صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔52 جب خزانہ مل گیا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
قدومی خوف سے کانپنے لگی۔ کچھ اور آگے گئے تو دو لاشیں اکٹھی پڑی تھیں۔ یہ بڑی عمرکے آدمیوں کی تھیں۔ دونوں میں تیر پیوست تھے اور جب وہ اسماعیل کے ساتھ فراخ جگہ گئی جہاں مارکونی کے آدمی اوپر سے اترے تھے، وہاں اسے کئی اور لاشیں نظر آئیں۔ ان میں پانچ چھ لاشیں بچوں کی بھی تھیں۔ تمام لاشوں کے منہ اور آنکھیں کھلی ہوئیں اور چہروں پر اذیت اور کرب کے بھیانک تاثرات تھے۔ قدومی کسی بڑی ہی حسین دنیا کی عورت تھی۔ اس نے ایسا ہیبت ناک منظر کبھی خواب میں نہیں دیکھا تھا۔ ایک بہت ہی چھوٹے سے بچے کی لاش دیکھ کر اس کی چیخ نکل گئی۔مارکونی کے تین چار آدمی چیخ سن کر دوڑے آئے۔ قدومی کو چکر آگیا تھا اور اسماعیل نے اسے تھام لیا تھا۔ مارکونی کے آدمیوں کو بتایا گیا کہ وہ لاشیں دیکھ کر ڈر گئی ہے۔ ایک آدمی اس کے لیے پانی لینے کو دوڑا۔ قدومی جلدی سنبھل گئی۔ اس نے پوچھا کہ یہ مرنے والے کون تھے اور انہیں کیوں قتل کیا گیا ہے؟ قدومی نے اسماعیل کی طرف دیکھا۔ اس کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا۔ اسماعیل نے کہا… ''ہم سے یہ لوگ اچھے تھے جو اس خزانے کی رکھوالی کررہے تھے۔ یہ ننگے آدم خور دیانت دار تھے جنہوں نے جان دے دی، خزانے کا بھید نہ بتایا۔ اگر یہ فرعون کا مدفن اکھاڑ کر مال ودولت نکال لے جاتے تو انہیں کون پکڑ سکتا تھا مگر یہ دیانت دار تھے۔ ہم ڈاکو اور قاتل ہیں جو اپنے آپ کو مہذب سمجھتے ہیں۔ یہ مارکونی کی کارستانی ہے''۔ ''میں اس خزانے میں سے کچھ بھی نہیں لوں گی جس کی خاطر ان معصوم بچوں اور بے گناہ آدمیوں کو اس بے دردی سے قتل کیا گیا ہے''… قدومی نے کہا… ''ان کے پاس کوئی ہتھیار نظر نہیں آتا۔ یہ نہتے تھے''۔اس وقت مارکونی بوڑھے کے ساتھ ایک چٹان کے پیچھے گیا ہوا تھا۔ بوڑھے نے اسے کہا… ''اوپر چلے جائو، وہاں تمہیں ایک بہت بڑا پتھر جو یہیں سے نظر آرہا ہے، اسے تم چٹان ہی سمجھ رہے ہو اگر اسے وہاں سے ہٹا سکو تو تمہیں اس دنیا کا دروازہ نظر آئے گا جس میں ریمینس دوم کا تابوت اور اس کا خزانہ رکھا ہے۔ اس چٹان کو اس وقت سے کسی نہیں ہلایا جب سے یہاں یہاں رکھی گئی ہے۔ پندرہ صدیوں سے اس چٹان کو کسی نے چھوا بھی نہیں۔ ہم پندرہ صدیوں سے اس کی رکھوالی کررہے ہیں۔ میں تمہیں ریمینس کی موت کے واقعات اس طرح سنا سکتا ہوں جیسے وہ کل میرے سامنے مرا ہو۔ یہ مجھے باپ اور دادا نے سنائے تھے۔ دادا کو اس کے باپ اور دادا نے سنائے تھے اور اس طرح پندرہ صدیوں کی باتیں میرے سینے میں آئیں جو میں نے اپنے قبیلے کو سنا دی ہیں ''۔ ''میں یہ باتیں بعد میں سنوں گا''… مارکونی نے بیتاب ہوکر کہا اور وہ چٹان پر چڑھ گیا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اوپر کی مخروطی چٹان الگ ہے یا الگ کی جاسکتی ہے۔ اس نے ادھر ادھر سے دیکھنے کی کوشش کی مگر اسے کوئی ایسی جگہ نظر نہ آئی جس سے یہ چٹان الگ معلوم ہوتی ہے۔ وہ نیچے اتر آیا۔ ''میں جانتا ہوں، تم یقین نہیں کرو گے کہ اس چٹان کے دو حصے ہیں''… بوڑھے نے کہا… ''اوپر کا حصہ جو پیچھے پہاڑ کے ساتھ ملا ہوا ہے، پہاڑ اور چٹان کا حصہ معلوم ہوتا ہے، لیکن ایسا نہیں۔ یہ انسانی ہاتھوں کا کمال ہے۔ اس کی ساخت قدرتی لگتی ہے لیکن یہ انسانوں کی کاریگری ہے۔ ریمینس نے یہ اپنی نگرانی میں بنوایا تھا۔ اس کے نیچے اور پہاڑ کے سینے میں جو دنیا آباد ہے، وہ ریمینس نے اپنی زندگی میں تیار کرائی تھی اور اسے باہر کی دنیا کے انسانوں سے تاقیامت چھپائے رکھنے کے لیے اس نے یہ چٹان بنوائی، رکھوا کر دیکھی اور ان آدمیوں کو قید میں ڈال دیا تھا جنہوں نے اس کا مدفن اور چٹان تیار کی تھی۔ وہ مرگیاتو اس کا تابوت یہاں لایا گیا۔ اس کا ضرورت کا سامان اندر رکھا گیا۔ کاریگروں کو قید سے نکال کر اوپر چٹان رکھوائی گئی اور ان تمام آدمیوں کو قتل کردیا گیا۔ بارہ آدمیوں کو یہاں غاروں میں آباد کیا گیا۔ انہیں مصر کی بارہ خوبصورت عورتیں دی گئیں۔ انہیں غاروں میں رہنے کو کہا گیا۔ ان کے ذمے اس جگہ کی رکھوالی تھی۔ آج تم نے جنہیں قتل کردیا اور میں جو زندہ ہوں، انہی بارہ آدمیوں اور بارہ عورتوں کی نسل سے ہیں''۔ ''اس چٹان کو ہم وہاں سے ہٹا کس طرح سکتے ہیں؟
''… مارکونی نے پوچھا۔ ''تمہاری آنکھیں کہاں ہیں؟''… بوڑھے نے پوچھا… ''تمہاری عقل کہاں ہے؟''… اور اس نے کہا… ''چٹان کی چوٹی دیکھو۔ کیا تم اسے رسے کے ساتھ سے نہیں باندھ سکتے؟ اگر تمہارے آدمیوں میں طاقت ہے تو مل کر رسے کو کھینچیں تو چٹان نیچے آسکتی ہے''۔مارکونی مدفن کو بہت جلد بے نقاب کرنے کے لیے بیتاب تھا۔ اس نے اپنے آدمیوں کو بلایا۔ رسے منگوائے اور دو رسے اوپر والی چٹان کی ابھری ہوئی چوٹی کے ساتھ بندھوا دئیے۔ اس نے تمام آدمیوں سے کہا کہ نیچے سے رسہ پوری طاقت سے کھینچیں۔ وہ خود اوپر چلا گیا۔ نیچے سے جب سب نے زور لگایا تو اس نے دیکھا کہ بڑی چٹان ہل رہی تھی۔ ایک بار یہ اتنی زیادہ ہل گئی کہ اسے اس کے نیچے خلا نظر آگیا۔ اس کا حوصلہ بڑھ گیا۔ اس نے نعرے لگانے شروع کردیئے۔ اس کے آدمیوں نے اور زور لگایا تو چٹان سرک گئی۔ مارکونی نے اپنے آدمیوں کو ذرا آرام کرنے کو کہا۔سورج سیاہ پہاڑ کے پیچھے چلا گیا تھا۔ مارکونی کے پاس شراب کا ذخیرہ تھا۔ اس نے شراب کا مشکیزہ منگوا کر کہا پیو اور اس چٹان کو کنکر کی طرح نیچے پھینک دو۔سب شراب پر ٹوٹ پڑے۔ مارکونی نے پرجوش لہجے میں کہا… ''میں آج رات تمہیں دو اونٹ بھون کر کھلائوں گا''… تھوڑی دیر بعد شراب نے سب کی تھکن دور کردی اور ان میں نئی تازگی آگئی۔ اتنے میں سورج افق سے بھی نیچے چلا گیا تھا۔ مشعلیں جلا کررکھ لی گئیں اور سب نے ایک بار پھر زور لگانا شروع کیا۔ مارکونی اوپر کھڑا تھا۔ اسے مشعلوں کی ناچتی روشنی میں چٹان کا بالائی حصہ آگے کو جھکتا اور کچھ سرکتا نظر آیا۔ اس نے اور زیادہ جوش سے نعرے لگانے شروع کردئیے۔ اچانک چٹان مہیب آواز کے ساتھ سرک گئی اور الٹ کر نیچے کو لڑھک گئی جہاں مارکونی کے آدمی تھے وہ جگہ تنگ تھی۔ ان کے پیچھے بھی ایک پتھریلی ٹیکری تھی۔ اوپر سے چٹان اتنی تیزی سے آئی کہ نیچے سے آدمی بھاگ نہ سکے۔ روشنی بھی کم تھی۔ پہاڑوں اور چٹانوں میں گھری ہوئی یہ دنیا بیک وقت کئی ایک چیخوں سے لرز اٹھی اور سکوت طاری ہوگیا۔ مارکونی دوڑتا نیچے آیا۔ ایک مشعل اٹھا کر دیکھا۔ گری ہوئی چٹان کے نیچے سے خون بہہ رہا تھا۔ کسی کا ہاتھ نظر آرہا تھا، کسی کی ٹانگ اور کسی کا سر اورکچھ ایسے بھی تھے جو درمیان میں نیچے آگئے تھے۔مارکونی کو کسی کے دوڑنے کی آہٹیں سنائی دیں۔ کوئی بچ بھی گئے تھے، وہ بھاگ گئے تھے۔ اس نے ٹیکری پر دیکھا، وہاں چار انسان کھڑے تھے۔ ایک بوڑھا تھا، دوسرا اسماعیل، تیسرا مارکونی کا ایک ساتھی جو ہانپ رہا تھا۔ وہ بھاگا نہیں تھا اور چوتھا انسان قدومی تھی جو سراپا خوف بنی کھڑی تھی۔ مارکونی آہستہ آہستہ ٹیکری پر آیا۔ اس نے چاروں کو باری باری دیکھا۔ سب خاموش تھے۔ سب سے پہلے بوڑھا بولا۔ اس نے کہا… ''میں نے تمہیں خبردار کردیا تھا کہ مجھے تمہاری آنکھوں میں موت نظر آرہی ہے۔ میں نے اپنے فرض کو نظر انداز کرکے تمہیں یہ بھید بتا دیا تھا کہ یہ موت کا بھید ہے اور موت میرا فرض پورا کردے گی… کیا تم واپس چلے جائو گے؟''
''نہیں!''… مارکونی نے آہستہ سے کہا… ''میرے یہ ساتھی میرے ساتھ ہیں، یہ میرا ساتھ دیں گے''۔ اس نے ان سے پوچھا… ''معلوم ہوتا ہے، کوئی زندہ نکل گئے ہیں، کون کون بھاگا ہے؟'' ''مجھ سے پوچھو''… بوڑھے نے کہا… ''تمہارے چار آدمی میرے دو آدمیوں کے ساتھ بھاگ گئے ہیں۔ میرے آدمی انہیں باہر کا راستہ نہیں بتائیں گے۔ انہیں اب اندر بھٹک بھٹک کر مرنا ہے۔ بہتر ہوتا کہ وہ چٹان کے نیچے آکر مرجاتے۔ یہ موت آسان تھی۔ آج رات کے لیے یہ کام بند کردو۔ میں صبح تمہیں اندر لے جائوں گا''۔٭ ٭ ٭مارکونی پر اس حادثے کا کوئی اثر معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اس نے بوڑھے کو اپنے ساتھ کھانا کھلایا۔ اسماعیل نے بوڑھے کو ایک چادر دی جو اس نے اپنے اوپر ڈال لی۔ قدومی پر خاموشی طاری تھی۔ وہ ان عورتوں کو بھی دیکھ چکی تھی جنہیں مارکونی نے یرغمال بنا کے رکھا ہوا تھا۔ وہ اب کسی اور جگہ تھیں۔ ''تم میرے ایک آدمی کو کھا گئے تھے''۔ مارکونی نے کہا۔ ''اس سے پہلے تم نے کتنے انسان کھائے ہیں؟'' ''جتنے ہاتھ لگ سکے''
'… بوڑھے نے جواب دیا… ''میں بتا نہیں سکتا کہ ہمارے نسل میں انسانی گوشت کب داخل ہوا جو تاریخ میرے کانوں میں ڈالی گئی ہے اس میں پندرہ صدیوں پرانی ایک پیشن گوئی شامل ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ جو لوگ خدائے ریمینس کے مدفن کی حفاظت کریں گے، انہیں ریگزار اپنی ٹھنڈی آغوش میں رکھے گا۔ انہیں پانی اور خواہش سے آزاد کردے گا۔ انہیں یہ بھی ضرورت نہیں رہے گی کہ وہ اپنے ستر ڈھانپیں۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ہوگی۔ ان میں کوئی لالچ نہیں ہوگا۔ لالچ ہی انسان کو قاتل، ڈاکو اور بددیانت بناتا ہے۔ وہ کبھی دولت کا لالچ کرتا ہے اور کبھی عورت کا۔ اس کا دین نہیں رہتا۔ لالچ فساد کی جڑ ہے۔ ہمیں اس لعنت سے آزاد کردیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ ریمینس کے محافظ انسان کا گوشت کھائیں گے۔ یہاں سے باہر جائیں گے۔ انسان کا شکار کھیلیں گے اور کوئی جانور ملے تو اسے بھی کھائیں گے اگر نہیں کھائیں گے تو ان کی نسل ختم ہوجائے گی''۔ ''کیا تم آج بھی فرعونوں کو خدا سمجھتے ہو؟''… قدومی نے بوڑھے سے پوچھا۔ ''انسان بڑی کمزور چیز ہے۔ اپنے خدا بدلتا رہتا ہے''… بوڑھے نے کہا… ''اور کبھی انسان خود ہی خدا بن جاتا ہے۔ اس وقت تم لوگ میرے خدا ہو کیونکہ میری جان اور میری بچیوں کی عزت جو تمہاری قید میں ہیں، تمہارے ہاتھ میں ہے۔ میں نے تم پر یہ راز تمہیں خدا سمجھ کر فاش کردیا ہے کیونکہ میں مرنے سے ڈرتا ہوں اور اپنی بچیوں کو بے آبرو کرنے سے ڈرتا ہوں۔ فرعون نے بھی تمہاری طرح اپنے وقت کی مخلوق کی گردن پر بھوک اور بیگار کی چھری رکھ کر کہا تھا کہ میں خدا ہوں۔ انسان نے مجبور ہوکر کہا… ''ہاں! تم ہی خدا ہو''… بھوک اور مفلسی انسان کو حقیقت سے بہت دور لے جا کر پھینک دیتی ہے۔ اس کے اندر کا انسان مرجاتا ہے۔ جسے حقیقی خدا نے اشرف المخلوقات کہا تھا، اس کا صرف جسم رہ جاتا ہے جسے پیٹ کی آگ جلاتی ہے تو وہ اس انسان کے آگے سجدے کرنے لگتا ہے جو اس کے پیٹ کی آگ ٹھنڈی کرتا ہے۔ انسان کی اسی کمزوری نے بادشاہ پیدا کیے۔ ڈاکو اورراہزن پیدا کیے۔ انسان کو حاکم اور محکوم، ظالم اور مظلوم بنایا۔ لوگ کہتے ہیں کہ انسان کو بھوک نے بدی سے آشنا کیا۔ یہ غلط ہے۔ انسان کو بدکار زروجواہرات نے بنایا ہے… تم کون ہو؟ کیا ہو؟''۔ اس نے قدومی سے پوچھا… ''ان میں سے کس کی بیوی ہو؟ ان میں سے کسے اپنا آدمی کہہ سکتی ہو؟''… بوڑھے کو معلوم ہوچکا تھا کہ قدومی قاہرہ کی رقاصہ ہے۔قدومی اس کے سوال سے پریشان ہوگئی۔ وہ پہلے پریشان تھی۔ بوڑھے کے سوال نے اس کا پسینہ نکال دیا۔ بوڑھے نے اسے خاموش دیکھ کر کہا… ''تم اپنے حسین چہرے اور جوانی کی بدولت اپنے آپ کو خدا سمجھتی ہو اور تمہاری خواہش کرنے والے تمہیں خدا کہتے ہیں۔ مجھے جنگلی اور وحشی نہ سمجھو۔ میرے پاس کپڑے ہیں جو میں پہن کر کبھی کبھی قاہرہ جایا کرتا ہوں… تمہاری مہذب دنیا کو دیکھتا ہوں، پھر واپس آکر کپڑے اتار دیتا ہوں۔ ) میں نے تمہاری دنیا میں بگھیوں پر شہزادے سیر کرتے دیکھے ہیں۔ تمہاری طرح شہزادیاں دیکھی ہیں۔ ناچنے اور گانے والی بھی دیکھی ہیں اور انہیں جو نچاتے ہیں، انہیں بھی دیکھا ہے۔ میں نے فرعونوں کے وقتوں کی باتیں سنی ہیں اور آج کے وقت کے فرعون بھی دیکھے ہیں۔ ان سب کا انجام بھی دیکھا ہے۔ تمہارا انجام بھی جو تمہیں ابھی نظر نہیں آرہا، دیکھ رہا ہوں۔ تم نے خزانے کی لالچ میں اتنے بے گناہ انسانوں کا خون کیا۔ اس گناہ کی سزا سے بچ نہیں سکو گے۔ فرعون بھی نہیںبچ سکے تھے۔ میں صبح تمہیں اندر لے جائوں گا۔ ان کا انجام دیکھنا۔ وہ خدا ہوتے تو ان کا یہ انجام نہ ہوتا۔ خدا وہ ہوتا ہے جو انجام تک پہنچایا کرتا ہے، انجام تک پہنچا نہیں کرتا۔ میں نے اس انسان کو کبھی خدا نہیں مانا جو آج پہاڑی کے نیچے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا ہوا ہے۔ میں اور میرا قبیلہ اس کی حفاظت نہیں کررہے۔ ہم نے دنیا کے لالچ سے بچنے کے لیے اپنا ایک عقیدہ بنالیا ہے۔ ہم اس عقیدے کی حفاظت کررہے ہیں
: ''۔بوڑھا ٹھہری ٹھہری آواز میں بولتا جارہا تھا۔ قدومی اسے دیکھ رہی تھی اور بوڑھے کی باتوں میں اسے اپنا انجام نظر آرہا تھا۔ مارکونی کے ہونٹوں پر طنزیہ سی مسکراہٹ تھی۔ وہ شراب پی رہا تھا۔ اس نے بوڑھے سے کہا… ''تم اپنی عورتوں کے پاس جائو، صبح جلدی اٹھنا۔ ہمیں اندر جانا ہے''۔بوڑھا چلا گیا تو مارکونی نے قدومی سے کہا… ''آئو ہم بھی سوجائیں''۔ ''میں تمہارے ساتھ نہیں جائوں گی''… قدومی نے کہا۔مارکونی اس کی طرف لپکا۔ قدومی پیچھے ہٹ گئی۔ مارکونی نے اسے دھمکی دی۔ اسماعیل اس کے آگے آگیا۔ اس نے کچھ نہیں کہا۔ مارکونی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور مارکونی پیچھے ہٹ گیا۔ وہ جب چلا گیا تو قدومی اسماعیل کے سینے پر سر پھینک کر بچوں کی طرح رونے لگی۔٭ ٭ ٭صبح جاگے تو مارکونی نے بوڑھے کو ڈھونڈا، بوڑھا وہاں نہیں تھا۔ عورتوں کو دیکھا، وہ بھی غائب تھیں۔ انہیں آوازیں دیں۔ ادھر ادھر دیکھا۔ ان میں سے کوئی بھی نظر نہ آیا۔ مارکونی کو اب ان کی اتنی ضرورت نہیں تھی۔ مدفن کا دہانہ کھل چکا تھا۔ بوڑھا اگر وہاں ہوتا بھی تو اسے معلوم نہیں تھا کہ اندر کیا ہے۔ مارکونی نے اسماعیل، اپنے ساتھی اور قدومی کو اپنے ساتھ لیا اور وہ سب اس چٹان پر چڑھ گئے جہاں مدفن کے اندر جانے کا دہانہ تھا۔ مارکونی نیچے اترا۔ یہ ایک کشادہ گڑھا تھا، جو سرنگ بن کر ایک طرف چلا گیا تھا۔ وہ مشعلیں ساتھ لے گئے تھے، جو جلائی گئیں۔ کچھ دور آگے جاکر سرنگ بند ہوگئی۔ مارکونی نے وہاں الٹی کدال ماری تو ایسی آوازیں آئی جیسے اس کے پیچھے جگہ کھوکھلی ہے۔یہ پتھر کا چوکور دروازہ تھا۔ اس پر ضربیں لگائی گئیں تو کناروں سے خلا نظر آنے لگی۔ سلاخوں اور ہتھوڑوں وغیرہ کی مدد سے اس تراشے ہوئے پتھر کو ہلا لیا گیا اور بہت سی محنت اور مشقت کے بعد اس چوکور پتھر نے اس طرح راستہ دے دیا کہ پیچھے کو گرا۔ اس کے وزن کا یہ عالم تھا کہ اس کے گرنے سے زلزلے کا جھٹکا محسوس ہوا۔ اندر سے پندرہ سولہ صدیوں کی بدبو جھکڑ کی طرح باہر آئی۔ سب پیچھے کو بھاگے اور انہوں نے ناک منہ پر کپڑے لپیٹ لیے۔ ذرا دیر بعد مشعلوں کے ساتھ اندر گئے۔ چند قدم آگے سیڑھیاں نیچے جاتی تھیں۔سیڑھیوں پر انسانی کھونپڑیاں اور ہڈیوں کے پنجر پڑے تھے۔ ان کے ساتھ برچھیاں اور ڈھالیں بھی تھیں۔ یہ پہرہ داروں کی ہڈیاں تھیں۔ انہیں اندر زندہ پہرے پر کھڑا کرکے مدفن کے منہ پر اتنی وزنی سل جما دی گئی تھی۔ سیڑھیاں انہیں دور نیچے لے گئیں۔ یہ ایک وسیع کمرہ تھا۔ یہ زمین پتھریلی تھی۔ کاریگروں نے لمبی مدت صرف کرکے دیواریں اور چھت اس طرح تراشی تھی کہ یہ بیسیویں صدی کی عمارت معلوم ہوتی تھی۔ وہاں ایک بڑی ہی خوش نما کشتی رکھی تھی جس کے بادبان لپٹے ہوئے تھے۔ کشتی میں بھی انسانی کھونپڑیاں اور ہڈیاں پڑی تھیں۔ یہ ملاحوں کی تھیں۔ ایک تاریک راستہ جو کا ریگری سے تراشا گیا تھا، ایک اور کمرے میں لے گیا۔ وہاں ایک سجی سجائی گھوڑا گاڑی کھڑی تھی۔ اس کے آگے آٹھ گھوڑوں کی کھونپڑیاں اور ہڈیاں بکھری ہوئی تھی اور بگھی کی آگلی سیٹ پر انسانی ہڈیوں کا ڈھیر تھا۔ اس کمرے میں کئی اور ہڈیوں کے پنجر تھے۔ اس سے آگے ایک اور کمرہ تھا جو صحیح معنوں میں شیش محل تھا۔ چھت اونچی اور دیواروں پر چتر کاری کی گئی تھی۔ ایک دیوار کے ساتھ سیڑھیاں اور ان پر ایک پتھر کی کرسی اور کرسی پر ریمینس کا بت بیٹھا ہواتھا۔ یہ بھی پتھر کا تھا۔سیڑھیوں پر ہڈیوں کے پنجر اور کھونپڑیاں پڑی تھیں۔ قدومی نے ایک کھونپڑی کے ساتھ موتیوں کا ایک ہار دیکھا جس کے ساتھ ایک نیلا ہیرا تھا۔ کانوں میں ڈالنے والے زیورات تھے اور انگوٹھیاں بھی چند اور ڈھانچوں کے ساتھ اس نے ہار اور زیورات دیکھے۔ مارکونی نے ایک ہار اٹھایا، ڈیڑھ ہزار سال گزر جانے کے بعد بھی ان موتیوں اور ہیروں کی چمک مانند نہیں پڑی تھی۔ مشعل کی روشنی سے ہیرے رنگا رنگ شعاعیں دیتے تھے۔ مارکونی ہار قدومی کے گلے میں ڈالنے لگا تو قدومی چیخ کر اسماعیل کے پیچھے ہوگئی۔ مارکونی نے قہقہہ لگا کر کہا… ''میں نے کہا تھا کہ تمہیں ملکہ قلوپطرہ بنائوں گا۔ ڈرو مت قدومی! یہ سب ہار تمہارے ہیں''۔ ''نہیں!''… قدومی نے لرزتی کانپتی آواز میں کہا…
… ''نہیں! میں نے ان کھونپڑیوں اور ہڈیوں میں اپنا انجام دیکھ لیا ہے۔ یہ بھی مجھ جیسی تھیں۔ یہ اس ''خدا'' کی محبوبہ کا ہار ہے جو یہیں کہیں مرا پڑا ہے۔ میں نے ان کا انجام دیکھ لیا ہے جنہیں تکبر نے ''خدا'' بنایا ہے۔ میں نے اپنا خدا دیکھ لیا ہے''… وہ اس قدر گھبرائی ہوئی تھی کہ اس نے اسماعیل کو گھسیٹتے ہوئے کہا… ''مجھے یہاں سے لے چلو۔ مجھے لے چلوں یہاں سے۔ میں ہڈیوں کا پنجر ہوں''… اس کے گلے میں اپنا ہار تھا۔ اس نے یہ ہار اتار کر ہڈیوں پر پٹخ دیا۔ انگلیوں سے بیش قیمت انگوٹھیاں اتار کر پھینک دیں اور چلانے لگی… ''میں نے اپنا انجام دیکھ لیا ہے۔ میں نے خدا دیکھ لیا ہے، مجھے یہاں سے لے چلو''۔مارکونی ایک اور کمرے میں جاچکا تھا۔ اسماعیل نے قدومی سے کہا… ''ہوش میں آئو، ہم چلے گئے تو یہ سارا خزانہ دونوں صلیبی اٹھالے جائیں گے''… اسماعیل کو ایک اور راستہ نظر آگیا۔ مشعل اس کے ہاتھ میں تھی۔ وہ قدومی کو اس طرف لے گیا اور وہ ایک اور فراخ کمرے میں داخل ہوئے۔ وسط میں ایک چبوترے پر تابوت رکھا تھا، چہرہ ننگا تھا۔ یہ فرعون ریمینس دوم جس کے آگے لوگ سجدے کرتے تھے۔ لاش حنوط کی ہوئی تھی۔ چہرہ بالکل صحیح تھا۔ آنکھیں کھلی ہوئی تھی۔ اسماعیل اس چہرے کو بہت دیر تک دیکھتا رہا۔ قدومی نے بھی دیکھا، پھر انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ انہوں نے ادھر دھر دیکھا تو وہاں بھی ہڈیوں کے پنجر نظر آئے اور وہیں انہیں بڑے خوش نما بکس بھی دکھائی دئیے۔ ایک بکس کا ڈھکنا کھلا تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ اس میں سونے کے زورات اور ہیرے پڑے تھے۔ ان پر ایک انسانی بازو کی ہڈی اور ایک ہاتھ کی ہڈیاں پھیلی ہوئی تھی۔ بکس کے ساتھ کھونپڑی اور باقی ہڈیاں پڑی تھیں۔ ''آہ انسان!''… اسماعیل نے کہا… ''اس شخص نے مرنے سے پہلے یہ زیورات اور ہیرے اٹھانے کی کوشش کی۔ اسے امید ہوگی کہ یہاں سے نکل بھاگے گا مگر دم گھٹنے سے خزانے کے اوپر مرگیا۔ بوڑھے نے ٹھیک کہا تھا کہ انسان کی دشمن بھوک نہیں ہوس ہے''۔ اس نے بکس کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا… ''قدومی! تم بھی ہوس لے کے آئی ہو، میں تمہیں کچھ دے دوں''۔ ''نہیں اسماعیل!''… قدومی نے اس کا ہاتھ روکتے ہوئے کہا… ''میری ہوس مرچکی ہے، قدومی مرچکی ہے''۔اسماعیل نے پھر بھی بکس میں ہاتھ ڈالا۔ قدومی نے چلا کر کہا… بچواسماعیل!۔اسماعیل استاد تھا۔ وہ ایک طرف گر کر لڑھک گیا اور اٹھا، اس نے دیکھا کہ مارکونی تلوار سونپے اس پر حملے آور ہوا تھا۔ اس کی تلوار کا وار بکس پر پڑا۔ مارکونی کی آواز سنائی دی… ''یہ میرا خزانہ ہے''… اتنے میں مارکونی کا ساتھی بھی آگیا۔ اسماعیل کے پاس خنجر تھا، جس سے وہ تلوار کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ قدومی کو قریب ہی ایک برچھی پڑی نظر آگئی۔ مارکونی اسماعیل پر وار کررہا تھا جو وہ مشعل سے روک رہا تھا۔ مارکونی کے ساتھی نے بھی اسماعیل پر حملہ کیا۔ دونوں صلیبی خزانہ دیکھ کر پاگل ہوچکے تھے۔ قدومی کو انہوں نے نہیںدیکھا کہ وہ کیا کررہی ہے۔ جوں ہی مارکونی کی پیٹھ قدومی کی طرف ہوئی، قدومی نے پوری طاقت سے برچھی اس کے پہلو میں اتار دی۔ برچھی نکال کر ایک اور وار کیا اور اسے لڑھکا دیا۔ اس کا ایک ہی ساتھی رہ گیا۔ وہ قدومی پر تلوار کا وار کرنے کو لپکا تو اسماعیل نے خنجر سے اس کے پہلو سے پیٹ چیر ڈالا۔قدومی جو خزانے میں سے حصہ لینے گئی تھی، اپنے گلے کا ہار بیش قیمت دو انگوٹھیاں اور کانوں کے زیورات وہاں پھینک کر اسماعیل کے ساتھ باہر نکل آئی۔ دہانے والے دروازے سے نکلتے ہوئے اسماعیل نے جلتی ہوئی مشعل اندر ہی پھینک دی۔ وہ دونوں ان اشیاء کے علاوہ بہت کچھ اندر ہی پھینک آئے تھے۔ قدومی کو جب باہرکی تازہ ہوا لگی تو اس نے اسماعیل سے کہا… ''ہم کہاں سے آئے ہیں؟ کیا تم مجھے پہچان سکتے ہو؟ میں کون ہوں؟''
: ''میں بھی کچھ ایسے ہی محسوس کررہا ہوں''۔ اسماعیل نے کہا۔ ''ہم شاید سارے گناہ اندر ہی پھینک آئے ہیں''۔اس علاقے سے باہر نکلنے کا راستہ انہیں معلوم تھا۔ وہ باہر نکل گئ
''اس شخص نے مرنے سے پہلے یہ زیورات اور ہیرے اٹھانے کی کوشش کی۔ اسے امید ہوگی کہ یہاں سے نکل بھاگے گا مگر دم گھٹنے سے خزانے کے اوپر مرگیا۔ بوڑھے نے ٹھیک کہا تھا کہ انسان کی دشمن بھوک نہیں ہوس ہے''۔ اس نے بکس کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا… ''قدومی! تم بھی ہوس لے کے آئی ہو، میں تمہیں کچھ دے دوں''۔ ''نہیں اسماعیل!''… قدومی نے اس کا ہاتھ روکتے ہوئے کہا… ''میری ہوس مرچکی ہے، قدومی مرچکی ہے''۔اسماعیل نے پھر بھی بکس میں ہاتھ ڈالا۔ قدومی نے چلا کر کہا… بچواسماعیل!۔اسماعیل استاد تھا۔ وہ ایک طرف گر کر لڑھک گیا اور اٹھا، اس نے دیکھا کہ مارکونی تلوار سونپے اس پر حملے آور ہوا تھا۔ اس کی تلوار کا وار بکس پر پڑا۔ مارکونی کی آواز سنائی دی… ''یہ میرا خزانہ ہے''… اتنے میں مارکونی کا ساتھی بھی آگیا۔ اسماعیل کے پاس خنجر تھا، جس سے وہ تلوار کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ قدومی کو قریب ہی ایک برچھی پڑی نظر آگئی۔ مارکونی اسماعیل پر وار کررہا تھا جو وہ مشعل سے روک رہا تھا۔ مارکونی کے ساتھی نے بھی اسماعیل پر حملہ کیا۔ دونوں صلیبی خزانہ دیکھ کر پاگل ہوچکے تھے۔ قدومی کو انہوں نے نہیںدیکھا کہ وہ کیا کررہی ہے۔ جوں ہی مارکونی کی پیٹھ قدومی کی طرف ہوئی، قدومی نے پوری طاقت سے برچھی اس کے پہلو میں اتار دی۔ برچھی نکال کر ایک اور وار کیا اور اسے لڑھکا دیا۔ اس کا ایک ہی ساتھی رہ گیا۔ وہ قدومی پر تلوار کا وار کرنے کو لپکا تو اسماعیل نے خنجر سے اس کے پہلو سے پیٹ چیر ڈالا۔قدومی جو خزانے میں سے حصہ لینے گئی تھی، اپنے گلے کا ہار بیش قیمت دو انگوٹھیاں اور کانوں کے زیورات وہاں پھینک کر اسماعیل کے ساتھ باہر نکل آئی۔ دہانے والے دروازے سے نکلتے ہوئے اسماعیل نے جلتی ہوئی مشعل اندر ہی پھینک دی۔ وہ دونوں ان اشیاء کے علاوہ بہت کچھ اندر ہی پھینک آئے تھے۔ قدومی کو جب باہرکی تازہ ہوا لگی تو اس نے اسماعیل سے کہا… ''ہم کہاں سے آئے ہیں؟ کیا تم مجھے پہچان سکتے ہو؟ میں کون ہوں؟''
''میں بھی کچھ ایسے ہی محسوس کررہا ہوں''۔ اسماعیل نے کہا۔ ''ہم شاید سارے گناہ اندر ہی پھینک آئے ہیں''۔اس علاقے سے باہر نکلنے کا راستہ انہیں معلوم تھا۔ وہ باہر نکل گئے۔ باہر تھوڑے سے اونٹ کھڑے تھے، باقی معلوم نہیں کہا غائب ہوگئے تھے۔ وہ دو اونٹوں پر بیٹھے اور قاہرہ کی سمت روانہ ہوگئے۔٭ ٭ ٭ وہ اگلی رات تھی۔ آدھی رات گزر گئی تھی، جب غیاث بلبیس نے قدومی اور اسماعیل کی ساری داستان ہر ایک تفصیل کے ساتھ سن کر لمبی آہ بھری اور کہا… ''مجھے صلاح الدین ایوبی کی باتیں اب صحیح معلوم ہورہی ہیں۔ اس نے کہا تھا ان خزانوں سے دور رہو''۔غیاث بلبیس شہری امور کا کوتوال تھا۔ اسماعیل اور قدومی اسے اچھی طرح جانتے تھے۔ وہ گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتے تھے۔ وہ صحرا سے لوٹ کر احمر درویش کے پاس جانے کے بجائے غیاث بلبیس کے پاس چلے گئے اور اسے ساری واردات سنا کر بتایا کہ اس کا اصل سرغنہ احمر درویش ہے۔ غیاث بلبیس نے اسی وقت علی بن سفیان کو اپنے پاس بلا لیا۔ اسے یہ واردات سنائی۔ احمر معمولی حیثیت کا آدمی نہیں تھا۔ ان دونوں نے سلطان ایوبی کو جا جگایا اور اجازت مانگی کہ وہ احمر درویش کو گرفتار کرلیں۔ انہیں اجازت مل گئی۔ انہوں نے فوج کے کچھ آدمی ساتھ لیے اور احمر درویش کے گھر چھاپہ مارا۔ سارے گھر کی تلاشی لی۔ وہاں سے وہ نقشے اور کاغذات برآمد ہوئے جو پرانی دستاویزات کے پلندے سے غائب تھے۔صبح علی بن سفیان اور غیاث بلبیس کے ساتھ فوج کے ایک بڑے دستے کو اس پراسرار علاقے کی طرف بھیجاگیا، جہاں ریمینس کا مدفن تھا۔ سلطان ایوبی نے حکم دیا تھا کہ ثبوت وغیرہ دیکھ کر مدفن کو اس طرح بند کردیا جائے جس طرح پہلے تھا۔ کسی کو اندر نہ جانے دیا جائے۔ اسماعیل رہنمائی کررہا تھا۔ وہاں گئے تو وہ جگہ خونچکاں کہانی بیان کررہی تھی۔ فوج کی مدد سے مدفن کے دہانے کو اسی وزنی چوکور پتھر سے بند کردیا گیا۔ جو نیچے پڑی تھی۔ اسے فوج کی ایک بڑی جمعیت نے رسوں اور زنجیروں سے اوپر کیا اور فرعون ایک بار پھر نظروں سے اوجھل ہوگیا مگر اب وہ اپنے جیسے دو اور گناہ گاروں کی لاشیں اپنے مدفن میں لے گیا۔
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں