قسط نمبر 16
ــــــــــــــــــــ
یہ تو کوئی بھی نہیں بتا سکتا کہ بند کمرے میں میگنا نا ماریوس ، موبی اور ان کے ساتھی نے کیاکیا باتیں کیں اور کیا منصوبہ بنایا ۔ البتہ ایسا ثبوت پرانی تحریروں میں ملتا ہے کہ تین چار روزسرائے میں قیام کے بعد میگنا نا ماریوس باہر نکلا ، تو اس داڑھی دُھلی دھلائی تھی ۔ اس کے چہرے کا رنگ سوڈانیوں کی طرح گہرا بادامی تھا ، جو مصنوعی ہو سکتا تھا ، لیکن مصنوعی لگتا نہیں تھا ۔ اس نے معمولی قسم کا چغہ اور سر پر معمولی قسم کا رومال اورعمامہ باند ھ رکھا تھا ۔ موبی سر سے پائوں تک سیاہ برقعہ نما لبادے میں تھی اور اس کے چہرے پر باریک نقاب اس طرح پڑا تھا کہ ہونٹ اور ٹھوڑی ڈھکی ہوئی تھی خ پیشانی تک چہرہ ننگا تھا۔ پیشانی پر اس کے بھورے ریشمی بال پڑے ہوئے تھے اور اس کا حسن ایسا نکھرا ہوا تھاکہ راہ جاتے لوگ رُک کر دیکھتے تھے۔ ان کا ساتھی معمولی سے لباس میں تھا ، جس سے پتہ چلتا تھا کہ نوکر ہے۔ سرائے کے باہر دو نہایت اعلیٰ نسل کے گھوڑے کھڑے تھے ۔ یہ سرائے والوں نے میگنا نا ماریوس کے لیے اُجرت پر منگوائے تھے ، کیونکہ اُس نے کہا تھا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ سیر کے لیے جانا چاہتا ہے ۔ میگنا نا ماریوساور موبی گھوڑوں پر سوار ہوگئے اور جب گھوڑے چلے تو ان کاساتھی نوکروں کی طرح پیچھے پیچھے چل پڑا ۔
صلاح الدین ایوبی اپنے نائبین کو سامنے بٹھائے سوڈانیوں کے متعلق احکامات دے رہا تھا ۔ وہ یہ کام بہت جلدی ختم کرنا چاہتا تھا ،کیو نکہ اُس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ سلطان زنگی کی بھیجی ہوئی فوج، مصر کی نئی فوج اور وفادار سوڈانیوں کو ساتھ ملا کر ایک فوج بنائے گا اور فوری طور پر یروشلم پر چڑھائی کرے گا ۔ بحیرئہ روم کی شکست کے بعد ، جبکہ سلطان زنگی نے فرینکوں کو بھی شکست دے دی تھی ، ایک لمبے عرصے تک صلیبیوں کے سنبھلنے کا کوئی امکان نہیں تھا ۔ ان کے سنبھلنے سے پہلے ہی سلطان ایوبی ان سے یروشلم چھین لینے کا منصوبہ بنا چکا تھا ۔ اس سے پہلے وہ سوڈانیوں کو زمینوں پر آباد کر دینا چاہتا تھا ، تا کہ کھیتی باڑی میں اُلجھ جائیں اور ان کی بغاوت کا امکان نہ رہے ۔
نئی فوج کی تنظیمِ نو اور ہزار سوڈانیوں کو زمینوں پر آباد کرنے کا کام آسان نہیں تھا ۔ ان دونوں کاموں میں خطرہ یہ تھا کہ سلطان ایوبی کی فوج اوراپنی انتظامیہ میں ایسے اعلیٰ افسر موجود تھے جو اُسے مصر کی امارت کے سرابراہ کی حیثیت سے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ سوڈانیوں کی فوج کو توڑ کربھی سلطان ایوبی نے اپنے خلاف خطرہ پیدا کر لیا تھا ۔ اس فوج کے چندایک اعلیٰ حکام زندہ تھے ۔ انہوں نے سلطان ایوبی کی اطاعت قبول کر لی تھی ، مگر علی بن سفیان کی انٹیلی جنس بتا رہی تھی کہ بغاوت کی راکھ میں ابھی کچھ چنگاریاں موجود ہیں ۔
انٹیلی جنس کی رپورٹ یہ بھی تھی کہ ان باغی سربراہوں کی اپنی شکست کا اتنا افسوس نہیں ، جتنا صلیبیوں کی شکست کا غم ہے ، کیونکہ وہ بغاوت دب جانے کی بعد بھی صلیبیوں سے مدد لینا چاہتے تھے اور مصرکی انتظامیہ اور فوج کے دو تین اعلیٰ حکام کو سوڈانیوں کی شکست کا افسوس تھا ، کیونکہ وہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ صلاح الدین ایوبی مارا جائے گا ییا بھاگ جائے گا ۔ یہ ایمان فروشوں کا ٹولہ تھا ، لیکن سلطان ایوبی کاایمان مضبوط تھا ۔ اس نے مخالفین سے واقف ہوتے ہوئے بھی اُن کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی ۔ اُن کے ساتھ نرمی اورخلوص سے پیش آتا رہا۔ کسی محفل میں اُس نے ان کے خلاف کوئی بات نہ کی اورجب کبھی اس نے ماتحتوں سے اور فوج سے خطاب کیا توایسے الفاظ کبھی نہ کہے کہ میں اپنے مخالفین کو مزہ چکھادوں گا۔ کبھی دھمکی آمیز یا طنزیہ الفاظ استعمال نہیں کیے ۔ البتہ ایسے الفاظ اکثر اس کے منہ سے نکلتے تھے ……'' اگر کسی ساتھی کو ایمان بیچتا دیکھو تو اُسے روکو ۔ اسے یاد دلائو کہ وہ مسلمان ہے اور اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کرو تاکہ وہ دشمن کے اثر سے آزاد ہوجائے '' …… لیکن در پردہ مخالفین کی سر گرمیوں سے باخبر رہتا تھا ۔ علی بن سفیان کا محکمہ بہت ہی زیادہ مصروف ہوگیا تھا ۔ سلطان ایوبی کو زیرِ زمین سیاست کی اطلاعیں باقاعدگی سے دی جارہی تھیں ۔
اب اس محکمے کی ذمہ داری اور زیادہ بڑھ گئی تھی۔ محافظوں اور شتربانوں کے قتل کی اطلاع بھی قاہرہ آچکی تھی ۔ اس سے پہلے جاسوسوں کا گروہ جس میں لڑکیاں بھی تھیں ۔ محافظوں سے نا معلوم افراد نے آزاد کرالیا تھا ۔ ان دو واقعات نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ ملک میں صلیبی جاسوس اور چھاپہ مار موجود ہیں اور یہ بھی ظاہر ہوتا تھا کہ انہیں یہاں کے باشندوں کی پشت پناہی اور پناہ حاصل ہے ۔ ابھی یہ اطلاع نہیں پہنچی تھی کہ چھاپہ مار وں اور لڑکیوں کو عین اس وقت ختم کر دیا گیا ہے ، جب وہ کشتی میں سوار ہو رہے تھے ۔ چھاپہ ماروں کی سرگرمیوں کوروکنے کے لیے فوج کے دو دستے سارے علاقے میں گشت کے لیے گزشتہ شام روانہ کر دئیے گئے اور انٹیلی جنس کے نظام کو اور زیادہ وسیع کر دیاگیاتھا ۔
صلاح الدین ایوبی قدرے پریشان بھی تھا ۔ وہ کیا عزم لے کر مصر میں آیاتھا اور اب سلطنت اسلامیہ کے استحکام اور وسعت کے لیے اس نے کیا کیا منصوبے بنائے تھے ، مگر اُس کے خلاف زمین کے اوپرسے بھی اور زمین کے نیچے سے بھی ایسا طوفان اُٹھا تھا کہ اسکے منصوبے لرزنے لگے تھے ۔ اُسے پریشانی یہ تھی کہ مسلمان کی تلوار مسلمان کی گردن پر لٹک رہی تھی ۔ ایمان کا نیلام ہونے لگا تھا ۔سلطنت اسلامیہ کی خلافت بھی سازشوں کے جال میں اُلجھ کر سازشوں کا حصہ اور آلئہ کار بن گئی تھی ۔ زن اور زر نے عرب سر زمین کو ہلاڈالاتھا ۔ سلطان ایوبی اس سے بھی بے خبر نہیں تھا کہ اسے قتل کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں ، لیکن اس پر وہ کبھی پریشان نہیں ہواتھا ۔ کہا کرتا تھا کہ میری جان اللہ کے ہاتھ میںہے ۔ اس کی ذاتِ باری کوجب زمین پرمیرا وجود بیکار لگے گاتو مجھے اُٹھالے گا۔لہٰذا اس نے اپنے طور پر اپنی حفاظت کا کبھی فکر نہیں کیاتھا۔ یہ تو اُس کی فوجی انتظامیہ کا بندو بست تھا کہ کہ اسکے گرد محافظوں کے دستے اور انٹیلی جنس کے آدمی موجود رہتے تھے اور علی بن سفیان تو اس معاملے میں بہت چوکس تھا ۔ایک تو یہ اُس کی ڈیوٹی تھی ، دوسرے یہ کہ وہ سلطان ایوبی کو اپنا پیرو مُرشد ضرور سمجھتا تھا ۔
اس روز سلطان ایوبی نائبین کو احکامات اور ہدایات دے رہا تھا ، جب دو گھوڑے اس کے محافظ دستے کی بنائی ہوئی حد پررُکے۔ انہیں محافظوں کے کمانڈر نے روک لیا تھا۔ سوار میگناناماریوس اور موبی تھے ۔وہ گھوڑے سے اُترے تو گھوڑوں کی باگیں ان کے ساتھی نے تھام لیں ۔ موبی نے کمانڈر سے کہا کہ وہ اپنے باپ کو ساتھ لائی ہے۔ سلطان ایوبی سے ملنا ہے ۔ کمانڈر نے میگناناماریوس سے بات کی اور ملاقات کی وجہ پوچھی ۔ میگناناماریوس نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہ ہو۔ وہ یہ زبان نہیں سمجھتا ہی تھا۔ موبی نے اپنا نام اسلامی بتایا تھا ۔ ان نے کمانڈر سے کہا …… '' اس سے بات کرنا بے کار ہے، یہ گونگا اور بہرہ ہے …… ملاقات کا مقصد ہم سلطان ایوبی کو یااس کے کسی بڑے افسر کو بتائیں گے ''۔
علی بن سفیان باہر ٹہل رہاتھا ۔ اس نے میگناناماریوس اورموبی کو دیکھا تو ان کے پاس آگیا۔ اس نے اسلام و علیکم کہا تو موبی نے وعلیکم السلام کہا۔ کمانڈر نے اسے بتایا کہ یہ سلطان سے ملنا چاہتے ہیں ۔ علی بن سفیان نے میگناناماریوس سے ملاقات کی وجہ پوچھی تو موبی نے اسے بتایا کہ یہ میرا باپ ہے ، گونگا اور بہرہ ہے۔ علی بن سفیان نے انہیں بتایاکہ سلطان ابھی بہت مصروف ہیں ، فارغ ہو جائیں گے تو اُن سے ملاقات کا وقت لیا جائے گا ۔ اس نے کہا ……'' آپ ملاقات کا مقصد بتائیں ۔ہو سکتا ہے کہ آپ کا کا م سلطان سے ملے بغیر ہو جائے ۔ سلطان چھوٹی چھوٹی شکایتوں کے لیے ملاقات کاوقت نہیں نکال سکتے۔ متعلقہ محکمہ از خود ہی شکایت رفعہ کر دیتا ہے ''۔
'' کیا سلطان ایوبی اسلام کی ایک مظلوم بیٹی کی فریاد سننے کے لیے وقت نہیں نکا ل سکیں گے ؟''…… موبی نے کہا ……''مجھے جو کچھ کہنا ہے ، وہ میںانہی سے کہوں گی ''۔
'' مجھے بتائے بغیر آپ سلطان سے نہیں مل سکیں گی ''…… علی بن سفیان نے کہا ۔'' میں سلطان تک آپ کی فریاد پہنچائوں گا ۔ وہ ضروری سمجھیں گے تو آپ کو اندر بلا لیں گے'' …… علی بنی سفیان انہیں اپنے کمرے میں لے گیا ۔
موبی نے شمالی علاقے کے کسی قصبے کا نام لے کرکہا ……''دو سال گزرے سوڈانی فوج وہاں سے گزری ۔ میں بھی لڑکیوں کے ساتھ فوج دیکھنے کے لیے باہر آگئی ۔ ایک کماندار نے اپنا گھوڑا موڑا اورمیرے پاس آکر میرا نام پوچھا ۔ میں نے بتایا تو اس نے میرے باپ کو بلایا ۔ اسے پرے لے جا کر کوئی بات کی ، کسی نے کماندار سے کہا کہ یہ گونگا اور بہرہ ہے ۔ کماندار چلا گیا ۔ شام کے بعد چار سوڈانی فوجی ہمارے گھر آئے اور مجھے زبردستی اُٹھا کر لے گئے اور کماندار کے حوالے کردیا ۔اس کا نام بالیان تھا ۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے آیا او ر حرم میں رکھ لیا ۔ اُس کے پاس چار اور لڑکیاں تھیں۔میں نے اسے کہاکہ میرے ساتھ باقاعدہ شادی کرلے، لیکن اس نے مجھے شادی کے بغیر ہی بیوی بنائے رکھا ۔ دوسال اس نے مجھے اپنے پاس رکھا ۔ سوڈانی فوج نے بغاوت کی تو بالیان چلا گیا ۔ معلوم نہیں مارا گیا ہے یا قید میں ہے ۔ آپ کی فوج اس کے گھر میں آئی اور ہم سب لڑکیوں کو یہ کہہ کر گھر سے نکال دیا تم سب آزاد ہو ……
میں اپنے گھر چلی گئی۔ میرے باپ نے شادی کرنی چاہی تو سب نے مجھے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ کہتے ہیں کہ یہ حرم کی چچوڑی ہوئی ہڈی ہے ، وہاں لوگوں نے میرا جینا حرام کر دیا ہے ۔ ہم سرائے میں ٹھہرے ہیں۔ سنا تھا کہ سلطان سوڈانیوں کو زمینیں اور مکان دے رہے ہیں ۔ مجھے آپ بالیان کی داشتہ یا اس کی بیوی سمجھ کہ یہاں زمین اور مکان دے دیں ، تا کہ میںاُس قصبے سے نکل آئوں۔ ورنہ میں خود کشی کر لوں گی یا گھر سے بھاگ کر کہیں طوائف بن جائوںگی ''۔
''اگر آپ کو زمین سلطان سے ملے بغیر مل جائے تو سلطان سے ملنے کی کیا ضرورت ہے ؟''…… علی بن سفیان نے کہا۔
''ہاں! ''…… موبی نے کہا ……''پھر بھی ملنے کی ضرورت ہے ۔ اُسے آپ عقیدت بھی کہہ سکتے ہیں ۔ میں سلطان کو صرف یہ بتانا چاہتی ہوں کہ اس کی سلطنت میں عورت کھلونا بنی ہوئی ہے ۔ دلت مندوں اور حاکموں کے ہاں شادی کا رواج ختم ہو گیا ہے۔ خدا کے لیے عورت کی عصمت کو بچائو اور عورت کی عظمت کو بحال کرو ۔ سلطان سے یہ کہہ کر شاید میرے دل کو سکون آجائے گا ''۔
میگناناماریوس اس طرح خاموش بیٹھا رہا ، جیسے اس کے کان میں کوئی بات نہیں پڑ رہی۔ علی بن سفیان نے موبی سے کہا کہ سلطان کو اجلاس سے فارغ ہونے دیں پھر ان سے ملاقات کی اجازت لی جائے گی ۔ یہ کہہ کر علی بن سفیان باہر نکل گیا ۔ وہ بہت دیر بعد آیااور کہا کہ وہ سلطان سے اجازت لینے جا رہا ہے ۔ وہ سلطان ایوبی کے کمرے میں چلا گیا اورخاصی دیر بعد آیا۔ اس نے موبی سے کہا کہ اپنے باپ کو سلطان کے پاس لے جائو ۔ اس نے انہیں سلطان ایوبی کا کمرہ دکھا دیا ۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے دونوں نے باہر کی طرف دیکھا ۔ وہ غالباً قتل کے بعدوہاں سے نکلنے کا راستہ دیکھ رہے تھے : سلطان کمرے میں اکیلا تھا ۔ اس نے دونوں کو بٹھایا اور موبی سے پوچھا ۔'' کیا تمہار باپ پیدائشی گونگا اور بہرہ ہے ؟''
''ہاں سلطانِ محترم !''…… موبی نے جواب دیا ……''یہ اس کا پیدائشی نقص ہے ''۔
سلطان ایوبی بیٹھا نہیں ، کمرے میں ٹہلتا رہا اور بولا …… ''میں نے تمہاری شکایت اور مطالبہ سن لیا ہے۔ مجھے تمہارے ساتھ پوری ہمدردی ہے ۔ میں تمہیں یہاں زمین بھی دوں گا اور مکان بھی بنوا دوں گا ۔ سنا ہے تم کچھ اور بھی مجھ سے کہنا چاہتی ہو ''۔
'' اللہ آپ کا اقبال بلند کرے !''…… موبی نے کہا……'' آپ کو بتا دیا گیا ہوگا کہ میرے ساتھ کوئی آدمی شادی نہیں کرتا ۔ لوگ مجھے حرم کی چچوڑی ہوئی ہڈی ، فاحشہ اور بدکار کہتے ہیں اور میرے باپ کو کہتے ہیں کہ اس نے بیٹی بیچ ڈالی تھی ۔ آپ مجھے زمین اور مکان تو دے دیں گے ، لیکن مجھے ایک خاوند کی ضرورت ہے ، جو میری عزت کی رکھوالی کرے ''…… اس نے جھجک کر کہا ……'' میں ایسی بات کہنے کی جرأ ت نہیں کر سکتی ، لیکن اپنی ماں کی عرضداشت آپ تک پہنچانا چاہتی ہوں کہ آپ اگر میری شادی نہیں کرا سکتے تو مجھے اپنے حرم میں رکھ لیں ۔ آپ میری عمر، میری شکل و صورت اور میرا جسم دیکھیں ۔ کیا میں آپ کے قابل نہیں ہوں ؟'' یہ کہہ کر اس نے میگناناماریوس کے کندھے پرہاتھ رکھ کر دوسرا ہاتھ اپنے سینے پر رکھا اور سلطان ایوبی کی طرف اشارہ دیا ۔ یہ اشارہ شاید پہلے سے طے شدہ تھا ۔ میگناناماریوس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر سلطان ایوبی کی طرف کیے اور پھر موبی کے ہاتھ پکڑ کر سلطان ایوبی کی طرف بڑھایا، جیسے وہ یہ کہہ رہا تھا کہ میری بیٹی قبول کر لو ۔
'' میرا کو ئی حرم نہیں لڑکی !'' …… سلطان ایوبی نے کہا …''میں ملک سے حرم ، قحبہ خانے اور شراب ختم کر رہا ہوں '' …… بات کرتے کرتے اس نے اپنی جیب سے ایک سکہ نکالا اورہاتھ میں اُچھالنے لگا ۔ اس نے کہا …… '' میں عورت کی عزت کا محافظ بنناچاہتاہوں ''…… یہ کہتے کہتے وہ دونوں کی پیٹھ پیچھے چلا گیا اور سکہ ہاتھ سے گرا دیا ۔
ٹن کی آواز آئی تو میگناناماریوس نے چونک کر پیچھے دیکھا اور پھر فوراً ہی سامنے دیکھنے لگا ۔
صلاح الدین ایوبی نے تیزی سے اپنے کمر بند سے ایک فٹ لمبا خنجر نکا ل کر اس کی نوک میگناناماریوس کی گردن پر رکھ دی اور موبی نے سے کہا ۔
'' یہ شخص میری زبان نہیں سمجھتا ۔ اُسے کہو کہ اپنے ہاتھ سے اپنا ہتھیار پھینک دے ۔اس نے ذرا سی پس و پیش کی تو یہاں سے تم دونوں کی لاشیں اُٹھائی جائیں گی ''۔
موبی کی آنکھیں حیرت اور خوف سے کھل گئیں ۔ اس نے اداکاری کا کمال دکھانے کی کوشش کی اور کہا ……''میرے باپ کو ڈرا دھمکا کر آپ مجھ پر کیوں قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔ میں تو خود ہی اپنے آپ کو پیش کر رہی ہوں ''۔
'' تم جب محاظ پر میرے سامنے آئی تھیں تو تم میری زبان نہیں بولتی تھیں ''۔ سلطان ایوبی نے کہا اورخنجر کی نوک میگناناماریوس کی گردن پر رکھے رکھی ۔ اُس نے کہا ……'' کیا تم اتنی جلدی یہاں کی زبان بولنے لگی ہو ؟ …… اس کہو کہ ہتھیار فوراً باہر نکال دے ''۔
موبی نے اپنی زبان میں میگناناماریوس سے کچھ کہا تو اُس نے چغے کے اندر ہاتھ ڈال کر خنجر باہر نکالا جو اتنا ہی لمبا تھا جتنا سلطان ایوبی کا تھا ۔ سلطان نے اس کے ہاتھ سے خنجر لے لیا اور اپنا خنجر اس کی گردن سے ہٹا کر کہا ……'' باقی چھ لڑکیاں کہاں ہیں ؟''۔
'' آپ نے مجھے پہچاننے میں غلطی کی ہے ''…… موبی نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا ……'' میرے ساتھ اورکوئی لڑکی نہیں ہے ۔ آپ کون سی چھ لڑکیوںکی بات کر رہے ہیں ؟''
'' مجھے خدا نے آنکھیں دی ہیں '' …… سلطان ایوبی نے کہا …… '' اور خدا نے مجھے ذہن بھی دیا ہے ، جس میں وہ چہرے نقش ہو جاتے ہیں جنہیں ایک بار آنکھ دیکھ لیتی ہے ۔ تمہارا چہرہ جو آدھا نقاب میں ہے ، میں نے پہلے بھی دیکھا ہے …… تمہیں اور تمہارے اس ساتھی کو خدا نے اتنا ناقص ذہن دیا ہے کہ جس کام کے لیے تم آئے تھے ، تم اس قابل نہیں ۔ سرائے میں تم دونوں میاں اور بیوی تھے ۔ یہاں آکر تم باپ اوربیٹی بن گئے ، مگر تم ہو کچھ بھی نہیں اور تمہارا ایک ساتھی باہر گھوڑوں کے پاس کھڑا ہے ، وہ تمہارا نوکر نہیں ۔ اسے گرفتار کر لیا گیا ہے ''۔
: یہ کمال علی بن سفیان کا تھا ۔ اسے موبی نے بتایا تھا کہ وہ سرائے میں ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ وہ ان دونوں کو اپنے کمرے میں بٹھا کر باہر نکل گیا اور گھوڑوے پر سوار ہو کر سرائے میں چلا گیا تھا۔ سرائے والوں سے اُس نے ان کے حلیے بتا کر پوچھا تو اسے بتایا گیا تھا کہ وہ میاں بیوی ہیں اور ان کے ساتھ ان کا نوکر ہے ۔ اسے یہ بھی بتایا گیا کہ انہوں نے بازار سے کچھ کپڑے بھی خریدے تھے ، جن میں لڑکی کا برقعہ نما چغہ اور جوتے بھی تھے ۔انہوں نے علی بن سفیان سے کہا تھا کہ وہ میاں بیوی ہیں۔اس نے اور کوئی تفتیش نہیں کی ۔ ان کے کمرے کا تالا توڑ کر ان کے سامان کی تلاشی لی ۔ اس سے چند ایسی اشیاء برآمد ہوئیں جنہوں نے شک کو یقین میں بدل دیا ۔ علی بن سفیان سمجھ گیا کہ سلطان ایوبی سے ان کا تنہائی میں ملنے کا مطلب کیا ہوسکتا ہے ۔ اس نے ان کے گھوڑے دیکھے تھے ۔ اعلیٰ نسل کے تیز رفتار گھوڑے تھے ۔ سرائے والے سے ان کے گھوڑوں کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ یہ تینوں مسافر اونٹوںپر آئے تھے اور یہ گھوڑے لڑکی نے یہ کہہ کر منگوائے تھے کہ نہایت اچھے ہوں اور تیز رفتار ہوں ۔ سرائے والوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ لڑکی کا خاوند گونگا معلوم ہوتا ہے ، وہ کسی سے بات نہیں کرتا ۔ دراصل وہ یہاں کی زبان نہیں جانتا تھا ۔
علی بن سفیان نے واپس آکر دیکھا کہ اجلاس ختم ہو گیاہے تو وہ سلطان ایوبی کے پاس چلا گیا۔ اسے ان کے متعلق بتایا اور وہ کہانی بھی سنائی جو لڑکی نے اسے سنائی تھی ۔ پھر سرائے سے معلومات اس نے حاصل کی تھیں اور ان کے سامان سے جو مشکوک چیزیں برآمد کیں تھیں ، وہ دکھائیں اور اپنی رائے یہ دی کہ آپ کو قتل کرنے آئے ہیں ۔ آپ سے تنہائی میں ملنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے یہ منصوبہ بنایا ہوگا کہ آپ کو قتل کرکے نکل جائیں گے ۔ جتنی دیر میں کسی کو پتہ چلے گا، اتنی دیر میں وہ تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہو کر شہر سے دُور جا چکے ہوں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے یہ لوگ آپ کو اتنی خوبصورت لڑکی کے چکر میں ڈال کر خواب گاہ میں قتل کرنا چاہتے ہوں گے۔
سلطان ایوبی سوچ میں پڑ گیا ۔ پھر کہا …… '' انہیں ابھی گرفتار نہ کرو ۔ میرے پاس بھیج دو ''۔
علی بن سفیان نے انہیں اندر بھیج دیا اور خود سلطان ایوبی کے کمرے کے دروازے کے ساتھ لگا کھڑا رہا ۔اس نے محافظ دستے کے کمانڈر کو بلا کر کہا …… '' ان دونوں گھوڑوں کو اپنے گھوڑوں کے ساتھ باندھ دو اور زینیں اُتار دو اور ان کے ساتھ جو آدمی ہے ، اسے حراست میں بٹھا لو ۔ اس کے تلاشی لو ۔ اس کے کپڑوں کے اندر خنجر ہوگا ۔ وہ اس سے لے لو ''۔
ان احکام پر عمل ہوگیا ۔ میگناناماریوس کا ساتھی گرفتار ہو گیا ۔ اس سے ایک خنجر برآمد ہوا ۔ گھوڑوں پر بھی قبضہ کر لی گیا۔
اور جب انہیں سلطان ایوبی کے کمرے میں داخل کیا گیا تو باتوں باتوں میں سلطان نے ایک سکہ فرش پر پھینک کر یقین کر لیا کہ یہ شخص بہرہ نہیں ۔ سکے کی آواز پر اس نے فوراً پیچھے مُڑ کر دیکھا تھا ۔
صلاح الدین ایوبی نے لڑکی سے کہا ……'' اسے کہو کہ میری جان صلیبیوں کے خدا کے ہاتھ میں نہیں ، میرے اپنے خدا کے ہاتھ میں ہے ''۔
موبی نے اپنی زبان میں میگناناماریوس سے بات کی تو اس نے چونک کر کچھ کہا ۔ موبی نے سلطان ایوبی سے کہا ……'' یہ کہتا ہے ، کیا آپ کا خدا کوئی اور ہے اور کیامسلمان بھی خدا کو مانتے ہیں ؟''
'' اسے کہو کہ مسلمان اس خدا کو مانتے ہیں جو سچا ہے اور سچے عقیدے والوں کو عزیز رکھتا ہے ''…… سلطان ایوبی نے کہا …… '' مجھے کس نے بتایا ہے کہ تم دونوں مجھے قتل کرنے آئے ہو ؟ …… میرے خدا نے ، اگر تمہارا خدا سچا ہوتا تم تمہارا خنجر مجھے ہلاک کر چکا ہوتا ۔ میرے خدا نے تمہارا خنجر میرے ہاتھ میں دے دیا ہے ''۔ اس نے ایک تلوار کہیں سے نکالی اور چند اشیاء انہیں دکھا کر کہا ……'' یہ تلوار اور چیزیں تمہاری ہیں ۔ یہ تمہارے ساتھ سمندر پار سے آئی ہیں ۔ تم سے پہلے یہ مجھ تک پہنچ گئی ہیں ''۔
میگناناماریوس حیرت سے اُٹھ کھڑا ہوا ۔ اس کے آنکھیں اُبل کر باہر آگئیں ، جتنی باتیں ہوئیں ، وہ موبی کی وساطت سے ہوئی۔ میگناناماریوس نے بولنا شروع کر دیا اور وہ صرف اپنی زبان بولتا اور سمجھتا تھا ۔ خدا کے متعلق یہ باتیں سن کر اس نے کہا…… '' یہ شخص سچے عقید ے کا معلوم ہوتاہے ۔ میں اس کی جان لینے آیا تھا ، لیکن اب میری جان اس کے ہاتھ میں ہے ۔ اسے کہو کہ تمہارے سینے میں ایک خدا ہے ، وہ مجھے دکھائے ۔ میں اس خدا کو دیکھنا چاہتا ہوں ، جس نے اسے اشارہ دیا ہے کہ ہم اسے قتل کرنے آئے ہیں ''۔
سلطان ایوبی کے پاس اتنی لمبی چوڑی باتوں کا وقت نہیں تھا ۔ اُسے چاہیے تھا کہ ان دونوں کو جلاد کے حوالے کر دیتا، لیکن اس نے دیکھا کہ یہ شخص بھٹکا ہوا معلوم ہوتا ہے ، اگر یہ پاگل نہیں تو یہ ذہنی طو پر گمراہ ضرور ہے ، چنانچہ اس نے اس کے ساتھ دوستانہ انداز میں باتیںشروع کر دیں ۔ اس دوران علی بن سفیان اندر آگیا ۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ سلطان خیریت سے تو ہے ، سلطان ایوبی نے مُسکرا کر کہا ۔ '' سب ٹھیک ہے علی ! میں نے ان سے خنجر لے لیا ہے '' …… علی بن سفیان سکون کی آہ بھر کر باہر چلا گیا ۔
میگناناماریوس نے کہا ……'' پیشتر اس کے کہ سلطان میری گردن تن سے جدا کردے ، میں اپنی زندگی کی کہانی سنانے کی مہلت چاہتا ہوں''۔
میگناناماریوس نے کہا ……'' پیشتر اس کے کہ سلطان میری گردن تن سے جدا کردے ، میں اپنی زندگی کی کہانی سنانے کی مہلت چاہتا ہوں''۔
سلطان ایوبی نے اجازت دے دی ۔ میگناناماریوس نے بالکل وہ کہانی جورات صحرا میں اس نے اپنے پارٹی کمانڈر اور اپنے ساتھیوں کو سنائی تھی ، من و عن سلطان ایوبی کو سنا دی ۔ اب کے اس نے صلیب پر لٹکتے ہوئے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بُت ، کنواری مریم کی تصویر اور پادریوں کے اُس خدا سے جس سے وہ پادری کی اجازت کے بغیر با ت بھی نہیں کر سکتا تھا ، بیزاری کا اظہار اور زیادہ شدت سے کیا اور کہا ……'' مرنے سے پہلے مجھے خدا کی ایک جھلک دکھا دو ۔ میرے خدا نے بچوں کو بھوکا مار دیا ہے ، میری ماں کو اندھا کر دیا ہے ، میری بہن کو شرابی وحشیوں کا قیدی بنا دیا ہے اور مجھے تیس سالوں کے لیے قید خانے میں بند کر دیا ہے ، میں وہاں سے نکلا تو موت کے منہ میں آپڑا ۔ سلطان ! میری جان تیرے ہاتھ میں ہے ، مجھے سچا خدا دکھا دے ، میں اس سے فریاد کروں گا ، اس سے انصاف مانگوں گا ''۔
'' تیری جان میرے ہاتھ میں نہیں ''۔سلطان ایوبی نے کہا …… '' میرے خدا کے ہاتھ میں ہے ، اگر میرے ہاتھ میں ہوتی تو اس وقت تک تم میرے جلاد کے پاس ہوتے ، میں تمہیں وہ سچا خدا دکھا دوں گا ، جو تیری گردن مارنے سے مجھے روک رہا ہے ، لیکن تجھے اس خدا کا سچا عقیدہ قبول کرنا ہوگا، رونہ خدا تمہاری فریاد نہیں سنے گا اور انصاف بھی نہیں ملے گا ''……سلطان ایوبی نے اس کا خنجر اس کی گود میں پھینک دیا اور خود اس کے پاس جا کر اس کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا ہوگیا ۔ موبی سے کہا …… '' اسے کہو میں اپنی جان اس کے حوالے کرتا ہوں ۔ یہ خنجر میری پیٹھ میں گھونپ دے ''۔
میگناناماریوس نے خنجر ہاتھ میں لے لیا ۔ اسے غور سے دیکھا ۔ سلطان ایوبی کی پیٹھ پر نگاہ دوڑائی ۔ اُٹھا اور سلطان کے سامنے چلا گیا ۔ اسے سر سے آئوں تک دیکھا ۔ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی جلالی شخصیت کا اثر تھا یا سلطان کی آنکھوں کی چمک میں اُسے سچا خدا نظر آگیا کہ اس کے ہاتھ کانپے ۔ اس نے خنجر سلطان ایوبی کے قدموں میں رکھ دیا ۔ وہ دوزانو بیٹھ گیا اور سلطان کے ہاتھ چوم کر زارو قطار رونے لگا ۔ ……موبی سے کہا……'' اسے کہو کہ یا تو یہ خود خدا ہے یا اس نے خدا کو اپنے سینے میں قید کر رکھا ہے ۔ اسے کہو مجھے اپنا خدا دکھا دو ''۔
سلطان ایوبی نے اُسے اُٹھایا اور سینے سے لگا کر اپنے ہاتھ سے اس کے آنسو پونچھے ۔
وہ تو بھٹکا ہوا انسان تھا ۔ اس کے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھر دی گئی تھی اور اسلا م کے خلاف زہر ڈالا گیاتھا ۔ پھر حالات نے اسے اپنے مذہب سے بیزا ر کیا۔ یہ ایک قسم کا پاگل پن تھا اور ایک تشنگی تھی جو اسے ایسی خطرناک مہم پر لے آئی تھی ۔ سلطان ایوبی اُسے بے گناہ سمجھتا تھا ، لیکن اسے آزاد بھی نہ کیا ، بلکہ اپنے پاس رکھ لیا ۔ موبی باقاعدہ ٹریننگ لے کر آئی تھی اور مفرور جاسوسہ تھی ۔ یہ وہ ساتویں لڑکی تھی جس نے صلیبیوں کا پیغام سوڈانیوں تک پہنچایا اور بغاوت کرائی تھی ۔ وہ ملک کی دشمن تھی ۔ اسے اسلامی قانون نہیں بخش سکتا تھا ۔ سلطان نے اُسے اور اس کے ساتھی کو علی بن سفیان کے حوالے کر دیا ۔ تفتیش میں دونوں نے اقبالِ جرم کر لیا اور یہ بھی بتا دیا کہ رسد کے قافلے کو انہوں نے ہی لوٹا تھا اور لڑکیوں کو بھی انہوں نے آزاد کرایااور محافظ دستے کو ہلاک کیا تھا اور بالیان اور اس کے ساتھیوں کو بھی انہوں نے ہلاک کیا تھا ۔
: یہ تفتیش تین دن جاری رہی ۔ اس دوران میگناناماریوس کا دماغ روشن ہو چکا تھا ۔ ایک بار اس نے سلطان ایوبی سے پوچھا ……'' کیا آپ نے اس لڑکی کو مسلمان کر کے اپنے حرم میں رکھ لیا ہے ؟''
''آج شام کو اس کا جواب دوں گا ''…… سلطان ایوبی نے جواب دیا ۔
شام کے وقت سلطان ایوبی نے میگناناماریوس کو ساتھ لیا اور کچھ دُور جا کر ایک احاطے میں لے گیا ۔لکڑی کے دو تختے پڑے تھے ۔ ان پر سفید چادریں پڑی ہوئی تھیں۔ سلطان ایوبی نے چادروں کو ایک طرف سے اُٹھایا اور میگناناماریوس کو دکھایا ، اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا ۔ اس کے سامنے موبی کی لاش پڑی تھی اور دوسرے تختے پر اس کے ساتھی کی لاش تھی ۔ سلطان ایوبی نے موبی کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیچھے کھینچا ، گردن کندھے سے جدا تھی ۔ اس نے میگناناماریوس سے کہا ……'' میں اسے بخش نہیںسکتا تھا ، تم اسے اپنے ساتھ لائے تھے کہ میں اس کے حسن اور جسم پر فدا ہوجائوں گا ، مگر اس کا جسم مجھے ذرا بھر اچھا نہیں لگا ، یہ ناپاک جسم تھا ۔ یہ اب مجھے اچھا لگ رہا ہے ۔ جب جبکہ اس جسم سے اتنی حسین شکل و صورت جدا ہوچکی ہے ۔ مجھے یہ بہت اچھی لگ رہی ہے ۔ اللہ اس کے گنا ہ معاف کرے ''۔
''سلطان!''…… میگناناماریوس نے پوچھا …… ''آپ نے مجھے کیوں بخش دیا ؟''
'' اس لیے کہ تم مجھے قتل کرنے آئے تھے ''……سلطان ایوبی نے جواب دیا ……'' مگر یہ میری قوم کے کردار کو قتل کرنے آئی تھی اورر تمہارا یہ ساتھی بھی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بہت سے لوگوں کا قاتل بنا اور تم نے میرا خون بہا کر خدا کو دیکھنا چاہا تھا ''۔
چند دِنوں بعد میگناناماریوس سیف اللہ بن گیا جو بعد میں سلطان ایوبی کے محافظ دستے میں شامل ہوا اور جب سلطان ایوبی خالقِ حقیقی سے جا ملا ، تو سیف اللہ نے زندگی کے آخری سترہ برس سلطان صلاح الدین ایوبی کی قبر پر گزار دئیے۔ آج کسی کو بھی معلوم نہیں کہ سیف اللہ کی قبر کہاں ہے۔
جاری ہے...
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں