داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 51 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اکتوبر 13, 2019

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 51

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔51۔ جب خزانہ مل گیا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تو وہ فرعون نہیں تھے۔ان کے مالک اس وقت کے انسان تھے۔ میں یہ مشورہ پیش کرنے کی جرأت ضرور کروں گا کہ یہ خزانے نکال کر آج کے انسان کی فلاح وبہبود اور وقار کے لیے استعمال کیے جائیں''۔ ''اور میں تمہیں یہ بھی بتا دوں''… سلطان ایوبی نے کہا… ''کہ یہ خزانے تمہارے سامنے آئے تو تم بھی فرعون بن جائو گے۔ انسان کو یہ جرأت کس نے دی تھی کہ وہ اپنے آپ کو خدا سمجھے؟… دولت اور دولت کی ہوس نے۔ انسان کو انسان کے آگے سجدہ کس نے کرایا تھا؟… مفلسی اور بھوک نے۔ تم صلیبیوں کی بات کرتے ہو کہ انہوں نے فرعونوں کے ایک مدفن کو لوٹا۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ جب پہلے فرعون کی لاش تمام تر خزانے کے ساتھ زمین میں دبائی گئی تھی، قبر چوری اسی وقت شروع ہوگئی تھی۔ انسان وحشیوں اور درندوں کی طرح پہلے فرعون کے مدفن پر ٹوٹ پڑے تھے۔ ان کا دین اور ایمان صرف دولت بن گیا تھا پھر فرعون مرکز اپنے خزانے زمین میں لے جاتے رہے اور قبر چوری باقاعدہ پیشہ بن گئی۔ اس کے بعد ہر فرعون نے اپنی زندگی میں ہی اپنا مدفن کسی ایسی جگہ تیار کرایا کہ کوئی اسے کھول نہ سکے اور جب فرعونوں کا دور ختم ہوگیا تو مصر جس کے قبضے میں بھی آیا اس نے اس چھپے ہوئے خزانوں کی تلاش شروع کردی۔ میں جانتا ہوں کہ فرعونوں کے بہت سے مدفن ایسے ہیں جن کے متعلق کوئی جانتا ہی نہیں کہ کہاں ہیں۔ وہ زمین دوز محل ہیں۔ قیامت تک مصر کے حکمران اور حملہ آور ان مدفنوں کو ڈھونڈتے رہیں گے''… ''ان تمام حکومتوں کو زوال کیوں آیا؟ صرف اس لیے کہ ان کی توجہ خزانوں پر مرکوز ہوگئی تھی۔ رعایا کو یہ تاثر دیا گیا کہ دولت ہے تو عزت ہے۔ ہاتھ خالی ہے تو تم بھی اور تمہاری بیٹیاں بھی ان کی ہیں جن کے پاس دولت ہے…میرے رفیقو! صلاح الدین ایوبی کو اس قطار میں کھڑا نہ کرو۔ میں اپنی قوم کو یہ تاثر دینا چاہتا ہوں کہ اصل دولت قومی وقار اور ایمان ہے لیکن یہ تاثر صرف اس صورت میں پیدا کیا جاسکتا ہے کہ میں خود اور تم سب جو حکومت کے ستون ہو، دل سے دولت کا لالچ نکال دو''۔ ''ہم ان خزانوں کی تلاش ذاتی لالچ کے لیے نہیں کرنا چاہتے''۔ ایک کمانڈر نے کہا… ''ہم قومی ضروریات کے پیش نظر یہ مہم شروع کرنا چاہتے ہیں''۔ ''میں جانتا ہوں میرا انکار تم میں سے کسی کو پسند نہیں''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''میری بات سمجھنے کے لیے تمہیں اپنے ذہن بالکل خالی کرنے ہوں گے۔ میری عقل مجھے بتا رہی ہے کہ باہر سے آئی ہوئی دولت جو قومی ضروریات کے لیے آئی ہو، حاکموں کے ایمان متزلزل کرتی ہے۔ یہ دولت کی لعنت ہے اگر میرے پاس گھوڑا خریدنے کے لیے رقم نہیں ہوگی تو میں فوج کے ساتھ پیدل بیت المقدس جائوں گا۔ گھوڑا خریدنے کے لیے مردوں کے کفن اتار کر نہیں بیچوں گا۔ میرا مقصد بیت المقدس کو صلیبیوں سے آزاد کرانا ہے۔ گھوڑا خریدنے کے لیے رقم کا حصول میرا مقصد نہیں۔ تم جب خزانوں کی تلاش کرنے لگو گے تو قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے طور پر چوری چھپے مقبروں کو اکھاڑنے لگیں گے۔ مصر میں ایسا ہوتا آیا ہے اور جب یہ خزانے تمہارے سامنے آئیں گے تو تم ایک دوسرے کے اگر دشمن نہ ہوئے تو ایک دوسرے کو شک کی نگاہوں سے ضرور دیکھو گے۔ جہاں خزانے آجاتے ہیں، وہاں انسانی محبت ختم ہوجاتی ہے۔ حقوق العباد کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے۔ ان زروجواہرات نے انسان کو خدا بنایا تھا۔ وہ عذاب کہاں ہیں؟ آسمانوں پر نہیں، زمین کے نیچے ہے۔ میرے رفیقو! میں ایک نئے جرم کی بنیاد نہیں ڈالنا چاہتا۔ ان خزانوں سے بچو۔ یہ خزانوں کے لالچ کا ہی کرشمہ ہے کہ تمہاری صفوں میں غدار بھی موجود ہیں۔ تم دو غداروں کو قتل کرتے ہو تو چار اور پیدا ہوجاتے ہیں۔ اپنی تقدیر، اپنی تدبیر سے بنائو۔ تم مسلمان ہو، اپنی قسمت کفار کے ہاتھوں میں نہ دو۔ ورنہ سب غدار ہوجائو گے۔ فرعون مرچکے ہیں۔ انہیں زمین کی تہوں میں دبا رہنے دو''۔ ''آپ کے حکم کے بغیر ہم ایسی کوئی مہم شروع نہیں کریں گے''۔ کسی نے کہا۔ ''غیاث!'' سلطان ایوبی نے غیاث بلبیس سے مسکرا کر پوچھا… ''آج تمہیں ان پوشیدہ خزانوں کا خیال کیسے آگیا ہے؟ مجھے یہاں آئے چار سال ہوگئے ہیں۔ اس سے پہلے یہ تجویز کیوں پیش نہ کی''۔ ''میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا امیر محترم!'' غیاث بلبیس نے کہا… ''تقریباً دو مہینے ہوئے کتب خانے کے محرر نے مجھے بتایا تھا کہ پرانے کاغذات میں سے کچھ کاغذات گم ہوگئے ہیں۔ میں نے ان کاغذات کی نوعیت اور اہمیت پوچھی تو اس نے بتایا کہ وہ ایسے اہم نہیں تھے کہ تلاش ضروری سمجھی جائے۔ یہ کچھ نقشے سے تھے اور فرعونوں کے وقتوں کی تحریریں تھیں۔ بہت ہی بوسیدہ اور کرم خوردہ کاغذات اور کپڑے تھے۔ محرر نے جب فرعونوں کا نام لیا تو مجھے خیال آیا کہ ان تحریروں اور نقشوں میں فرعونوں
: اس نے بتایا کہ وہ ایسے اہم نہیں تھے کہ تلاش ضروری سمجھی جائے۔ یہ کچھ نقشے سے تھے اور فرعونوں کے وقتوں کی تحریریں تھیں۔ بہت ہی بوسیدہ اور کرم خوردہ کاغذات اور کپڑے تھے۔ محرر نے جب فرعونوں کا نام لیا تو مجھے خیال آیا کہ ان تحریروں اور نقشوں میں فرعونوں کے خفیہ مقبروں کے متعلق معلومات ہوسکتی ہیں۔ میں نے وہ پلندے دیکھے، جن میں سے کاغذات گم ہوئے تھے۔ میں نے یہ سوچ کر زیادہ توجہ نہیں دی کہ ان تحریروں کو آج کون پڑھ اور سمجھ سکتا ہے''۔ ''تم نے صحیح نہیں سوچا عیاث بلبیس!'' سلطان ایوبی نے کہا… ''مصر میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ان تحریروں اور اشاروں کو سمجھ سکتے ہیں۔ ان کاغذوں اورنقشوں کی چوری حیران کن نہیں۔ یہ چوری خزانے کے کسی لالچی نے کی ہوگی۔ ان کاغذوں کے ساتھ مجھے کوئی دلچسپی نہیں، مجھے چور کے ساتھ دلچسپی ہے۔ وہ کوئی تمہارا ہی رفیق نہ ہو۔ اس چور کا سراغ لگائو''۔ ''مجھے شبہ ہونے لگا ہے کہ ان کاغذوں کی کچھ اہمیت ضرور ہے''۔ علی بن سفیان نے کہا… ''میں محترمغیاث بلبیس کے ساتھ بات کرچکا ہوں۔ بہت دنوں سے ہمارے مخبر اور شہر کے اندر کے جاسوس ہمیں کسی پراسرار سرگرمی کی اطلاع دے رہے ہیں۔ قدومی یہاں کی ایک مشہور رقاصہ ہے، جسے امیروں کی محفلوں کی شمع کہا جاتا ہے، پانچ چھ دنوں سے غائب ہے۔ ایک رقاصہ کا شہر سے غیرحاضر ہوجانا کوئی اہم واقعہ نہیں ہوا کرتا لیکن قدومی کو میں نے خاص طور پر نظر میں رکھا ہوا ہے۔ میرے مخبروں نے بتایا ہے کہ اس کے ہاں اجنبی اور مشکوک سے دو آدمی آتے رہے ہیں۔ پھر قدومی کے گھر سے ایک روز ایک پردہ پوش عورت کو نکلتے دیکھا گیا۔ وہ ایک اجنبی تاجر مسافر کے ساتھ جارہی تھی۔ مجھے شک ہے کہ قدومی بھیس بدل کر نکل گئی ہے۔ دوسرے مخبروں کی اطلاعوں سے پتا چلتا ہے کہ کچھ آدمی جنوب کی طرف مشکوک حالت میں جاتے دیکھے گئے ہیں۔ ان سرگرمیوں سے مجھے شک ہوتا ہے کہ ان کا تعلق ان گمشدہ کاغذات کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور یہ شبہ بھی ہے کہ یہ صلیبی تخریب کار ہوں گے۔ جو کچھ بھی ہے ہم ان سرگرمیوں کا کھوج لگا رہے ہیں''۔ ''ضرور کھوج لگائو''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''اور ان خزانوں کو اپنے ذہنوں سے اتار دو۔ میں جانتا ہوں کہ قوم کی فلاح وبہبود کے لیے اور صلیبیوں سے فیصلہ کن جنگ لڑنے کے لیے ہمیں مالی استحکام کی ضرورت ہے مگر میں کسی سے مدد نہیں مانگوں گا۔ محترم نورالدین زنگی نے مالی امداد کا وعدہ کیا ہے۔ میں یہ امداد بھی قبول نہیں کروں گا۔ مالی امداد سگے بھائی سے ملے تو بھی انسانی صلاحیتوں کے لیے محنت اور دیانت داری کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے پھر انسان خزانوں کی تلاش میں مارا مارا پھرنے لگتا ہے۔ مصر کی زمین بانجھ نہیں ہوگئی۔ محنت کرو کہ یہ زمین تمہیں ثمر دے۔ قوم کو بتائو کہ حکومت پر اس کے حقوق کیا ہیں تاکہ وہ اپنے آپ کو رعایا سمجھنا چھوڑ دے اور قوم کو یہ بھی بتائو کہ اس کے فرائض کیا ہے اگر قوم نے فرائض سے نگاہیں پھیر لیں تو حقوق پامال ہوجائیں گے۔ تم جس زمین کی پاسبانی میں خون نہیں بہائو گے اور جس کے وقار کے لیے پسینہ نہیں بہائو گے، وہ تمہارا حق کبھی ادا نہیں کرے گی۔ پھر اس ملک کے حکمران باہر کے خزانوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے اور قوم افراد میں منتشر ہوکر کفار کی غلام ہوجائے گی''۔٭ ٭ ٭جن خزانوں کو سلطان صلاح الدین ایوبی ہاتھ لگانے سے بھی گریز کرتا تھا، ان تک اس کے اپنے ہی ایک جرنیل کے بھیجے ہوئے پچاس آدمی پہنچ گئے تھے۔ مارکونی، اسماعیل، قدومی اور ایک اور صلیبی شام کو پہنچے۔ ان کے باقی ساتھی جو الگ الگ ٹولیوں میں روانہ ہوئے تھے، اسی رات پہنچنا شروع ہوئے اور آدھی رات کے بعد پورے پچاس آدمی پہنچ گئے۔ جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے، یہ جگہ ایسی تھی جس کے قریب سے کبھی کوئی مسافر نہیں گزرا تھا۔ جگہ ڈرائونی ہونے کے علاوہ کسی راستے پر پڑتی ہی نہیں تھی۔ یہ چونکہ سرحد سے دور تھی، اس لیے سرحدی دستوں کی نظر میں بھی نہیں تھی۔ مارکونی نے رات کو ہی سب کو اس خطے کے اندر پہنچا دیا تاکہ باہر سے کوئی دیکھ ہی نہ سکے اور انہیں مکمل آرام دینے کے لیے کہا کہ وہ جتنی دیر سو سکتے ہیں، سوجائیں۔ یہاں سے آگے پیدل جانا ہوگا اور یہ سفر جسم کے بجائے اعصاب کو زیادہ تھکائے گا۔ مارکونی خود قدومی کے ساتھ اپنے خیمے میں چلا گیا۔وہ سب اس وقت جاگے جب سورج ان ٹیلوں کے اوپر آگیا جس کے دامن میں سب سوئے ہوئے تھے۔ مارکونی نے انہیں بتایا کہ وہ کون کون سا سامان، اوزار اور ہتھیار وغیرہ اپنے ساتھ لیں۔ ان میں مضبوط رسے، کدالیں اور موٹی موٹی سلاخیں تھیں اور ہتھیاروں میں تیروکمان اور تلواریں۔ راستے کی مشکلات کے متعلق بھی اس نے سب کو بتا دیااس دیوار کے متعلق بھی انہیں ذہنی طور پر تیار کردیا، سے اس کا ایک ساتھی گر کر ہمیشہ کے لیے لاپتہ ہو گیا اس ۔ او
: اس نے انہیں رونے کی آوازوں سے بھی خبردار کردیا جو اس علاقے میں سنائی دیتی تھیں۔ اونٹوں کو ساتھ نہیں لے جایا جاسکتا  ان کی دیکھ بھال کے لیے اس نے صرف ایک آدمی پیچھے رہنے دیا۔ قدومی کو بھی وہ ساتھ نہیں لے جاسکتا تھا۔ اسے توقع تھی کہ کہیں کوئی راستہ اندر جانے کے لیے مل ہی جائے گا اور وہ قدومی کو اس راستے سے لے جائے گا۔ قدومی کی حفاظت کے لیے بھی ایک آدمی کی ضرورت تھی۔ اس کے لیے صرف اسماعیل موزوں آدمی تھا۔مارکونی نے اسماعیل سے کہا… ''تم قدومی کے لیے یہیں رہو گے لیکن یہ خیال رکھنا کہ تمہاری حیثیت اس لڑکی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ اس کے آرام اور حفاظت کے تم ذمہ دار ہوگے۔ میں بہت جلدی واپس آرہا ہوں، تم دونوں کو ساتھ لے جائوں گا''۔وہ اپنی پارٹی کو ساتھ لے کر چل پڑا۔ اس راستے سے وہ واقف ہوچکا تھا۔ بے خوف وخطر چلتا گیا، جوں جوں یہ آدمی آگے بڑھتے جارہے تھے ان پر خوف مسلط ہوتا جارہا تھا۔ وہ صحرائوں سے پوری طرح واقف تھے مگر ایسا خطہ اور اس قسم کے پہاڑ انہوں نے کبھی نہیں دیکھے تھے اور وہ جب اس جگہ پہنچے جہاں رونے کی آوازیں آتی تھیں تو سب بدک کر خلائوں میں دیکھنے لگے۔ بلاشک وشبہ عورتیں رو رہی تھیں۔ ان آدمیوں میں دو تین ایسے بھی تھے جنہوں نے اس علاقے کے متعلق وہ تمام ڈرائونی کہانیاں سن رکھی تھی جو بہت مدت سے مشہور تھیں۔ انہوں نے اپنے صلیبی ساتھیوں کو بھی یہ کہانیاں سنا کر ڈرا دیا۔ وہ سب ڈر کی گرفت میں پہلے ہی تھے لیکن انہیں جو انعام بتایا گیا تھا، اس میں اتنی طاقت تھی جو ان کے خوف کو دبا رہی تھی۔ اس کے علاوہ وہ صلیب کے تنخواہ دار ملازم بھی تھے اور مارکونی ان کا افسر تھا۔ وہ انعام اور حکم کی پابندی کے تحت چلے جارہے تھے۔رونے کی آوازوں پر وہ بدکے تو مارکونی نے انہیں بتایا کہ یہ عورتیں یا عورتوں کی بدروحیں نہیں، یہ ہوا کی آوازیں ہیں مگر وہ ڈرتے رہے اور ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر آگے ہ ی آگے بڑھتے گئے۔اس وقت سورج غروب ہورہا تھا، جب وہ اس وسیع اور بے انتہا گہرے نشیب تک پہنچے جو انہیں قدرتی دیوار پر چل کر پار کرنا تھا۔ مارکونی کو وہاں کچھ مشکل پیش آئی۔ دیوار پر پائوں رکھنے سے سب گھبراتے تھے۔ مارکونی آگے آگے چلا۔ وہ ایک بار اس خطرے سے گزر چکا تھا۔ اس کے پیچھے دوسرے آدمی نے دیوار پر قدم رکھا اور پھر باقی بھی چل پڑے۔ سورج اس جہنم میں ہی روپوش ہوگیا تھا۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ کھائی کی گہرائی نظر نہیں آتی تھی۔ مارکونی دیوار عبور کرگیا۔ اسے ایسی چیخ سنائی دی جو تہہ کی طرف جارہی تھی۔ ذرا دیر بعد ایک اور ہیبت ناک چیخ سنائی دی۔ یہ بھی دور نیچے جاکر ایک دھیمی سی دھمک میں خاموش ہوگئی۔ ایسی پانچ چیخیں سنائی دیں… یہ گروہ جب دیوار سے گزر کر کچھ آگے جا جمع ہوا تو اس میں پانچ آدمی نہیں تھے۔ مارکونی نے انہیں بتایا کہ اس سے آگے کوئی ایسا خطرہ نہیں ہے اور وہ منزل کے قریب آگئے ہیں۔ اس نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ ان کی واپسی اس راستے سے نہیں ہوگی بلکہ سیدھا اور آسان راستہ مل جائے گا۔رات بہت گہری ہوچکی تھی، جب وہ اس جگہ پہنچے جس کے نیچے وسیع سرسبز خطہ تھا، مارکونی نے تمام آدمیوں کو وہاں سے تھوڑی دور چھپا دیا۔ دو آدمی اپنے ساتھ لیے اور باقی سب سے کہا کہ ان کے پاس جو کچھ ہے وہ کھا کر سوجائیں۔ انہیں ضرورت کے وقت جگایا جائے گا۔ مارکونی دو آدمیوں کو ساتھ لے کر اس جگہ کی دیکھ بھال کے لیے چلا گیا۔ نیچے موت کا سکوت تھا۔ کہیں ہلکی سی روشنی بھی نظر نہیں آتی تھی۔ وہ اور زیادہ قریب جانے سے ڈرتا تھا۔ اس نے حملہ صبح کے لیے ملتوی کردیا اور اپنے آدمیوں کے پاس واپس آگیا۔٭ ٭ ٭قدومی اور اسماعیل اکیلے رہ گئے تھے۔ قدومی ان ہنگامہ خیز محفلوں کی عادی تھی جن میں شراب اور دولت پانی کی طرح بہتی تھی۔ مارکونی اسے اس ہولناک ویرانے میں لے آیا تھا اور اسے ایک آدمی کے ساتھ تنہا چھوڑ گیا تھا۔ اسماعیل اسے جانتا تھا۔ وہ اسماعیل سے واقف نہیں تھی۔ اسماعیل جرم وگناہ کی دنیا کا انسان تھا۔ اس کی شکل وصورت اتنی اچھی اور طبیعت اتنی شگفتہ تھی کہ قدومی نے اسے کوئی عام آدمی نہ سمجھا لیکن اسماعیل اس کے ساتھ بات کرنے سے گریز کررہا تھا۔ شام کے وقت اس نے قدومی کو بھنا ہوا گوشت گرم کرکے دیا اور شراب بھی اس کے آگے رکھ کر کہا کہ کھانا کھا کر سوجانا۔ کوئی ضرورت ہوتو خیمے سے بلا لینا۔ وہ باہر نکل گیا۔ قدومی نے کھانا کھالیا۔ شراب بھی حسب عادت پی لی لیکن تنہائی اسے پریشان کرنے لگی۔ اسے اپنے حسن اور نازو ادا پر چونکہ فخر تھا اس لیے اسے توقع تھی کہ اسماعیل اس کے قریب ہونے کی کوشش کرے گا۔ اس فخر میں تکبر اور غرور زیادہ تھا مگر اسماعیل نے اس کی طرف ایسی کوئی توجہ نہ دی جس کی
: ۔ اسے توقع تھی کہ اسماعیل اس پر ڈورے ڈالے گا مگر اس نے اسے ذرا بھی اہمیت نہ دی۔ اس کے بجائے اسے یہ تاثر دے دیا کہ اس کی اہمیت دو روز کی مہمان ہے۔ قدومی تو اپنے حسن کی تعریفیں سننے کی عادی تھی۔ اپنے آپ کو قلوقطرہ کاثانی سمجھتی تھی۔ اسماعیل نے ایساتاثر پیدا کیا جسے قدومی دھتکار نہ سکی۔ اسماعیل کا انداز ہی ایسا تھا کہ اس کا پیدا کیا ہوا تاثر اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر گیا۔ رات گزرتی جارہی تھی اور قدومی کی آنکھوں سے نیند غائب ہوتی جارہی تھی۔ وہ اسماعیل کے ساتھ باتوں میں رات گزارنا چاہتی تھی۔ اس خواہش کو وہ دبا نہ سکی۔ اسماعیل نے اسے مایوس نہ کیا۔ رات کا آخری پہر تھا، جب قدومی کی آنکھ لگ گئی۔اس کی آنکھ کھلی تو وہ اسماعیل کے خیمے میں تھی اور اسماعیل خیمے سے باہر کمبل میں لپٹا سویا ہوا تھا۔ قدومی نے اسے جگایا اور کہا… ''میں نے خواب دیکھا ہے۔ عجیب سا خواب تھا۔ پوری طرح یاد نہیںرہا، کوئی مجھے کہہ رہا تھا کہ سلیمان سکندر کے خزانے کی نسبت اسماعیل کی باتیں زیادہ قیمتی ہیں''… وہ ہنس پڑی۔ اس کی ہنسی میں رقاصہ کا تضع نہیں، ایک معصوم لڑکی کی سادگی تھی۔

سورج نکلنے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی۔ مارکونی اپنے آدمیوں کو اس سرسبز نشیب کے اوپر اپنی سکیم کے مطابق موزوں جگہوں پر چھپا چکا تھا۔ صبح روشن ہوئی تو نیچے ننگے آدمی اور عورتیں نظر آنے لگیں۔ مارکونی نے اپنے ایک دلیر اور نڈرآدمی کو نیچے جانے کے لیے تیار کرکھا تھا۔ اسی ڈھلان سے جس سے اس کا ایک ساتھی لڑھک کر نیچے گرا اور اس پراسرار قبیلے کی ضیافت بن گیا تھا۔ مارکونی نے اپنے اس آدمی کو نیچے لڑھک جانے کو کہا۔ وہ ڈھلان کے اوپر بیٹھا اور نیچے سرک گیا۔ کچھ آگے جاکر وہ قلابازیاں کھانے لگا اور زمین پر جاپڑا۔ وہ اٹھ کر چل پڑا۔ تین چار ننگے آدم خوروں نے اسے دیکھ لیا اور اسے پکڑنے کے لیے دوڑے۔ وہ خوشی سے چلا رہے تھے۔ وہ جب اس آدمی کے قریب آئے تو اوپر سے چار تیر نکلے اور ان کے سینوں میں اتر گئے۔ ادھر سے دو اور ننگے مرد دوڑے آئے، وہ بھی تیروں کا نشانہ بن گئے۔ مارکونی نے اوپر ایک چٹان کے ساتھ رسہ بندھوا دیا تھا جسے اس نے ڈھلان سے نیچے پھینک کر اپنے آدمیوں سے کہا کہ اسے پکڑ کر سب ایک دوسرے کے پیچھے نیچے اتر جائیں۔سب نیچے چلے گئے۔ مارکونی نے اوپر سے رسہ کھول کر نیچے پھینک دیا اور ڈھلان سے لڑھکتا ہوا نیچے چلا گیا۔ یہ سارا گروہ تلواریں نکال کر آگے کو دوڑ پڑا۔ چند اور ننگے مرد سامنے آئے، انہیں بھی کاٹ دیا گیا۔ جو ذرا دور تھے، وہ الٹے پائوں بھاگے۔ نیچے سے سرسبز علاقے کے کئی ایک حصے تھے۔ مارکونی نے دیکھا کہ بھاگنے والے ایک حصے میں چلے گئے تھے۔ وہ ان کے پیچھے گیا۔ اسے ان آدمیوں کا واویلا سنائی دے رہا تھا۔ ان کی چیخ وپکار پر وہ ان کے تعاقب میں گیا۔ اس کے باقی آدمی خون خرابہ کررہے تھے۔ وہ خود ان دو آدمیوں کے تعاقب میں رہا… تھوڑی ہی دور اسے آدمی نظر آگئے۔ وہ اب دو نہیں تین تھے۔ وہ تینوں ایک چٹان پر چڑھ رہے تھے۔ مارکونی نے ان کے پیچھے دوڑتے کچھ فاصلہ رکھا۔ وہ تینوں چٹان کی دوسری طرف اتر گئے۔ وہ بھی چٹان پر چڑھ گیا۔ دوسری طرف اسے سیاہ پہاڑی کا دامن نظر آیا۔ وہاں ایک غار کا دہانہ تھا جس میں جھک کر گزرا جاسکتا تھا۔ مارکونی اس غار میں چلا گیا۔ اس نے تلوار ہاتھ میں لے رکھی تھی۔اندر سے غار کھلتا جارہا تھا۔ اسے اس میں کسی کے دوڑنے کی ہلکی ہلکی آہٹ سنائی دے رہی تھی۔ وہ دوڑتا گیا۔ یہ غار نہیں سرنگ تھی جو معلوم نہیں قدرتی تھی یا فرعون ریمینس نے مرنے سے پہلے بنوائی تھی۔ سرنگ کے کئی موڑ تھے اور اندر گھپ اندھیرا۔ اسے بولنے کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ دوڑتا گیا اور اسے دور سامنے روشنی کا ایک گولا نظر آیا۔ اس میں اسے تین آدمی دوڑتے دکھائی دئیے۔ وہ غار کا دوسرا دہانہ تھا۔ وہ انہیں قتل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کی سکیم کامیاب ہورہی تھی۔ وہ تینوں غار سے نکل گئے۔ وہ بھی غار سے نکل گیا۔ تینوں میں ایک آدمی گر پڑا۔ مارکونی نے جاکر دیکھا۔ یہ وہی بوڑھا آدمی تھا جس نے اسے اس روز دیکھا تھا جس رو زاس کا ساتھی نیچے گر پڑا اور آدم خوروں کے ہاتھوں میں مارا گیا تھا۔ وہ بہت ہی بوڑھا تھا۔ زیادہ دوڑ نہیں سکتا تھا۔ غار سے باہر ریتلے اور پتھریلے ٹیلے اور چٹانیں تھیں۔ ایک طرف سیاہ پہاڑ دور اوپر تک چلا گیا تھا۔ مارکونی نے بوڑھے کو سہارا دے کر اٹھایا اور اس کے بھاگتے ہوئے دو آدمیوں کی طرف اشارہ کرکے اشاروں میں اسے سمجھایا کہ ان آدمیوں کو واپس بلائو۔بوڑھے نے انہیں پکارا۔ وہ رکے تو انہیں اپنی طرف بلایا۔ اس نے مارکونی کے ساتھ  مصری زبان میں بات کرتے ہوئے کہا… ''میں تمہاری زبان بولتا اور سمجھتا ہوں۔ مجھے قتل کرکے تمہیں کچھ حاصل نہ ہوگا''۔مارکونی بھی مصری زبان بولتا اور سمجھتا تھا۔ اس نے بوڑھے سے کہا… ''میں تمہیں قتل نہیں کرنا چاہتا، تمہارے ان آدمیوں کو بھی قتل نہیں کروں گا۔ مجھے باہر جانے کا راستہ بتا دو''۔ ''کیا تم یہاں سے نکلنا چاہتے ہو؟''… بوڑھے نے پوچھا۔ ''ہاں''… مارکونی نے جواب دیا… ''میں تمہاری بادشاہی سے نکل جانا چاہتا ہوں''۔بوڑھے نے اپنے آدمیوں سے کچھ کہا۔ وہ دونوں بہت ہی ڈرے ہوئے تھے۔ بوڑھے نے مارکونی سے کہا… ''اس کے ساتھ جائو۔ یہ تمہیں سیدھے راستے پر ڈال دیں گے''۔بوڑھا ساتھ چل پڑا۔ وہ ٹیلوں کے درمیان سے گزرے، ایک ٹیلے کے اوپر گئے اور ایسی ہی کچھ بھول بھلیوں میں سے گزر کر وہ کھلے صحرا میں پہنچ گئے۔ مارکونی نے دیکھا کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ یہاں کوئی راستہ ہے جو اندر کی پراسرار دنیا میں لے جاتا ہے۔ بوڑھے نے اسے کہا… ''تم اب چلے جائو، ورنہ خدا کا قہر تمہیں بھسم کردے گا''… مارکونی نے تینوں کو ساتھ لیا اور یہ کہہ کر اپنے ساتھ واپس لے گیا کہ وہ اپنے آدمیوں کو بھی باہر لائے گا۔ مارکونی کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی جس سے وہ تینوں ڈر رہے تھے۔ وہ اس کے ساتھ واپس چل پڑے۔مارکونی نے راستہ اور اس کے موڑ اچھی طرح دیکھ لیے۔ وہ پھر غار کے دہانے میں داخل ہوئے اور اس میں گزرتے سرسبز دنیا میں پہنچ گئے۔ بوڑھا اسے اس جگہ لے گیا جہاں مارکونی کے ساتھی کو آگ پر بھون کر کھایا گیا تھا۔ مارکونی کے ساتھی اسے ڈھونڈ رہے تھے۔ کئی ایک ننگی لاشیں پڑی تھیں۔ بچوں کو بھی قتل کردیا گیا تھا۔ بوڑھے نے یہ قتل عام شاید پہلے نہیں دیکھا تھا۔ وہ رک گیا اور بڑے تحمل سے مارکونی سے پوچھا… ''ان بے گناہوں کو کاٹ کر تم نے کیا پایا؟''
''اور تم ہمارے آدمی کو بھون کر کھا گئے تھے''… مارکونی نے پوچھا… ''اس نے تمہارا کیا بگاڑا تھا؟''۔ ''وہ گناہ گار دنیا کا انسان تھا''… بوڑھے نے کہا… ''اس نے ہماری مقدس سلطنت میں آکر اسے ناپاک کردیا تھا''۔ ''تم لوگ یہاںکیوں رہتے ہو؟''… مارکونی نے پوچھا… ''فرعون ریمینس دوم کا مدفن کہاں ہے؟'' ''میں ان دونوں سوالوں کا جواب نہیں دوں گا''… بوڑھے نے جواب دیا۔مارکونی نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ ان کی عورتوں کو لے آئو۔ اس نے حملے سے پہلے اپنے آدمیوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ کسی عورت کو قتل نہ کریں اور نہ چھیڑیں۔ انہیں یرغمال کے طور پر پکڑ لیں۔ مارکونی کے ساتھی دس گیارہ عورتوں کو سامنے لے آئے۔ ان میں دو تین بوڑھی، باقی جوان، نوجوان اور تین کمسن بچیاں تھیں۔ وہ مادر زاد ننگی تھیں۔ ان کے رنگ گندمی اور صاف تھے۔ شکل وصورت بھی سب کی اچھی تھی۔ ان کے بال کمر تک گئے ہوئے تھے اور ان میں چمک تھی۔ ''کیا تم پسند کرو گے کہ تمہاری عورتوں کو تمہارے سامنے بے عزت کرکے انہیں قتل کردیا جائے؟''… مارکونی نے بوڑھے سے پوچھا۔ ''کیا تم اس سے پہلے مجھے قتل نہیں کردو گے؟… بوڑھے نے پوچھا''۔ ''نہیں!''… مارکونی نے جواب دیا۔ ''سنو گناہ گار دنیاکے انسان!''… بوڑھے نے کہا… ''تمہاری عورتیں کپڑوں میں ڈھکی رہتی ہیں۔ تم انہیں پردوں میں چھپا چھپا کر رکھتے ہو مگر وہ بے حیائی سے باز نہیں آتی۔ تم عورت کی خاطر سلطنتیں قربان کردیتے ہو۔ عورت کو نچاتے ہو اور انہیں گناہوں کا ذریعہ بناتے ہو۔ ہماری عورتیں ننگی رہتی ہیں مگر بے حیائی نہیں کرتیں۔ کوئی مرد کسی دوسرے مرد کی عورت کو اس نظر سے نہیں دیکھتا جس نظر سے تم نے میری دنیا کی عورتوں کو دیکھا ہے۔ میں تو تمہاری نظر بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ تم خدائے مقدس ریمینس کے خزانے لوٹ لو، میری بیٹیوں کی عزت پر ہاتھ نہ ڈالنا''۔ ''میں وعدہ کرتا ہوں کہ مجھے ان پہاڑوں کا بھید بتا دو''… مارکونی نے کہا… ''میں تمہاری عزت تمہارے حوالے کردوں گا''۔ ''ڈاکو کے وعدے پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا''… بورڑھے کے ہونٹوں پر طنز کی مسکراہٹ آگئی۔ اس نے کہا ''جس آدمی کے دل میں دولت کی لالچ ہوتی ہے اس کی آنکھ میں غیرت نہیں ہوتی۔ اس زبان پر وعدے آتے ہیں اور اسی زبان سے ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔ تم اس دنیا کے انسان ہو جہاں دولت پر اپنی بیٹیاں قربان کی جاتی ہیں اور سنو میرے اجنبی دوست! تم مصری نہیں ہو۔ تمہاری آنکھوں میں سمندر کی چمک ہے، نیل کے پانی کی نہیں۔ تمہارے جسم سے مجھے سمندر پار کی بو آتی ہے''۔ ''میں ریمینس کے مدفن کی تلاش میں آیا ہوں''… مارکونی نے اسے غصے سے کہا… ''مجھے وہ مدفن بتا دو''۔ ''میں بتا دوں گا''… بوڑھے نے کہا… ''اس سے پہلے میں تمہیں یہ بتا دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مدفن کے اندر جاکر تم زندہ باہر نہیں آسکو گے''۔ ''کیا تمہارے آدمی اندر چھپے ہوئے ہیں جو مجھے قتل کردیں گے؟'' ''نہیں!''… بوڑھے نے جواب دیا… ''تمہیں قتل کرنے کے لیے میرے پاس کوئی آدمی نہیں رہا۔ تمہارے اپنے آدمی تمہیں قتل کریں گے۔
۔ تمہاری لاش یہاں سے کوئی نہیں لے جائے گا''۔ ''تم غیب دان ہو؟''… مارکونی نے پوچھا… ''آنے والے وقت کی خبر دے سکتے ہو؟'' ''نہیں!''… بوڑھے نے جواب دیا… ''میں نے گزرا ہوا وقت دیکھا ہے جس نے گزرے ہوئے وقت کو عقل اور دل کی نظر سے دیکھا ہو وہ آنے والے وقت کی خبر دے سکتا ہے۔ موت تمہاری آنکھوںمیں آکر بیٹھ گئی ہے''۔مارکونی نے قہقہہ لگا کر کہا… ''تم جنگلی ہو بڈھے! مجھے بتائو وہ مدفن کہاں ہے جس کی تلاش میں میں اتنی دور سے آیا ہوں''۔ ''تمہارے سامنے ہے''… بوڑھے نے کہا… ''وہ اوپر، آئو''۔مارکونی نے کچھ سوچا اور اپنے آدمیوں سے کہا… ''ان عورتوں کو عزت سے رکھو۔ اس بوڑھے کے ساتھ گپ شپ لگاتے رہو اور اس کے ان دونوں آدمیوں کو بھی کچھ نہ کہنا۔ ان کے ساتھ دوستی پیدا کرلو۔ میں قدومی اور اسماعیل کو لینے جارہا ہوں''۔٭ ٭ ٭مارکونی اس راستے سے باہر نکل گیا جو اسے بوڑھے نے دکھایا تھا۔ اس اس سمت کا اندازہ تھا جدھر سے وہ اس ہولناک علاقے میں داخل ہوا تھا۔ وہ اس طرف چل پڑا۔ اس نے کم وبیش دو میل سفر طے کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ اس مقام پر پہنچ گیا ہے، جہاں سے وہ اپنے گروہ کے ساتھ اندر گیا تھا وہ اپنے خیمے تک گیا۔ اس نے اسماعیل اور قدومی کو ایک ہی خیمے میں اکٹھے بیٹھے دیکھا۔ اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ حکم کے لہجے میں اسماعیل سے کہا… ''میں نے تمہیں کہا تھا کہ اپنی حیثیت میں رہنا۔ اس کے پاس بیٹھے تم کیا کررہے ہو؟''
''کیا میں اس ویرانے میں اکیلی بیٹھی رہتی؟''… قدومی نے کہا… ''میں نے خود اسے اپنے پاس بلایا ہے''۔ ''تمہیں میں اپنے ساتھ صرف اور صرف اپنے لیے لایا ہوں''… مارکونی نے غصے سے کہا… ''میں تمہیں اپنی اجرت دے رہا ہوں۔ میں تمہیں کسی اور کے ساتھ نہیں دیکھ سکتا۔ اپنے گھر میں اپنے پاس سو آدمیوں کو بلائو۔ یہاں تم میری لونڈی ہو''۔گزشتہ رات اسماعیل نے اس پرخلوص دل سے ایسا تاثر طاری کردیا تھا کہ اس کے دل میں مارکونی کے خلاف شک اور ناپسندیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ اسے وہ اب اپنا ایک گاہک سمجھنے لگی تھی۔ اب مارکونی نے اسے اپنی لونڈی کہہ دیا تو اس کے دل میں مارکونی کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی۔ اس نے اچھے اور برے انسان میں فرق دیکھ لیا تھا۔ حالانکہ اسماعیل نے اسے بالکل نہیں کہا تھا کہ وہ اچھا آدمی ہے بلکہ یہ کہا تھا کہ وہ کرائے کا گناہ گار اور اجرت لے کر قتل کرنے والا آدمی ہے۔ قدومی مارکونی کو دھتکار نہیں سکتی تھی کیونکہ وہ اپنی طے کی ہوئی اجرت پر آئی تھی جو وہ وصول کرکے گھر رکھ آئی تھی۔ آگے خزانے کے کچھ حصے کا وعدہ تھا جو مشکوک نظر آتا تھا۔ اس نے برداشت نہ کیا کہ مارکونی اسماعیل کے ساتھ بدتمیزی سے بات کرے۔اسماعیل مارکونی کو خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے مارکونی کو بازو سے پکڑا اور ذرا پرے لے جاکر دھیمی سی آواز میں کہا… ''احمر درویش نے تمہیں شاید میرے متعلق کچھ بھی نہیں بتایا۔ میرے متعلق تم کچھ بھی نہیں جانتے۔ میں تمہیں اچھی طرح جانتا ہوں۔ تم میرے ملک اور میری قوم کی جڑیں کاٹنے آئے ہو۔ میں اتنا بڑا گناہ گار ہوں کہ کرائے پر تمہارا ساتھ دے رہا ہوں۔ میں تمہیں اپنا بادشاہ تسلیم نہیں کرسکتا۔ اپنی پوری اجرت لوں گا اور اگر خزانہ برآمد ہوگیا تو اپنا حصہ الگ وصول کروں گا''۔ ''تم ایسی باتیں احمر درویش کے ساتھ کرنا''… مارکونی نے اسے کمانڈروں کی طرح کہا… ''یہاں تم میرے ماتحت ہو۔ خزانہ جو نکلے گا وہ میری تحویل میں ہوگا۔ میں اسے جہاں چاہوں لے جائوں''۔ ''سنو سلیمان سکندر!''… اسماعیل نے پہلے کی طرح دھیمی آواز اور ہلکے سے تبسم سے کہا… ''میں جانتا ہوں تم مارکونی ہو، سلیمان سکندر نہیں ہو۔میں ایک عادی مجرم ہوں۔ میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ تمہاری باتیں مجھے مجرم سے مصری مسلمان بنا دیں گی اور میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ مسلمان قومی جذبے کا اتنا اندھا ہوتا ہے کہ اگر مسلمان کی لاش میں یہ جذبہ پیدا ہوجائے تو لاش بھی اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ تمہارا فائدہ اسی میں ہے کہ مجھے مجرم رہنے دو''۔مارکونی نے محسوس کرلیا کہ یہ شخص بہت گہرا ہے اور پیچیدہ بھی، اس لیے اس سے اس موقع پر دشمنی مول لینی اچھی نہیں۔ اس نے اسماعیل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اور دوستوں کی طرح مسکرا کر کہا… ''تم بلاوجہ کسی غلط فہمی میں پڑ گئے ہو۔ میں دراصل یہ نہیں چاہتا کہ یہ طوائف تمہارے یا میرے دماغ پر سوار ہوجائے۔ یہ بہت چالاک عورت ہے۔ یہ ہم دونوں میں غلط فہمی پیدا کرکے خزانے پر ہاتھ مارنا چاہتی ہے۔ مجھے اپنا دشمن نہ سمجھو۔ احمر درویش نے تمہیں بتایا نہیں کہ اس نے تمہارے متعلق کیا سوچ رکھا ہے''۔ ''کیا تمہیں امید ہے کہ خزانہ مل جائے گا؟'' ''مل گیا ہے''… مارکونی نے جواب دیا… ''میں تم دونوں کو لینے آیا ہوں''۔اسماعیل اسے بڑی گہری نظروں سے دیکھتا رہا۔ قدومی بھی اسے دیکھتی رہی۔ 
: اس کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار بڑے نمایاں تھے۔ مارکونی نے اس آدمی کو آواز دی جسے وہ اونٹوں کی دیکھ بھال کے لیے چھوڑ گیا تھا۔ اسے کہا کہ وہ اونٹوں کو ایک دوسرے کے پیچھے باندھ کر لے آئے۔ خیمے بھی لپیٹ لیے گئے۔مارکونی انہیں وہاں لے گیا جہاں اس کے دوسرے آدمی تھے اور جہاں فرعون ریمینس کا خفیہ مدفن تھا۔ قدومی نے ایسی سرسبز جگہ دیکھی تو بہت حیران ہوئی۔ ایک اونچی پہاڑی کے دامن میں ننھی سی جھیل تھی۔ پہاڑی کے نیچے سے پانی پھوٹتا تھا۔ یہ قدرت کا کرشمہ تھا۔ مارکونی ننگے قبیلے کے بوڑھے سردار کے پاس چلا گیا۔ اسے مدفن کا سراغ لگانا تھا۔ قدومی اسماعیل کے ساتھ ادھر ادھر ٹہلنے لگی۔ اسے ایک چھوٹے سے بچے کی لاش پڑی دکھائی دی۔ بچہ ننگا تھا اور اس کا جسم خون میں نہایا ہوا تھا۔ 
جاری ھے 
،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں