داستان ایمان فروشوں کی
دوسرا حصہ
ساتویں لڑکی
قسط نمبـــــــــــــــــــــــــر 11
علی بن سفیان گہری سوچ میں پڑگیا۔ کمان دار جو اطلاع دینے آیاتھا ، اس نے علی بن سفیان کے قریب آکر آہستہ سے کہا……ایک عیسائی لڑکی کا لاپتہ ہوجانا تو اتنا اہم واقعہ نہیں ، مگر اہم یہ ہے کہ فخر المصری نام کا کماندار بھی رات سے لاپتہ ہے ۔رات کے سنتریوں نے بتایا ہے کہ وہ لڑکویں کے خیمے تک گیاتھا، وہاں سے زخمیوں کے خیموں کی طرف گیا اور پھر کہیں نظر نہیں آیا ۔ رات وہ گشت پر نکلاتھا ''۔
علی بن سفیان نے ذرا سوچ کر کہا……''یہ اطلاع سلطان تک ابھی نہ جائے ۔ رات کے اُس وقت کے تمام سنتریوں کو اکٹھا کرو، جب فخر گشت پر نکلا تھا''…… اس نے سلطان ایوبی کے محافظ دستے کے کمان دار سے کہا کہ کل سلطان کے ساتھ جو محافظ ساحل تک گئے تھے ، انہیں لائو۔ وہ وہیں تھے ۔ چاروں سامنے آگئے تو علی بن سفیان نے انہیں کہا……''کل جہاں تم نے تاجروں اور لڑکیوں کو دیکھا تھا، وہاں فوراً پہنچو۔ اگر وہ تاجر ابھی تک وہیں ہیں تو انہیں حراست میں لے لو اور وہیں میرا انتظار کرو اور اگر جاچکے ہوں تو فوراً وا پس آئو''۔
محافظ روانہ ہوگئے تو علی بن سفیان لڑکیوں کے خیمے تک گیا۔ چھ لڑکیاں باہر بیٹھی تھی اور سنتری کھڑا تھا۔ عی نے لڑکیوں کو اپنے سامنے کھڑا کر کے عربی زبان میں پوچھا …… ''ساتویں لڑکی کہاں ہے ؟''
لڑکیوں نے ایک دوسری کے منہ کی طرف دیکھا اور سر ہلائے ۔ علی بن سفیان نے کہا…''تم سب ہماری زبان سمجھتی ہو''۔
لڑکیاں اسے حیران سا ہوکے دیکھتی رہیں ۔علی اُن کے چہروں اور ڈیل ڈول سے شک میں پڑگیا تھا۔وہ لڑکیوں کے پیچھے جا کھڑا ہوا اور عربی زبان میں کہا……''ان لڑکیوں کے کپڑے اُتار کر ننگا کردو اور بارہ وحشی قسم کے سپاہی بلا لائو''۔
تمام لڑکیاں بدک کر پیچھے کو مُڑیں ۔ دو تین نے بیک وقت بولنا شروع کردیا، وہ عربی زبان بول رہی تھیں……''لڑکیوں کے ساتھ تم ایسا سلوک نہیں کر سکتے ''……ایک نے کہا…… ''ہم تمہارے خلاف نہیں لڑیں''۔
علی بن سفیان کی ہسنی نکل گئی ۔اس نے کہا……''میں تمہارے ساتھ بہت اچھا سلوک کروں گا۔ تم نے جس طرح ایک ہی دھمکی سے عربی بولنی شروع کردی ہے ،اب بغیر کسی دھمکی کے یہ بتا دو کہ ساتویں لڑکی کہاں ہے''……سب نے لاعلمی کا اظہار کیا ۔علی نے کہا……''میں اس سوال کا جواب لے کر رہوں گا۔ تم نے سلطان پر ظاہر کیا ہے کہ تم ہماری زبان نہیں جانتیں ، اب تم ہماری زبان ہماری طرح بول رہی ہو۔ کیا میں تمہیں چھوڑدوں گا؟''……اس نے سنتری سے کہا……''انہیں خیمے کے اندر بٹھا دو''۔
رات کے سنتری آگئے تھے ۔ فخر المصری کی گشت کے وقت کے سنتریوں سے علی بن سفیان نے پوچھ گچھ کی ۔ آخر لڑکیوں کے خیمے والے سنتری نے بتایا کہ فخر رات اُسے یہاں کھڑا کر کے زخمیوں کے خیموں کی طرف گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اسے اس کی آواز سنائی دی ……''کون ہوتم ؟نیچے آئو''……سنتری نے اُدھر دیکھا تو اندھیرے میں اسے کچھ بھی نظر نہ آیا ۔ سامنے مٹی کے ٹیلے پر اُسے ایک آدمی کا سایہ نظر آیا اور وہ سایہ وہیں غائب ہوگیا۔
علی بن سفیان فوراً وہاں گیا۔ یہ ٹیلہ ساحل کے قریب تھا۔ اس کی مٹی ریتلی تھی ۔ ایک جگہ سے صاف پتہ چل رہاتھا کہ وہاں کوئی اوپر گیا ہے ۔ وہاں زمین پر دو قسم کے پائوں کے نشان تھے ۔ ایک نشان تو مرد کا تھا، جس نے فوجیوں والا جو تا پہن رکھا تھا۔ دوسرا نشان چھوٹے جوتے کا تھا اور زنانہ لگتا تھا۔ زمین کچی اور ریتلی تھی تھی۔ زنانہ نشان جدھر سے آیاتھا، علی بن سفیان اُدھر کو چل پڑا۔یہ نشان اُسے اس خیمے تک لے گئے جہاں موبی رابن سے ملی تھی ۔ اس نے خیمے کا پردہ اُٹھا یا اور اندر چلا گیا۔
اس کی چہرہ شناس نگاہوں نے زخمی قیدیوں کو دیکھا۔سب کے چہرے بھانپے ۔ رابن بیٹھا ہوا تھا۔اس نے علی بن سفیان کو دیکھا اور فوراً ہی کر اہنے لگا،جیسے اسے دردکا اچانک دورہ پڑا ہو۔علی نے اسے کندھے سے پکڑ کر اُٹھا لیا اور خیمے سے باہر لے گیا۔ اس سے پوچھا……''رات کو ایک قیدی لڑکی اس خیمے میں آئی تھی ،کیوں آئی تھی ؟''……رابن اسے ایسی نظروں سے دیکھنے لگا جن میں حیرت تھی اور ایسا تاثر بھی جیسے وہ کچھ سمجھا ہی نہ ہو۔ علی بن سفیان نے اُسے آہستہ سے کہا……''تم میری زبان سمجھتے ہو دوست!میں تمہاری زبان سمجھتا ہوں ۔بول سکتاہوں ، لیکن تمہیں میری زبان میں جواب دینا ہوگا''……رابن اس کا منہ دیکھتا رہا۔علی نے سنتری سے کہا۔''اسے خیمے سے باہر رکھو''۔
علی بن سفیان خیمے کے اندر چلاگیا اور قیدیوں سے اُن کی زبان میں پوچھا ۔ ''رات کو لڑکی اس خیمے میں کتنی دیر رہی تھی ؟اپنے آپ کو اذیت میں نہ ڈالو''۔
سب چپ رہے ،مگر ایک اور دھمکی سے ایک زخمی نے بتادیا کہ لڑکی خیمے میں آئی تھی اور رابن کے پاس بیٹھی یا لیٹی رہی تھی ۔ یہ زخمی سمندر سے جلتے جہاز سے کودا تھا۔اس نے آگ کا بھ اور پانی کا بھی قہر دیکھا تھا۔ وہ اتبا زخمی نہیں ،جتنا خوف زدہ تھا۔ وہ کسی اور مصیبت میں پڑنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس نے بتا یا کہ اسے یہ معلوم نہیں کہ رابن اور لڑکی کے درمیان کیا باتیں ہوئی اور لڑکی کون تھی ۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ رابن کا عہدہ کیا ہے ۔ وہ اس کے صرف نام سے واقف تھا۔ا س نے یہ بھی بتادیا کہ رابن اس کیمپ میں آنے تک بالکل تندرست تھا۔ یہاں آکر وہ اس طرح کراہنے لگا، جیسے اُسے اچانک کسی بیماری کا دورہ پڑگیا ہو۔
علی بن سفیان ایک محافظ کی راہنمائی میں اُن پانچ آدمیوں کو دیکھنے چلاگیا جو تاجروں کے بہروپ میں کچھ دُور خیمہ زن تھے ۔محافظوں نے انہیں الگ بٹھا رکھا تھا۔علی کو انہوں نے پہلی اطلاع یہ دی کہ اُن کے پاس کل دو اونٹ تھے ، مگر آج ایک ہی ہے ۔ یہی اشارہ کافی تھا۔ وہ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے کہ دوسرا اونٹ کہاں ہے ۔ دوسرے اونٹ کے پائوں کے نشان مل گئے ۔ علی بن سفیان نے انہیں کہا……''تمہاراجُرم معمولی چوری چکاری نہیں ہے ۔تم ایک پوری سلطنت اور اس کی تمام ترآبادی کے لیے خطرہ ہو۔ا سلیے میں تم پر ذرہ بھر رحم نہیں کروں گا۔ کیا تم تاجر ہو؟''
''ہاں''……سب نے سر ہلا کر کہا……''ہم تاجر ہیں جناب ! ہم بے گناہ ہیں ''۔ علی بن سفیان نے کہا……''اپنے ہاتھوں کی اُلٹی طرف میرے سامنے کرو''۔ پانچوں نے ہاتھ اُلٹے کر کے آگے کردئیے ۔علی نے سب کے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی اُنگلی کی درمیانی جگہ کو دیکھا اور ایک آدمی کو کلائی سے پکڑ کر گھسیٹ لیا ۔اسے کہا……''کمان اور ترکش کہاں چھپا رکھی ہے؟'' اس آدمی نے معصوم بننے کی بہت کوشش کی ۔علی نے سلطان ایوبی کے ایک محافظ کو اپنے پاس بلا کر اس کے بائیں ہاتھ کی اُلٹی طرف اسے دکھائی ۔اس کے انگوٹھے کے اُلٹی طرف اُس جگہ جہاں انگوٹھا ہتھیلی کے ساتھ ملتا ہے ، یعنی جہاں جوڑ ہوتاہے ، وہاں ایک نشان تھا۔ ایسا نشان اس آدمی کے انگوٹھے کے جوڑ پر بھی تھا۔علی نے اسے اپنے محافظ کے متعلق بتایا……''یہ سلطان ایوبی کا بہترین تیر انداز ہے اور یہ نشان اس کا ثبوت ہے کہ یہ تیر زنداز ہے ''۔ اس کے انگوٹھے کی اُلٹی طرف ایک مدھم سانشان تھا، جیسے وہاں بار بار کوئی چیز رگڑی جاتی رہی ہو۔ یہ تیروں کی رگڑ کے نشان تھے ۔تیر دائیں ہاتھ سے پکڑا جاتا ہے ۔کمان بائیں ہاتھ سے پکڑی جاتی ہے ، تیر کا اگلا حصہ بائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر ہوتاہے اور جب تیر کمان سے نکلتا ہے تو انگوٹھے پر رگڑ کھا جاتا ہے ۔ایسا نشان ہر ایک تیر انداز کے ہاتھ میں ہوتاتھا۔ علی بن سفیان نے کہا…… ''ان پانچ میں تم اکیلے تیر انداز ہو۔کمان اور ترکش کہاں ہے؟''…… پانچوں چپ رہے ۔علی نے ان پانچ میں سے ایک کو پکڑ کر محافظوں سے کہا…… ''اس کو اُس درخت کے ساتھ باند ھ دو''۔ اسے کھجور کے درخت کے ساتھ کھڑا کرکے باندھ دیاگیا۔علی نے اپنے تیر انداز کے کان میں کچھ کہا۔ تیر انداز نے کندھے سے کمان اُتار کر اس میں تیر رکھا اور درخت سے بندھے ہوئے آدمی کا نشانہ لے کر تیر چھوڑا ۔ تیر اس آدمی کی دائیں آنکھ میں اتر گیا ۔وہ تڑپنے لگا۔ علی نے باقی چار سے کہا……''تم میں کتنے ہیں جو صلیب کی خاطر اس طرح تڑپ تڑپ کر جان دینے کو تیار ہیں ؟اس کی طرف دیکھو''……انہوں نے دیکھا۔ وہ آدمی چیح رہاتھا، تڑپ رہاتھا، اس کی آنکھ سے خون بُری طرح بہہ رہاتھا۔ ''میں تم سے وعدہ کرتاہوں ''…… علی بن سفیان نے کہا…… ''کہ باعزت طریقے سے تم سب کو سمندر پار بھیج دوں گا……''دوسرے اونٹ پر کون گیا ہے ؟کہاں گیا ہے ؟'' ''تمہارا اپنا ایک کمان دار ہمارا ایک اونٹ ہم سے چھین کر لے گیا ہے ''……ایک آدمی نے کہا۔ ''اور ایک لڑکی بھی ''۔ علی بن سفیان نے کہا۔ تھوڑی ہی دیر بعد علی بن سفیان کے فن نے اُن سے اعتراف کروالیا کہ وہ کون ہیں اور کیا ہیں ، مگر انہوں نے یہ جھوٹ بولا کہ لڑکی رات خیمے سے بھاگ آئی تھی اور اس نےبتایا کہ صلاح الدین ایوبی نےرات اسے اپنے خٰمے میں رکھا تھا، اس نے شراب پی رکھی تھی اور لڑکی کو بھی پلائی تھی اور لڑکی گھبراہٹ اور خوف کے عالم میں آئی تھی ۔ اس کے تعاقب میں فخر المصری نام کا ایک کمان دار آیا اور اس نے جب لڑکی کی باتیں سنیں تو اسے ہمارے اونٹ پر بٹھا کر زبردستی لے گیا۔ انہوں نے وہ تمام بہتان علی بن سفیان کو سنائے جو لڑکی نے سلطان ایوبی پر لگائے تھے ۔ علی نے مُسکراکر کہا ……''تم پانچ تربیت یافتہ عسکری اور تیر انداز اور ایک آدمی تم سے لڑکی بھی لے گیا اور اونٹ بھی ''……اس نے انہی کی نشاندہی پر زمین میں دبائی ہوئی کمان اور ترکش بھی نکلوالی ۔ ان چاروں کو خیمہ گاہ میں بھجوادیا گیا۔ پانچواں آدمی تڑپ تڑپ کر مرچکا تھا۔ اونٹ کے پائوں کے نشان صف نظر آرہے تھے ۔ علی بن سفیان نے نہایت سرعت سے دس سوار بلائے اور انہیں اپنی کمان میں لے کر اس طرف روانہ ہوگیا، جدھر اونٹ گیاتھا، مگر اونٹ کی روانگی اور اس کے تعاقب میں علی بن سفیان کی روانگی میں ، چودہ پندرہ گھنٹوں کا فرق تھا، اونٹ تیر تھا اور اسے آرام کی بھی زیادہ ضرورت نہیں تھی ۔اونٹ ، پانی اور خوراک کے بغیر چھ سات دِن تروتازہ رہ سکتا ہے ۔ا سکے مقابلے میں گھوڑوں کو راستے میں کئی بار آرام، پانی اور خوراک کی ضرورت تھی ۔ان عناصر نے تعاقب ناکام بنادیا۔اونٹ نے چودہ پندرہ گھنٹوں کا فرق پورا نہ ہونے دیا۔ فخر المصری نے تعاقب کے پیشِ نظر قیام بہت کم کیاتھا۔ علی بن سفیان کو راستے میں صرف ایک چیز ملی ، یہ ایک تھیلا تھا۔ اس نے رُک کر تھیلا اُٹھایا ،کھول کر دیکھا، اس میں کھانے پینے کی چیزیں تھیں ۔ اسی تھیلے میں ایک اور تھیلا تھا۔ اس میں بھی وہی چیزیں تھیں ۔علی بن سفیان کے سونگھنے کی تیز حس نے اسے بتادیا کہ ان اشیاء میں حشیش ملی ہوئی ہے ۔راستے میں اُسے دوجگہ ایسے آثار ملے تھے ، جن سے پتہ چلتا تھا کہ یہاں اونٹ رُکا ہے اور سوار یہاں بیٹھے ہیں ۔کھجوروں کی گٹھلیاں ، پھلوں کے بیج اور چھلکے بھی بکھرے ہوئے تھے ۔تھیلے نے اسے شک میں ڈال دیا۔ اس کے ذہن میں یہ شک نہ آیا کہ فخرالمصری کو حشیش کے نشے میں لڑکی اپنے محافظ کے طور پر ساتھ لے جارہی ہے ۔تاہم اس نے تھیلا اپنے پاس رکھا ، مگر تھیلے کی تلاشی اور قیام نے وقت ضائع کردیاتھا۔ ٭ ٭ ٭
فخر المصری اور موبی منزل پر نہ بھی پہنچتے اور راستے میں پکڑے بھی جاتے تو کوئی فرق نہ پڑتا ۔سوڈنی لشکر میں ناجی ،اوروش اور ان کے ساتھی جو زہر پھیلا چکے تھے وہ اثر کر گیا تھا۔ فاطمی خلافت کے وہ فوجی سربراہ جو برائے نام جرنیل اور دراصل حاکم بنے ہوئے تھے ،سلطان صلاح الدین ایوبی کو ایک ناکام امیر اور بے کار حاکم ثابت کرنا چاہتے تھے ۔ مسلمان حکمران حرم میں اُن لڑکیوں کے اسیر ہوگئے تھے ۔حکومت کا کاروبار خود ساختہ افسر چلارہے تھے ، من مانی اور عیش و عشرت کررہے تھے ۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ صلاح الدین ایوبی جیسا کوئی مذہب پسند اور قوم پرست قائد قوم کو جگا دے اور حکمرانوں اور سلطانوں کو حرم کی جنت سے باہر لاکر حقائق کی دُنیا میں لے آئے ۔ سلطان ایوبی کے پہلے معرکوں سے جو اس نے اپنے چچا شیر کوہ کی قیادت میں لڑے تھے ، یہ لوگ جان چکے تھے کہ اگر یہ شخص اقتدار میں آگیا تو اسلامی سلطنت کو مذہت اور اخلاقیات کی پابندیوں میں جکڑلے گا۔ لہٰذا انہوں نے ہروہ داو کھیلا جو سلطان ایوبی کو چاروں شانے چت گرا سکتا تھا۔ انہوں نے درپردہ صلیبیوں سے تعاون کیا اور ان کے جاسوسوں اور تخریب کاروں کے لیے زمین ہموار کی اور اس کے راستے میں چٹانیں کھڑی کیں ۔اگر نور الدین زنگی نہ ہوتا تو آج نہ صلاح الدین ایوبی کا تاریخ میں نام ہوتا ، نہ آج نقشے پر اتنے زیادہ اسلامی ممالک نظر آتے..
نور الدین زنگی نے ذراسے اشارے پر بھی سلطان ایوبی کو کمک اور مدد بھیجی ۔صلیبیوں نے مصری فوج کے سوڈانیوں کے بلاوے پر بحیرۂ روم سے حملہ کیا تو نورالدین زنگی نے اطلاع ملتے ہی خشکی پر صلیبیوں کی ایک مملکت پر حملہ کر کے اُن کے اس لشکر کو مفلوج کردیا جو مصر پر حملہ کرنے کے لیے جارہاتھا۔یہ تو سلطان ایوبی کا نظامِ جاسوسی ایسا تھا کہ اس نے صلیبیوں کا بیڑہ غرق کردیا۔ اب علی بن سفیان نے زنگی کی طرف برق رفتار قاصد یہ خبر دینے کے لیے دوڑادئیے تھے کہ سوڈانیوں کی بغاوت کا خطرہ ہے اور ہماری فوج کم بھی ہے ، دوحصوں میں بٹ بھی گئی ہے ۔قاصد پہنچ گئے تھے اور نورالدین زنگی نے خاصی فوج کو مصرکی طرف کوچ کا حکم دے دیاتھا۔ بعض مورخین نے اس فوج کی تعداد دوہزار سوار اور پیادہ لکھی ہے اور کچھ اس سے زیادہ بتاتے ہیں ۔بہر حال زنگی نے اپنی مشکلات اور ضرورتیات کی پروانہ کرتے ہوئے سلطان ایوبی کی مشکلات اور ضروریات کو اہمیت اور اولیت دی ، مگر اس کی فوج کو پہنچنے کے لیے بہت دِن درکار تھے ۔ مسلمان نام نہاد فوجی اور دیگر سرکردہ شخصیتوں نے دیکھا کہ مصر میں سلطان ایوبی کے خلاف بے اطمینانی اور بغاوت پھوٹ رہی ہے تو انہوں نے اسے ہوادی ۔ در پردہ سوڈانیوں کو اُکسایا اور اپنے مخبروں کے ذریعے یہ بھی معلوم کرلیا کہ سوڈانیوں کے سالاروں کو مرواکر خفیہ طریقے سے دفن کردیاگیاہے ۔ سوڈانی لشکر کے کم رتبے والے کمان دار سالار بن گئے اور صلاح الزین ایوبی کی اس قلیل فوج پر حملہ کرنے کے منصوبے بنانے لگے ، جو مصر میں مقیم تھی ۔ وہ سلطان ایوبی کی آدھی فوج اور سلطان کی دار الحکومت سے غیر حاضری سے فائدہ اُٹھانا چاہتے تھے ۔ منصوبہ ایسا تھا کہ جس کے تحت پچاس ہزار سوڈانی فوجی سیاہ گھٹا کی طرح مصر کے آسمان سے اسلام کے چاند کو روپوش کرنے والی تھی ۔
علی بن سفیان قاہرہ پہنچ گیا۔ وہ جن کے تعاقب میں گیاتھا، اُن کا اُس سے آگے کوئی سراح نہیں مل رہاتھا۔ اس نے اپنے اُن جاسوسوں کو بلایاجو اس نے سوڈنی ہیڈ کوارٹر اور فوج میں چھوڑ رکھے تھے ۔ان میں سے ایک نے بتایا کہ گزشتہ رات ایک اونٹ آیاتھا۔ اندھیرے میں جو کچھ نظر آسکا، وہ دوسوار تھے ،ایک عورت اور ایک مرد ۔جاسوس نے یہ بھی بتایاکہ وہ کون سی عمارت میں داخل ہوئے تھے ۔علی بن سفیان کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ وہاں چھاپہ مارتا۔
سوڈانی فوج سلطنتِ اسلامیہ کی فوج تھی، کوئی آزاد فوج نہیں تھی ،مگر علی نے اس خدشے کے پیش نظر چھاپہ نہ مارا کہ یہ جلتی پر تیل کاکام کرے گا۔ اس کا مقصد صرف یہ نہیں تھا کہ موبی اور فخر المصری کو گرفتار کرنا ہے ،بلکہ اصل مقصد یہ تھا کہ سوڈانی قیادت کے عزائم اور آئندہ منصوبے معلوم کیے جائیں ، تاکہ پیش بندی کی جاسکے ۔ اس نے اپنے جاسوسوں کو نئی ہدایات جاری کیں۔جاسوسوں میں غیر مسلم لڑکیا بھی تھیں، جو عیسائی یا یہودی نہیں تھیں۔ یہ قحبہ خانوں کی بڑی ذہین اور تیز طرار لڑکیا تھیں ،مگر علی بن سفیان نے ان پر کبھی سو فیصد بھروسہ نہیں کیاتھا، کیونکہ وہ دوغلا کھیل بھی کھیل سکتی تھیں ۔ ان لڑکیوں سے بھی اُس لڑکی )موبی (کا سراغ نہ مل سکا جس کے تعاقت میں علی آیاتھا۔ ٭ ٭ ٭
چار روز علی بن سفیان دارالحکومت سے باہر مارامارا پھر تارہا۔ اس کا دائرہ کار سوڈانی فوجی قیادت کے ارد گرد کا علاقہ تھا۔ پانچویں رات وہ باہر کھلے آسمان تلے بیٹھا اپنے دوجاسوسوں سے رپورٹ لے رہاتھا۔ اس کے تمام آدمیوں کو معلوم ہوتاتھا کہ کس وقت وہ کہاں ہوتا ہے ۔اُس کے گروہ کا ایک آدمی ایک آدمی کو ساتھ لیے اُس کے پاس آیا اور کہا……''یہ اپنا نام فخر ی المصری بتاتا ہے ، جھاڑیوں میں ڈگمگاتا، گرتا اور اُٹھتا تھا۔ میں نے اس سے بات کی تو کہنے لگا کہ مجھے میری فوج تک پہنچا دو۔ اس سے اچھی طرح بولا بھی نہیں جاتا''……اس دوران فخر المصری بیٹھ گیاتھا۔ ''تم وہی کمان دار ہو جو محاذ سے ایک لڑکی کے ساتھ بھاگے ہو؟'' ۔علی بن سفیان نے اُس سے پوچھا ۔ ''میں سلطان کی فوج کا بھگوڑا ہوں ''……فخر نے ہکلائی لڑکھڑاتی زبان میں کہا……''سزائے موت کا حق دار ہوں ، لیکن میری پوری بات سن لیں ، ورنہ تم سب کو سزائے موت ملے گی ''۔ علی بن سفیان اُس کے لب و لہجے سے سمجھ گیا کہ یہ شخص نشے میں ہے یا نشے کی طلب نے اس کا یہ حال کررکھا ہے ۔وہ اسے اپنے دفتر میں لے گیا اور اسے وہ تھیلا دکھایا جو اسے راستے میں پڑا ملاتھا۔ پوچھا ……''یہ تھیلا تمہارا ہے؟اور تم اس سے یہ چیزیں کھاتے رہے ہو؟'' ''ہاں ''……فخر المصری نے جواب دیا…… ا……''وہ مجھے اسی سے کھلاتی تھی ''۔ اس کے سامنے وہ تھیلا بھی پڑاتھا جو تھیلے کے اندرسے نکلا تھا۔علی نے اس میں سے چیزیں نکال کر سامنے رکھ لی تھیں ۔فخر نے یہ چیزیں دیکھیں تو جھپٹ کر مٹھائی کی قسم کا ایک ٹکڑا اُٹھا لیا۔ علی نے جھپٹ کر اس کے ہاتھ پر اپناہاتھ رکھ دیا۔ فخر نے بے تابی سے کہا……''خدا کے لیے مجھے یہ کھانے دو۔ میری جان اور روح اسی میں ہے ''……مگر علی نے اُس سے وہ ٹکڑا ھین لیا اور اسے کہا……''مجھے ساری واردات سنائو، پھر یہ ساری چیزیں اُٹھا لینا''۔ فخر المصری نڈھال اور بے جان ہواجارہاتھا۔ علی بن سفیان نے اُسے ایک سفوف کھلادیا جو حشیش کا توڑ تھا۔ فخر نے اسے تمام تر واقعہ سنادیا کہ وہ کیمپ سے لڑکی کے تعاقب میں کس طرح گیاتھا۔ تاجروں نے اُسے قہوہ پلایا تھا،جس کے اثر سے وہ کسی اور ہی دُنیا میں جاپہنچا تھا۔ تاجروں )صلیبی جاسوسوں (نے اُس سے جو باتیں کی تھیں ، وہ بھی ا س نے بتائیں اور پھر لڑکی کے ساتھ اس نے اونٹ پر جو سفر کیا تھا، وہ اس طرح سنایا کہ وہ مسلسل چلتے رہے ۔اونٹ نے بڑی اچھی طرح ساتھ دیا۔رات کو وہ تھوڑی دیر قیام کرتے تھے۔ لڑکی اسے کھانے کو دوسرے تھیلے میں سے چیزیں دیتی تھی۔وہ اپنے آپ کو باد شاہ سمجھتاتھا۔ لڑکی نے اسے اپنی محبت کا یقین دلایا اور شادی کا وعدہ کیاتھا اور شرط یہ رکھی تھی کہ وہ اسے سوڈانی کمان دار کے پاس پہنچادے۔ وہ راستے میں ہی لڑکی کو شادی کے بغیر بیوی بنانے کی کوشش کرتا رہا، لیکن لڑکی اسے اپنی بانہوں میں لے کر پیار اور محبت سے ایسے ارادے اور خواہش کو ماردیتی ۔ فخری نے محسوس تک نہ کیا کہ لڑکی اسے حشیش اور اپنے حسن و شباب کے قبضے میں لیے ہوئے ہے ۔تیسرے پڑاو میں جب انہوں نے کھانے پینے کے لیے اونٹ روکا تو تھیلا غائب پایا جو اونٹ کے دوڑ نے سے کہیں گر پڑا تھا۔ لڑکی نے اسے کہا کہ واپس چل کر تھیلا ڈھونڈ لیتے ہیں ،لیکن فخر المصری نے کہا کہ وہ بھگوڑا فوجی ہے، خدشہ ہے کہ اس کا تعاقب ہورہاہوگا۔ لڑکی ضد کرنے لگی کہ تھیلا ضرور ڈھونڈیں گے۔ فخر نے اسے یقین دلایا کہ بھوکا مرنے کا کوئی خطرہ نہیں ، راستے میں کسی آبادی سے کچھ لے لیں گے ، مگر لڑکی آبادی کے قریب جانا نہ چاہتی تھی اور کہتی تھی کہ واپس چلو۔ فخر المصری نے اُسے زبردستی اونٹ پر بٹھالیا اور اس کے پیچھے بیٹھ کر اونٹ کو اُٹھایا ور دوڑا دیا۔ وہ سفر کی تیسری رات تھی ۔اگلی شام وہ شہر سے باہر سوڈانیوں کے ایک کمان دار کے ہاں پہنچ گئے ، مگر فخر المصری اپنے سر کے اندر ایسی بے چینی محسوس کرنے لگا، جیسے کھوپڑی میں کیڑے رینگ رہے ہوں۔ آہستہ آہستہ وہ حقیقی دُنیا آگیا۔ وہ سمجھ نہ سکا کہ یہ حشیش نہ ملنے کا اثر ہے ۔اُس کی تصوراتی بادشاہی اور ذہن میں بسائی ہوئی جنت تھیلے میں کہیں ریگزار میں گرگئی تھی ۔ لڑکی نے اُس کے سامنے کمان دار کو صلیبیوں کا پیغام دیا اور اسے بغاوت پر اُکسایا۔ فخر پاس بیٹھا سنتا رہا اور اُس کے ذہن میں کیڑے بڑے ہوکر تیزی سے رینگنے لگے ۔ نشہ اتر چکا تھا ۔چانچہ اُس نے بے خوف و خطر کمان دار سے یہ بھی کہہ دیا کہ سلطان ایوبی اور علی بن سفیان کے درمیان یہ غلط فہمی پیدا کرنی ہے کہ وہ ظاہری طور پر نیک بنے پھر تے ہیں مگر عورت اور شراب کے دلدادہ ہیں۔ اُن کی اس طویل گفتگو میں بغاوت کی باتیں بھی ہوئیں۔ اس وقت تو فخر المصری پوری طرح بیدار ہو چکاتھا، لیکن سر کے اندر کی بے چینی اسے بہت پریشان کررہی تھی ۔لڑکی نے کمان دار سے کہا کہ اگر بغاوت کرنی ہے تو وقت ضائع نہ کریں۔ سلطان ایوبی محاذ پر ہے اور اُلجھا ہواہے ۔لڑکی نے یہ جھوٹ بولا کہ صلیبی تین چار دنوں بعد دوسرا حملہ کرنے والے ہیں۔سلطان ایوبی کو یہاں سے بھی فوج محاذ پر بلانی پڑے گی۔ کمان دار نے لڑکی کو بتایا کہ چھ سات دنوں تک سوڈانی لشکر یہاں کی فوج پر حملہ کردے گا۔ فخر یہ ساری گفتگو سنتارہا۔ آدھی رات کے بعد اُسے الگ مرے میں بھیج دیاگیا جہاں اُس کے سونے کا انتظام تھا۔ لڑکی اور کمان دار دوسرے کمرے میں رہے ۔درمیان میں دروازہ تھا جو بند کردیاگیا ۔اسے نیند نہیں آرہی تھی۔اُس نے دروازے کے ساتھ کان لگائے تو اُسے ہنسی کی آزوازیں سنائی دیں،پھر لڑکی کے یہ الفاظ سنائی دئیے……''اسے حشیش کے زور پر یہاں تک لائی ہوں اور اس کی محبوبہ بنی رہی ہوں۔مجھے ایک محافظ کی ضرورت تھی ۔حشیش کا تھیلا راستے میں گر پڑاہے۔ اگر صبح اسے ایک خوراک نہ ملی تو یہ پریشان کرے گا''…… اس کے بعد فخر نے دوسرے کمرے سے جو آوازیں سنیں ، وہ اسے صاف بتارہی تھیں کہ شراب پی جارہی ہے اور بد کاری ہورہی ہے۔ بہت دیر بعد اُسے کمان دار کی آواز سنائی دی……''یہ آدمی اب ہمارے لیے بے کار ہے ۔ اسے قید میں ڈال دیتے ہیں یا ختم کرادیتے ہیں ''……لڑکی نے اس کی تائید کی ۔ فخر المصری پوری طرح بیدار ہوگیا اور وہاں سے نکل بھاگنے کی سوچنے لگا۔
رات کا پچھلا پہر تھا۔ وہ اس کمرے سے نکلا۔ اس کا دماغ ساتھ نہیں دے رہاتھا۔ کبھی تو دماغ صاف ہوجاتا، مگر زیادہ دیر ماو ف رہتا۔ صبح کی روشنی پھیلنے تک وہ خطرے سے دُور نکل گیا تھا ۔ اسے اب دوہرے تعاقب کا خطرہ تھا ۔ دونوں طرف اسے موت نظر آرہی تھی ۔ اپنی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوجاتا تو بھی مجرم تھا اور اگر سوڈانی پکڑ لیتے تو فوراً قتل کر دیتے ۔ وہ دن بھر فرعونوں کے کھنڈروں میں چھپا رہا ۔ حشیش کی طلب ، خوف اور غصہ اُس کے جسم و دماغ کے بے کا ر کر رہا تھا ۔ رات تک وہ چلنے سے بھی معذور ہو ا جا رہا تھا ۔ پھر اُسے یہ بھی احساس نہ رہا کہ دِن ہے یا رات اور وہ کہاں ہے ۔ اس کے دماغ میں یہ اِرادہ بھی آیا کہ اس عیسائی لڑکی کو جا کر قتل کر دے ۔ یہ سوچ بھی آئی کہ اونٹ یا گھوڑا مل جائے اور وہ محاز پر سلطان ایوبی کے قدموں میں جا گرے ۔ مگر جو بھی سوچ آتی تھی ، اس پر اندھیرا چھا جاتا تھا جو اُس کی آنکھوں کے سامنے ہر چیز تاریک کر دیتا تھا ۔ اسی حالت میں اسے یہ آدمی ملا ۔ وہ چونکہ جاسوس تھا ، اس لیے تربیت کے مطابق اُس نے فخرالمصری کے ساتھ دوستی اور ہمدردی کی باتیں کیں اور اسے علی بن سفیان کے پاس لے آیا ۔
تصدیق ہو گئی کہ سوڈانی لشکر حملہ اور بغاوت کرے گا اور یہ کسی بھی لمحے ہو سکتا ہے ۔ علی بن سفیان سوچ رہا تھا کہ مقامی کمانڈروں کو فوراً چوکنا کرے اور سلطان ایوبی کو اطلاع دے، مگر وفت ضائع ہونے کا خطرہ تھا ۔ اتنے میں اسے پیغام ملاکہ صلاح الدین ایوبی بلا رہے ہیں ۔ وہ حیران ہو کر چل پڑا کہ سلطان کو تو وہ محاظ پر چھوڑ آیا تھا ۔
وہ حیران ہو کر چل پڑا کہ سلطان کو تو وہ محاظ پر چھوڑ آیا تھا ۔ وہ سلطان ایوبی سے ملا تو سلطان نے بتایا … '' مجھے اطلاع مل گئی تھی کہ ساحل پر صلیبی جاسوسوں کا ایک گروہ موجود ہے اور اُن میں سے کچھ اِدھر بھی آگئے ہوں گے ۔ محاظ پر میرا کوئی کام نہیں رہ گیا تھا ۔ میں کمان اپنے رفیقوں کو دے کر یہاں آگیا ۔ دِل اس قد ر بے چین تھا کہ میںیہاں بہت بڑا خطرہ محسوس کر رہا تھا ۔ یہاں کی کیا خبر ہے ؟'' علی بن سفیان نے اُسے ساری خبر سنا دی اور کہا …'' اگر آپ چاہیں تو میں زبان کا ہتھیار استعمال کر کے بغاوت کو روکنے کی کوشش کروں یا سلطان زنگی کی مدد آنے تک ملتوی کرادوں ۔ میں جاسوسوں کو ہی استعما ل کر سکتا ہوں ۔ ہماری فوج بہت کم ہے ۔
حملے کو نہیں روک سکے گی ''۔ سلطان ایوبی ٹہلنے لگا ۔ اُس کا سر جھکا ہوا تھا ۔ وہ گہری سوچ میں کھو گیا تھا اور علی بن سفیا ن اسے دیکھ رہا تھا ۔ سلطان نے رُک کر کہا …… '' ہاں علی !تم اپنی زبان اور اپنے جاسوس استعمال کرو ، لیکن حملے کو روکنے کیلئے نہیں ، بلکہ حملے کے حق میں ۔ سوڈانیوں کو حملہ کرنا چاہیے ، مگر رات کے وقت جب ہماری فوج خیموں میں سوئی ہوئی ہوگی ''۔ علی بن سفیان نے حیرت سے سلطان کو دیکھا ۔ سلطان نے کہا ……'' یہاں کے تمام کمانداروں کو بلوالو اور تم بھی آجائو '' …… سلطان ایوبی نے علی بن سفیان کو یہ ہدایت بڑی سختی سے دی …… '' یہ سب کو بتا دینا کہ میرے متعلق اُس کے سوا کسی کو معلوم نہ ہو سکے کہ میں محاظ سے یہاں آگیا ہوں ۔ سوڈانیوں سے میری یہاں موجودگی کو پوشیدہ رکھنا بے حد ضروری ہے۔ میں بڑی احتیاط سے خفیہ طریقے سے آیا ہوں ''۔ تین راتیں بعد …… قاہر ہ تاریک رات کی آغوش میں گہری نیند میں سویا ہوا تھا ۔ ایک روز پہلے قاہرہ کے لوگوں نے دیکھا تھا کہ اُن کی فوج جو مصر سے تیا ر کی گئی تھی ، شہر سے باہر جا رہی تھی ۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ فوج جنگی مشقوں کیلئے شہر سے با ہر گئی ہے ۔ نیل کے کنارے جہاں ریتلی چٹانیں اور ٹیلے ہیں وہاں دریا اور ٹیلوں کے درمیان فوج نے جا کر خیمے گاڑ دئیے تھے ۔ فوج پیادہ بھی تھی ، سوار بھی …… رات کا پہلا نصف گزر رہا تھا کہ قاہرہ کے سوئے ہوئے باشندوں کو دُور قیامت کا شور سنائی دیا ۔ گھوڑوں کے سرپٹ بھاگنے کی آوازیں سنائی دیں ۔ سوئے ہوئے لوگ جاگ اُٹھے ، وہ سمجھے کہ فوج جنگی مشق کر رہی ہے ، مگر شور قریب آتا اور بلند ہوتا گیا ۔ لوگوں نے چھتوں پر چڑھ کر دیکھا ۔ آسمان لال سرخ ہو رہا تھا ۔ بعض نے دیکھا کہ دور دریائے نیل سے آگ کے شعلے اُٹھتے اور تاریک رات کا سینہ چاک کر تے خشکی پر کہیں گرتے تھے ۔ پھر شہر میں سینکڑوں سرپٹ دوڑتے گھوڑوں کے ٹاپو سنائی دئیے۔ شہر والوں کو ابھی معلوم نہیں تھا کہ یہ جنگی مشق نہیں ، باقاعدہ جنگ ہے اور جو آگ لگی ہوئی ہے ، اس میں سوڈانی لشکر کا خاصا بڑا حصہ زندہ جل رہا ہے ۔ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی ایک بے مثال چال تھی ۔ اس نے دارالحکومت میں مقیم قلیل فوج کو دریائے نیل جور ریتلے ٹیلوں کے درمیان وسیع میدان میں خیمہ زن کر دیا تھا ۔ علی بن سفیان نے اپنے فن کا مظاہر ہ کیا تھا ۔
ا س نے سوڈانی لشکر میں اپنے آدمی بھیج کر بغاوت کی آگ بھڑکا دی تھی اور اس کے کمانداروں سے یہ فیصلہ کروالیا تھا کہ رات کو جب سلطان کی فوج گہری نیند سوئی ہوئی ہوگی ، اس پر سوڈانی فوج حملہ کر دے گی اور صبح تک ایک ایک سپاہی کا صفایا کر کے دارالحکومت پر بے خوف و خطر قابض ہوجائے گی اور سوڈانی فوج کا دوسرا حصہ بحیرئہ روم کے ساحل پر مقیم فوج پر حملہ کرنے کیلئے روانہ کر دیا جائے گا …… اس فیصلے اور منصوبے کے مطابق سوڈانی فوج کا ایک حصہ نہایت خفیہ طریقے سے رات کو بحیرئہ روم کے محاظ کیطرف روانہ کر دیا گیا اور دوسرا حصہ دریائے نیل کے کنارے خیمہ زن فو ج پر ٹوٹ پڑا ۔ اس فوج نے سیلاب کی طرح ایک میل وسیت میں پھیلی ہوئی خیمہ گاہ پر ہل بول دیا اور بہت ہی تیزی سے اس علاقے میں پھیل گی ۔ اچانک خیموں پر آگ اور تیل کے بھیگے ہوئے کپڑوں کے جلتے گولے برسنے لگے۔ نیل بھی آگ برسا نے لگا ۔ خیموں کو آگ لگ گئی اور شعلے آسمان تک پہنچنے لگے ۔ سوڈانی فوج کو خیموں میں سلطان ایوبی کی فوج کا نہ کوئی سپاہی ملا ، نہ گھوڑا ، نہ کوئی سوار۔ اس فوج کو وہاں تمام خیمے خالی ملے ۔ کوئی مقابلے کیلئے نہ اُٹھا اور اچانک آگ ہی آگ پھیل گئی ۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ سلطان ایوبی نے رات کے پہلے پہر خیموں سے اپنی فوج نکال کر ریتلے ٹیلوں کے پیچھے چھپا دیا تھا اور خیموں میں خشک گھاس کے ڈھیر لگوا دئیے تھے ۔ خیموں پر اور اندر بھی تیل چھڑک دیا تھا ۔ اس نے کشتیوں میں چھوٹی منجنیقیں رکھوا کر شام کے بعد ضرورت کی جگہ بجھوا دی تھیں ۔ جونہی سوڈانی فوج خیمہ گاہ میں آئی سلطان کی چھپی ہوئی فوج نے آگ والے تیر اور نیل سے کشتیوں میں رکھی ہوئی منجنیقوںنے آگ کے گولے پھینکنے شروع کر دئیے۔ خیموں کو آگ لگی تو گھاس اور تیل نے وہاں دوزخ کا منظر دیا ۔ سوڈانیوں کے گھوڑے اپنے پیادہ سپاہیوں کو روندنے لگے ۔ سپاہیوں کے لیے آگ سے نکلنا نا ممکن ہو گیا ۔ چیخوں نے آسمان کا جگر چاک کر دیا ۔ اس قدر آگ نے رات کو دِن بنا دیا ۔ سلطان ایوبی کو مٹھی بھر فوج نے آگ میں جلتی سوڈانیوں کی فوج نے گھیرے میں لے لیا ، جو آگ سے بچ کر نکلتا تھا ، وہ تیروں کا نشانہ بن جاتا تھا ،
جو فوج بچ گئی ، وہ بھاگ نکلی ۔ اُدھر سوڈانیوں کی جو فوج محاظ کی طرف سلطان کی فوج پر حملہ کرنے جا رہی تھی ، اُس کا بھی صلاح الدین ایوبی نے انتظام کر رکھا تھا ۔ چند ایک دستے گھات لگا ئے بیٹھے تھے۔ اِن دستوں نے اُس فوج کے پچھلے حصے پر حملہ کر کے ساری فوج میں بھگڈر مچادی ۔ یہ دستے ایک حملے میں جو نقصان کر سکتے تھے، کر کے اندھیرے میں غائب ہو گئے ۔ سوڈانی فوج سنبھل کر چلی تو پچھلے حصے پر پھر ایک اور حملہ ہوا ۔ یہ برق رفتار سوار تھے جو حملہ کر کے غائب ہو گئے ۔ صبح تک اس فوج کے پچھلے حصے پر تین حملے ہوئے ۔ سوڈانی سپاہی اسی سے بدل ہو گئے۔ انہیں مقابلہ کرنے کا تو موقع ہی نہیں ملتا تھا ۔ دن کے وقت کمانداروں نے بڑی مشکل سے فوج کا حوصلہ بحال کیا ، مگر رات کو کوچ کے دوران اُن کا پھر وہی حشر ہوا ۔ دوسری رات تاریکی میں اُن پر تیر بھی برسے ۔ انہیں اندھیرے میں گھوڑے دوڑنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں جو اُن کی فوج کے عقب میں کشت و خون کرتی دور چلی جاتی تھیں ۔ تین چا ر یورپی مورخوں نے جن میں لین پول اور ولیم خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ، لکھا ہے کہ دشمن کی کثیر نفری پر رات کے وقت چند ایک سواروں سے عقبی حصے پر شب خون مارنا اور غائب ہو جانا سلطان ایوبی کی ایسی جنگی چال تھی جس نے آگے چل کر صلیبیوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ اس طرح سلطان ایوبی دشمن کی پیش قدمی کی رفتار کو بہت سست کر دیتا تھا اور دشمن کو مجبور کر دیتا تھا کہ وہ اُ س کی پسند کے میدان میں لڑے جہاں سلطان ایوبی نے جنگ کا پانسہ پلٹنے کا انتظام کر رکھا ہوتا تھا ۔ ان مورخین نے سلطان ایوبی کے ان جانبازسواروں کی جرأ ت اور برق رفتاری کی بہت تعریف کی ہے ۔ آج کے جنگی مبصر ، جن کی نظر جنگوں کی تاریخ پر ہے ، رائے دیتے ہیں کہ آج کے کمانڈو اور گوریلا آپریشن کا موجد صلاح الدین ایوبی ہے ۔ وہ اس طریقئہ جنگ سے دشمن کے منصوبے درہم برہم کر دیا کرتا تھا ۔ سوڈانیوں پر اس یہی طریقہ آزمایا اور صرف دو راتوں کے بار بار شب خون سے اس نے سوڈانی سپاہیوں کا لڑنے کا جذبہ ختم کر دیا ۔ ان کی قیادت میں کوئی دماغ نہ تھا ۔
یہ قیادت فوج کو سنبھال نہ سکی ۔ اس فوج میں علی بن سفیان کے بھی آدمی سوڈانی سپاہیوں کے بھیس میں موجود تھے ۔ انہوں نے یہ افواہ پھیلادی کہ عرب سے ایک لشکر آرہا ہے جو انہیں کاٹ کر رکھ دے گا ۔ انہوں نے بددلی اور اور فرار کا رحجان پیدا کرنے میں پوری کامیابی حاصل کی ۔ فوج غیر منظم ہو کر بکھر گئی۔ نیل کے کنارے اس فوج کا جو حشر ہوا ، وہ عبرت ناک تھا ……یہ افواہ غلط ثابت نہ ہوئی کہ عرب سے فوج آرہی ہے ۔ نورالدین زنگی کی فوج آگئی جس کی نفری بہت زیادہ نہیں تھی ۔ بعض مورخین نے دو ہزار سوار اور دہ ہزار پیادہ لکھی ہے ۔ بغض کے اعدادو شمار اس کے کچھ زیادہ ہیں ۔ تا ہم صلاح الدین ایوبی کو سہارا مل گیا اور اُس نے فوراً اس کمک کی قیادت سنبھال لی ۔ اس کیفیت میں جب کہ سوڈانیوں کا پچاس ہزار لشکر سلطان ایوبی کے آگ کے پھندے میں اور اُدھر صحرا میں شب خونوں کی وجہ سے بد نظمی کا شکار ہو گیا تھا ، یہ تھورڑی سی کمک بھی کافی تھی ۔ سلطان ایوبی اس کمک سے اور اپنی فوج سے سوڈانیوں کا قتلِ عام کر سکتا تھا ، لیکن اُس نے ڈپلو میسی سے کام لیا ۔ سوڈانی کمان کے کمانداروں کو پکڑا اور انہیں ذہن نشیں کرایا کہ اُن کے لیے تباہی کے سوا کچھ نہیںرہا ، لیکن وہ انہیں تباہ نہیں کرے گا ۔ کمانداروں نے اپنا حشر دیکھ لیا تھا ۔ وہ اب سلطان کے عتاب اور سزا سے خائف تھے ، لیکن سلطان نے انہیں بخش دیا اور سزا دینے کی بجائے سوڈانیوں کی بچی کچھی فوج کو سپاہیوں سے کاشت کاروں میں بدل دیا ۔انہیں زمینیں دیں اور کھیتی باڑی میں انہیں سرکاری طور پر مدد دی اور پھر انہیں یہ اجازت بھی دے دی کہ ان میں سے جو لوگ فوج میں بھرتی ہونا چاہتے ہیں، ہو سکتے ہیں ۔ سوڈانیوں کو یوں دانشمندی سے ٹھکانے لگانے لگا کر صلاح الدین ایوبی نے نورالدین زنگی کی بھیجی ہوئی فوج اور اپنی فوج کو یکجا کرکے اس میں وفادار سوڈانیوں کو بھی شامل کر کے ایک فوج منظم کی اور صلیبیوں پر حملے کے منصوبے بنانے لگا ۔اس نے علی بن سفیان سے کہا کہ وہ اپنے جاسوسوں اور شب خون مارنے والے جانبازوں کے دستے فوراً تیار کرے۔ اُدھر صلیبیوں نے بھی جاسوسی اور تخریب کاری کا انتظام مستحکم کرنا شروع کردیا ۔
صلاح الدین ایوبی کے دور کے واقع نگاروں کی تحریروں میں ایک شخص سیف اللہ کا ذکر ان الفاظ میں آتا ہے کہ اگر کسی انسان نے سلطان ایوبی کی عطاعت کی ہے تو وہ سیف اللہ تھا۔ سلطان ایوبی کے گہرے دوست اور دستِ راست بہائوالدین شداد کی اس ڈائری میں جو آج بھی عربی زبان میں محفوظ ہے، سیف اللہ کا ذکر ذرا تفصیل ہے ملتا ہے ۔ یہ شخص جس کا نام کسی باقاعدہ تاریخ میں نہیں ملتا ، صلاح الدین ایوبی کی وفات کے بعد سترہ سال زندہ رہا ۔واقع نگار لکھتے ہیں کہ ا س نے عمر کے یہ آخری سترہ سال سلطان ایوبی کی قبر کی مجاوری میں گزارے تھے۔ اس نے وصیت کی تھی کہ وہ مر جائے تو اسے سلطان کے ساتھ دفن کیا جائے ، مگر سیف اللہ کی کو ئی حیثیت نہیں تھی ۔ وہ ایک گمنام انسان تھا ، جسے عام قبرستان میں دفن کیا گیا اور وہ وقت جلدی ہی آگیا کہ اس قبرستان پر انسانوں نے بستی آباد کر لی اور قبرستان کا نام و نشان مٹا ڈالا ۔
تاریخی لحاظ سے سیف اللہ کی اہمیت یہ تھی کہ وہ سمندر پار سے صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے آیا تھا ۔ اُس وقت اس کا نام میگناناماریوس تھا ۔ اُس نے اسلام کا صرف نام سنا تھا ۔ اسے کچھ علم نہیں تھا کہ اسلام کیسا مذہب ہے ۔ صلیبیوں پے پروپیگنڈے کے مطابق اسے یقین تھا کہ اسلام ایک قابلِ نفرت مذہب اور مسلمان ایک قابلِ نفرت فرقہ ہے جو عورتوں کا شیدائی اور انسانی گوشت کھانے کا عادی ہے ۔ لہٰذا
جاری ھے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں