*مسلمانوں میں بڑھتی عیّاشی کا راز*
*شادی کریں تو کس سے.... ؟؟؟*
آسمان سے تو لڑکے اترتے نہیں۔
اور جو زمین پر مسلمانوں میں موجود ہیں ان کا حال کیا ہے؟؟؟
کوئی ماں باپ نہیں چاہتے کہ اس پُر فتن دور میں ان کی بیٹی زیادہ دن تک گھر بیٹھی رہے،
ان کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ جلد از جلد بیٹی کی شادی کر کے اپنا فرض ادا کر دیں....
اور بیٹی کے بالغ ہوتے ہی یعنی اٹھارہ بیس سال کی عمر تک ان کی شادی ہو جائے تو اس سے بڑی خوشی کی بات کیا ہو گی بھلا
*لیکن شادی کریں تو کس سے.... ؟؟؟*
پچیس چھبیس سال تک تو والدین ہی بچہ سمجھتے ہیں اور کھیلنے کودنے، Sorry... انجوائے کرنے کے یہی دن ہے, کے نام پر انہیں ناکارہ نکما بنا کر رکھتے ہیں۔
جو لڑکا خود پچیس سال کی عمر تک اپنے والدین پر Depend ہو اس لڑکے کو کوئی باپ اپنی بیٹی سولہ سال میں ہی کیا دیکھ کر دے گا؟؟؟
اور لڑکے کے والدین کیوں کریں گے اس کی شادی؟؟
یہ کہنے کے لیے کہ اسے تو ہم نے پالا اس کے بیوی بچوں کو بھی پالو،
ایسے لڑکوں سے شادی کیوں کرے کوئی باپ، ؟؟؟
جو بیس بائیس سال کا ہونے کے بعد بھی بچوں کی طرح ڈرے ایک کمرے سے دوسرے اندھیرے کمرے میں جاتے ہوئے کانپ جائے
ایسے ڈرپوک اور بزدل کو اپنی بیٹی کوئی کیوں دے؟؟
آج ماں باپ خود اپنے بچوں کو بزدلی سکھاتے ہیں
بچپن سے ہی کاکروچ، (چھپکلی) سے ڈرایا جانے لگتا ہے
شیر آئے گا، کہہ کر ڈرایا جاتا ہے باہر آنے والے فقیر سے ڈراوے کے نام پر کھانا کھلایا جاتا ہے،
کھیل کود میں ذرا سا اپنی غلطی سے بھی بچہ گِر جائے تو وہ جھگڑا ہوتا ہے جیسے پہاڑ سے گر گیا ہو۔
بچوں کو بچپن سے ڈر اور بزدلی سکھائی جائے گی ، تو جوان ہونے پر کیا ان کا ڈر جوان نہیں ہوگا؟
کیا اچانک معجزاتی طور پر بچے بہادر بن جائیں گے؟؟؟
ایک وہ وقت تھا جب آٹھ سال کے ٹیپو سلطان نے شیر سے کھیلا تھا اور شیر کے جبڑے چیر دئیے تھے
جب قریب10 سال کے دو بھائی حضرت معاذ و معوذ رضی اللہ عنہما نے ایک طاقتور اور وحشی کافر ابو جہل کو مار گرایا تھا۔
جب 16 سال کے محمد بن قاسم بصرہ سے چلے تھے اور سندھ و ہند فتح کیا تھا۔
اور آج کا مسلمان لڑکا۔۔۔
پچیس سال تک تو بچہ ہی کہلاتا ہے،
اور بڑا کہلاتے ہوئے بھی تیس سال تو کروس کر ہی جاتا ہے،
اور یہ ذہن ہمیں کچھ دنوں میں نہیں دیا گیا ہے،
ہمیں بزدل بنانے کے لیے دشمنوں نے صدیوں محنت کی ہے، جو آج ہم اپنے سائے سے بھی ڈرتے ہیں۔
ہماری ساری بہادری انہوں نے اپنائی اور اپنی بزدلی ہمارے اندر منتقل کی
اللہ کا واسطہ.....!!!!!
اپنے بچوں کو بچپنا اور بزدلی نہ سکھائیں انہیں بچپن سے بہادری اور جرات سکھائیں
آج جو ہماری حالت ہے ہمیں کئی محاذ پر ایک ساتھ توجہ دینی ہے
بچوں کو بچپن سے ہی ایک طرف دنیاوی تعلیم دلائیں تو اسی ڈسپلن کے ساتھ دوسری طرف دینی تعلیم بھی دلائیں اور تیسری طرف انہیں فنون و ہنرمندی میں ماہر بنائیں
اسکول و مدارس کے علاوہ باقی کے وقت میں بچہ ہے کہہ کر کھیلنے کودنے کے لیے آزاد مت چھوڑیں
بچے نہیں سمجھتے کون سا کھیل فائدے مند ہے اسی لیے کرکٹ فٹبال وغیرہ فضولیات میں پڑ جاتے ہیں
بچوں کو کیا کھیل بہتر بنائے گا اس پر توجہ دیجئے
بھاگ دوڑ
اونچی چھلانگ لگانا
تیراکی
نشانے بازی
مارشل آرٹ
باکسنگ
یہ وہ کھیل ہیں جو بچے شوق سے کھیلیں گے بھی اپنی حفاظت بھی کرینگے اور یہی فن ان کے کام بھی آئے گا
انہیں بہادر اور نڈر بنائے گا
اور ساتھ ہی انہیں ہنرمندی سکھائیں پڑھائی کے ساتھ
اب ہنرمندی میں چاہے انبیاء کرام علیہم السلام کا پیشہ *سلائی* آتا ہو یا *ریپیرنگ*
گھر کے سامان کی ریپیرنگ
*پاور سسٹم*
*گاڑی وغیرہ بنانا*
*الیکٹرانک ڈیوائس* بنانا یہ تو ہر بچے کو آنا ہی چاہیے
اور ہم ہیں کہ کسی ایک فن کو پکڑ لیتے ہیں اور پوری زندگی اسی میں لگ جاتے ہیں
جب کہ یہ چیزیں روز مرہ کی بنانا اور درست کرنا بچوں کو آنا چاہیے
ہر چیز بنانی آنا چاہیے
انہیں سکھائیے
انہیں بچہ سمجھ کر کھیلنے کودنے کے لیے آزاد چھوڑنے سے بہتر یہ ہنر سکھا دئیے جائیں
بالغ (15،16 سال)ہونے تک بچے یہ ہنر سیکھ جائیں گے تو خود ہی اسکول کالج کے بعد جو ایکسٹرا وقت بچے گا اس میں اپنے اس ہنر کا استعمال کرنے کا جذبہ آئے گا اور وہ اس ہنر کے ذریعے خود کفیلی کی طرف بڑھیں گے
ان کو یہ احساس ہو گا کہ اس ہنر کا استعمال کر کے میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹاؤں
اپنی ضروریات خود پوری کروں،
جتنی جلدی بچہ خود کفیل ہو گا اتنی جلدی بچے کی شادی میں آسانی ہو گی،
پھر لڑکی کے ماں باپ پڑھائی ختم ہونے اور سیٹل ہونے کا انتظار نہیں کریں گے،
خود کفیل ہو جائے گا تو شادی بھی جلدی ہو جائے گی اور پڑھائی بھی چلتی رہے گی،
آج ہمارے بچے موبائل ریچارج اور گاڑی کے پیٹرول تک کہ لیے اپنے والدین کے بھروسے ہوتے ہیں
خود کی ضروریات پوری کرنا اور باپ کی پریشانی بانٹنا تو دور کی بات ہے
اپنے بچوں کو سُستی و کاہلی سکھانے والے ہم خود ہیں
بچپن میں پانی کا گلاس تک ہاتھ میں لا کر دیں گے ت
و جوانی میں وہ آرام پسند نہیں ہوں گے تو کیا ہوں گے؟؟؟
اپنے بچوں کو بچپن سے ہی ٹریننگ دیجئے کہ یہی فطرت کا قانون ہے
ورنہ ایسے ہی ذلیل ہوتے رہیں گے ہم
آج ہماری حیثیت صرف نوکروں جیسی ہے
بڑے بڑے منصب پر دشمن قابض ہیں
آج ہم اپنی مرضی کی غذا تک سے محروم ہیں
قرآن میں جس زیتون کا ذکر آیا، جو جنتی پھل ہے اس کا تیل تک ہمیں Made in Italy استعمال کرنا پڑتا ہے
روز مرہ کی چیزیں آج ہمیں غیروں سے لینی پڑ رہی ہے پھر چاہے وہ اناج ہو یا گرم مصالحہ یا دیگر اشیاء
اور اس میں بھی ناپاک اشیاء کی ملاوٹ کے ساتھ کہ پیٹ میں چلے جائے تو چالیس دن تک عبادت و ریاضت مقبول نہ ہو
Patanjali Product)
کی تفصیلات پڑھیں ذرا)
اور انٹرنیشنل لیول پر ساری اشیاء ایسی آنے لگی ہے کہ مسلمانوں کے لئے ناجائز و حرام ہو، مگر ہمیں حلال کا ٹیگ لگا کر دی جاتی ہیں اور ہم لینے پر مجبور ہیں ،
کیوں کہ ہمارا اپنا کچھ ہے ہی نہیں
مسلمانوں میں ٹیلینٹ بے حساب ہے
بلکہ دوسری قوموں سے زیادہ نوازا ہے اللہ نے ہمیں، مگر اس کا فائدہ دوسرے لوگ اٹھا رہے ہیں
جو پڑھا لکھا اور ہنر مند طبقہ ہے ہمارا وہ بھی غیروں کی نوکری پر ہی مجبور ہے،
حال میں جب ٹرمپ کم بخت نے مسلمانوں پر پابندی لگائی تو بڑی بڑی کمپنیوں نے احتجاج کیا
کیوں؟؟؟
مسلمانوں کی محبت میں؟؟؟؟
ہرگز نہیں۔۔۔
مسلمانوں کے ٹیلینٹ کی لالچ میں
ان کے ٹیلینٹ کو کیش کرنے کے لیے
آج ہمیں حج بھی کرنا ہو تو غیر مسلم ائیر لائن کمپنی کا سہارا لینا پڑتا ہے
ائیر انڈیا کو کروڑوں کی اِنکم ہوتی ہے حاجیوں کے ذریعے، مگر سہولت دینے کو تیار نہیں،
کرایا دن بدن بڑھتا جا رہا ہے
ہمارا یوز ہر کوئی کر رہا ہے
سوائے ہمارے۔
اللہ کا واسطہ اب اُٹھ جائیں
اب بات پڑوس کے بچے کی نہیں ہمارے اپنے بچے کی ہے
دشمنوں کے جاسوس نے ایک پلان پیش کیا تھا
*مسلمانوں کو شکست دینی ہے تو ان کے جوانوں کو عیاش بنا دو*
اور یہی حربہ صدیوں سے استعمال ہو رہا ہے
اور ہم گہری نیند سو رہے ہیں
فلموں اور ویڈیو کے ذریعے ہمارے بچوں کو غلط ذہن دیا جا رہا ہے اور ہم ایسا کرنے دے رہے ہیں
پچیس سال تک بچوں کی گھومنے پھرنے کی عمر ہے، پھر پوری زندگی تو گھر داری ہی کرنی ہے، یہ ذہن ہمیں یہی فلموں سے ملا۔
پھر پچیس سال بعد وہ بڑا ہو بھی تو دو چار سال اسے سیٹل ہونے میں لگتے ہیں
پھر کہیں جا کر وہ شادی کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہوتا ہے
لیکن ان ہی فلموں کے ذریعے ہمارے بچوں کے جذبات بھڑکائے جاتے ہیں،
13،14سال کی عمر سے
ان کو جنسیات کی طرف راغب کیا جاتا ہے اسی کم عمری میں ۔
اب بچہ 15 سال کا ہے، نوجوانی کا عالم ہے، فلموں نے اس کے جذبات کو آگ لگا دی ہے
شادی ہو گی 29،30 سال کی عمر تک
تو اس بیچ جو 10،15 سال کا عرصہ ہے اس میں وہ اپنے جذبات کو کیسے پرسکون کرے؟؟
کیسے اسے تسکین ملے؟؟؟
کہاں جائے وہ؟؟؟
پھر وہ ہوتا ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں ،
پھر آتا ہے لڑکی اور لڑکوں کی دوستی کا ذہن،
پھر عام ہوتا ہے گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کا تصور ،
پھر لڑکیاں کالج کے نام پر ہوٹلنگ کرتی ہیں،
پھر مذہب بہت سخت ہے،
اسلام بہت شدت پسند ہے،
اسلام بہت پرانا مذہب ہے،
جیسے بہانے تراشے جاتے ہیں۔
پھر ہماری بیٹی کسی کی ضرورت پوری کر رہی ہوتی ہے،
اور ہمارے بیٹے کی ضرورت کسی اور کی بیٹی پوری کر رہی ہوتی ہے،
*یقین نہ آئے تو اپنی بہن، بیٹیوں، بھائیوں اور بیٹوں سے کہیں کہ اپنے موبائل کا پاس ورڈ بتاؤ*
پھر ان کے اُڑے ہوئے ہوش، پیلے پڑتے چہرے، اور نا دینے کی بہانے بازی دیکھیں۔۔۔
وہ کیا چھپانا چاہتے ہیں؟؟
ایسا کیا ہے کہ فوراً ہی اپنا موبائل کسی کو دے نہیں سکتے...
کیوں وہ دس منٹ بعد موبائل دینے کا بہانہ کرتے ہیں؟؟؟؟
کچھ سمجھ میں آ رہا ہے؟؟؟ معاملہ بگڑ کیسے رہا ہے؟؟؟؟
بچپن سے ہی والدین نے بزدل، ناکارہ، اور چھوٹا بچہ بنایا۔
پھر بڑے ہونے کے بعد بھی چھوٹے بچے ہی رہے۔
سست و کاہل ہی رہے۔
اسی وجہ سے عملی زندگی میں قدم رکھنے میں دیر ہوئی
اسی وجہ سے اپنی ضرورت حرام راستے سے پوری کرنے لگے، اور بے حیائی بڑھنے لگی
اس سے پہلے کہ ایسا وقت آئے، کہ یہ تمیز کرنا مشکل ہو جائے کہ اولاد جائز ہے یا نا جائز، اپنے آپ کو سنبھال لیں۔
مسلم معاشرے کو پیور اور خالص خون کی ضرورت ہے۔
مسلم قوم کو جائز اور حلال جوانوں کی ضرورت ہے۔
*اللہ کا واسطہ اتنی گہری نیند میں نہ سو جائیں کہ حرام اور ناجائز پیداوار کا انبار لگ جائے*
اور ہم مزید کاٹے جائیں،
بم سے اڑائے جائیں،
ہمیں وہ لوگ چاہیے جو ضرورت پڑنے پر پانی سے لبالب بھرے دریا میں اتر جاتے ہیں،
جو روم کے سمندر کو پھلانگ کر اندلس کے دروازے تک پہنچ جاتے ہیں،
وہ لوگ چاہیے جو 313 ہو کر بھی ہزاروں سے جیت جاتے ہیں
اللہ کا واسطہ... ہماری قوم کو وہ خالص خون دیجئے،
وہ خالص نسل دیجیے،
اپنے آپ کی غلطی کو سمجھیں۔
بچے بگڑگئے، اس لیے کہ بڑوں نے لاپرواہی کی۔
ہمیں اس دنیا میں کھیل کود اور انجوائے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے۔
ہماری انجوائے منٹ کے ل
یے اللہ تعالی نے جنت سجائی ہے۔
وہاں جا کر خوب انجوائے کرنا
ابھی قوم کو سنبھال لیں،
ہم کو سنبھال لیں،
ہماری عزت آبرو خطرے میں ہے۔
چادر چھین کر ماڈرن ازم کے نام پر نمائش بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔
جو چاہے دیکھے، جو چاہے اپنے جذبات کو سکون پہنچائے
اللہ کا واسطہ بچا لیجیے
قوم کے بچوں اور بچیوں کو ۔
ہماری بقاء ، ہماری حفاظت، صرف اسلام کے دامن میں ہے۔
اسلام کے قانون کو سمجھیں اور اسے ہی اپنی زندگی کا حصہ بنائیں
ورنہ بہت جلد حلال اور خالص خون والی اولاد کی کمی ہو جائے گی۔
ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملینگے ۔
اللہ کا واسطہ اب اُٹھ جائیے۔
اور تنہائی میں اپنا حساب لیجیے۔
سمجھئے کے غلطی کہاں کہاں کی ہے۔۔۔
دوسروں کی غلطی ہے کہہ کر اب کام نہیں چلے گا۔
ہر کوئی خطاوار ہے۔
کہیں نا کہیں ہم سب ہی مجرم ہیں۔
پلیز اپنی غلطی مان لیجیے اور اسے سدھار لیجیے..
🌹💞🌹💞🌹💞🌹💞🌹💞
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں