داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر- 9 - اردو ناول

Breaking

جمعرات, مارچ 28, 2019

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر- 9

داستان ایمان فروشوں کی

(دوسرا حصہ )

قسط نمبــــــــــــر 9

ساتویں لڑکی

بہت دیر انتظار کے بعد سنتری دوسرے زخمیوں کی طرف چلا گیا ۔ لڑکی ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چلتی خیمے تک پہنچ گئی اور پر دہ اُٹھا کر اندر چلی گئی ۔ اندر اندھیرا تھا ۔ دو تین زخمی آہستہ آہستہ کراہ رہے تھے ۔ شاید ان میں سے کسی نے خیمے کا پردہ اُٹھتا دیکھ لیا تھا ۔ اس نے نحیف آواز میں پوچھا.......... ''کون ہے ''...... لڑکی نے منہ سے ''شی '' کی لمبی آواز نکالی اورسرگوشی میں پوچھا .............. ''رابن کہاں ہے؟ ''........... اسے جواب ملا ........... ''اُدھر سے تیسرا''............... لڑکی نے تیسرے آدمی کے پائوں ہلائے تو آواز آئی ''کون ہے ''...... لڑکی نے جواب دیا ............ ''موبی '' ۔

رابن اُٹھ بیٹھا ۔ ہاتھ لمبا کر کے لڑکی کو بازو سے پکڑا اور اسے اپنے بستر میں گھسیٹ لیا ۔ اسے اپنے پاس لٹا کر اوپر کمبل ڈال دیا ۔ بولا ..........'' سنتری نہ آجائے ، میرے ساتھ لگی رہو ''........... اس نے لڑکی کو اپنے ساتھ لگا لیا اور کہا ............ '' میں اس اتفاق پر حیران ہو رہا ہوں کہ ہماری ملاقات ہو گئی ہے ۔ یہ ایک معجزہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدائے یسوع مسیح کو ہماری کامیابی منظور ہے ۔ ہم نے بہت بُری شکست کھائی ہے ، لیکن یہ سب دھوکا تھا ''........... یہ وہی زخمی قیدی تھا جو دوسروں سے الگ تھلگ اور چہرے مہرے سے جسم جثّے سے معمولی سپاہی نہیں بلکہ اعلیٰ رتبے کا لگتا تھا ۔ صلاح الدین ایوبی نے بھی کہا تھا کہ یہ کوئی معمولی سپاہی نہیں ، اس پرنظر رکھنا ، علی بن سفیان اس سے تفتیش اور تحقیقات کرے گا۔

'' کتنے زخمی ہو ؟'' لڑکی نے اس سے پوچھا ............ '' کوئی ہڈی تو نہیں ٹوٹی ؟''

'' میں بالکل ٹھیک ہوں '' ............. رابن نے جواب دیا ........... '' خراش تک نہیں آئی ۔ انہیں بتایا ہے کہ اندر کی چوٹیں ہیں اور سینے کے اندر شدید درد ہے ، لیکن میں بالکل تندرست ہوں ''۔

'' پھر یہاں کیوںآ گئے؟ '' ............. لڑکی نے پوچھا ۔

'' میں نے بہت کوشش کی کہ مصر میں داخل ہوجائوں اورسوڈانی لشکر تک پہنچ سکوں لیکن ہر طرف اسلامی فوج پھیلی ہوئی ہے ۔ کوئی راستہ نہیں ملا ۔ ان پانچ زخمیوں کو اکٹھا کیا اور ان کے ساتھ زخمی بن کریہاں آگیا ۔ اب فرار کی کوشش کروں گا جو ابھی ممکن نظر نہیں آتی ''.............. اس نے ذرا غصے سے کہا ..........'' مجھے دو سوالوں کا جواب دو ۔ ایوبی کو میں نے زندہ دیکھا ہے ، کیوں ؟ کیا تیر ختم ہوگئے تھے یا وہ حرام خور بزدل ہو گئے ہیں ؟اور دوسرا سوال یہ ہے کہ تم سات کی سات لڑکیاں مسلمانوں کی قید میں کیوں آگئیں ؟ کیا وہ پانچوں مر گئے ہیں یا بھاگ گئے ہیں ؟''

'' وہ زندہ ہیں رابن ! '' ........ موبی نے کہا .......'' تم کہتے ہو کہ خدائے یسوع مسیح کو ہماری کامیابی منظورہے لیکن میں کہتی ہوں کہ ہمارا خدا ہمیں کسی گناہ کی سزا دے رہا ہے ۔ صلاح الدین ایوبی اسے لیے زندہ ہے کہ تیر اس کے پائوں کے درمیان ریت میں لگا تھا '' ۔

'' کیا تیر کسی لڑکی نے چلایا تھا ؟'' .......... رابن نے پوچھا ............ '' کرسٹوفر کہا ں تھا؟''

'' اُسی نے تیر چلایا تھا مگر .........''

'' کرسٹوفر کا تیر خطا گیا ؟'' ............. رابن نے حیرت سے تڑپ کر پوچھا ........... '' وہ کرسٹوفر جس کی تیر اندازی نے شاہ آگسٹسن کو حیران کر دیا اور اس کی ذاتی تلوار انعام میں لی تھی ، یہاں آکر اس کا نشانہ اتنا چوک گیا کہ چھ فٹ لمبا اور تین فٹ چوڑا صلاح الدین ایوبی اس کے تیر سے بچ گیا؟ بد بخت کے ہاتھ ڈر سے کانپ گئے ہوںگے ''۔

'' فاصلہ زیادہ تھا '' ............ موبی نے کہا .......... '' اور کرسٹوفر کہتا تھا کہ تیر کمان سے نکلنے ہی لگا تھا کہ کھلی ہوئی آنکھ میں مچھر پڑ گیا۔ اسی حالت میں تیر نکل گیا ''۔

''پھر کیا ہوا ؟''

'' جو ہونا چاہیے تھا ''....... مو بی نے کہا ..........'' صلاح الدین ایوبی ساحل پر گیا تھا تو اس کے تین کمانڈر تھے اور چار محافظوںکا دستہ تھا۔ وہ ہر طرف پھیل گئے ۔ یہ تو ہماری خوش قسمتی تھی کہ علاقہ چٹانی تھا ، کرسٹوفر بچ کے نکل آیا اور پھر ہمیں اتنا وقت مل گیا کہ ترکش اور کمان ریت میں دبا کر اوپر اونٹ بٹھا دیا ۔ سپاہی آگئے تو کرسٹو فر نے انہیں بتایا کہ وہ پانچوں مراکش کے تاجر ہیں اور یہ لڑکیاں سمندر سے نکل کر ہماری پناہ میں آئی ہیں ۔ مسلمان سپاہیوں نے ہمارے سامان کی تلاشی لی ۔ انہیں تجارتی سامان کے سوا کچھ بھی نہ ملا ۔ وہ ہم سب کو سلطان ایوبی کے سامنے لے گئے ۔ ہم نے یہ ظاہر کیا کہ ہم سسلی زبان کے سوا اور کوئی زبان نہیں جانتیں ۔ کرسٹوفر نے ایوبی سے کہا کہ وہ ہماری زبان جانتا ہے ۔ ہم ساتوں لڑکیوں نے چہروں پر گھبراہٹ اور خوف پیدا کر لیا ''۔
موبی نے رابن کو وہ ساری باتیں سنائیں جو سلطان ایوبی کے ساتھ ہوئی تھیں ۔ یہ سات لڑکیاں اور پانچ آدمی جو مراکشی تاجروں کے بھیس میں تھے، حملے سے دو روز پہلے ساحل پر اُتر گئے تھے۔ پانچوں آدمی صلیبیوں کے تجربہ کار جاسوس اور کمانڈو تھے اور لڑکیاں بھی جاسوس تھیں۔ جاسوسی کے علاوہ ان کے ذمے یہ کام بھی تھا کہ مسلمان سالاروں کو اپنے جال میں پھانسیں ۔ وہ خوبصورت تو تھیں ہی ، انہیں جاسوسی اور ذہنوں کی تخریب کاری کی خاص ٹریننگ دی گئی تھی۔ اس ٹریننگ میں اداکاری خاص طور پر شامل تھی ۔ پانچ مردوں کا یہ مشن تھا کہ صلاح الدین ایوبی کو ختم کرنا اور ناجی کے ساتھ رابطہ رکھنا ۔ یہ لڑکیا ں مصر کی زبان روانی سے بول سکتی تھیں ، لیکن انہوں نے ظاہر نہیں ہونے دیا ۔ رابن اس شعبے کا سربراہ تھا ۔ اسے ناجی تک پہنچنا تھا ، مگر صلاح الدین ایوبی اور علی بن سفیان کی چال نے یہاں کے حالات کا رُخ ہی اُلٹا کر دیا ۔

''کیا تم صلاح الدین ایوبی کو جال میں نہیں پھانس سکتیں ؟''.........رابن نے پوچھا ۔

'' ابھی تو یہاں پہلی رات ہے '' ........... موبی نے کہا .............. '' اس نے ہمارے متعلق جو فیصلہ دیا ہے ، اگر وہ سچے دِل سے دیا ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ وہ مرد نہیں پتھر ہے ، اگر اُسے ہمارے ساتھ کوئی دلچسپی ہوتی تو کسی ایک لڑکی کو اپنے خیمے میں بلا لیتا .........اسے قتل کرنا بھی آسان نہیں ۔ وہ ایک ہی بار ساحل پر آیاتھا ، مگر تیر خطا گیا ۔ وہ سالاروں اور محافظوں کے نرغے میں رہتا ہے ۔ اِدھر ایک سنتری ہمارے سر پر کھڑا ہے اور محافظوں کے پور ے دستے نے صلاح الدین ایوبی کے خیمے کو گھیر رکھا ہے ''۔

''وہ پانچوں کہاں ہیں ؟'' ................ رابن نے پوچھا ۔

'' تھوڑی دور ہیں ؟''............. موبی نے جواب دیا ..............'' وہ ابھی یہیں رہیں گے ''۔

''سنو موبی !''.......... رابن نے کہا ............ '' اس شکست نے مجھے پاگل کر دیا ہے ۔ میرے ضمیر پر اتنا بوجھ آپڑا ہے ، جیسے اس شکست کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے ۔ صلیب پر ہاتھ رکھ کر حلف تو سب سے لیا گیا ہے، لیکن ایک سپاہی کے حلف میں اور میرے حلف میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ میرے رتبے کو سامنے رکھو۔ میرے فرائض کو دیکھو ۔ آدھی جنگ مجھے زمین کے نیچے اور پیٹھ کے پیچھے سے وار کر کے جیتنی تھی، مگر میں اور تم سا ت اور وہ پانچ اپنا فرض ادا نہیں کر سکے ۔ مجھ سے یہ صلیب جواب مانگ رہی ہے '' ........... اس نے گلے میں ڈالی ہوئی صلیب ہاتھ میں لے کہا ۔ ...... '' میں اسے اپنے سینے سے جدا نہیں کر سکتا '' ............ اس نے موبی کے سینے پر ہاتھ پھیر کر اس کی صلیب ہاتھ میں لے لی اور کہا ........... '' تم اپنے ماں باپ کو دھوکہ دے سکتی ہو ، اس صلیب سے آنکھیں نہیں چُرا سکتیں۔ اس نے جو فرض تمہیں سونپا ہے ، وہ پورا کرو۔ خدا نے تمہیں جو حُسن دیا ہے ، وہ چٹانوں کو پھاڑ کر تمہیں راستہ دے دے گا ۔ میں تمہیں پھر کہتا ہوں کہ ہماری اچانک اور غیر متوقع ملاقات اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے۔ ہمارے لشکر بحیرئہ روم کے اُس پار اکٹھے ہو رہے ہیں ۔ جو مرگئے ، سو مر گئے ، جو زندہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ شکست نہیں دھوکا تھا۔ تم اپنے خیمے میں واپس جائو اور ان لڑکیوں سے کہو کہ خیمے میں نہ پڑی رہیں ۔ با ر بار صلاح الدین ایوبی سے ملیں ۔ اس کے سالاروں سے ملیں ۔ بے تکلفی پیدا کریں۔ مسلمان ہونے کاجھانسہ دیں ۔ آگے وہ جانتی ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے ''۔

'' سب سے پہلے تو یہ معلوم کرنا ہے یہ ہوا کیا ہے ؟'' ............. موبی نے کہا .......... '' کیا سوڈانیوں نے ہمیں دھوکہ دیا ہے ؟'' ۔

'' میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا ''........... رابن نے کہا ....... '' میں نے حملے سے بہت پہلے مصر میں پھیلائے ہوئے اپنے جاسوسوں سے جو معلومات حاصل کیں تھیں ، وہ یہ ہیں کہ صلاح الدین ایوبی کو سوڈانیوں کے پچاس ہزار محافظ لشکر پر بھروسہ نہیں ، حالانکہ یہ مسلمانوں کے وائسرائے مصر کی اپنی فوج ہے۔ ایوبی نے آکر مصر ی فوج تیار کر لی ہے ۔ سوڈانی اس میں شامل نہیں ہونا چاہتے ۔ ان کے کمانڈر ناجی نے ہم سے مدد طلب کی تھی ۔ میں نے اس کا خط دیکھا تھا اور میں نے تصدیق کی تھی کہ یہ خط ناجی کا ہی ہے اور میں کوئی دھوکہ نہیں مگر ہمارے ساتھ تاریخ کا سب سے بڑا دھوکہ ہوا ہے ۔ مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ یہ کیسے ہوا ؟ کس نے کیا ؟ میں یہ چھان بین کیے بغیر واپس نہیں جا سکتا ۔ شاہ آگسٹسن نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ میں مسلمانوں کے گھروں کے اند ر کے بھید معلوم کر کے ان کی بنیادیں ہلا دوں گا ۔ اب تصور کرو موبی ! شہنشاہ کے دِل پر کیا گزر ہی ہوگی ۔ وہ مجھے سزائے موت سے کم کیا سزا دے گا ! صلیب کا قہر مجھ پر الگ نازل ہوگا ''۔

'' میں سب جانتی ہوں '' .......... موبی نے کہا ......... '' جذباتی باتیں نہ کرو ، عمل کی بات کرو ، مجھے بتائو میں کیا کروں ''۔

رابن کے اعصاب پر اپنا فرض اور شکست کا احساس اس حد تک غالب تھاکہ اسے یہ بھی احساس نہیں تھا کہ موبی جیسی دِل کش لڑکی جس کے ایک ایک نقش اور جسم کے انگ انگ میں شراب کا طلسم بھرا ہوا تھا ، اس کے سینے سے لگی ہوئی ہے اور اس کے ریشم جیسے ملائم اور لمبے بال اس کے آدھے چہرے کو ڈھانپے ہوئے ہیں ۔ رابن نے ان بالوں کے لمس کو ذرا سا محسوس کیا اور کہا ..........'' موبی ! تمہارے یہ بال ایسی مظبوط زنجیریں ہیں جو صلاح الدین ایوبی کے گرد لپٹ گئیں تو وہ تمہارا غلام ہو جائے گا ، لیکن تمہیں سب سے پہلا جو کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ کرسٹوفر اور اس کے ساتھیوں سے کہو کہ وہ تاجروں کے بھیس میںناجی کے پاس پہنچیں اور معلوم کریں کہ اس کے لشکر نے بغاوت کیوں نہیں کی اور یہ راز فاش کس طرح ہوا کہ اس سے فائدہ اُٹھا کر صلاح الدین ایوبی نے گنتی کے چند ایک دستے گھات میں بٹھا کر ہماری تین افواج کا بیڑہ غرق کر دیا اور انہیں یہ بھی کہو کہ معلوم کریں کہ ناجی صلاح الدین ایوبی سے ہی تو نہیں مل گیا ؟ اور ان نے ہمارا یہی حشر کرانے کیلئے ہی تو خط نہیں لکھا ؟ اگر ایسا ہی ہوا ہے تو ہمیں اپنے جنگی منصوبوں میں ردو بدل کرنا ہوگا ۔ مجھے یہ یقین ہو گیا ہے کہ اسلامیوں کی تعداد کتنی ہی تھوڑی کیوں نہ ہو ، انہیں ہم آسانی سے شکست نہیں دے سکتے ۔ ضروری ہو گیا ہے کہ ان کے حکمرانوں کااور عسکری قیادت کا جذبہ ختم کیا جائے ۔ ہم نے تم جیسی لڑکیاں عربوں کے حرموں میں داخل کر دی ہیں '' ۔

'' تم نے بات پھر لمبی کر دی ہے '' ............ موبی نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا ............. '' ہم اپنے گھر میں ایک بستر پر نہیں لیٹے ہوئے کہ بڑے مزے سے ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے رہیں ۔ ہم دشمن کے کیمپ میں قید اور پابند ہیں ۔ باہر سنتری پھر رہے ہیں ، رات گزر تی جا رہی ہے ۔ ہمارے پاس لمبی باتوں کا وقت نہیں ۔ ہمارا مشن تباہ ہو چکا ہے ۔ اب بتائو کہ ان حالات میں ہمارا مشن کیا ہونا چاہیے۔ ہم سات لڑکیاں اور چھ مرد ہیں ۔ ہم کیا کریں ۔ ایک یہ کہ ناجی کے پاس جائیں اور اس کے دھوکے کی چھان بین کریں ، پھر کسے اطلاع دیں ؟ تم کہاں ملو گے ؟'' ۔

'' میں یہاں سے فرار ہوجائوں گا '' ............ رابن نے کہا ............. '' لیکن فرار سے پہلے اس کیمپ ، اس کی نفری اور ایوبی کے آئندہ عزائم کے متعلق تفصیل معلوم کروں گا ۔ اس شخص کے متعلق ہمیں بہت چوکنا رہنا ہوگا ۔ اس وقت اسلامی قوم میں یہ واحد شخض ہے جو صلیب کیلئے خطرہ ہے ، ورنہ اسلامی خلافت ہمارے جال میں آتی چلی جا رہی ہے ۔ شاہ ایملرک کہتا تھا کہ مسلمان اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ اب ان کو ہمیشہ کیلئے اپنے پائوں میں بٹھانے کیلئے صرف ایک ہلے کی ضرورت ہے ، مگر اس کا یہ عزم محض خوش فہمی ثابت ہوا ۔ مجھے یہاں رہ کر ایوبی کی کمزور رگیں دیکھنی ہیں اور تمہیں پانچ آدمیوں کے ساتھ مل کر سوڈانی لشکر کو بھڑکانا اور بغاوت کرانی ہے ۔ نہایت ضروری یہ ہے کہ ایوبی زندہ نہ رہے ، اگر وہ زندہ رہے تو ہمارے اس قیدخانے میں زندہ رہے ، جہا ں وہ عمر کے آخری گھڑی تک سورج نہ دیکھ سکے اور رات کو آسمان کا اسے ایک بھی تارہ نظر نہ آئے .......... تم پہلے اپنے خیمے میں جائو اور اپنی چھ لڑکیوں کو ان کا کام سمجھا دو۔ انہیں خاص طور پر ذہن نشین کرادو کہ اُس آدمی کا نام علی بن سفیان ہے جسے اِن ریشمی بالوں، شربتی آنکھوں اور اتنے دلکش جسموں سے ایسے بیکار کرنا ہے کہ صلاح الدین ایوبی کے کام کا نہ رہے اور اگر ہو سکے تو اس کے اور صلاح الدین ایوبی کے درمیان ایسی غلط فہمی پیدا کرنی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں ۔ تم سب اچھی طرح جانتی ہو کہ دو مردوں میں غلط فہمی اور دشمنی کس طرح پیدا کی جاتی ہے .............. جائو اور لڑکیوں کو مکمل ہدایت دے کر کرسٹوفر کے پاس پہنچو ۔ اسے میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ تیرے تیر کو ایوبی پر آکر ہی خطا ہونا تھا ؟ اب اس گناہ کاکفارہ ادا کرو اور جو کام تمہیں سونپا گیا ہے ، وہ سو فیصد پور ا کرو '' ۔

رابن نے موبی کے بالوں کوچوم کر کہا ..........''تمہیں صلیب پر اپنی عزت بھی قربان کرنا پڑے گی ، لیکن خدائے یسوع مسیح کی نظروں میں تم مریم کی طرح کنواری رہو گی ۔ اسلام کو جڑ سے اُکھاڑنا ہے ۔ ہم نے یروشلم لے لیا ہے ۔ مصر بھی ہمارا ہوگا
موبی رابن کے بستر سے نکلی اور خیمے کے پردے کے پاس جا کر پردہ اُٹھایا ، باہر جھانکا ، اندھیرے میں اسے کچھ بھی نظر نہ آیا ۔ وہ باہر نکل گئی اور خیمے کی اوٹ سے دیکھا کہ سنتری کہاں ہے۔ اسے دور کسی کے گنگنانے کی آواز سنائی دی ۔ یہ سنتری ہی ہو سکتا تھا۔ موبی چل پڑی ۔ درختوں سے گزرتی قدم قدم پر پیچھے دیکھتی وہ ٹیلے تک پہنچ گئی اور اپنے خیمے کا رُخ کر لیا ۔ نصف راستہ طے کیاہوگا کہ اسے دو آدمیوں کی دبی دبی باتوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں ۔یہ آوازیں اس کے خیمے کے قریب معلوم ہوتی تھیں ۔ اسے یہ خطرہ نظر آنے لگا کہ سنتری نے معلوم کر لیا ہے کہ ایک لڑکی غائب ہے اور وہ کسی دوسرے سنتری یا اپنے کمانڈر کو بلا لایاہے۔ اس نے سوچا کہ خیمے میں جانے کی بجائے ان پانچ ساتھیوں کے پاس چلی جائے جو مراکشی تاجر وں کے بھیس میں کوئی ڈیڑھ ایک میل دور خیمہ زن تھے مگر اسے یہ خیال بھی آگیاکہ اس کی کی گمشدگی سے باقی لڑکیوں پر مصیبت آجائے گی ۔ وہ تھیں تو پوری چالاک ، پھر بھی ان پر پابندیاں سخت ہونے کاخطرہ تھا اور کوئی چارہ کار بھی نہ تھا ۔ موبی ذرا اور آگے چلی گئی تا کہ ان دو آدمیوں کی باتیں سن سکے۔ ان کی زبان وہ سمجھتی تھی ۔ یہ تو اس نے دھوکو دیا تھا کہ وہ سسلی کی زبان کے سوااورکوئی زبان نہیں سمجھتی

''

وہ آدمی خاموش ہوگئے ۔ موبی دبے پائوں آگے بڑھی۔ اسے بائیں طرف قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ اس نے چونک کر دیکھا ۔ درختوں کے درمیان اسے ایک سیاہ سایہ جو کسی انسان کاتھا ، جاتا نظر آیا ۔ اس نے رخ بدل لیا اورٹیلے کی طرف آنے لگا ۔ موبی کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی تھی ۔ وہ ٹیلے پر چڑھنے لگی۔ ٹیلا اونچا نہیں تھا ۔ فورا ہی اوپرچلی گئی ۔ وہ تھی تو بہت ہوشیار ، لیکن ہر انسان، ہر قدم پر پوری احتیاط نہیں کر سکتا ۔ وہ ٹیلے کی چوٹی پر کھڑی ہوگئی۔ اس کے پس منظر میں ستاروں سے بھرا ہوا آسمان تھا ۔ سمندر اور صحرا کی فضا رات کو آئینے کی طرح شفاف ہوتی ہے ۔ درختوں میں جاتے ہوئے آدمی نے ٹیلے کی چوٹی پر ٹنڈ منڈ درخت کے تنے کی طرح کا ایک سایہ دیکھا ۔ موبی نے پہلو اس آدمی کی طرف کردیا ۔ اس کے بل کھلے ہوئے تھے ، جنہیں اس نے ہاتھ سے پیچھے کیا۔ اس کی ناک ، سینے کا ابھار اور لمبا لبادہ تاریکی میں بھی راز کو فاش کرنے لگا ۔ یہ آدمی سنتریوں کا کماندار تھا ۔ وہ آدھی رات کے وقت کیمپ کے گشت پر نکلا اور سنتریوں کو دیکھتا پھر رہا تھا ۔ یہ سنتریوں کی تبدیلی کا وقت تھا ۔ کماندار اس لیے زیادہ چوکس تھا کہ سلطان ایوبی تین سالاروں کے ساتھ کیمپ میں موجود تھا ۔ سلطان ڈسپلن کا بڑا ہی سخت تھا ۔ ہر کسی کو ہر لمحہ خطرہ لگا رہتا تھا کہ سلطان رات کو اٹھ کر گشت پر آجائے گا ۔ کماندار سمجھ گیا کہ ٹیلے پر کوئی لڑکی کھڑی ہے ۔ اسی شام کمان داروں کو خبردار کیا گیا تھا کہ صلیبیوں نے جاسوسی اور تخریب کاری کیلئے لڑکیوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ۔ یہ لڑکیا ں صحرائی خانہ بدوشوں کے بہروپ میں بھی ہو سکتی ہیں اور ایسی غریب لڑکیوں کے بھیس میں بھی جو فوجی کیمپوں میں کھانے کی بھیگ مانگنے آتی ہیں اور یہ لڑکیاں اپنے آپ کو مغویہ اور مظلوم ظاہر کر کے پناہ مانگ سکتی ہیں ۔ کمانداروں کو بتایا گیا تھا کہ آج رات سات لڑکیاں سلطان کی پناہ میں آئی ہیں، جنہیں بظاہر رحم کرکے مگر انہیں مشتبہ سمجھ کر پناہ میں لے لیا گیا ہے ۔ اس کے کماندار نے یہ احکام سن کر اپنے ایک ساتھی سے کہا تھا ........''اللہ کرے ایسی کوئی لڑکی مجھ سے پناہ مانگے''........ اور وہ دونوں ہنس پڑھے تھے ۔ اب آدھی رات کے وقت جب ساراکیمپ سو رہاتھا ، اسے ٹیلے پر ایک لڑکی کا ہیولا نظر آرہا تھا۔ پہلے تو وہ ڈرا کہ یہ چڑیل یا جن ہو سکتا ہے ۔ اس نے نئے سنتری کو لڑکیوں کے خیمے پر کھڑا کرکے اسے بتایا تھا کہ اندر سات لڑکیاں ہیں ۔ اس نے پردہ اُٹھا کر دیکھا تو دئیے کی روشنی میں اسے سات بستر نظر آئے تھے۔ ہر لڑکی نے منہ بھی کمبلوں میں ڈھانپ رکھا تھا ۔ سردی زیادہ تھی ۔ اس نے اندر جا کر یہ نہیں دیکھا کہ ساتواں بستر خالی ہے اور اس پر کمبل اس طرح رکھے گئے ہیں جیسے ان کے نیچے لڑکی سو ئی ہوئی ہو۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ ساتویں لڑکی ٹیلے پر اس کے سامنے کھڑی ہے ۔ وہ کچھ دیر سوچتارہا کہ اسے آواز دے یا اس تک خود جائے یا اگر و ہ جن یاچڑیل ہے تو اس کے غائب ہونے کا انتظار کرے ۔ تھوڑی سی دیر کے انتظار کے بعدبھی لڑکی غائب نہ ہوئی ،بلکہ وہ تین قدم آگے چلی اور پھر پیچھے کو چل پڑی اور پھر رُک گئی۔ کماندار جس کا نام فخر المصری تھا ، آہستہ آہستہ ٹیلے تک گیا اور کہا ......''کون ہو تم ؟ نیچے آئو''۔ لڑکی نے ہرن کی طرح چوکڑی بھری اور ٹیلے کی دوسری طرف اُتر گئی۔ فخر کو یقین آگیاکہ کوئی انسان ہے ، جن چڑیل نہیں ۔ وہ تنومند مرد تھا ۔ ٹیلا اونچا نہیں تھا ۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ٹیلے پر چڑھ گیا ۔ اُدھر بھی اندھیرا تھا ۔ رات کی خاموشی میں اسے لڑکی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی ۔ وہ ٹیلے سے دوڑتا اُترا اور لڑکی کے پیچھے گیا ۔ لڑکی اور تیز دوڑ پڑی ۔ فاصلہ بہت کم تھا لیکن فخر مرد تھا ، فوجی تھا ، چیتے کی رفتا ر سے دوڑرہا تھا.
جاری ھے ،


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں