داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر 15
ــــــــــــــــــ
یک روز مجھے ایک بہت ہی امیر آدمی کے نوکر نے بتایا کہ تمہاری بہن اس امیر آدمی کے گھر میں ہے۔ وہ عیاش آدمی ہے ۔ کنواریوں کو اغوا کرتا ہے ، تھوڑے دن اُس کے ساتھ کھیلتا ہے اور انہیں کہیں غائب کر دیتا ہے ، لیکن وہ آدمی بادشاہ کے دربار میں بیٹھتا ہے ۔ لوگ اس کی عزت کرتے ہیں ۔ بادشاہ نے اُسے رُتبے کی تلوار دی ہے ۔ گناہ گار ہوتے ہوئے خدا اس پر خوش ہے ۔ دُنیا کا قانون اُس کے ہاتھ میں کھلونا ہے ……میں اس کے گھر گیا اور اپنی بہن واپس مانگی۔ اس نے مجھے دھکے دیکر اپنے محل سے نکال دیا۔میں پھر گرجے میں گیا ۔یسوے مسیح کے بت اور کنواری مریم کی تصویر کے آگے رویا ۔خدا کو پکارا ۔مجھے کسی نے جواب نہیں دیا ۔میں گرجے میں اکیلا تھا۔ پادری آگیا۔اس نے مجھے ڈانٹ کر گرجے سے نکال دیا ۔کہنے لگا ...........یہاںسے دو تصویریں چوری ہو چکی ہیں ،نکل جائو ، ورنہ پولیس کے حوالے کر دوں گا ..........میں نے حیران ہوکر اس سے پوچھا .........کیا یہ خدا کا گھر نہیں ہے ؟ ............اس نے جواب دیا .............تممجھ سے پوچھے بغیر خدا کے گھر میں کیسے آئے ۔اگر گناہوں کی معافی مانگنی ہے تو میرے پاس آئو ۔اپنا گناہ بیان کرو ۔میں خدا سے کہوں گا کہ تمہیں بخش دے ۔تم خدا سے براہِ راست کوئی بات نہیں کرسکتے ۔جائونکلو یہاں سے ...........اور میرے دوستو !مجھے خدا کے گھر سے نکال دیا گیا ۔
وہ ایسے لہجے میں بول رہا تھا کہ سب پر سناٹا طاری ہوگیا ۔لڑکیوں کے آنسو نکل آئے ۔صحرا کی رات کے سکوت میں اس کی باتوں کا تاثر سب پر طلسم بن کر طاری ہو گیا ۔
وہ کہہ رہا تھا ……'' میں پادری کو ، یسوع مسیح کے بت کو ، کنواری مریم کی تصویر کو اور اُس خدا کو جو مجھے گرجے میں نظر نہیں آیا ، شک کی نظروں سے دیکھتا نکل آیا ۔ گھر گیا تو اندھی ماں نے پوچھا ۔ '' میری بچی آئی یا نہیں ؟ میری بیوی نے پوچھا ، میرے بچوں نے پوچھا ۔میں بھی بت اور تصویر کی طرح چپ رہا ، مگر میرے اندر سے ایک طوفان اُٹھا اور میں باہر نکل گیا۔ میں سارا دن گھومتا پھرتا رہا۔ شام کے وقت میں نے ایک خنجرخریدا اور دریا کے کنارے ٹہلتا رہا۔ رات اندھیری ہوگئی اور بہت دیر بعد میں ایک طرف چل پڑا ۔ مجھے اس محل کی بتیاں نظر آئیں جہاں میری بہن قید تھی ۔ میں بہت تیز چل پڑا اور اس محل کے پچھواڑے چلا گیا ۔ میں اتنا چالاک اور ہو شیار آدمی نہیں تھا ، لیکن مجھ میں چالاکی آ گئی ۔ میں پچھلے دروازے سے اندر چلا گیا۔ محل کے کسی کمرے میں شور شرابا تھا ۔ شاید کچھ لوگ شراب پی رہے تھے ۔ میں ایک کمرے میں داخل ہوا تو ایک نوکر نے مجھے روکا ۔ میں نے خنجر اس کے سینے میں رکھ دیا اور اپنی بہن کا نام بتا کر پوچھا کہ وہ کہاں ہے ۔ نوکر مجھے اندرکی سیڑھیوں سے اوپر لے گیا اور ایک کمرے میں داخل کرکے کہا کہ یہاں ہے۔ میں اندر گیا تو میرے پیچھے دروازہ بند ہوگیا۔ کمرہ خالی تھا ……
'' دروازہ کھلا اور بہت سے لوگ اندر آگئے۔ اُن کے پاس تلواریں اور ڈنڈے تھے ۔ میں نے کمرے کی چیزیں اُٹھا اُٹھا کر اُن پر پھینکنی شروع کر دیں۔ بہت توڑ پھوڑ کی ۔ انہوں نے مجھے پکڑ لیا ۔ مجھے مارا پیٹا اور میں بے ہوش ہو گیا ۔ ہوش میں آیا تو میں ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا ۔ میرے خلاف الزام یہ تھے کہ میں نے ڈاکہ ڈالا ، بادشاہ کے درباری کا گھر برباد کیا اور تین آدمیوں کو قتل کی نیت سے زخمی کیا۔ میری فریاد کسی نے نہ سنی اور مجھے تیس سال سزائے قید دے کر قید خانے کے جہنم میں پھینک دیا ۔ ابھی پانچ سال پورے ہوئے ہیں ۔ میں انسان نہیں رہا۔ تم قید خانے کی سختیاں نہیں جانتے ۔ دن کے وقت مویشیوں جیسا کا م لیتے ہیں اور رات کوکتوں کی طرح زنجیر ڈال کر کوٹھریوں میں بند کر دیتے ہیں ۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میر ی اندھی ماں زندہ ہے یا مر چکی ہے ۔ بیوی بچوں کا بھی کچھ پتہ نہیں تھا ۔ مجھے خطرناک ڈاکو سمجھ کر کسی سے ملنے نہیں دیا جاتا تھا ……
'' میں ہر رقت سوچتا رہتا تھا کہ خدا سچا ہے یا میں سچا ہوں۔ سنا تھا کہ خدا بے گناہوں کو سزا نہیںدیتا ، مگر مجھے خدا نے کس گناہ کی سزادی تھی ؟ میرے بچوں کو کس گنا ہ کی سزا دی تھی ؟ میں پانچ سال اسی اُلجھن میں مبتلا رہا ۔ کچھ دِن گزرے، فوج کے دو افسر قید خانے میں آئے ۔ وہ اس کا م کے لیے جس ہم آئے ہوئے ہیں ، آدمی تلاش کر رہے تھے ۔ میں اپنے آپ کو پیش نہیں کرنا چاہتا تھا ، کیونکہ یہ بادشاہوں کی لڑائی جھگڑے تھے۔ مجھے کسی بادشاہ کے ساتھ دلچسپی نہیں تھی ، لیکن میں نے جب سنا کہ چند ایک عیسائی لڑکیوں کو مسلمانوں کی قید سے آزاد کرانا ہے تو میرے دل میں اپنی بہن کاخیال آگیا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ مسلمان قابلِ نفرت قوم ہے۔ میں نے یہ ارادہ کیا کہ میں عیسائی لڑکیوں کو مسلمانوں کی قید سے آزاد کرائوں گا تو خدا اگر سچا ہے تو میری بہن کو اُس ظالم عیسائی کی پنجے سے چھڑا دے گا ، پھر فوجی افسروں نے کہا کہ ایک مسلمان بادشاہ کو قتل کرنا ہے تو میں نے اسے جزا کا کام سمجھا اور اپنے آپ کو پیش کر دیا ، مگر شرط یہ رکھی کہ مجھ اتنی رقم دی جائے جو میں اپنے کنبے کو دے سکوں ۔ انہوں نے رقم دینے کا وعدہ کیا اور یہ بھی کہا کہ اگر تم سمندر پار مارے گئے تو تمہارے کنبے کو اتنی زیادہ رقم دی جائے گی کہ ساری عمر کے لیے وہ کسی کے محتاج نہیں رہیں گے ''۔
اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف اشارہ کرکے کہا …… '' یہ دو میرے ساتھ قیدخانے میں تھے۔ انہوں نے بھی اپنے آپ کو پیش کر دیا ۔ ہم سے سینکڑوں باتیں پوچھیں گئیں ۔ ہم تینوں نے انہیں یقین دلادیا کہ ہم اپنی قوم اور اپنے مذہب کو دھوکہ نہیں دیں گے۔ میں نے دراصل اپنے کنبے کے لیے اپنی جان فروخت کر دی ہے ۔ قید خانے سے نکالنے سے پہلے ایک پادری نے ہمیں بتایا کہ مسلمانوں کا قتل عام تمام گناہ بخشوا دیتا ہے اور عیسائی لڑکیوں کو مسلمانوں کی قید سے آزاد کرائو گے تو سیدھے جنت میں جائو گے ۔ میں نے پادری سے پوچھا کہ خدا کہاں ہے ؟اس نے جو جواب دیا ، اس سے میری تسلی نہ ہوئی ۔ میں نے صلیب پر ہاتھ رکھکر حلف اُٹھایا۔ہمیں باہر نکالا گیا ، مجھے میرے گھر لے گئے ۔ میرے گھر والوں کوانہوں نے بہت سی رقم دی ۔ میں مطمئن ہو گیا۔ اب میرے دوستو ! مجھے اپنا حلف پورا کرنا ہے ۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ میرا خدا کہاں ہے ۔ کیاایک مسلمان بادشاہ کو قتل کر کے خدا نظر آ جائے گا ''۔
'' تم پاگل ہو '' کمانڈر نے کہا ۔''تم نے جتنی باتیں کی ہیں ، ان میں مجھے عقل کی ذرا سی بھی بو نہیں آئی ''۔
'' اس نے بڑی اچھی باتیں کیں ہیں ''۔اس کے ایک ساتھی نے کہا ۔''میں اس کا ساتھ دوں گا ''۔
'' مجھے ایک لڑکی کی ضرورت ہے '' ۔ میگنا نا ماریوس نے لڑکیوں کی طرف دیکھ کر کہا ۔'' میں لڑکی کی جان اور عزت کا ذمہ دار ہوں ۔ لڑکی کے بغیر میں صلاح الدین ایوبی تک نہیں پہنچ سکوں گا ۔ میں جب سے آیا ہوں ۔ سوچ رہا ہوں کہ صلاح الدین ایوبی کے ساتھ تنہائی میں کس طرح مل سکتا ہوں ''۔
موبی اُٹھ کر اس کے ساتھ جا کھڑی ہوئی اور بولی … … '' میں اس کے ساتھ جائوں گی ''۔
'' ہم تمہیں بڑی مشکل سے آزاد کرا کے لائیں ہیں موبی !'' کمانڈر نے کہا …… '' میں تمہیں ایسی خطرناک مہم پر جانے کی اجازت نہیں دے سکتا ''۔
مہم پر جانے کی اجازت نہیں دے سکتا ''۔
'' مجھے اپنی عصمت کا انتقام لینا ہے ''۔ موبی نے کہا …… '' میں صلاح الدین ایوبی کی خواب گاہ میں آسانی سے داخل ہو سکتی ہوں ۔ مجھے معلوم ہے کہ مسلمان کا رُتبہ جتنا اونچا ہوتا ہے ، وہ خوبصورت لڑکیوں کا اتنا ہی شیدائی ہو جاتا ہے ۔ صلاح الدین ایوبی کو محسوس تک نہ ہوگا کہ وہ اپنی زندگی میں آخری لڑکی دیکھ رہا ہے ''۔
بہت دیر بحث اور تکرار کے بعد میگنا نا ماریوس اپنے ایک ساتھی اور موبی کے ساتھ اپنی پارٹی سے رخصت ہوا ۔ سب نے انہیں دعائوں کے ساتھ الوداع کہا ۔انہوں نے دو اونٹ لیے ۔ ایک پر موبی سوائی ہوئی اور دوسرے پر دونوں مرد ۔ اُن کے پاس مصر کے سکے تھے اور سونے کی اشرفیاں بھی ۔ دونوں مردوں نے چغے اوڑھ لیے تھے ۔ میگنا نا ماریوس کی داڑھی خاصی لمبی ہو گئی تھی ۔ قید خانے میں دھوپ میں مشقت کر کرکے اس کا رنگ اٹلی کے باشندوں کی طرح گورا نہیں رہا تھا ۔ سیاہی مائل ہوگیا تھا ۔اس سے اس پر یہ شک نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ یورپی ہے ۔ بھیس بدلنے کے لیے انہیں کپڑے دے کر بھیجا گیا تھا ، مگر ایک رکاوٹ تھی جس کا بظاہر کوئی علاج نہیں تھا ۔ وہ یہ کہ میگناناماریوس اٹلی کی زبان کے سوا اور کوئی زبان نہیں جانتا تھا ۔ موبی مصر کی زبان بول سکتی تھی ۔ دوسرا جو آدمی ان کے ساتھ گیاتھا ، وہ بھی مصر کی زبان نہیں جانتا تھا ۔ انہیں اس کا کو ئی علا ج کرنا تھا ۔
وہ رات کو ہی چل پڑے ۔ موبی راستے سے واقف ہو چکی تھی ۔ وہ قاہر ہ سے ہی آئی تھی ۔ میگنا نا ماریوس نے اس پر بھی ایک چغہ ڈال دیا اور اس کے سر پر دوپٹے کی طرح چادر اوڑھ دی ۔
٭ ٭ ٭
صبح کی روشنی میں سلطان ایوبی کے اُن سواروں کا دستہ جو اُن کے تعاقب میں گیاتھا ، گھوڑوں کے کھرے دیکھ کر روانہ ہوگیا ۔ یہ بہت سے گھوڑوں کے نشان تھے ، جو چھپ ہی نہیں سکتے تھے ۔ صبح سے پہلے صلیبیوں کے پارٹی لڑکیوں کو ساتھ لے کر چل پڑی ۔اُن کی رفتار خاصی تیز تھی ۔ ان کے تعاقب میں جانے والوں کا سفر رُک گیا ، کیونکہ رات کے وقت وہ زمین کو دیکھ نہیں سکتے تھے ، مگر صلیبیوں نے سفر جاری رکھا ۔ وہ آدھی رات کے وقت پڑائو کر نا چاہتے تھے ، وہ بہت جلدی میں تھے ۔
صبح کے دھندلکے میں صلیبی جو آدھی رات کے وقت رُکے تھے ، چل پڑے ۔ اُن کے تعاقب میں جانے والوں کی پارٹی صبح کی روشنی میں روانہ ہوئی ۔ میگناناماریوس نے عقل مندی کی تھی کہ وہ اونٹوں پر گیا تھا ۔ اونٹ بھوک اور پیاس کی پرواہ نہیں کرتا ۔ رُکے بغیر گھوڑے کی نسبت بہت زیادہ سفر کر لیتا ہے ۔ اس سے میگناناماریوس کا سفر تیز ی سے طے ہو رہا تھا ۔
سورج غروب ہونے میںابھی بہت دیر تھی ، جب انہیں لاشیں نظر آئیں ۔ علی بن سفیان کے نائب نے بالیان کی لاش پہچان لی ۔ اُس کا چہرہ سلامت تھا ۔ اُس کے قریب اس کے چھ دوستوں کی لاشیں پڑی تھیں ۔ گِدھوں اور درندوں نے زیادہ تر گوشت کھا لیا تھا ۔ سوار حیران تھے کہ یہ کیا معاملہ ہے ۔ خون بتا تا تھا کہ انہیں مرے ہوئے زیادہ دِن نہیں گزرے ۔ اگر یہ بغاوت کی رات مرے ہوتے تو خون کا نشان تک نہ ہوتا اور اُ ن کی صرف ہڈیاں رہ جاتیں ۔ یہ ایک معمہ تھا جسے کوئی نہ سمجھ سکا ، وہاں سے پھر گھوڑوں کے نشان چلے ۔ سواروں نے گھوڑے دوڑا دئیے ۔ نصف میل تک گئے تو اونٹوں کے پائوں کے نشان بھی نظر آئے ۔ وہ بڑھتے ہی چلے گئے ۔ سورج غروب ہوا تو بھی نہیں رُکے ، کیونکہ اب مٹی کے اونچے نیچے ٹیلوں کا علاقہ شروع ہو گیا تھا ، جس میں ایک راستہ بل کھاتا ہوا گزرتا تھا ۔ اس کے علاوہ وہا ں سے گزرنے کا اور کوئی راستہ نہیں تھا ۔
صلیبی اسی راستے سے گزرے تھے اور بحیرئہ روم کی طر ف چلے جا رہے تھے ۔ ٹیلوں کا علاقہ دُور تک پھیلا ہوا تھا ، وہاں سے تعاقب کرنے والے نکلے تو رُک گئے ، کیونکہ آگے ریتلا میدان آ گیا تھا ۔
صبح کے وقت چلے تو کسی نے کہا کہ سمندر کی ہوا آنے لگی ہے ۔ سمندر دُور نہیں تھا مگر صلیبی ابھی تک نظر نہیں آئے تھے ۔ راستے میں ایک جگہ کھانے کے بچے کھچے ٹکڑوں سے پتہ چلا کہ رات یہاں کچھ لوگ رُکے تھے ۔ گھوڑے بھی یہاں باندھے گئے تھے ۔ پھر یہ گھوڑے وہاں سے چلے ۔ زمین کو دیکھ تعاقب کرنے والوں نے گھوڑوں کوایڑ یں لگا دیں۔ سورج اپنا سفر طے کرتا گیا اور آگے نکل گیا ۔ گھوڑوں کو ایک جگہ آرام دیا گیا ۔ پانی پلایا اور یہ دستہ روانہ ہو گیا ۔ سمندر کی ہوائیں تیز ہوگئی تھیں اور ان میں سمندر کی بُو صاف محسوس ہوتی تھی ۔ پھر ساحل کی چٹانیں نظر آنے لگیں۔ زمین بتا رہی تھی کہ گھوڑے آگے آگے جا رہے ہیں اور یہ بے شمار گھوڑے ہیں ۔
ساحل کی چٹانیں گھوڑوں کی رفتار سے قریب آرہی تھیں ۔ تعاقب کرنے والوں کو ایک چٹان پر دو آدمی نظر آئے ۔ وہ اس طرف دیکھ رہے تھے ۔ وہ تیزی سے سمندر کی طرف اُتر گئے ۔ گھوڑے اور تیز ہو گئے ۔ چٹانوں کے قریب گئے تو انہیں گھوڑے روکنے پڑے ، کیونکہ کئی جگہوں سے چٹانوں کے پیچھے جایا جا سکتا تھا ۔ایک آدمی کو چٹان پر چڑھ کر آگے دیکھنے کو بھیجا گیا ۔ وہ آدمی گھوڑے سے اُتر کر دوڑتا گیا اور ایک چٹان پر چڑھنے لگا ۔ اوپر جا کر اس نے لیٹ کر دوسری طرف دیکھا اور پیچھے ہٹ آیا ۔ وہیں سے اس نے سواروں کو اشارہ کیا کہ پیدل آئو ۔ سوار گھوڑوں سے اُترے اور دوڑتے ہوئے چٹان تک گئے ۔ سب سے پہلے علی بن سفیان کا نائب اوپر گیا ۔ اس نے آگے دیکھا اور دوڑ کر نیچے اُترا۔ اس نے اپنے دستے کو بکھیر دیا اور انہیں مختلف جگہوں پر جانے کو کہا ۔
دوسری طرف سے گھوڑوں کے ہنہنانے کی آوازیں آرہی تھیں ۔ صلیبی وہاں موجود تھے ۔ یہ وہ جگہ تھی، جہاں سمندر چٹانوں کو کاٹ کر اندر آجاتا تھا ۔ اس پارٹی نے اپنی کشتی وہاں باندھی تھی ۔وہ گھوڑوں سے اُتر کر کشتی میں سوار ہو رہے تھے ۔ کشتی بہت بڑی تھی ۔ لڑکیاں کشتی میں سوار ہو چکی تھیں ۔ گھوڑے چھوڑ دئیے گئے تھے ۔ اچانک اُن پر تیر برسنے لگے ۔ تمام کو ہلاک نہیں کرنا تھا ۔ انہیں زندہ پکڑنا تھا ۔ بہت سے کشتی سے کود گئے اور کشتی کے چپو مارنے لگے ۔ پیچھے جو رہ گئے وہ تیروں کا نشانہ بن گئے تھے ۔ کشتی میں جانے والوں کو للکارا گیا ، مگر وہ نہ رُکے ، وہاں سمندر گہرا تھا ۔ کشتی آہستہ آہستہ جاری تھی ۔ اِدھر سے اشارے پر تیر اندازوں نے کشتی پر تیر برسا دئیے ۔ چپوئوں کی حرکت بند ہو گئی ۔ تیروں کی دوسری باڑ گئی ، پھر تیسری اور چوتھی باڑ لاشوں میں پیوست ہوگئی ۔ اُن میں اب کوئی بھی زندہ نہیں تھا ۔ کشتی وہیں ڈولنے لگی ۔ سمندر کی موجیں ساحل کی طرف آتیں اور چٹانوں سے ٹکڑا کر واپس چلی جاتی تھیں ۔ ذرا سی دیر میں کشتی ساحل پر واپس آگئی ۔ سوارو ں نے نیچے جا کر کشتی پکڑ لی ، وہاں صرف لاشیں تھیں ، بعض کو دو دو تیر لگے تھے ۔
کشتی کو باندھ دیا گیا اور سواروں کا دستہ محاذ کی طرف روانہ ہوگیا ۔ کیمپ دُور نہیں تھا ۔
میگنا نا ماریوس قاہرہ کی ایک سرائے میں قیام پذیر تھا ۔ اس سرائے کا ایک حصہ عام اور کمترمسافروں کے لیے تھا اور دوسرا حصہ امراء اور اونچی حیثیت کے مسافروں کے لیے ۔ اس حصے میں دولت مند تاجر بھی قیام کرتے تھے ۔ اُن کے لیے شراب اور ناچنے گانے والیاں بھی مہیا کی جاتی تھیں ۔ میگنا نا ماریوس اسی خاص حصے میں ٹھہرا ۔ موبی کو اُس نے اپنی بیوی بتایا اور اپنے ساتھی کو معتمد ملازم ۔ موبی کی خوبصورتی اور جوانی نے سوائے والوں پر میگنا نا ماریوس کا رعب طاری کر دیا ۔ ایسی حسین اور جوان بیوی کسی بڑے دولت مند ہی کی ہو سکتی تھی ۔ سرائے والوں نے اس کی طرف خصوصی توجہ دی ۔ موبی نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے صلاح الدین ایوبی کے گھر اور دفتر کے متعلق معلومات حاصل کر لیں ۔ اس نے یہ بھی معلوم کر لیا کہ سلطان ایوبی نے سوڈانیوں کو معافی دے دی ہے اور سوڈانی فوج توڑ دی ہے ۔ اسے یہ بھی پتہ چل گیاکہ سوڈانی سالاروں اور کمانداروںوغیرہ کے حرم خالی کر دئیے گئے ہیں اور یہ بھی کہ انہیں زرعی زمینیں دی جارہی ہیں ۔
یہ میگنا نا ماریوس کی غیر معمولی دلیری تھی یا غیر معمولی حماقت کہ وہ اس ملک کی زبان تک نہیںجانتاتھا ۔ پھر بھی انتے خطرناک مشن پر آگیا تھا ۔ اُسے اس قسم کے قتل کی اور اتنے بڑے رتبے کے انسان تک رسائی حاصل کرنے کی کوئی ٹریننگ نہیں دی گئی تھی ۔ وہ ذہنی لحاظ سے انتشار اور خلفشار کا مریض تھا ، پھر بھی وہ صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے آیا، جس کے اردگرد محافظوں کا پورا دستہ موجود رہتا تھا۔ اس کے دستے کے کمانڈر نے اسے کہا تھا کہ تم پاگل ہو، تم نے جتنی باتیں کی ہیں ۔ ان میں ذرا سی بھی عقل کی بو نہیں آئی ۔ مظاہر میگنا نا ماریوس پاگل ہی تھا ۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بڑے آدمیوں کو قتل کرنے والے عموماً پاگل ہوتے ہیں ۔ اگر پاگل نہیں تو اُن کے ذہنی توازن میں کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہوتی ہے ۔ یہی کیفیت اٹلی کے اس سزا یافتہ آدمی کی تھی ۔ اس کے پاس ایک ہتھیار ایسا تھا جو ڈھال کا کام بھی دے سکتا تھا ۔ یہ تھی موبی ۔ موبی مصر کی صرف زبان ہی نہیں جانتی تھی ، بلکہ اُسے اور اس کی مری ہوئی چھ ساتھی لڑکیوںکو مصری اور عربی مسلمانوں کے رہن سہن، تہذیب و تمدن اور دیگر معاشرتی اونچ نیچ کے متعلق لمبے عرصے کے لیے ٹریننگ دی گئی تھی ۔ وہ مسلمان مردوں کی نفسیات سے بھی واقف تھی ۔ اداکاری کی ماہر تھی اور سب سے بڑی خوبی یہ کہ وہ مردوں کو انگلیوں پر نچانا اور بوقتِ ضرورت اپنا پورا جسم ننگا کرکے کسی مرد کو پیش کرنا جانتی تھی ۔
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں