داستان ایمان فروشوں کی
دوسرا حصہ
ساتویں لڑکی
قسط نمبــــــــــــــــــــــــر 10
ٹیلے کے پیچھے اُونچی نیچی زمین خشک جھاڑیاں اور کہیں کہیں کو ئی درخت تھا ۔ بہت سا دوڑ کر فخر المصری نے محسوس کیا کہ اس کے آگے تو کوئی بھی نہیں ۔ اِس نے رُک کر اِدھر اُدھر دیکھا ۔ اسے پنے پیچھے اور بہت سا بائیں کو لڑکی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی ۔ وہ تربیت یافتہ لڑکی تھی ، جہاں اسے حُسن اور شباب کے استعمال کی تربیت دی گئی تھی ، وہا ں اسے فوجی ٹریننگ بھی دی گئی تھی اور خنجر زنی کے دائو پیچ بھی سکھائے گئے تھے۔ وہ ایک درخت کی اوٹ میں چھپ گئی تھی ۔ فخر آگے گیا تو وہ دوسری طرف دوڑ پڑی ۔ یہ تعاقب آنکھ مچولی کی مانند تھا۔ فخر کو اندھیراپریشان کر رہا تھا۔ موبی کے قدم خاموش ہوجاتے تو وہ رُک جاتا ۔ قدموں کی آواز سنائی دیتی تو وہ دوڑ پڑتا ۔ غصے سے وہ بائولا ہوا جارہاتھا ۔ اس نے یہ جان لیا تھا کہ یہ کوئی جوان لڑکی ہے ، اگر بڑی عمر کی ہوتی تو اتنی تیز اور اتنا زیادہ نہ بھاگ سکتی ۔ تعاقب میں فخر دو میل فاصلہ طے کر گیا ۔ موبی نے جھاڑیوں اور اونچی نیچی زمین سے بہت فائدہ اُٹھایا ۔ اس کے مرد ساتھیوں کا ڈیرہ قریب آگیاتھا۔ وہ دوڑتی ہوئی وہاں تک جا پہنچی ۔ اس نے اپنے آدمیوں کو آوازیں دیں ۔ و ہ گھبرا کر جاگے اور خیمے سے باہر آئے ۔ ایک نے مشعل جلالی ۔ یہ ڈنڈے کے سرے پر لپٹے ہوئے کپڑے تھے۔ ان کی آگ کی روشنی بہت زیادہ تھی ۔ فخر نے تلوار سونت لی اور ہانپتا کانپتا ان کے سامنے جا کھڑا ہوا
اس نے دیکھا کہ یہ پانچ آدمی لباس سے سفری تاجر نظر آتے ہیں اور مسلمان لگتے ہیں۔ لڑکی ان میں سے ایک کی ٹانگوں کو دونوں بازوئوں میں مضبوطی سے پکڑے بیٹھی ہوئی تھی ۔ مشعل کے ناچتے شعلے میں اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور خوف نظر آ رہا تھا ۔ اس کا سینہ اُبھراور بیٹھ رہا تھا ۔ اس کی سانسیں بُری طرح اُکھڑ ی ہوئی تھیں ۔''یہ لڑکی میرے حوالے کر دو''.............فخ ر المصری نے حکم کے لہجے میں کہا ۔''یہ ایک نہیں''............. ایک آدمی نے التجا کے لہجے میں جواب دیا .............''ہم نے تو سات لڑکیاں آپ کے سلطان کے حوالے کی ہیں ۔ آپ اسے لے جا سکتے ہیں''۔''نہیں''............. .... موبی نے اس کی ٹانگوں کو اور مضبوطی سے پکڑتے ہوئے ، روتے ہوئے اور خوف زدہ لہجے میںکہا ...........''میں اس کے ساتھ نہیں جائوں گی ۔ یہ لوگ عیسائیوں سے زیادہ وحشی ہیں ۔ ان کا سلطان انسان نہیں سانڈ ہے ، درندہ ہے ۔ اس نے میری ہڈیاں بھی توڑ دی ہیں ۔ میں اس سے بھاگ کر آئی ہوں''۔''کون سلطان؟''....... ...... فخر نے حیران سا ہو کر پوچھا ۔''وہی جسے تم صلاح الدین ایوبی کہتے ہو''........... ...موبی نے جواب دیا ۔ وہ اب مصر کی زبان بول رہی تھی ۔''یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے''.......... فخر نے کہا اور پوچھا ...........''یہ ہے کو ن ؟ تمہاری کیا لگتی ہے ؟''۔''اندر آجائو دوست ! باہر سردی ہے''.......... ایک آدمی نے فخر سے کہا ...........''تلوار نیام میں ڈال لو ۔ ہم تاجر ہیں ۔ ہم سے آپ کو کیاخطرہ ۔ آئو۔ اس لڑکی کی بپتا سن لو''....... اس نے آہ بھر کر کہا ..........''میں آ پ کے سلطان کو مردِ مومن سمجھتا تھا مگر ایک خوبصورت لڑکی دیکھ کر وہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ وہ باقی چھ لڑکیوں کا بھی یہی حشر کر رہا ہوگا''۔''ان کا یہ حشر دوسرے سالاروں نے کیا ہے''............. .. موبی نے کہا ........''شام کو ان بے چاریوں کو اپنے خیمے میں لے گئے تھے اور انہیں بے سُدھ کر کے خیمے میں ڈال دیا ۔ وہ خیمے میں بے ہوش پڑی ہیں''۔ فخرالمصری تلوار نیام میں ڈال کر ان کے ساتھ خیمے میں چلا گیا ۔ اندر جا کر بیٹھے تو آدمی نے آگ جلا کر قہوے کے لیے پانی رکھا اور مس میں جانے کیا کچھ ڈالتا رہا ۔ دسرے آدمی نے فخر سے پوچھا کہ اس کا رُتبہ کیا ہے ۔ اس نے بتایا کہ وہ کمان دار اور عہدے دارہے ۔انہوں نے اس کے ساتھ بہت سی باتیں کیں جن سے انہوں نے اندازہ کر لیا کہ یہ شخص عام قسم کا سپاہی نہیں اور ذمہ دار فرد ہے ۔ ذہین اور دلیر بھی ہے ۔ ان لوگوں میں سے ایک نے (کرسٹوفر تھا) فخر کو سات لڑکیوں کی بالکل وہی کہانی سنائی جو انہوں نے صلاح الدین ایوبی کو سنائی تھی ۔ انہوں نے فخر کو یہ بھی بتایا کہ سلطان ایوبی نے من کے متعلق کیا کہا تھا ۔ ان لڑکیوں نے سلطان کو پیشکش بھی کی تھی کہ وہ اپنے گھروں کو تو واپس نہیں جا سکتیں اور عیسائیوں کے پاس بھی نہیں جانا چاہتیں ، اس لیے وہ مسلمان ہونے کو تیار ہیں ، بشرطیکہ کوئی اچھے رتبوں والے عسکری اُن کے ساتھ شادی کر لیں ۔ ہم نے سنا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کردار کے لحاظ سے پتھر ہے ۔ ہم ہر روز سفر پر رہنے والے تاجر ہیں ، انہیں کہاں ساتھ لیے لیے پھرتے ۔ اُنہیں سلطان کے حوالے کر دیا گیا ، مگر سلطان نے اس لڑکی کے ساتھ جو سلوک کیا ، وہ اس کی زبانی سن لو
فخر المصری نے لڑکی کی طرف دیکھا تو لڑکی نے کہا ……''ہم بہت خوش تھیں کہ خدا نے ہمیں ایک فرشتے کی پناہ دی ہے ۔ سورج غروب ہونے کے بعد سلطان کا ایک محافظ آیا اور مجھے کہا کہ سلطان بلارہا ہے ۔ میں باقی چھ لڑکیوں کی نسبت ذرا زیادہ خوبصورت ہوں ۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ تمہارا ایوبی بُری نیت سے بلا رہا ہے ، میں چلی گئی ۔ سلطان ایوبی نے شراب کی صراحی کھولی ۔ ایک پیالہ اپنے آگے رکھا اور ایک مجھے دیا ۔ میں عیسائی ہوں ، شراب سو بار پی ہے ۔ بحری جہاز میں عیسائی کمان داروں نے میرے جسم کو کھلونہ بنائے رکھا ہے ۔ صلاح الدین ایوبی بھی میرے جسم کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا۔ اب اور مرد میرے لیے کوئی نئی چیزیں نہیں تھیں، لیکن ایوبی کو میں فرشتہ سمجھتی تھی ۔ میں اس کے جسم کو اپنے ناپاک جسم سے دور رکھنا چاہتی تھی ، مگر وہ ان عیسائیوں سے بدتر نکلا، جو مجھے بحری جہاز میں لائے تھے اور جب اُن کا جہاز ڈوبنے لگا تو انہوں نے ہمیں ایک کشتی میں ڈال کر سمندر میں اُتار دیا ۔ ان میں سے کسی نے ہمارا ساتھ نہ دیا۔ ہمارے جسم چچوڑے ہوئے اور ہڈیاں چٹخی ہوئی تھیں ……''خدانے ہمیں بچالیا اور اس آدمی کی پناہ میں پھینک دیا جو فرشتے کے روپ میں درندہ ہے ۔ مجھے سلطان نے ہی بتایاتھا کہ میرے ساتھ کی باقی چھ لڑکیاں اس کے سالاروں کے خیموں میں ہیں ۔ میں نیت سلطان کے پائوں پکڑ کر کہا کہ میرے ساتھ شادی کرلو۔ اس نے کہا اگر تم مجھے پسند کرتی ہوتو شادی کے بغیر تمہیں اپنے حرم میں رکھ لوں گا…اس نے میرے ساتھ وحشیوں کا برتائو کیا ۔ شراب میں بد مست تھا۔ اس نے مجھے اپنے ساتھ لٹالیا، جوں ہی اس کی آنکھ لگی ۔ میں وہاں سے بھاگ آئی ۔ اگر میری بات کا اعتبار نہ آئے تو زس کے محافظوں سے پوچھ لو''۔ اس دوران ایک آدمی نے فخر کو قہوہ پلایا۔ ذراسی دیر بعد فخر کا مزاج بدلنے لگا۔ اس نے نفرت سے قہقہہ لگایا اور کہا…''ہمیں حکم دیتے ہیں کہ عورت اور شراب سے دور رہو اور خود شراب پی کر راتیں عورتوں کے ساتھ گزارتے ہیں''۔ فخر محسوس ہی نہ کر سکا کہ لڑکی کی کہانی محض بے بنیاد ہے اور نہ ہی وہ محسوس کر سکا کہ اس کا مزائج کیوں بدل گیاہے۔اُسے حشیش پلادی گئی تھی ۔ اس پر ایسا نشہ طاری ہوچکاتھا جسے وہ نشہ نہیں سمجھتا تھا۔ وہ اب اپنے تصوروں میں بادشاہ بن چکاتھا۔ لڑکی کے چہرے پر مشعل کے شعلے کی روشنی ناچ رہی تھی ۔ اس کے بکھرے ہوئے سیاہی مائہل بھورے بال چمک رہے تھے ۔وہ فخر کو پہلے سے زیادہ حسین نظر آنے لگی ۔ اس نے بے تاب ہوکر کہا……''تم اگر چاہوتو میں تمہیں'پناہ میں لیتاہوں''۔''نہیں''…لڑکی ڈر کر پیچھے ہٹ گئی اور بولی …''تم بھی میرے ساتھ اپنے سلطان جیسا سلوک کرو گے۔ تم مجھے اپنے خیمے میں لے جائوگے اور میں ایک بار پھر تمہارے سلطان کے قبضے میں آجائوں گی''۔''ہم تو اب دوسری چھ لڑکیوں کو بھی بچانے کی سوچ رہے ہیں''……ایک تاجر نے کہا……''ہم ان کی عزت بچانا چاہتے تھے مگر ہم سے بھول ہوئی''۔ فخر المصری کی نگاہیں لڑکی پر جمی ہوئی تھیں۔ اس نے اتنی خوب صورت لڑکی کبھی نہیں دیکھی تھی ۔خیمے میں خاموشی طاری ہوگئی ، جسے کرسٹو فرنے توڑا ۔ اس نے کہا۔''تم عرب سے آئے ہویا مصری ہو؟''''مصری''……فخرنے کہا……''میں دو جنگیں لڑچکاہوں۔اسی لیے مجھے یہ عہدہ دیاگیاہے ۔''''سوڈانی فوج کہاں ہے ، جس کا سالارناجی ہے؟''……کرسٹوفر نے پوچھا۔''اُس فوج کا ایک سپاہی بھی ہمارے ساتھ نہیں آیا''……فخر نے جواب دیا۔''جانتے ہو ایسا کیوں ہواہے ؟……کرسٹو فرنے کہا ……''سوڈانیوں نے صلاح الدین ایوبی کی امارات اور کمان کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ فوج اپنے آپ کو آزاد سمجھتی ہے ۔ناجی نے سلطان ایوبی کو بتادیاتھا کہ وہ مصر سے چلے جائیں ، کیونکہ وہ غیر ملکی ہیں ۔اسی لیے ایوبی نے مصریوں کی فوج بنائی اور لڑانے کے لیے یہاں لے آیا۔ اس نے تم لوگوں کو شرافت اور نیکی کا جھانسہ دیا اور خود عیش کررہاہے ۔ کیا تمہیں مالِ غنیمت ملاہے ؟……اگر تمہیں ملا بھی تو سونے چاندی کے دو دو ٹکڑے مل جائیں گے ۔ صلیبیوں کے جہازوں سے بے بہا خزانہ سلطان ایوبی کے ہاتھ آیاہے ۔ وہ سب رات کے اندھیرے میں سینکڑوں اونٹوں پر لاد کر قاہراہ روانہ کردیاگیاہے ، جہاں سے دمشق اور بغداد چلاجائے لگا۔سوڈانی لشکر کو سلطان نہتہ کر کے غلاموں میں بدل دینا چاہتا ہے ،پھر عرب سے فوج آجائے گی اور تم مصری بھی غلام ہوجائوگے.
اس عیسائی کی ہر ایک بات فخر المصری کے دل میں اُتر تی جارہی تھی ۔ اثر باتو ں کا نہیں ، بلکہ موبی کے حسن اور حشیش کا تھا۔ عیسائیوں نے یہ حربہ حسنِ بن صباح کے حشیشین سے سیکھا تھا۔موبی کو بالکل توقع نہیں تھی کہ یہ صورتِ حال پیدا ہوجائے گی کہ ایک مصری اس کے تعاقب میں اس کے دام میں آجائے گا۔انہیں معلوم ہوگیا کہ فخر مصر کی زبان کے سوا اور کوئی زبان نہیں جانتا ۔موبی نے اپنے پانچوں ساتھیوں کو سنانا شروع کردیا کہ رابن زخمی ہونے کا بہانہ کرکے زخمیوں کے خیمے میں پڑا ہے اور اس نے کہا ہے کہ ناجی سے مل کر معلوم کروکہ اس نے بغاوت کیوں نہیں کی یا اس نے عقب سے صلاح الدین ایوبی پر حملہ کیوں نہیں کیا اور یہ بھی معلوم کرو کہ اس نے ہمیں دھوکہ تو نہیں دیا؟ وہ باتیں کررہی تھی تو فخر نے پوچھا ……''یہ کیا کہہ رہی ہے ؟'' ''یہ کہہ رہی ہے ''……ایک نے جواب دیا……''اگر یہ شخص یعنی تم صلاح الدین کی فوج میں نہ ہوتے تو یہ تمہارے ساتھ شادی کرلیتی ۔یہ مسلمان ہونے کو بھی تیار ہے ،لیکن کہتی ہے کہ اسے اب مسلمانوں پر بھروسہ نہیں رہا''۔ فخر نے بے تابی سے لپک کر لڑکی کو بازو سے پکڑا اور اپنی طرف گھسیٹ کر کہا ''اگر میں بادشاہ ہوتا تو خدا کی قسم تمہاری خاطر تخت اور تاج قربان کردیا ۔اگر شرط یہی ہے کہ میں صلاح الدین ایوبی کی دی ہوئی تلوار پھینک دوں تو یہ لو'' ……اس نے کمر بند سے تلوار کھولی اور نیام سمیت لڑکی کے قدموں میں رکھ دی ۔ کہا ……''میں اب سے ایوبی کا سپاہی اور کمان دار نہیں ہوں ''۔ ''مگر ایک شرط اور بھی ہے ''……لڑکی نے کہا ……''میں اپنا مذہب تمہاری خاطر ترک کردیتی ہوں ، لیکن صلاح الدین ایوبی سے انتقام ضرور لوں گی ''۔ ''کیا اسے میرے ہاتھ سے قتل کرانا چاہتی ہو؟''فخر نے پوچھا ۔ لڑکی نے اپنے آدمیوں کی طرف دیکھا ۔ سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ آخر کرسٹوفر نے کہا……''ایک صلاح الدین ایوبی نہ رہا تو کیا فرق پڑے گا؟ایک اور سلطان آجائے گا۔ وہ بھی ایساہی ہوگا ۔ مصریوں کو آخر غلام ہی ہونا پڑے گا۔ تم ایک کام کرو۔ سوڈانیوں کے سالارناجی کے پاس پہنچو اور یہ لڑکی اس کے سامنے کر کے اسے بتائو کہ سلطان صلاح الدین ایوبی اصل میں کیا ہے اور اس کے ارادے کیا ہیں ؟'' ان لوگوں کویہ تو علم تھا کہ ناجی کا صلیبیوں کے ساتھ رابطہ ہے اور موبی اس کے ساتھ بات کرے گی ، لیکین انہیں یہ علم نہیں تھا کہ ناجی اور اس کے معتمد سالار خفیہ طریقے سے مروائے جاچکے ہیں ۔ اس تک لڑکی کوہی جانا تھا۔ اس کا اکیلے جانا ممکن نہیں تھا۔ اتفاق سے انہیں فخر المصری مل گیا۔ لہٰذا اسی کو استعمال کرنے کا فیصلہ ہوگیا۔ یہ آدمی چونکہ سلطان ایوبی کی نظر میں آگئے تھے ، اس لیے بھی اس کی نظر میں رہنا چاہتے تھے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے موبی سے سن لیاتھا کہ ان کے شعبہ جاسوسی اور تخریب کاری کا سربراہ رابن اسی کیمپ میں ھے اور فرار ہوگا، اس لیے وہ اسے مدد دینے کے لیے بھی وہاں موجود رہنا چاہتے تھے ۔ان کے ارادے معلوم نہیں کیا تھے ۔ صلاح الدین ایوبی پر چلایا ہوا اِن کاتیر خطا گیا تو انہیں سلطان ایوبی کے سامنے لے جایا گیا تھا۔ ان کا بہروپ اور ڈرامہ کا میاب رہا، لیکن ان کا مشن تباہ ہوگیا تھا۔ لہٰذا اب وہ بدلی ہوئی صورتِ حال اور اتفاقات سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کررہے تھے ۔ فخر المصری حسن اور حشیش کے جال میں آگیا تھا۔ اس نے واپس کیمپ میں نہ جانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
اسکو یہ مشورہ دیاگیا کہ وہ لڑکی کولے کر روانہ ہوجائے ، اُن لوگوں نے اسے اپنا ایک اونٹ دے دیا۔ پانی کا ایک مشکیزہ دیا اور تھیلے میں کھاتے کا بہت ساراسامان ڈال دیا۔ ان اشیاء میں کچھ ایسی تھیں جن میں حشیش ملی ہوئی تھی ۔ موبی کو ان کا علم تھا۔ فخر کو ایک لمبا چغہ اور تاجرروں والی دستار پہنادی گئی ۔ لڑکی اونٹ پر سوار ہوئی ۔ اس کے پیچھے فخر سوار ہوگیا اور اونٹ چل پڑا ۔ فخر گرد و پیش سے بے خبر تھا اور وہ اپنے ماضی سے بھی بے خبر ہوگیاتھا۔صرف یہ احساس اس پر غالب تھا کہ روئے زمین کی حسین ترین لڑکی اس کے قبضے میں ہے ، جس نے سلطان کو ٹھکرا کر اسے پسند کیا ہے ۔ فخر نے موبی کو دونوں بازوئوں میں لے کر اس کی پیٹھ اپنے سینے سے لگالی ۔ موبی نے کہا……''تم عیسائی کمان داروں اور اپنے سلطان کی طرح وحشی تو نہیں بنوگے ؟میں تمہاری ملکیت ہوں ۔ جو چاہو کرو، مگر میں پھر تم سے نفرت کروں گی ''۔ ''کہو تو میں اونٹ سے اُتر جاتاہوں ''۔ فخر نے اسے اپنے بازوئوں سے نکال کر کہا……''مجھے صرف یہ بتادو کہ تم مجھے دل سے چاہتی ہو یا محض مجبوری کے عالم میں میری پناہ لی ہے ؟'' ''پناہ تو میں ان تاجروں کی بھی لے سکتی تھی ''۔موبی نے جواب دیا……''لیکن تم مجھے اتنے اچھے لگے کہ تمہاری خاطر مذہب تک چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا''……اس نے جذباتی باتیں کرکے فخر کے اعصاب پر قبضہ کر لیا اور رات گزرتی چلی گئی ۔ سفر کم و بیش پانچ دینوں کا تھا، لیکن فخر المصری عام راستوں سے ہٹ کر جارہاتھا، کیونکہ وہ بھگوڑا فوجی تھا۔ موبی کو نیند آنے لیگی ۔ اس نے سر یچھے فخر کے سینے پر رکھ دیا اور گہری نیند سوگئی ۔اونٹ چلتارہا، فخر جاگتارہا۔
صلاح الدین ایوبی صبح کی نماز پڑھ کر فارغ ہواہی تھا کہ دربان نے اطلاع دی کہ علی بن سفیان آیاہے ۔ سلطان دوڑ کر باہر نکلا۔ اس کے منہ سے علی بن سفیان کے سلام کے جواب سے پہلے یہ الفاظ نکلے ……''اُدھر کی کیا خبر ہے ؟''
''ابھی تک خیریت ہے ''……علی بن سفیان نے جواب دیا ……''مگر سوڈانی لشکر میں بے اطمینانی بڑھتی جارہی ہے ۔میں نے اس لشکر میں اپنے جو مخبر چھوڑے تھے ، ان کی اطلاعوں سے پتہ چلتاہے کہ ان کے ایک بھی کماندار نے قیادت سنبھال لی تو بغاوت ہوجائے گی ۔'' صلاح الدین ایوبی اسے اپنے خیمے میں لے گیا۔علی بن سفیان کہہ رہاتھا……''ناجی اور اس کے سرکردہ سالاروں کو تو ہم نے ختم کردیا ہے ، لیکن وہ مصری فوج کے خلاف سوڈانیوں میں نفرت کا جوزہر پھیلا گئے تھے ، اس کا اثر ذرہ بھر کم نہیں ہوا۔ ان کی بے اطمینانی کی دوسری وجہ اُن کے سالاروں کی گمشدگی ہے ۔ میں نے اپنے مخبروں کی زبانی یہ خبر مشہور کرادی ہے کہ اُن کے سالار بحیرۂ روم کے محاذ پر گئے ہوئے ہیں ، مگر امیرِ محترم !مجھے شک ہوتاہے کہ سوڈانیوں میں شکوک اور شبہات پائے جاتے ہیں ۔ جیسے انہیں علم ہوگیاہے کہ ان کے سالاروں کو قید کرلیاگیاہے اور مار بھی دیاگیاہے ''۔ ''اگر بغاوت ہوگئی تو مصر میں ہمارے جو دستے ہیں ، وہ اسے دباسکیں گے؟''۔صلاح الدین ایوبی نے پوچھا……''کیا وہ پچاس ہزار تجربہ کار فوج کا مقابلہ کر سکیں گے ؟……مجھے شک ہے ''۔ ''مجھے یقین ہے کہ ہماری قلیل فوج سوڈانیوں کا مقابلہ نہیں کر سکے گی ''۔علی بن سفیان نے کہا……''میں اس کا بندوبست کر آیاہوں ۔میں نے عالی مقام نور الدین زنگی کی طرف دو تیز رفتار قاصد بھیج دئیے ہیں ۔ میں نے پیغام بھیجا ہے کہ مصر میں بغاوت کی فضا پیدا ہورہی ہے اور ہم نے جو فوج تیار کی ہے ، وہ تھوڑی ہے اور اس میں سے آدھی فوج محاذ پر ہے ۔ متوقعہ بغاوت کو دبانے کے لیے ہمیں کمک بھیجی جائے ''۔ ''مجھے اُدھر سے کمک کی اُمید کم ہے ''۔سلطان ایوبی نے کہا……''پر سوں ایک قاصد یہ خبر لایاتھا کہ زنگی نے فرینکوں پر حملہ کردیا تھا۔ یہ حملہ انہوں نے ہماری مدد کے لیے کیا تھا۔ فرینکوں کے اُمراء اور فوجی قائدین بحیرۂ روم میں صلیبیوں کے اتحادی بیڑے میں تھے اور فرینکوں کی کچھ فوج مصر میں داخل ہوکر عقب سے حملہ کرنے اور ہمارے سوڈانی لشکر کی پشت پناہی کے لیے مصر کی سرحد پر آگئی تھی ۔ محترم زنگی نے ان کے ملک پر حملہ کر کے اُن کے سارے منصوبے کو ایک ہی وار میں برباد کردیاہے اور شاہ فرینک کے بہت سے علاقے پر قبضہ کرلیا ہے ۔ انہوں نے صلیبیوں سے کچھ رقم بھی وصول کی ہے ''۔ صلاح الدین ایوبی خیمے کے اندر ٹہلنے لگا۔ جژباتی لیجے میں بولا……''سلطان زنگی کے قاصد کی زبانی وہاں کے کچھ ایسے حالات معلوم ہوئے ہیں جنہوں نے مجھے پریشان کررکھا ہے ''۔ ''کیا اب صلیبی اُدھر یلغار کریں گے ؟''علی بن سفیان نے پوچھا ۔
''مجھے صلیبیوں کی یلغار کی ذرہ بھر پروا نہیں ''۔ سلطان ایوبی نے جواب دیا……''پریشانی یہ ہے کہ کفار کی یلغار کو روکنے والے شراب کے مٹکوں میں ڈوب گئے ہیں ۔اسلام کے قلعے کے پاسبان حرم میں قید ہوگئے ہیں۔عورت کی زلفوں نے انہیں پابہ زنجیر کردیاہے ۔ علی !چچا اسد الدین شیر کوہ کو اسلام کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔ کاش وہ آج زندہ ہوتے ۔ میدانِ جنگ میں مجھے وہی لائے تھے ۔ ہم نے دستے کی کمان کی ہے ۔ میں اُن کے ساتھ صلیبیوں محاصرے میں تین مہینے رہاہوں ۔ مجھے شیر کوہ ہمیشہ سبق دیا کرتے تھے کہ گھبراہٹ اور خوف سے بچنا۔ تائید ایزدی اور رضائے الٰہی کا قائل رہنا اور اسلام کا علم بلند رکھنا ۔ میں شیر کوہ کی کمان میں مصریوں اور صلیبیوں کی مشترک فوج کے خلاف بھی لڑاہوں ۔ سکندر یہ میں محاصرے میں رہاہوں ۔شکست میرے سر پر آگئی تھی ۔ میرے مٹھی بھر عسکری بددِل ہوتے جارہے تھے ۔ میں نے کس طرح اُن کے حوصلے اور جذبے تروتازہ رکھے ؟یہ میراخداہی بہتر جانتا ہے ۔ تاآنکہ چچا شیر کوہ نے حملہ آور ہوکر محاصرہ توڑا……تم یہ کہانی اچھی طرح جانتے ہو۔ ایمان فروشوں نے کفار کے ساتھ مل کر ہمارے لیے کیسے کیسے طوفان کھڑے کیے ، مگر میں گھبرایا نہیں ۔ دِل نہیں چھوڑا''۔ ''مجھے سب کچھ یاد ہے سلطان !''……علی بن سفیان نے کہا……''اس قدر معرکہ آرائیوں اور قتل و غارت کے بعد توقع تھی کہ مصری راہِ راست پر آجائیں گے ، مگر ایک غدار مرتاہے تو ایک اور اس کی جگہ لے لیتا ہے ۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ غدار کمزور خلافت کی پیداوار ہوتے ہیں ۔ اگر فاطمی خلافت حرم میں گم نہ ہوجاتی تو آج آپ صلیبیوں سے یورپ میں لڑرہے ہوتے ، مگر ہمارے غدار بھائی انہیں سلطنتِ اسلامیہ سے باہرنہیں جانے دے رہے ۔ جب بادشاہ عیش و عشرت میں پڑجائیں تو رعایا میں سے بھی کچھ لوگ بادشاہی کے خواب دیکھنے لگتے ہیں ۔ وہ کفار کی طاقت اور مدد حاصل کرتے ہیں ۔ ایمان فروشی میں وہ اس قدر اندھے ہوجاتے ہیں کہ کفار کے عزائم اور اپی بیٹیوں کی عصمتوں تک کو بھلادیتے ہیں ''۔ '' مجھے ہمیشہ انہی لوگوں سے ڈرآتاہے ''۔ صلاح الدین ایوبی نے کہا۔''اللہ نہ کرے ، اسلام کانام جب بھی ڈوبا مسلمانوں کے ہاتھوں سے ڈوبے گا۔ ہماری تاریخ غداروں کی تاریخ بنتی جارہی ہے ۔ یہ رجحان بتارہاہے کہ ایک روزمسلمان جو برائے نام مسلمان ہوں گے ، اپنی سرزمین کفار کے حوالے کردیں گے ۔ اگر اسلام کہیں زندہ رہاتو وہاں مسجدیں کم اور قحبہ خانے زیادہ ہوں گے ۔ ہماری بیٹیاں صلیبیوں کی طرح بال کھلے چھوڑ کر بے حیا ہوجائیں گی ۔ کفار انہیں اسی راستے پر ڈال رہے ہیں ،بلکہ ڈال چکے ہیں ……اب مصر سے پھر وہی طوفان اُٹھ رہاہے ۔ علی !تم اپنے محکمے کو اور مضبوط اور وسیع کرلو۔ میں نے اپنے رفیقوں سے کہہ دیاہے کہ دشمن کے علاقوں میں جاکر شبخون مارنے اور خبریں لانے کے لیے تنو مند اور ذہین جوانوں کا انتخاب کرو۔ صلیبی اس محاذ کو مضبوط اور پُر اثر بنارہے ہیں ، تم فوری طور پر جاسوسی کرو، جنگ کی تیاری کرو……فوری طور پر کرنے والا کام یہ ہے کہ سمندرسے کئی ایک صلیبی بچ کر نکلے ہیں۔ ان میں زیادہ تر زخمی ہیں اور جو زخمی نہیں ، وہ کئی کئی دِن سمندر میں ڈوبنے اور تیر نے کی وجہ سے زخمیوں سے بد تر ہیں ۔ ان سب کا علاج معالجہ ہورہاہے ۔میں نے سب کو دیکھا ہے ، تم بھی انہیں دیکھ لو اور اپنی ضرورت کے مطابق ان سے معلومات حاصل کرو''۔
سلطان ایوبی نے دربان کو بلا کرنا شتے کے لیے کہا اور علی بن سفیان سے کہا……''کل کچھ زخمی اور کچھ بھلی لڑکیاں میرے سامنے لائی گئی تھیں ۔ چھ تو سمندر سے نکلے ہوئے قیدی ہیں ۔ ان میں ایک پر مجھے شک ہے کہ وہ سپاہی نہیں ۔رتبے اور عہدے والا آدمی ہے ۔ سب سے پہلے اسے ملو، پانچ تاجر سات عیسائی لڑکیوں کو ساتھ لائے تھے''……اس نے علی بن سفیان کو لڑکیوں کے متعلق وہی کچھ بتایا جو تاجروں نے بتایاتھا۔ سلطان ایوبی نے کہا……''میں نے لڑکیوں کو دراصل حراست میں لیا ہے ، لیکن انہیں بتایا ہے کہ میں انہیں پناہ میں لے رہاہوں۔لڑکیوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ غریب گھرانوں کی لڑکیاہیں اور پھر ان کا یہ بیان کہ انہیں ایک جلتے ہوئے جہاز میں سے کشتی میں بٹھا کر سمندر میں اُتارا گیا اور کشتی انہیں ساحل پر لے آئی ۔ مجھے شکوک میں ڈال رہاہے ۔ میں نے انہیں الگ خیمے میں رکھا ہے اور سنتری کھڑا کر دیاہے ۔ تم ناشتے کے فوراً بعد اس قیدی اور ان لڑکیوں کو دیکھو''۔
آ خر میں صلاح الدین ایوبی نے مُسکراکر کہا……''کل دِن کے وقت ساحل پر ٹہلتے ہوئے مجھ پر ایک تیر چلایا گیاتھا، جو میرے پائوں کے درمیان ریت میں لگا''……اس نے تیر علی بن سفیان کو دے کر کہا ……''علا قہ چٹانی تھا۔ محافظ تلاش اور تعاقب کے لیے بہت دوڑے ، مگر انہیں کوئی تیر انداز نظر نہیں آیا۔ اس علاقے سے انہیں یہ پانچ تاجر ملے ، جنہیں محافظ میرے پاس لے آئے ۔ انہوں نے یہ سات لڑکیا بھی میرے حوالے کیں اور چلے گئے ''۔
''اور وہ چلے گئے ؟''علی بن سفیان نے حیرت سے کہا……''آپ نے انہیں جانے کی اجازت دے دی ؟''
''محافظون نے ان کے سامان کی تلاشی لی تھی ''… سلطان ایوبی نے کہا……''اُن سے ایسی کوئی چیز برآمد نہیں ہوئی جس سے اُن پر شک ہوتا''۔
علی بن سفیان تیر کو غور سے دیکھتا رہا اور بولا……''سلطان اور سراغ رساں کی نظر میں بڑا فرق ہو تاہے ۔ میں سب سے پہلے ان تاجروں کو پکڑنے کی کوشش کروں گا''۔
علی بن سفیان صلاح الدین ایوبی کے خیمے سے باہر نکلا تو دربان نے اسے کہا ……''یہ کمان دار اطلاع لایا ہے کہ کل سات عیسائی لڑکیاں قید میں آئی تھیں ۔اُن میں سے ایک لاپتہ ہے ۔کیا سلطان کو یہ اطلاع دینا ضروری ہے ؟۔یہ کوئی اہم واقعہ تو نہیں کہ سلطان کو پریشان کیا جائے ''۔
جاری ھے.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں