البرق نے یہ بھی نہ سوچا کہ ایک خریدی ہوئی قیدی لڑکی جس پر ہر وقت نظر رکھی جاتی ہے،اس ہیبت ناک کھنڈر میں کیسے آئے گی، مگر برآمدے میں اس کے قدموں کی دبی دبی آہٹ نے اسے بتادیاکہ یہاں کوئی موجود ہے ۔اس نے کمر سے خنجر نکال کر ہاتھ میں لے لیا۔ اس کے سر پر چمگادڑ اُڑ رہے تھے، پھڑ پھڑانے کی آوازیں ڈرائونی تھیں ۔ البرق نے آہستہ سے پکارا……''آصفہ!''…… لڑکی نے اُسے اپنانام بتادیا تھا اور میلے میں یہ بھی بتادیاتھا کہ وہ کس طرح فروخت ہوئی ہے ۔
''آپ آگئے ؟''……اسے آصفہ کی آواز سنائی دی۔ وہ برآمدے میں سے دوڑتی آئی اور البرق کے ساتھ چپک گئی ۔کہنے لگی…… ''آپ کی خاطر جان کو خطرے میں ڈال کر آئی ہوں ۔مجھے جلدی واپس جانا ہے ۔بوڑھے کو شراب میں نیند کا سفوف پلاآئی ہوں ۔وہ جاگ نہ اُٹھے ''۔
''کیا تم اُسے شراب میں زہر نہیں پلاسکتی ؟''……البرق نے پوچھا۔
''میں نے کبھی قتل نہیں کیا''…… آصفہ نے کہا……''میں نے تو کبھی یہ بھی نہیں سوچاتھا کہ اس طرح کسی غیر مرد سے ملنے اس ڈرائونے کھنڈر میں آئوں گی۔''
البرق نے اسے بازوئوں میں جکڑ لیا…اچانک ان کے پیچھے برآمدہ روشن ہوگیا، جس کمرے میں سے البرق گزر کر آیاتھا، اس میں سے دومشعلیں نکلیں ۔یہ لکڑیوں کے سروں پر تیل بھیگے ہوئے کپڑے لپیٹ کر بنائی گئی تھیں۔ اُن کے شعلے خاصے بڑے تھے۔ البرق نے آصفہ کو اپنے پیچھے کرلیا۔ اس کے ہاتھ میں خنجر تھا۔ کیا یہ کھنڈر میں رہنے والی بدروحیں تھیں ؟یا لڑکی کے تعاقب میں اس کا خاوند آگیاتھا؟… البرق ابھی سوچ ہی رہاتھا کہ ایک آواز گرجی …''دونوں کو قتل کردو''۔
مشعلیں قریب آئیں تو اُن کے ناچتے شعلوں میں البرق اور آصفہ کو چار آدمی نظر آئے ۔ایک کے ہاتھ میں برچھی اور تین کے پاس تلواریں تھیں ۔ انہوں نے مشعلیں زمین میں گاڑ دیں۔ کھنڈر کا صحن روشن ہوگیا۔ چاروں آدمی البرق کے گرد بھوکے بھیڑیوں کی طرح آہستہ آہستہ چکر میں چلنے لگے۔ آصفہ اس کے پیچھے تھی۔ برآمدے میں سے ایک اور آواز آئی…… ''مل گئے ؟زندہ نہ چھوڑنا''……یہ لڑکی کے بوڑھے خاوند کی آواز تھی۔
آصفہ البرق کے عقب سے آگے آگئی ۔ اس نے حقارت اور غصے بوڑھے سے کہا……''آگے آئو اور مجھے قتل کردو۔ میں تم پر لعنت بھیجتی ہون ۔میں اپنی مرضی سے یہاں آئی ہوں ''
چاروں مسلح آدمی اِن کے گرد کھڑے تھے ۔برچھی والے نے برچھی آہستہ آہستہ آصفہ کی طرف کی اور اس کی نوک اس کے پہلو لگا کر کہا……''مرنے سے پہلے برچھی کی نوک دیکھ لو،لیکن تم سے پہلے یہ شخص تڑپ تڑپ کر تمہارے سامنے مرے گا، جس کی خاطر تم یہاں آئی ہو''۔
آصفہ نے جھپٹا مار کر برچھی پکڑلی اور جھٹکادے کر برچھی چھین لی۔ آصفہ البرق سے الگ ہوگئی اور للکار کر کہا……''آئو، آگے آئو۔ میں دیکھتی ہوں کہ تم مجھ سے پہلے اس آدمی کو کس طرح قتل کرتے ہو''۔
البرق خنجر آگے کیے اس کے سامنے آگیا۔ لڑکی نے برچھی سے اس پروار کیا جس سے اس نے برچھی چھینی تھی۔وہ آدمی پیچھے کو بھاگا۔ اس کے ساتھیوں نے البرق پر حملہ کرنے کی بجائے صرف پینترے بدلے ۔وہ البرق کو آسانی سے قتل کر سکتے تھے، مگر وہ بڑھ کر حملہ نہیں کررہے تھے ۔آصفہ کی للکار گرج رہی تھی ۔ وہ بڑھ کروار کرتی تھی ، مگر وار خالی جاتاتھا۔ البرق نے ایک آدمی پر خنجر سے حملہ کیا تو دو آدمی اس کے پیچھے آئے ۔آصفہ ایک ہی جست میں اس کے پیچھے ہوگئی ۔اُس کے ہاتھ میں لمبی برچھی تھی جو تلوار کا مقابلہ کر سکتی تھی ۔ خنجر تلوار کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔ بوڑھا ایک طرف کھڑا اپنے آدمیوں کو للکاررہاتھا۔ تھوڑی سی دیر انہوں نے البر ق اور آصفہ پر حملے کیے۔ آصفہ اُن پر ٹوٹ پڑتی تھی ۔ البرق وار بچاتا تھا اور خنجر سے وار کرنے کی کوشش کرتاتھا، مگر عجیب امر یہ تھا کہ لڑکی کے حملوں کے باوجود کوئی زخمی نہیں ہوا۔ بوڑھے کے آدمیوں نے بھی تیغ زنی کے جوہر دکھائے ، مگر البرق اور آصفہ کو خراش تک نہ آئی ۔ اتنے میں بوڑھ نے کہا ''رُک جائو''……اور لڑائی بند ہوگئی ۔ ''میں ایسی بے وفا لڑکی کو گھر میں نہیں رکھنا چاہتا''……بوڑھے نے کہا……''مجھے معلوم نہیں تھاکہ یہ اتنی دلیر اور بہادر ہے، اگر اسے میں زبردستی لے بھی گیا تو یہ مجھے قتل کردے گی''۔
''میں تمہیں اس کی پوری قیمت دوں گا''……البرق نے کہا……''کہو، تم نے اسے کتنے میں خریدا تھا''۔
بوڑھا ہاتھ بڑھا کر آگے بڑھا اور البرق سے ہاتھ ملا کر بولا……''میرے پاس دولت کی کمی نہیں ۔ میں یہ لڑکی تمہیں بخش دیتا ہوں ۔اسے تمہارے ساتھ اتنی محبت ہے کہ تمہاری خاطر اتنے سارے آدمیون کے مقابلے میں آگئی ہے ۔ میں اسے اس لیے بھی تمہارے حوالے کرتاہوں کہ یہ جنگجو نسل کی لڑکی ہے ۔ میں تاجر اور سودا گرہوں ۔یہ کسی تم جیسے جنگجو کے گھر میں اچھی لگے گی ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ تم سلطان صلاح الدین ایوبی کی حکومت کے حاکم ہو۔ میں سلطان کا وفادار اور مرید ہوں ۔ میں تمہیں ناراض نہیں کرناچاہتا، جائو۔ میں نے اسے طلاق دی اور اسے تم پر حلال کردیا……چلو، دوستو! انہیں اکیلا چھوڑ دو''……وہ مشعلیں اُٹھا کر چلے گئے ۔
البرق کی حیرت کی انتہا یہ تھی کہ اس کے پائوں تلے زمین ہلنے لگی ۔اسے یقین نہیں آرہاتھا ۔وہ اسے بوڑھے کا فریب سمجھ رہاتھا۔ اسے یہ خطرہ نظر آرہاتھا کہ یہ لوگ راستے میں گھات لگاکر ان دونوں کو قتل کریں گے ۔ آصفہ کے ہاتھ میں برچھی تھی ، وہ البرق نے لے لی اور کچھ دیر بعدکھنڈر سے نکلے ۔ وہ دائیں بائیں اور پیچھے دیکھتے تیز تیز چلنے لگے۔ذراسی آہٹ سنائی دیتی تو وہ چونک کر رُک جاتے ۔ ہر طرف اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کرتے اور آہستہ آہستہ چل پڑتے ۔ شہر میں داخل ہوئے تو ان کی جان میں جان آئی ۔ آصفہ نے رک کر بازو البرق کے گلے میں ڈال دئیے اور پوچھا۔''آپ کو مجھ پر اعتماد ہے یا نہیں ؟……البرق نے اسے سینے سے لگالیا۔ اس پر جذبات کا اتنا غلبہ تھا کہ کچھ بول نہ سکا۔ لڑکی نے اسے بے دام خرید لیاتھا۔اسے یہ تو اب پتہ چلا تھا کہ لڑکی اسے کیسی دیوانگی سے چاہتی ہے اور کتنی بہادر ہے ۔دراصل وہ لڑکی کے حسن پر مر مٹا تھا۔اُس کی بیوی اس کی ہم عمر تھی ۔آصفہ کو دیکھ کر اس نے محسوس کیا کہ وہ بیوی اس کے کام کی نہیں رہی ۔
اُس دور میں جب عورت فروخت ہوتی تھی ، گھر میں بیوی کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔ بیک وقت چار بیویاں تو خاوند اپنا حق سمجھتا تھا، لیکن جو پیسے والے تھے ، وہ دو دو چار خوب صورت لڑکیا ں بغیر نکاح کے رکھ لیتے تھے ۔ مسلمان اُمراء کو عورت نے ہی تباہ کیاتھا۔ ان کے ہاںیہ بھی رواج تھا کہ ایک آدمی کی بیویاں خاوند کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ڈھونڈ ڈھونڈ کر خوب صورت لڑکیاں خاوند کو بطور تحفہ پیش کرتی تھیں ۔
البرقی جب آصفہ کو ساتھ لیے گھر میں داخل ہواتو سب سوئے ہوئے تھے ۔صبح اس کی بیوی نے اپنے خاوند کے پلنگ پر اتنی حسین لڑکی دیکھی تو اسے ذرہ بھر محسوس نہ ہوا کہ اس کا سہاگ اُجڑ گیاہے ،بلکہ وہ خوش ہوئی کہ اس کے اتنے اچھے خاوند کو اتنی خوب صورت لڑکی مل گئی ہے ۔ اسکے آجانے سے وہ کچھ فرائض سے سبکدوش ہوئی تھی ۔البرق کی حیثیت ایسی تھی کہ وہ ایسی ایک اور بیوی یا داشتہ رکھ سکتا تھا۔
صلاح الدین ایوبی مسلمانوں کو عورت سے اور عورت کو مسلمانوں سے آزاد کرناچاہتا تھا۔ وہ ایک خاوند ایک بیوی کا حکم نافذ کرنا چاہتاتھا ، مگر ابھی وہ ہر اُس امیر اور وزیر کو دشمن بنانے سے ڈرتاتھا جس نے کئی کئی لڑکیوں کوگھروں میں رکھاہوا تھا۔عورت کے خریدار یہی لوگ تھے۔ انہی کی دولت سے عورت کھلی منڈی میں نیلام ہوتی تھی ۔اغوا کی وارداتیں ہوتی تھیں ۔قتل اور خون خرابے ہوتے تھے اور اُمراء اور حاکموں کی زن پرستی کا ہی نتیجہ تھا کہ عیسائیوںاور یہودیوں نے لڑکیون کی وساطت سے سلطنتِ اسلامیہ کی جڑوں میں زہر بھردیاتھا۔ اس کے علاوہ سلطان ایوبی کو یہ احساس بھی پریشان کیے رکھتا تھا کہ یہی عورت مردوں کے دوش بدوش کفار کے خلاف لڑاکرتی تھی ، مگر اب یہ عورت جہاد میں مرد کے لیے آدھی قوت تھی ، مرد کی تفریح اور عیاشی کا ذریعہ بن گئی ہے ۔ اس سے صرف یہ نہیں ہوا کہ قوم کی آدھی جنگی قوت ختم ہوگئی ہے ، بلکہ عورت ایک ایسا نشہ بن گئی ہے جس نے قوم کی مرادنگی کو بیکار کردیاہے ۔
سلطان ایوبی عورت کی عظمت بحال کرنا چاہتا تھا ۔اُس نے ایک منصوبہ تیار کررکھا تھا جس کے تحت وہ غیر شادی شدہ لڑکیوں کو باقاعدہ فوج میں بھرتی کرنا چاہتا تھا۔ اسی کے تحت حرم بھی خالی کرنے تھے ، مگر ایسے احکام وہ اسی صورت میں نافذ کرسکتاتھا کہ سلطنت کی خلافت یا امارت اس کے ہاتھ آجائے ۔ یہ مہم بڑی دشوار تھی ۔ اس کے دشمنوں میں اپنو ں کی تعداد زیادہ تھی اور وہ جانتا تھا کہ قوم میں ایمان فروشوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔ اسے یہ معلوم نہیں ہواتھا کہ اس کا ایک معتمد خاص اور حکومت کے رازو ں کا رکھوالا ،خادم الدین البرق بھی ایک نوجوان حسینہ کو گھر لے آیاہے اور یہ لڑکی اس کے اعصاب پر ایسی بُری طرح چھا گئی ہے کہ وہ اب فرائض سلطنت سے بے پرواہوسکتاہے ۔
فوجی میلے میں مصر کے لوگ سلطان ایوبی کی فوجی طاقت سے مرعوت نہیں ہوئے ،بلکہ اسے اسلامی اور مصری فوج سمجھ کر اس سے متاثر ہوئے تھے ۔سلطان ایوبی تقریر یں کرنے والا حاکم نہیں تھا، لیکن اس دن اتنے بڑے اجتماع سے اس نے خطاب کرنا ضروری سمجھا۔ اس نے کہا کہ یہ فوج قوم کی عصمت کی محافظ اور اسلام کی پاسبان ہے ۔ اس نے صلیبیوں کے عزائم تفصیل سے بیان کیے اور مصریوں کو بتایا کہ عرب میں مسلمان اُمراء اور حاکمون کی تعیش پرستی کی وجہ سے صلیبیوں نے وہاں مسلمان کا جینا حرام کررکھا ہے ۔ وہ قافلوں کو لوٹ لیتے ہیں ، مسلمان لڑکیون کو اغوا کرکے بے آبرو کرتے ،پھر انہیں بیچ ڈالتے ہیں ……سلطان ایوبی نے لوگوں کو قومی جذبے سے آگاہ کرکے انہیں کہا کہ وہ فوج میں بھرتی ہوکر اپنی بیٹیوں کی عصمت اور اسلام کی عظمت کی پاسبانی کریں۔ سلطان کی تقریر میں جوش تھا اور ایسا تاثر کہ تماشائیوں کے دلوں میں ہلچل مچ گئی اور اسی روز جوان آدمی فوج میں بھرتی ہونے لگے۔
دس روز تک بھرتی ہونے والوں کی تعداد چھ ہزار ہوگئی ۔اس میں کم و بیش ڈیڑھ ہزار جوان اپنے اونٹ ساتھ لائے اور ایک ہزار کے قریب گھوڑوں اور خچروں سمیت آئے ۔ سلطان نے انہیں جانوروں کا معاوضہ فوری طور پر اداکردیا اور فوج نے ان کی ٹریننگ شروع کردی ۔
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں