صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔54 اسلام کی پاسبانی کب تک کرو گے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کہ وہ مسلمان ہے۔ ایلس جہاں کہیں بھی گئی اور اسے جو کوئی بھی لے گیا، رحیم کو اب یہ سوال پریشان کرنے لگا کہ وہ کہاں جائے، عکرہ واپس جانا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ قاہرہ جانے سے بھی ڈرتا تھا۔ اس نے اپنا فرض پورا نہیں کیا تھا۔ اس نے اپنے کمانڈر عمران کو نہیں بتایا تھا کہ وہ جارہا ہے۔ سوچ سوچ کر اس نے ایک بہانہ گھڑ لیا۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اب قاہرہ کے بجائے کرک چلا جائے اور وہاں بتائے کہ اسے پہچان لیا گیا تھا کہ وہ مسلمان ہے اور جاسوس ہے۔ وہ بڑی مشکل سے بھاگ کر وہاں سے نکلا ہے۔ اسے مہلت نہیں ملی کہ عمران یا رضا کو اطلاع دے سکتا کہ اس کی گرفتاری کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے… یہ اچھا بہانہ تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اسے کوئی یہ تو نہیں کہے گا کہ کوئی ثبوت اور شہادت لائو۔
وہ پانی پی کر کرک کی سمت چل پڑا۔ اسے ایلس کی گمشدگی پریشان کررہی تھی اور اسے افسوس ہورہا تھا کہ اسے کبھی بھی پتا نہ چل سکے گا کہ ایلس کہاں غائب ہوگئی ہے۔
وہ بمشکل تین میل چلا ہوگا کہ اسے دوڑتے گھوڑوں کی ہلکی ہلکی آوازیں سنائی دیں۔ اس نے پیچھے دیکھا، گرد کا بادل اڑا آرہا تھا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا، چھپنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ سوار کون ہیں۔ اسے یہی معلوم تھا کہ وہ خود کون ہے۔ یہی خطرناک پہلو تھا۔ وہ گھوڑوں کے راستے سے ہٹ کر چلتا گیا۔ گھوڑے قریب آگئے، تب اس نے دیکھا کہ وہ صلیبی تھے اور انہوں نے گھوڑے اس کی طرف موڑ لیے تھے۔ وہ نہتا تھا۔ بھاگنے کی بھی کوئی صورت نہیں تھی۔ سواروں نے اسے گھیر لیا۔ اس نے ان میں سے ایک کو پہچان لیا۔ وہ ایلس کا امیدوار تھا۔ اس نے رحیم سے کہا… ''مجھے پہلے ہی شک تھا کہ تم عیسائی نہیں ہو''۔
اسے پکڑ لیا گیا اور اس کے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ کر اسے ایک سوار نے لاش کی طرح گھوڑے پر ڈال لیا۔ گھوڑے عکرہ کی سمت روانہ ہوگئے۔ یہ وہ وقت تھا جب عمران رحیم سے ملنے گیا تو وہ اسے نہ ملا۔ تاجر کے ایک نوکر نے اسے بتایا کہ اسے نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ عمران شش وپنج میں پڑ گیا۔ رحیم جا کہاں سکتا تھا۔ اس کے پاس کیوں نہیں آیا؟… عمران گرجے میں واپس چلا گیا۔ رضا سے وہ شام کے بعد مل سکتا تھا۔ انہیں رحیم کو ڈھونڈنا تھا۔ یہ خطرہ بھی محسوس کیا گیا کہ وہ گرفتار نہ ہوگیا ہو۔ اس صورت میں یہ خطرہ تھا کہ اس نے اپنے دونوں ساتھیوں کی نشاندہی نہ کردی ہو۔ عمران کو یہ سوچ پریشان کررہی تھی کہ رحیم اگر پکڑا گیا ہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اور رضا بھی پکڑے جائیں۔ پکڑے جانے اور مارے جانے کا انہیں فکر نہ تھا۔ فکر یہ تھا کہ انہوں نے وہ راز حاصل کرلیا تھا جس کے لیے وہ یہاں آئے تھے اور اب انہیں یہاں سے نکلنا تھا۔
سورج غروب ہونے میں ابھی بہت دیر باقی تھی۔ رضا اصطبل سے باہر کہیں کھڑا تھا۔ چار گھوڑے اصطبل کے دروازے پر رکے، ایک سوار نے اپنے آگے کسی کو لاش کی طرح ڈال رکھا تھا، اسے اتارا گیا۔ یہ دیکھ کر رضا کا خون خشک ہوگیا کہ وہ رحیم تھا۔ اس کے ہاتھ پیٹھ پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ سواروں میں ایک بڑا افسر تھا۔ رضا اسے اچھی طرح جانتا پہچانتا تھا۔ دوسروں سے بھی وہ واقف تھا۔ رحیم کو وہ لے جانے لگے تو بڑے افسر نے رضا کو دیکھ لیا۔ اسے ''فرانسس''کے نام سے بلایا۔ رضا دوڑا گیا لیکن اس کے پائوں نہیں اٹھ رہے تھے۔ وہ سمجھ گیا کہ اسے بھی گرفتار کیا جائے گا۔
: ''چاروں گھوڑے اندر لے جائو''۔ اس افسر نے رضا سے کہا… ''ہمارے سائیسوں کے حوالے کردینا''… اس نے رحیم کے متعلق حکم دیا… ''اسے اس کمرے میں لے چلو''۔
رضا کو چونکہ فرانسس کے نام سے بلایا گیا تھا، اس لیے وہ جان گیا کہ رحیم نے اس کی نشاندہی نہیں کی۔ یہ صلیی افسر اسے ابھی تک سائیس فرانسس سمجھ رہے تھے۔ اس نے ایک افسر سے پوچھا۔ ''یہ کون ہے؟ اس نے چوری کی ہوگی''۔
''یہ صلاح الدین ایوبی کا جاسوس ہے''۔ ایک فوجی نے جواب دیا اور طنزیہ لہجے میں کہا… ''اب یہ تہہ خانے میں جاسوسی کرے گا، جائو گھوڑے لے جائو''۔
اس دوران رضا اور رحیم نے ایک دوسرے کو گہری نظروں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا تھا۔ انہوں نے آنکھوں کے کچھ اشارے مقرر کررکھے تھے۔ اگر ایسی صورتحال میں دو جاسوسوں کا سامنا ہوجائے تو وہ ایک اشارہ تو یہ کرتے تھے کہ بھاگ جائو، دوسرا یہ کہ کوئی خطرہ نہیں۔ رحیم نے رضا کو ایسا ہی ایک اشارہ کیا جس سے اسے تسلی ہوگئی کہ اس نے کسی کی نشاندہی نہیں کی۔ تاہم ان کے لیے یہ خوشی کی بات نہیں تھی۔ اس کا ساتھی پکڑا گیا تھا اور وہ جانتا تھا کہ تہہ خانے میں اس کا کیا حشر کیا جائے گا۔ رحیم کو اب مرنا تھا مگر بڑی ہی اذیت ناک موت مرنا تھا۔ رضا کو معلوم تھا کہ رحیم کو کون سے کمرے میں لے جایا جارہا ہے اور اس کے بعد اسے کہاں لے جائیں گے۔
٭ ٭ ٭
عمران گرجے کے ساتھ اپنے کمرے میں پریشانی کی حالت میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ رحیم کہاں غائب ہوگیا ہے۔ اس کے کمرے کا دروازہ کھلا، وہ رضا تھا۔ اندر آکر اس نے دروازہ بند کر دیا اور گھبرائی ہوئی سرگوشی میں کہا۔ ''رحیم پکڑا گیا ہے''… اس نے جو دیکھا تھا وہ عمران کو سنا دیا۔ رضا نے اسے یہ بھی بتا دیا کہ رحیم نے اشارے سے اسے بتا دیا ہے کہ اس نے ہماری نشاندہی نہیں کی۔
''اگر نہیں کی تو تہہ خانے میں جاکر کردے گا''۔ عمران نے کہا… ''اس دوزخ میں زبان بند رکھنا آسان نہیں ہوتا''۔ ان دونوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا محال ہوگیا کہ وہ فوراً نکل جائیں یا ایک آدھ دن انتظار کرلیں۔ ایسے نازک
وقت میں ان سے ایک غلطی سرزد ہوگئی۔ وہ یہ تھی کہ وہ جذبات سے مغلوب ہوگئے۔ چھاپہ ماروں (کمانڈو) اور جاسوسوں کے لیے یہ ہدایت تھی کہ وہ تحمل، بردباری اور صبر سے کام لیں۔ عجلت اور جذبات سے بچیں۔ اگر ان کا کوئی ساتھی ایسے طریقے سے کہیں پھنس جائے کہ اس کی مدد کرنے میں دوسروںکے پھنسنے کا بھی خطرہ ہو تو اس کی مدد نہ کی جائے۔ رضا جذبات میں آگیا۔ اس نے کہا… ''میں رحیم جیسے خوبصورت اور دلیر دوست کو قید سے نکالنے کی کوشش کروں گا''۔
''ناممکن ہے''۔ عمران نے کہا اور اسے ایسے خطرناک ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کرنے لگا۔
''میں چونکہ وہیں رہتا ہوں جہاں رحیم کو لے گئے ہیں۔ اس لیے دیکھوں گا کہ اسے وہاں سے نکالنا ممکن ہوسکتا ہے یا نہیں''۔ رضا نے کہا… ''میں نے وہاں اتنی دوستی پیدا کررکھی ہے کہ مجھے معلوم ہوجائے گا کہ رحیم کہاں ہے۔ اگر میں اس تک پہنچ گیا تو رحیم آزاد ہوجائے گا یا میں اس کے ساتھ ہی جائوں گا اور اگر میں بھی پکڑا گیا تو تم نکل جانا۔ راز تمہارے پاس ہیں۔ میں رحیم کے بغیر واپس نہیں جائوں گا''۔
ناممکن تھا کہ رضا رحیم کو وہاں سے آزاد کرلیتا لیکن اس کے جذبات اتنے شدید تھے کہ عمران بھی اس کاہمنوا ہوگیا اور وہ حقائق کو بھول گیا۔ رضا اسے یہ کہہ کر چلا گیا کہ رات کو کسی وقت آکر اسے بتائے گا کہ رحیم کی رہائی کی کوئی صورت ہے یا نہیں۔ اگر کوئی صورت نہ ہوئی تو وہ رات کو نکل جائیں گے۔ عمران کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ گھوڑوں کا انتظام کرلے۔ گھوڑوں کا انتظام آسان نہیں تھا۔ پادری کے باڈی گارڈوں کے گھوڑے وہاں موجود رہتے تھے۔ انہی میں سے دو یا تین گھوڑے چوری کرنے تھے۔
اس وقت تک رحیم کو قید خانے میں نہیں ڈالا گیا تھا۔ اسے انٹیلی جنس کے دو وحشی قسم کے افسروں کے حوالے کردیا گیا تھا۔ جاسوس جب پکڑا جاتا ہے تو سزا کا مرحلہ سب سے آخر میں ہوتا ہے۔ پہلے اس سے معلومات لی جاتی ہیں۔ جاسوس اکیلا نہیں ہوتا، پورا گروہ ہوتا ہے۔ گرفتار کیے ہوئے جاسوس سے یہی ایک سوال پوچھا جاتا ہے کہ اس کے ساتھی کہاں ہیں اور دوسرا سوال یہ پوچھا گیا کہ اس نے یہاں سے کوئی خفیہ بات معلوم کی ہے تو وہ بتا دے۔ رحیم نے جواب دیا کہ اس کے پاس کوئی راز نہیں۔ تاجر کی بیٹی ایلس کے ساتھ تعلقات کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ ایک دوسرے کو چاہتے تھے۔ ایلس کی شادی ایک بوڑھے افسر کے ساتھ کی جارہی تھی، اس لیے وہ گھرسے بھاگنے پر مجبور ہوگئی۔
''کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم کس طرح پکڑے گئے ہو؟''
''نہیں''… رحیم نے جواب دیا… ''میں اتنا جانتا ہوں کہ میں پکڑا گیا ہوں''۔
''
''تم اور بھی بہت کچھ جانتے ہو''… ایک افسر نے اسے کہا… ''وہ سب کچھ بتا دو جو تم جانتے ہو، تمہیں کوئی تکلیف نہیں دی جائے گی''۔
''میں یہ جانتاہوں کہ میں اپنا فرض بھول گیا تھا''… رحیم نے کہا… ''میں اس سزا کو خوشی سے قبول کروں گا۔ مجھے جس قدر تکلیف اور جتنی اذیت دے سکتے ہو دو۔ میں اسے اپنے گناہ کی سزا سمجھ کر قبول کروں گا''۔
''کیا تمہارے دل میں ابھی تک ایلس کی محبت ہے؟''
''ابھی تک ہے''… رحیم نے کہا… ''اور ہمیشہ رہے گی۔ میں اسے اپنے ساتھ قاہرہ لے جارہا تھا۔ اسے مسلمان کرکے اس کے ساتھ شادی کرنی تھی''۔
''اگر ہم یہ کہیں کہ اس نے تمہارے ساتھ دھوکہ کیا ہے تو تم مان لو گے؟''
''نہیں''… رحیم نے کہا… ''جس نے میرے لیے اپنا گھر اور اپنے عزیز چھوڑ دئیے تھے، وہ دھوکہ نہیں دے سکتی، اس کے ساتھ کسی نے دھوکہ کیا ہے''۔
''اگر ہم ایلس تمہارے حوالے کردیں تو کیا تم ہمیں بتا دو گے کے عکرہ میں تمہارے کتنے ساتھی ہیں اور وہ کہاں ہیں؟''… اس سے پوچھا گیا… ''اور یہ بھی بتا دو گے کہ تم نے یہاں سے کون سا راز حاصل کیا ہے؟''
رحیم کا سرجھک گیا۔ ایک افسر نے اس کا سر اوپر اٹھایا تو رحیم کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ افسروں کے باربار پوچھنے پر بھی وہ خاموش رہا، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کے اندر ایسی کشمکش پیدا ہوگئی ہے جس میں وہ فیصلہ نہیں کرسکتا اس کا رویہ اور ردعمل کیا ہونا چاہیے۔ اس کی یہ کیفیت ظاہر کرتی تھی کہا س کے دل میں ایلس کی محبت بہت گہری اتری ہوئی ہے۔
''تمہیں آخر کار ہمارے تمام سوالوں کا جواب دینا ہوگا''… ایک افسر نے کہا… ''اس وقت تک تم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے ہوگے، تم جیو گے نہ مرو گے۔ اگر پہلے ہی جواب دے دو تو ایلس تمہارے پاس ہوگی اور تم آزاد ہوگے۔ اس وقت تم قید خانے میں نہیں، یہ ایک افسر کا کمرہ ہے۔ اگر تم سوچنے کی مہلت چاہتے ہو تو آج رات تمہیں اسی کمرے میں رکھا جائے گا''۔
رحیم خاموش رہا اور خالی نظروں سے افسروں کو دیکھتا رہا۔ افسروں کو ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ وہ اس کمرے سے بھاگ جائے گا۔ برآمدے میں پہرہ تھا۔ گشتی پہرہ بھی تھا۔ رحیم بھاگ کر جا بھی کہاں سکتا تھا۔ ایک افسر نے باہر آکر اپنے ساتھی افسر سے کہا… ''تم وقت ضائع کررہے ہو، اسے تہہ خانے میں لے چلو۔ لوہے کی لال گرم سلاخ اس کے جسم کے ساتھ لگائو، ساری باتیں اگل دے گا۔ نہیں بولے گا تو بھوکا اور پیاسا پڑا رہنے دو''۔
''میرا تجربہ مختلف ہے میرے دوست!''… دوسرے افسر نے کہا… ''یہ نہ بھولو، یہ مسلمان ہے۔ تم نے اب تک کتنے مسلمان جاسوسوں سے راز اگلوائے ہیں؟ کیا تم نہیں جانتے کہ یہ کمبخت ایک بار ڈٹ جائیں تو مرجاتے ہیں، زبان نہیں کھولتے۔ یہ شخص کہہ چکاہے کہ ہماری ہر اذیت اپنے گناہ کی سزا سمجھ کر قبول کرلے گا۔ یہ کٹر مسلمان معلوم ہوتا ہے۔ یہ تہہ خانے میں جاکر بھی کہہ دے گا کہ وہ کچھ بھی نہیں بتائے گا۔ ہمارا مقصد اسے جان سے مارنا نہیں، یہ معلوم کرنا ہے کہ اس کے ساتھی کہاں ہیں اور یہ معلوم کرنا ہے کہ انہیں اس حملے کا پتا تو نہیں چل گیا جو مصر پر کرنے والے ہیں؟''
''ان کے باپ کو بھی پتا نہیں چل سکتا''… دوسرے افسر نے کہا… ''ہائی کمانڈ کے افسروں کے سواکسی کو حملے کے متعلق علم ہی نہیں۔ یہ جاسوس تاجر کی بیٹی کے عشق میں الجھا ہوا تھا۔ اسے تو دنیا کی ہوش نہیں تھی، اسے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ اسے ایلس نے گرفتار کرایا ہے۔ یہ ابھی تک اس کی محبت میں گرفتار ہے''۔
''میں ایلس کو ہی استعمال کرنا چاہتا ہوں''… ایک نے کہا… ''اسے آج رات اسی کمرے میں رہنے دیتے ہیں، مجھے امید ہے کہ جو راز ہم کئی دنوں میں بھی نہیں اگلوا سکیں گے وہ ایلس جیسی دلکش لڑکی چند منٹوں میں اگلوائے گی''۔
''کیا اس لڑکی پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟''
''کیا تمہیں ابھی تک شک ہے؟''… دوسرے نے کہا… ''تم نے شاید پوری بات نہیں سنی۔ ایلس نے واپس آکر جو بیان دیا ہے، وہ تم نے پورا نہیں سنا۔ اب چونکہ تفتیش ہم دونوں کے سپرد کی گئی ہے۔ اس لیے تمہارے ذہن میں ہر ایک بات واضح ہونی چاہیے۔ ایلس اس شخص کو بری طرح چاہتی تھی۔ وہ اسے ایلی مور نام کا عیسائی سمجھتی رہی۔ ایلس کا باپ اس کی شادی کمانڈر ولیسٹ میکاٹ کے ساتھ کرنا چاہتا تھا۔ وہ دراصل اپنی بیٹی رشوت کے طور پر دے رہا تھا۔ ایلس اس جاسوس کے ساتھ بھاگ گئی۔ راستے میں اس نے ایلس کو بتا دیا کہ وہ ایلی مور نہیں، رحیم ہے اور وہ مسلمان ہے۔ ایلس نے اسے مذاق سمجھا مگر رحیم نے اسے یقین دلایا کہ وہ مذاق نہیں کررہا۔
: رحیم نہیں جانتاتھا کہ ایلس کے دل میں مسلمانوں کی کتنی دہشت اور حقارت بچپن سے بیٹھنی ہوئی ہے اور رحیم کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ایلس مذہب کی پکی ہے۔ ہر وقت صلیب گلے میں ڈالے رکھتی ہے۔ اس نے جان لیا کہ اس مسلمان نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا ہے اور وہ قاہرہ جاکر نہ صرف خود اسے خراب کرے گا بلکہ دوسروں سے بھی خراب کرائے گا اور آخر میں کسی کے ہاتھ فروخت کردے گا۔ ہم نے اپنے بچوں کے ذہنوں میں مسلمانوں کا جو گھنائونا تصور پیدا کررکھا ہے، وہ ایلس کے سامنے آگیا''۔
''ایلس کے دل میں مذہب کی محبت پیدا ہوگئی اور یہ محبت مسلمان کی محبت پر ایسی غالب آئی کہ اسے حقارت میں بدل دیا۔ وہ سب کچھ بھول گئی۔ وہ یہ بھی بھول گئی کہ عکرہ واپس آکر اسے بوڑھے کمانڈر کے ساتھ بیاہ دیا جائے گا۔ اسے صلیب کا یہ فرض یاد آگیا کہ مسلمان کو ہرحال میں دشمن سمجھنا اور اسلام کے خاتمے کے لیے کام کرنا ہے۔ لڑکی چونکہ ہوشیار اور دلیر ہے، اس لیے اس نے بھاگنے کا نہایت اچھا طریقہ سوچا۔ رحیم پر ظاہر نہ ہونے دیا اور لیٹ گئی۔ رحیم اطمینان سے سوگیا تو ایلس گھوڑے پر سوار ہوئی اور ایسی خاموشی سے نکل آئی کہ رحیم کو خبر تک نہ ہوئی۔ راستے سے واقف تھی۔ عکرہ پہنچ گئی اور اپنے باپ کے سامنے اقبال جرم کرکے اسے رحیم کے متعلق بتایا۔ باپ نے اسی وقت کمانڈر ولیسٹ میکاٹ کو جگایا اور اسے یہ واقعہ سنایا۔ کمانڈر نے تین سپاہی ساتھ لیے اور رحیم کے تعاقب میں گیا۔ رحیم پیدل کہاں جاسکتا تھا، پکڑا گیا اور اب یہ ہمارے ہاتھ میں ہے''۔
''رحیم کو معلوم نہیں کہ اسے ایلس نے دھوکہ دیا ہے''۔
''نہیں''… دوسرے نے کہا… ''میں اب ایلس کو استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ رحیم کو ہم نہایت اچھا کھانا کھلائیں گے''۔
٭ ٭ ٭
وہاں کے ملازموں اور دوسرے لوگوں کی زبان پر یہی موضوع تھا کہ ایک مسلمان جاسوس پکڑا گیاہے۔ رضا بھی فرانسس کے روپ میں ان ملازموں میں شامل تھا۔ وہ بھی مسلمان کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور دوسروں کی طرح خواہش ظاہر کررہا تھا کہ جاسوس کو سرعام پھانسی دی جائے یا اسے گھوڑے کے پیچھے باندھ کر بھگا دیا جائے۔ رضا کو معلوم ہوچکا تھا کہ رحیم ابھی تک اسی کمرے میں ہے۔ سب حیران تھے کہ اسے قید خانے میں کیوں نہیں لے گئے اور جب باورچی خانے کے ایک ملازم نے انہیں بتایا کہ قیدی کے لیے افسروں کا سا کھانا گیا ہے اور وہ خود کھانا دے آیا تو سب حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ رضا باتوں باتوں میں باورچی خانے کے اس آدمی کو الگ لے گیا اور پوچھا… ''کیا تم مذاق کررہے ہو کہ مسلمان جاسوس کو اتنا اچھا کھانا دیا گیا ہے جو افسر کھاتے ہیں، پھر وہ جاسوس نہیں ہوگا''۔
''بڑا خطرناک جاسوس ہے''… ملازم نے کہا… ''جو افسر تفتیش کررہے ہیں، میں نے ان کی باتیں سنی ہیں۔ وہ ابھی اسے کھلا پلا کر اس سے باتیں پوچھیں گے، پھر وہ کسی لڑکی کی باتیں کررہے تھے جو اس قیدی کو پھانس کر اس سے باتیں اگلوائے گی''۔
رحیم کھانا کھا چکا تو اس کے کمرے میں ایلس داخل ہوئی، دونوں افسر چلے گئے تھے۔ انہوں نے ایلس کو بلا کر اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے اور قیدی سے کیا پوچھنا ہے۔ ایلس کو دیکھ کر رحیم بہت حیران ہوا۔ اسے خواب کا دھوکہ ہوا ہوگا۔
''تم؟''… اس نے ایلس سے پوچھا… ''کیا تمہیں بھی گرفتار کرکے یہاں لایا گیا ہے؟''
''ہاں!''… ایلس نے کہا… ''میں کل رات سے قید میں ہوں''۔
''تم وہاں سے غائب کس طرح ہوئی تھی؟''… رحیم نے کہا… ''میں مان نہیں سکتا کہ تم خود بھاگ آئی تھی؟''
''میں کیوں کر بھاگ سکتی تھی''… ایلس نے کہا… ''میرا تو جینا مرنا تمہارے ساتھ ہے، تم سوگئے تھے مگر مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔ میں اٹھ کر ٹہلنے لگی اور کچھ دور نکل گئی۔ کسی نے پیچھے سے میرا منہ ہاتھ سے بند کردیا اور اٹھا کر گھوڑے پر ڈال لیا۔ وہ دو آدمی تھے۔ ایک نے ہمارا گھوڑا بھی لے لیا، میرا منہ بند تھا۔ تمہیں پکار نہیں سکتی تھی، وہ مجھے یہاں لے آئے''۔
''انہیں کس نے بتایا ہے کہ میں ایلی مور نہیں، رحیم ہوں؟''… رحیم نے پوچھا… ''اور جنہوں نے تمہیں وہاں جاپکڑا تھا وہ مجھے بھی کیوں نہ پکڑ لائے؟ انہوں نے مجھے قتل کیوں نہ کردیا؟''
''میں ان سوالوں کا جواب نہیں دے سکتی''… ایلس نے کہا… ''میں خود مجرم ہوں
: ''تم جھوٹ بول رہی ہوایلس''… رحیم نے کہا… ''تمہیں دھمکا کر میرے متعلق پوچھا گیا ہے اور تم نے ڈر کے مارے بتا دیا ہے کہ میں کون ہوں۔ مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں، میں کبھی برداشت نہیں کرسکتا کہ تمہیں کوئی تکلیف ہو''۔
''اگر تمہیں میری تکلیف کا خیال ہے تو یہ لوگ تم سے جو کچھ پوچھتے ہیں، وہ انہیں بتا دو''… ایلس نے کہا… ''انہوں نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ وہ تمہیں رہا کردیں گے''۔
''بات پوری کرو ایلس''… رحیم نے طنزیہ لہجے میں کہا… ''یہ بھی کہو کہ میں سب کچھ بتا دوں تو مجھے رہا کردیں گے اور تم میرے ساتھ شادی کرلوگی''۔
''شادی بھی ہوسکتی ہے''… ایلس نے کہا… ''بشرطیکہ تم عیسائی ہوجائو''۔
''کیا تم یہ امید لے کے آئی ہو کہ میں رہائی کی خاطر اپنا مذہب چھوڑ دوں گا؟''… رحیم نے کہا… ''ایلس! میں فوج کا معمولی سا سپاہی نہیں، جاسوس ہوں۔ عقل رکھتا ہوں، میں اس گناہ کی سزا بھگت رہا ہوں کہ عقل پر تمہاری محبت کو سوار کرلیا تھا۔ تم جھوٹ بول رہی ہو، جس صلیب کی تم قسمیں کھا رہی ہو، وہ گلے میں ڈال کر جھوٹ بول رہی ہو۔ کیا یہ غلط ہے کہ تم خود وہاں سے بھاگی ہو؟ کیونکہ تمہارے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری ہوئی ہے۔ تمہیں مجھ پر اعتماد نہ رہا اور مجھے سوتا چھوڑ کر بھاگ آئیں۔ یہاں آکر تم نے اپنے بوڑھے منگیتر کو میرے پیچھے بھیج دیا۔ میرے دل میں بھی تمہاری قوم کے خلاف نفرت ہے۔ میں تمہارے قوم کو اپنا دشمن سمجھتا ہوں۔ میں نے اپنی جان تمہاری قوم کو تباہ کرنے کے لیے دائو پر لگائی ہے لیکن تمہاری محبت، محبت ہی رہے گی۔ اس پر نفرت غالب نہیں آسکے گی۔ میں نے تمہاری خاطر اپنا فرض فراموش کیا۔ اپنا مستقبل تباہ کیا مگر تم نے ناگن کی طرح ڈنگ مارا''۔
وہ ایسے انداز سے بول رہا تھا کہ ایلس کی زبان بند ہوگئی۔ اس کے دل میں رحیم کی محبت موجود تھی۔ رحیم نے جب اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دھیمے اور پر اثر انداز میں باتیں کیں تو یہ جوان لڑکی اپنے سینے سے اٹھتے ہوئے جذبات کے بگولے کی لپیٹ میں آگئی۔ پہلے تو اس کے آنسو پھوٹے پھر اس نے بیتابی سے رحیم کے دونوں ہاتھ تھام لیے اور روتے ہوئے کہا… ''مجھے تم سے نفرت نہیں۔ تم اپنا فرض بھول گئے تھے، میں نہ بھول سکی۔ میں مجرم ہوں، میں نے
تمہیں پکڑوایا ہے۔ اس جرم کی سزا مجھے سخت ملے گی۔ مجھے چند دنوں میں اس بوڑھے کمانڈر کی بیوی بنا دیا جائے گا جو وحشی ہے اور شراب پی کر درندہ بن جاتا ہے۔ مجھے کچھ نہ بتائو ایلی مور''۔
''میںایلی مور نہیں ہوں''… رحیم نے کہا… ''میں رحیم ہوں''۔
٭ ٭ ٭
تفتیش کرنے والے دونوں افسر کہیںاور بیٹھے شراب پی رہے تھے۔ وہ مطمئن تھے کہ یہ خوبصورت لڑکی رحیم کو موم کرلے گی اور صبح سے پہلے پہلے ہمارا کام پورا کردے گی۔ وہاں صرف ایک پہرہ دار تھا جو برآمدے میں بیٹھ گیا تھا۔ کمرے کے پچھواڑے اندھیرا تھا اور اس اندھیرے میں ایک سایہ اتنی آہستہ آہستہ آگے کو سرک رہا تھا جیسے ہوا کا جھونکا رک رک کر آگے بڑھ رہا ہو۔ ادھر عمران گرجے سے ملحق اپنے کمرے میں جاگ رہا تھا۔ ذرا سی آہٹ سنائی دیتی تھی تو وہ اٹھ کر دروازے میں آجاتا تھا۔ اسے ہر آہٹ رضا کی آہٹ لگتی تھی۔ اس نے کمال ہوشیاری سے تین گھوڑے منتخب کرلیے تھے جو آٹھ گھوڑوں کے ساتھ بندھے تھے۔ اس کے زینیں بھی چوری چھپے الگ کرلی تھیں۔ اسے امید تھی کہ رضا اور رحیم آجائیں گے مگر جوں جوں رات گزرتی جارہی تھی۔ امید بھی تاریک ہوتی جارہی تھی۔ یہ حقیقت نکھرتی آرہی تھی کہ اس نے رضا کو یہ اجازت دے کر کہ رحیم کو آزاد کرائے، سخت غلطی کی تھی۔ یہ ناممکن تھا۔ وہ اب سوچ رہا تھا کہ ایک گھوڑے کھولے اور نکل جائے مگر اسے رضا کا خیال آجاتا تھا۔ رضا نے اسے کہا تھا کہ وہ رات کو آئے گا ضرور خواہ اکیلا آئے۔
اس وقت رضا موت کے منہ میں جاچکا تھا۔ وہ ایک سیاہ سایہ بن کر اس کمرے کے ایک دریچے کے پاس پہنچ گیا، جس میں رحیم بند تھا۔ اس نے کان لگا کر اندر کی باتیں سنیں۔ اسے کسی کے یہ الفاظ سنائی دئیے۔ میں تمہیں رہا نہیں کراسکتی۔ یہ لوگ جو کچھ پوچھتے ہیں، وہ بتا دو پھر میں اپنے باپ سے کہہ کر تمہارے لیے کچھ کرسکتی ہوں۔ مجھے اسی مقصد کے لیے تمہارے پاس لایا گیا ہے کہ میری محبت تم سے راز اگلوائے گی۔
دریچے کے کواڑ پر نہایت آہستہ سے کسی نے تین بار دستک دی۔ رحیم اس اشارے کو سمجھتا تھا۔ وہ حیران ہوا کہ یہ اس کا کون سا ساتھی ہوسکتا ہے۔ ایلس کچھ نہ سمجھ سکی۔ رحیم ٹہلتے ٹہلتے دریچے تک گیا اور کواڑ کھول دیا۔ رضا باہر کھڑا تھا، کود کر اندر آگیا۔ اس کے ہاتھ میں خنجر تھا۔ اس نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ایلس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور خنجر اس کے دل میں اتار دیا۔ اسے قتل کرنا ضروری تھا، ورنہ وہ شور مچا کر انہیں پکڑا سکتی تھی۔ رضا اور رحیم دریچے سے کود کر باہر گئے اور اندھیرے سے بھاگ اٹھے۔ رضا اس جگہ سے واقف تھا۔ اس نے راستہ تو اچھا اختیار کیا تھا لیکن برآمدے میں جو پہرہ دار تھا، اس نے کسی طرف سے دو سائے بھاگتے دیکھ لیے۔ اس کے شور پر دوسرے سنتری ہوشیار ہوگئے۔ جانے کہاں سے ایک تیر آیا جو رحیم کے پہلو میں اتر گیا۔ وہ جوان اور توانا آدمی تھا، گرا نہیں۔ رضا کے ساتھ بھاگتا چلا گیا مگر زیادہ دور تک نہ جاسکا۔ اس کے قدم ڈگمگانے لگے تو رضا نے اسے اپنی پیٹھ پر ڈال لیا۔ تیر پہلو سے نکالنا ممکن نہیں تھا۔
رحیم رضا سے کہنے لگا کہ وہ اسے وہین پھینک کر بھاگ جائے۔ وہ اب زندہ نہیں رہ سکتا تھا لیکن رضا اپنے دوست کو اس وقت تک اپنے آپ سے جدا نہیں کرنا چاہتا تھا، جب تک وہ زندہ تھا۔ اس نے رحیم کی ایک نہ سنی اور تاریک راستوں میں چھپتا چھپاتا چلتا گیا۔ اسے خیال آگیا کہ وہ اس جگہ سے گزر رہا ہے۔ جہاں تمام مکان مسلمانوں کے ہیں۔ اسے دور دور بھاگ دوڑ اور شور شرابہ سنائی دے رہا تھا۔ ان کا تعاقب کرنے والے کہیں اور تھے۔ رضا کو معلوم تھا کہ عکرہ کے مسلمان کیڑوں مکوڑوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں اور صلیبیوں کی نگاہ میں ہر مسلمان جاسوس اور مشتبہ ہے۔ ذرا سے شک پر کسی بھی مسلمان کو قید خانے میں ڈال دیا جاتا ہے اور اس کے گھر کی تلاشی توہین آمیز طریقے سے لی جاتی تھی۔ رضا کسی مسلمان کو مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا مگر وہ رحیم کے بوجھ تلے شل ہوچکا تھا اور اسے یہ امید بھی تھی کہ شاید رحیم کی زندگی بچانے کا کوئی بندوبست ہوجائے۔
اس نے ایک دروازے پر دستک دی۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھلا۔ رضا تیزی سے اندر چلا گیا جس نے دروازہ کھولا تھا، گھبرا گیا۔ رضا نے مختصر الفاظ میں اپنا تعارف کرایا وہاں تو صرف یہ کہہ دینا ہی کافی تھا کہ وہ مسلمان ہیں۔ رضا کو پناہ مل گئی مگر رحیم شہید ہوچکا تھا۔ رضا کے کپڑے خون سے لتھڑ گئے تھے۔ اس نے گھر والوں کو سارا واقعہ سنایا اور عمران کے متعلق بھی بتایا۔ گھر میں تین مرد تھے، وہ جوش میں آگئے۔ انہوں نے رضا کے کپڑے تبدیل کردئیے۔ رحیم کی لاش کے متعلق فیصلہ ہوا کہ اسے گھر کے کسی کمرے میں دفن کردیا جائے گا۔ رضا عمران کو بلانے کے لیے چلا گیا۔
٭ ٭ ٭
رات کے اس وقت جب دنیائے اسلام گہری نیند سوئی ہوئی تھی، قوم کے غدار دشمن کی بھیجی ہوئی عورتوں اور شراب میں بدمست پڑے تھے، ان سے دور، بہت دور ایک مسلمان اسلام کی ناموس پر اپنی جان پر کھیل گیا تھا اور دو جان کی بازی لگا کر اس راز کے ساتھ عکرہ سے نکل کر قاہرہ پہنچنے کی کوشش کررہے تھے، جس پر مصر کی عزت اور اسلام کی آبرو کا دارومدار تھا۔ اس راز کو وہ خدا کی امانت سمجھتے تھے، وہاں انہیں دیکھنے والا کوئی نہ تھا کہ وہ اپنا فرض ادا کرتے ہیں یا عیش کررہے ہیں لیکن انہیں یہ احساس تھا کہ انہیں خدا دیکھ رہا ہے اور وہ خدا کے حکم کی تعمیل کررہے ہیں۔
عمران کا سر اس تذبذب اور اضطراب میں دکھنے لگا تھا کہ رحیم آجائے گا یا نہیں، رضا آجائے گا یا نہیں؟؟ قاہرہ تک یہ خبر پہنچا سکے گا یا نہیں کہ مصر پر حملے کے لیے بحیرۂ روم میں صلیبیوں کا بہت بڑا بیڑہ آرہا ہے۔ عمران اس لیے بھی قاہرہ یا کم از کم کرک جلدی پہنچنا چاہتا تھا کہ نورالدین زنگی یا سلطان ایوبی یا دونوں کسی اور طرف حملے یا پیش قدمی کی سکیم نہ بنا لیں۔ ایسی صورت میں انہیں روکنا تھا، اگر ان کی فوج کسی اور طرف نکل گئی تو مصر کا خدا ہی حافظ تھا۔ عمران کو ان سوچوں نے اس قدر پریشان کیا کہ اس نے دروازہ اندر سے بند کرکے نفل پڑھنے شروع کردئیے۔ اس شہر کی خاموشی میں کوئی سرگرمی سنائی دے رہی تھی۔ کچھ بھاگ دوڑ سی تھی۔ یہ اس کی پریشانی میں اضافہ کررہی تھی۔ اس نے دو چار نفل پڑھ کر ہاتھ خدا کے حضور پھیلا دئیے اور گڑگڑایا… ''یا خدا! مجھے اپنے فرض کی تکمیل تک زندگی عطا کر۔ میں یہ امانت ٹھکانے پر پہنچا دوں تو مجھے میرے خاندان سمیت ختم کردینا''۔
: اس کے دروازے پر ویسی ہی دستک ہوئی جیسی رحیم کے دریچے پر ہوئی تھی۔ عمران نے دروازہ کھولا۔ رضا کھڑا تھا۔ اسے اندر بلا کر عمران نے دروازہ بند کردیا۔ رضا ہانپ رہا تھا۔ اس نے عمران کو بتایا کہ اس پر کیا گزری ہے اور رحیم شہید ہوچکا ہے۔ عمران نے جب یہ سنا کہ رحیم کی لاش ایک مسلمان گھرانے میں ہے جو اسے گھر میں دفن کردیں گے تو عمران پریشان ہوگیا۔ وہ عکرہ کے کسی مسلمان کو مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ رضا نے اسے بتایا کہ اس گھر میں تین مرد اور باقی عورتیں ہیں۔ انہوں نے فوراً ایک کمرے کے کونے میں کھدائی شروع کردی تھی۔ عمران اس گھر جانا چاہتا تھا تاکہ دیکھ لے کہ ان کے پکڑے جانے کا کوئی خطرہ تو نہیں۔ رضا نے اسے یقین دلایا کہ وہ ہوشیار لوگ معلوم ہوتے ہیں، سنبھال لیں گے۔
عکرہ سے نکلنا دشوار ہوگیا تھا۔ شہر کی ناکہ بندی کرلی گئی تھی۔ ایک لڑکی کا قتل اور ایک جاسوس کا فرار معمولی سی واردات نہیں تھی۔ نکلنا رات کو ہی تھا۔ ان دونوں نے یہ طے کیا کہ اکٹھے نکلیں گے اور دونوں میں سے کوئی پکڑا گیا یا دونوں پکڑے گئے تو اور جو کچھ بھی کہیں، یہ نہیں بتائیں گے کہ رحیم کی لاش کہاں ہے یا وہ مارا گیا ہے۔ اگلہ مسئلہ گھوڑوں کا تھا۔ عمران رضا کو اس جگہ لے گیا جہاں آٹھ گھوڑے بندھے ہوئے تھے مگر دور سے دیکھا کہ محافظوں میں سے ایک وہاں ٹہل رہا تھا۔ عمران رضا کو ایک جگہ چھپا کر آگے گیا اور اس سنتری کے پاس چلا گیا۔ اس سے پوچھا کہ آج اسے پہرہ دینے کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے۔ سنتری عمران کو جان گنتھر کے نام سے اچھی طرح جانتا تھا اور بڑے پادری کے خصوصی خادم کی حیثیت سے اس کا احترام بھی کرتا تھا۔ اس نے عمران کو بتایا کہ آج ایک مسلمان جاسوس کو پکڑا گیا تھا۔ وہ کسی لڑکی کو قتل کرکے فرار ہوگیا ہے۔ اس لیے حکم آیا ہے کہ ہوشیار رہا جائے۔
اس سنتری کی موجودگی میں گھوڑے کھولنا ممکن نہیں تھا۔ عمران نے اسے باتوں میں لگا لیا اور پیچھے ہوکر اس کی گردن بازو کے گھیرے میں لے لی۔ سنتری کا دم گھٹنے لگا۔ عمران نے اس کے پہلو سے خنجر نما تلوار کھینچ لی اور اس کے پیٹ میں گھونپ دی۔ مرنے تک اس کی گردن بازو کے شکنجے میں دبائے رکھی۔ اسے مار کر عمران نے رضا کو بلایا۔ دو گھوڑوں پر زینیں ڈالیں اور سوار ہوگئے۔ گرجے کے باقی محافظ کمرے میں کہیں سوئے ہوئے تھے۔ عمران اور رضا چل پڑے۔ شہر سے نکلنے کے کئی راستے تھے۔ وہ ایک طرف چل پڑے اور شہر سے نکل گئے۔ اچانک وہ گھیرے میں آگئے اور انہیں للکارا گیا۔
''ہم شہری ہیں دوستو!''… عمران نے کہا… ''ہم بھی تمہاری طرح ڈیوٹی دے رہے ہیں''۔
تین چار مشعلیں جل اٹھیں جن کی روشنی میں انہوں نے دیکھا کہ وہاں گھوڑ سواروں کا ایک دستہ تھا جو ادھر ادھر پھیلا ہوا تھا تب انہیں احساس ہوا کہ شہر کی ناکہ بندی ہوچکی ہے۔ عمران نے اپنے کپڑے نہیں دیکھے تھے۔ اس کے کپڑوں پر سنتری کا خون تھا۔ مشعل کی روشنی میں یہ خون صلیبی سواروں کو نظر آگیا۔ اس سے پوچھا گیا کہ یہ خون کس کا ہے تو عمران نے لگام کو جھٹکا دے کر گھوڑے کو ایڑی لگادی۔ رضا نے بھی ایسا ہی کیا مگر اس نے ذرا دیر کردی۔ عمران نکل گیا۔ رضا گھیرے میں آگیا۔ عمران کے پیچھے بھی تین سوار گئے۔ اسے رضا کی بلند پکار سنائی دینے لگی… ''عمران رکنا نہیں، نکل جائو۔ خدا حافظ''… عمران بہت دور تک یہ پکار سنتا رہا۔ پتا چلتا تھا جیسے وہ گھیرے سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے۔ عمران کا گھوڑا بڑا اچھا تھا۔ اس کے دائیں بائیں سے تیر گزرنے لگے لیکن وہ تعاقب کرنے والوں کو پیچھے ہی پیچھے چھوڑتا چلا گیا۔ وہ راستے سے واقف تھا۔ اس نے کرک کا رخ کرلیا۔ گھوڑا بدلنے کی ضرورت تھی۔
جب صبح کی روشنی سفید ہورہی تھی، اس کا گھوڑا دوڑنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ اس نے پانی کی تلاش کرنے کی کوشش ہی نہ کی۔ آگے ریتلی چٹانوں کا علاقہ آگیا۔ وہ اس میں داخل ہوا ہی تھا کہ اس کے سامنے چٹان میں دو تیرلگے جس کا مطلب تھا کہ رک جائو۔ وہ رک گیا اور یہ دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی کہ اسے روکنے والے اس کی اپنی فوج کے آدمی تھے۔ اسے اپنے کمانڈر کے پاس لے گئے۔ کمانڈر نے اس کی بات سن کر اسے تازہ دم گھوڑا دیا اور دو سپاہی اس کے ساتھ کرکے اسے کرک کے راستے پر ڈال دیا۔ اس نے خود ہی کہا تھا کہ وہ نورالدین زنگی سے مل کر قاہرہ جائے گا۔ عکرہ سے جو خبر لایا تھا وہ زنگی تک بھی پہنچنی چاہیے تھی۔
٭
: عمران جب کرک کے قلعے میں نورالدین زنگی کے سامنے بیٹھا اپنی کہانی سنا رہا تھا۔ زنگی اسے ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے اس خوبرو جوان کو دل میں بٹھا لینا چاہتا ہو۔ اس نے اٹھ کر بیتابی سے عمران کو سینے سے لگا لیا اور اس کے دونوں گال چوم کر پیچھے ہٹ گیا۔ اس نے اپنی تلوار نیام سے نکالی اور پھر نیام میں ڈال کر نیام کو چوما۔ اسے دونوں ہاتھ پر رکھ کر عمران سے کہا… ''اس وقت جب صلیب ایک خوفناک گدھ کی طرح چاند ستارے پر منڈلا رہی ہے، ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو تلوار سے بڑھ کر اور کوئی تحفہ نہیں دے سکتا۔ تم بغداد میں کہو، دمشق میں کہو، کہیں بھی کہو، میں تمہیں ایک محل دے سکتا ہوں۔ تم نے جو کارنامہ کر دکھایا ہے۔ اس کے صلے میں تم دولت کے انبار کے حق دار ہو لیکن میرے عزیز دوست! میں تمہارے لیے محل کھڑا نہیں کروں گا۔ تمہیں دولت کی شکل میں صلہ نہیں دوں گا کیونکہ یہی وہ چیزیں ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو اندھا اور اپاہج کردیا ہے۔ یہ قبول کرو، میری تلوار! اور یاد رکھو اس تلوار نے بڑے بڑے جابر صلیبیوں کا خون پیا ہے۔ اس تلوار نے بہت سے قلعوں پر اسلام کا جھنڈا لہرایا ہے اور یہ تلوار اسلام کی پاسبان ہے''۔
عمران نورالدین زنگی کے آگے دوزانو بیٹھ گیا اور اس کے ہاتھوں سے تلوار لے کر چومی، آنکھوں سے لگائی اور کمر سے باندھ لی۔ وہ کچھ کہہ نہ سکا۔ اس پر رقت طاری ہوگئی تھی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔
''اور اپنی قدروقیمت جان لو میرے دوست!''… زنگی نے کہا… ''ایک جاسوس دشمن کے لشکر کو شکست دے سکتا ہے اور ایک غدار اپنی پوری قوم کو شکست کی ذلت میں ڈال سکتا ہے۔ تم نے دشمن کو شکست دے دی ہے۔ تم جو خبر لائے ہو یہ دشمن کی شکست کی خبر ہے۔ صلیبی انشاء اللہ مصر اور فلسطین کے ساحل سے آگے نہیں آسکیں گے اور ان کا بحری بیڑہ واپس نہیں جاسکے گا۔ یہ تمہاری فتح ہوگی اور اس کا صلہ تمہیں خدا دے گا''۔
''مجھے قاہرہ کے لیے جلدی روانہ ہوجانا چاہیے''… عمران نے کہا… ''دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔ امیر مصر کو بہت دن پہلے اطلاع جانی چاہیے''۔
''تم ابھی روانہ ہوجائو''… نورالدین زنگی نے کہا… ''میں تمہیں بڑی اچھی نسل کا گھوڑا دے رہا ہوں''۔ اس نے عمران کو قاہرہ تک کا وہ راستہ بتا دیا جس پر کئی چوکیاں تھیں۔ ان پر قاصدوں کے گھوڑے بدلنے کا انتظام تھا… ''اور صلاح الدین ایوبی سے پہلی بات یہ کہنا کہ رحیم اور رضا کے خاندانوں کو اپنے خاندان میں جذب کرلو۔ ان کے خاندانوں کی کفالت کا انتظام بیت المال سے کرو''… اس نے عمران سو پوچھا… ''تم صرف جاسوسی کرسکتے ہو یا جنگ کو بھی سمجھ سکتے ہو؟''
''کچھ سوجھ بوجھ رکھتا ہوں''… عمران نے جواب دیا… ''آپ حکم دیں''۔
''پیغام لکھنے کا وقت نہیں''… زنگی نے کہا… ''صلاح الدین ایوبی سے کہہ دینا کہ مجھے کرک تمہارے حوالے کرکے بغداد جلدی واپس جانا تھا۔ اطلاع مل رہی ہیں کہ ان علاقوں میں صلیبیوں کی تخریب کاری بڑھتی جارہی ہے اور ہمارے چھوٹے چھوٹے حکمران ان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں لیکن اس تازہ خبر نے مجھے رکنے پر مجبور کردیا ہے۔ چار پانچ سال پہلے تم نے بحیرۂ روم میں صلیبیوں کا بیڑہ غرق کیا تھا۔ وہ تمہارے پھندے میں آگئے تھے۔ اب وہ محتاط ہوکر آئیں گے۔ اسی لیے انہوں نے سکندریہ کے شمالی ساحل کو منتخب کیا ہے۔ اگر تم ان سے سمندر میں براہ راست ٹکر لینے کا فیصلہ کرو تو یہ تمہاری غلطی ہوگی۔ تمہارے پاس صلیبیوں جتنی بحری طاقت نہیں ہے۔ ان کے جہاز بڑے ہیں اور ہر جہاز میں بادبانوں کے علاوہ بے شمار چپو ہیں۔ چپو چلانے کے لیے ان کے پاس غلاموں کی بے انداز تعداد ہے۔ تم اتنی تعداد سے محروم ہو۔ تمہارے جہازوں کے چپو چلانے والے ملاح ہیں اور سپاہی بھی۔ سمندری جنگ میں وہ دونوں کام نہیں کرسکیں گے۔ صلیبیوں کو ساحل پر آنے دو۔ سکندریہ کو بحری لوگوں کا خطرہ ہوگا۔ آتشیں گولے شہر کو آگ لگا دیں گے۔ اس کا کوئی انتظام کرلینا''۔
جاری ھے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں