روزے اور اس کی ا فادیت جدید سائنس کی روشنی میں
ماہ رمضان میں رکھے جانے والے روزے صرف روح کی تطہیر ہی نہیں بلکہ جسم کے کئی مسائل کا حل بھی ہے۔ طبی ماہرین اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ روزہ مذہبی عبادت کے ساتھ ساتھ جسمانی فوائد بھی پہنچاتا ہے۔ سنہ 1994 میں مراکش کے شہر کاسا بلانکا میں ’رمضان اور صحت‘ کے نام سے ایک کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس میں اس موضوع پر 50 مقالوں کا جائزہ لیا گیا جس میں روزہ رکھنے والوں کی صحت پر ناقابل یقین بہتری دیکھی گئی۔ کانفرنس میں پیش کیے گئے مقالوں کے مطابق ان لوگوں کی صحت پر منفی اثرات ریکارڈ کیے گئے جنہوں نے افطارکے وقت ضرورت سے زیادہ کھانا کھایا اور ٹھیک سے نیند پوری نہیں کی۔ روزہ ہمارے جسم کو مندرجہ ذیل فائدے پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔ انسانی جسم ایک مشین کی طرح ہے جو خود کار انداز میں اپنے کام سر انجام دیتا رہتا ہے۔ لیکن جس طرح مشین کو مسلسل کام کرنے کے بعد آرام کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ہمارے جسمانی اعضا کو بھی ان کے کام سے فرصت کی ضرورت ہوتی ہے۔ رمضان میں یہ کام بخوبی سر انجام پاتا ہے۔ ایک مہینے کم کھانے پینے کے باعث ہمارا جسم آرام کرتا ہے اور یہ پھر سے پورے سال کام کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔
روزہ ایک عظیم الشان عبادت ہے، اس کے روحانی اثرات سے ہم سب واقف ہیں۔ آخرت میں ملنے والے نتائج، برکات و ثمرات ہم سب کے ذہن نشین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہرمسلمان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ماہِ رمضان میں روزہ رکھے۔ رمضان کے احکامات صحتمندوں کے لیے ہیں، اورمریضوں کو اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک حد تک رخصت دی ہے، مگرمریضوں کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ رمضان میں روزے کا اہتمام کریں۔ اﷲ رب العالمین نے رمضان میں روزے، سحری، افطار، تراویح، قیام اللیل اور اعتکاف کے جو احکامات دیے ہیں ان کے نہ صرف روحانی اثرات ہیں، بلکہ ان کے طبی اثرات بھی ہیں۔ میڈیکل سائنس جوں جوں ترقی کر رہی ہے یہ بات عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ روزے کے طبی اثرات بھی عظیم الشان ہیں۔
جدیدسائنسی تحقیقات سے یہ پتا چلا ہے کہ صبح سے شام تک روزہ رکھنے اور بھوکا پیاسا رہنے سے انسان کے جسم میں کیا تبدیلیاں رْونما ہوتی ہیں، اور یہ تبدیلیاں جسم، دماغ، صحت، قوتِ مدافعت اور اس کی بیماری پر کون سے قلیل المدت اور طویل المدت اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ان کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ 24گھنٹے کے دوران میں انسانی جسم کی ضروریات کیا ہوتی ہیں، اس کو کتنی غذا، کتنا پانی اور کتنی توانائی درکار ہوتی ہے۔ جب ہم یہ جان لیں گے تو یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ روزہ رکھنے کی صورت میں وہ ضروریات کس طرح پوری ہوتی ہیں۔
انسان کی پہلی ضرورت غذا کی صورت میں کیلوریز (حراروں) کی ہوتی ہے۔ انسانی جسم کو یومیہ اوسطاً دو سے تین ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس کا انحصار انسان کی فعالیت پر ہے۔ بہت زیادہ فعّال لوگوں کو یومیہ 3 سے 3ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔ بستر پر بیمار پڑے لوگوں کی ضروریات2ہزار کیلوریز ہوتی ہیں اور یہ کیلوریز غذا کے ذریعے پوری ہوتی ہیں۔ اگر 24گھنٹے کے دوران ایک یا دو وقت غذا پہنچ جائے تو بھی انسانی جسم کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔
اسی طرح انسانی جسم کو یومیہ ڈیڑھ سے تین لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا بھی انحصار اس بات پر ہے کہ انسان کتنا فعّال ہے، اور بیرونِ خانہ سرگرمیوں میں کتنا مصروف ہے۔ بالعموم گھر کے اندر موجود رہنے والے فرد کی پانی کی ضرورت ڈیڑھ سے دو لیٹر ہوتی ہے۔ گھر کے باہر دھوپ اور گرمی میں کام کرنے والے فرد کی ضرورت تین سے چار لیٹر پانی کی ہوتی ہے۔ اگر اتنا پانی 24گھنٹے میں انسان کے جسم میں پہنچ جائے تو یہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے، لیکن جب ایک فرد روزہ رکھتا ہے، اور علی الصبح سے بھوکا رہنا شروع کرتا ہے تو اس کے جسم میں بہت سی تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ جسم خود کو برقرار رکھنے اور اپنی توانائی کو استعمال کرنے کے لیے بہت سی تبدیلیاں کرتا ہے۔ بہت سے ہارمونز (hormones) جسم کے اندر توانائی برقرار رکھنے کیلئے خارج اور استعمال ہوتے ہیں۔ جسم کے اندر بہت سے کیمیائی مادے جو نیورو ٹرانسمیٹرز کہلاتے ہیں، اس کام کو سر انجام دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انسان کا جسم اس قابل ہوتا ہے کہ روزے کے ثمرات اور فوائد کو طبی ثمرات میں تبدیل کر سکے۔
انسانی جسم میں سب سے نمایاں تبدیلی یہ پیدا ہوتی ہے کہ انسانی جسم پانی کو محفوظ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ خون میں ایسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو پانی کو محفوظ کرتے ہیں، جسم کے اندر خون کی گردش کو فعّال بناتے ہیں اور جسمانی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے عمل کو کنٹرول کرتے ہیں۔ انسانی جسم اور دماغ کو متحرک رکھنے کیلئے توانائی درکار ہوتی ہے۔ یہ توانائی چربی، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین کی شکل میں ہر وقت جسم کے اندر موجود ہوتی ہے۔ سحری میں لی گئی غذا جزوِ بدن بن کر توانائی میں تبدیل ہوتی ہے اور روزے کے دوران جسم میں استعمال ہوتی رہتی ہے۔
پہلے یہ غلط فہمی عام تھی کہ روزہ رکھنے سے جسمانی کمزوری واقع ہو جاتی ہے، یا اعصاب کمزور پڑ جاتے ہیں، یا جسم کو کوئی ایسی کمزوری لاحق ہو جاتی ہے جو نقصان پہنچاتی ہے۔ سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ رکھنے سے ایسی کوئی کمزوری واقع نہیں ہوتی، بلکہ حیرت انگیز طور پر جسم کو توانائی حاصل ہوتی ہے، توانائی کے دوسرے ذرائع پیدا ہوتے ہیں جو اپنا کام انجام دینا شروع کرتے ہیں۔ درحقیقت روزہ رکھنا انسانی جسم کیلئے توانائی کا باعث بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں روزے پر تحقیق ہو رہی ہے۔ مختلف بیماریوں میں روزے کو بطور ایک طریقۂ علاج استعمال کیا جا رہا ہے جن میں لوگ کمزور ہوجاتے ہیں، خواہ وہ آنتوں کی بیماری ہو یا سانس کی، دل و دماغ کی بیماری ہو یا شریانوں کی۔ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ خود ایک طریقۂ علاج ہے۔
روزہ رکھنے سے انسانی جسم میں گلوکوز کی سطح گر جاتی ہے۔ جسم کو گلوکوز کی متواتر ضرورت ہوتی ہے، اور جب جسم کو یہ باہر سے نہیں ملتا تو جسم اپنے اندر از خود گلوکوز بنانا شروع کر دیتا ہے۔ جسم کے اندر محفوظ چربی، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین گلوکوز میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جسم کے اندر کیمیائی تبدیلیوں کا عمل (metabolism) شروع ہوجاتا ہے۔ جسم گلوکوز جمع کرنا شروع کرتا ہے، لیکن جن لوگوں کے خون میں شوگر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، روزے سے ان میں شوگر کی سطح کم ہوجاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جسم کے اندر شوگر کی سطح متوازن ہوکر نارمل ہوجاتی ہے۔
روزے کے نتیجے میں دوسری تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ بلڈپریشر کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ بلڈپریشر کو قابو میں رکھنے کیلئے پانی درکار ہوتا ہے۔ جب جسم کو دو چار گھنٹے پانی نہیں ملتا تو اس سے بلڈپریشر میں کمی آنا شروع ہوتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جسم میں ایسے ہارمونز خارج ہونے لگتے ہیں جو بلڈپریشر کے اس عمل کو بہتر کرتے ہیں، لیکن جن لوگوں کا بلڈپریشر زیادہ ہوتا ہے ان کو روزہ رکھنے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان کا بلڈپریشر قابو میں آ جاتا ہے۔ دنیا میں یہ مستند طریقۂ علاج ہے کہ جن لوگوں کا بلڈپریشر زیادہ ہو اور کنٹرول نہ ہورہا ہو، ان کو روزہ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
انسانی جسم میں تیسری بڑی تبدیلی چربی کی سطح میں رونما ہوتی ہے۔ جسم میں محفوظ چربی عموماً استعمال نہیں ہوتی کیونکہ انسان مطلوبہ توانائی اپنی غذا سے حاصل کر لیتا ہے۔ روزے کی حالت میں بڑا فرق یہ واقع ہوتا ہے کہ چربی کا ذخیرہ توانائی میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتا ہے، چنانچہ جسم کے اندر چربی کم ہونا شروع ہوجاتی ہے اور کولیسٹرول کم ہونے لگتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ چربی انسانی جسم کے اندر بیماریاں پیدا کرتی ہے۔ چربی سے جسم میں کولیسٹرول بڑھتا ہے، موٹاپا بڑھتا ہے، خون کی نالیاں سکڑ جاتی ہیں۔ یہ روزے کے اثرات ہی ہیں جن کی وجہ سے چربی پگھلتی ہے، کولیسٹرول کم ہوجاتا ہے اور زائد چربی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے بھی بچا جاسکتا ہے۔
سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم میں زہریلے مادے ختم ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ جسم میں طرح طرح کے مادے پیدا ہوتے ہیں جن میں بعض زہریلے بھی ہوتے ہیں۔ روزے کے نتیجے میں جسم کا پورا میٹابولزم تبدیل ہوکر ایک مختلف شکل میں آجاتا ہے، جسم کے اندر ازالۂ سمیّت (detoxification) کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اس سے جسم کو اپنے بہت سے زہریلے مادّوں سے نجات حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے اور یہ بڑی تبدیلی ہے جو انسان کو صحت مندی کی طرف لے جاتی ہے۔ روزے سے جسمانی قوتِ مدافعت بھی بڑھتی ہے، روزہ رکھنے سے مدافعت کا نظام فعّال ہو جاتا ہے۔ اس فعالیت کے نتیجے میں جسم کے اندر مدافعتی نظام میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔ پھر خون میں ایسے مدافعتی خلیے پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو نہ صرف بیماریوں سے بچاتے ہیں، بلکہ اگر جسم میں بیماریاں موجود بھی ہوں تو ان کو دور کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
ﷲ تعالیٰ نے روزے کے جو اوقات مقرر کیے ہیں وہ بھی سائنسی تحقیق کے مطابق انسانی جسم کو تندرست رکھنے والے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بھوکا رہنے کا عمل24، 36یا 40گھنٹے نہیں ہونا چاہیے، بلکہ 15سے 18گھنٹے ہونا چاہیے۔ روزہ اسی مقررہ وقت کے اندر ہوتا ہے۔ بھوکا رہنے کا عمل اس سے طویل ہو تو اس کے نتیجے میں پٹھے (muscles) کمزور ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور انسانی جسم کے اندر نقصاندہ سرگرمیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ﷲ رب العالمین نے روزہ فرض کرتے ہوئے روزے کے جو اوقات مقرر کیے ہیں وہ ہماری صحت کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں۔ مسلم ملکوں میں اور یورپ اور امریکہ میں بھی روزے پر بڑے پیمانے پر تحقیق ہو رہی ہے۔
روزے کے جسمانی فوائد
میڈیکل سائنس نے پچھلے 20 ،25سال میں انسانی جسم پر روزے کے اثرات اور اس کے فوائد و ثمرات پر خاصی تحقیق کی ہے۔ اس تحقیق سے روزے کے جو ثمرات ثابت ہوئے ہیں ان میں 15چیزیں نمایاں ہوکر سامنے آئی ہیں۔ سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ روزہ زہر کو بےاثر بنانے کا عمل کرتا ہے۔ میٹا بولزم کے نتیجے میں انسانی جسم میں جو زہریلے مادے پیدا ہوتے ہیں، روزہ ان کو بےاثر بنا دیتا ہے اور خارج کرتا ہے۔ روزہ رکھنے کا یہ ایک بڑا طبی فائدہ ہے۔
روزے کا دوسرا طبی فائدہ یہ ہے کہ روزہ رکھنے کے نتیجے میں قوت مدافعت بہتر ہوجاتی ہے۔ ہمارا جسم ایک مدافعتی نظام کے تحت چل رہا ہے۔ جسم کی قوت مدافعت بیماریوں سے بچا کر اسے صحت مند رکھتی ہے۔ اس قوت مدافعت کو بہتر کرنے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ روزہ رکھنا بھی ہے۔ انسان صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہتا ہے تو اس کے جسم کے اندر وہ خلیے متحرک ہوجاتے ہیں جو اس کے مدافعتی نظام کو بہتر بنا کر اس کو طرح طرح کی بیماریوں سے بچاتے ہیں۔ اگر بیماری جسم میں پہلے سے موجود ہو تو روزہ اس کے صحت یاب ہونے کے عمل میں اضافہ کر دیتا ہے۔
روزے کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ روزہ اینٹی الرجی (anti-allergy) عمل کو فعّال کرتا ہے۔ جسم میں اس چیز کی گنجائش ہوتی ہے کہ اس میں الرجی کے اثرات ہوں، چاہے وہ غذا کی الرجی ہو، ہوا کی ہو یا مختلف الرجی پیدا کرنے والی بیماریاں ہوں۔ روزے سے جسم کے اندر ایسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو الرجی کے عمل کو کنٹرول کر لیتے ہیں، چنانچہ الرجی کی بیماریاں کم ہوجاتی ہیں۔
روزے کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ بلڈ شوگر کو کنٹرول کرتا ہے، یعنی معمول پر لاتا ہے۔ انسانی جسم میں شوگر کی ریگولیشن بہت اہم چیز ہے، کیونکہ دماغ کے تمام افعال کا تعلق شوگر کی سطح سے ہوتا ہے۔ جسم کے اندر شوگر کی سطح بڑھ جائے تو انسان کو شوگر کی بیماری ہوجاتی ہے۔ اگر شوگر کم ہوجائے تو ہائپو گلے سیمیا (Hypoglycemia) ہوجاتا ہے جس سے کمزوری ہوجاتی ہے اور فرد بےہوش بھی ہوسکتا ہے اور یہ اس کی صحت اور حیات کے لیے نقصاندہ بھی ہوسکتا ہے۔ روزہ شوگر کو کم ہونے دیتا ہے نہ بلند۔ اس لیے دنیا کے بہت سے ممالک میں جن مریضوں کی شوگر کنٹرول نہیں ہوتی ان کو روزے رکھوائے جاتے ہیں۔ ان کا کھانا پینا جبراً بند کرا دیا جاتا ہے، جس سے ان کی شوگر کنٹرول میں آجاتی ہے۔
سائنسی تحقیقات نے روزے کا ایک اور فائدہ یہ ثابت کیا ہے کہ روزے سے بلڈپریشر کنٹرول میں رہتا ہے۔ بلڈپریشر دنیا میں بہت عام بیماری ہے۔ روزہ بلڈپریشر کنٹرول کرنے میں مفید اور معاون ثابت ہوتا ہے۔ جب انسانی جسم میں پانی کی مقدار کم ہوتی ہے تو بلڈپریشر بھی کم ہوجاتا ہے۔ پھر ایسے ہارمونز جسم کے اندر خارج ہوتے ہیں جو بلڈپریشر کو کنٹرول کرنے میں معاون ہوتے ہیں اور اس کو قابو میں رکھتے ہیں۔ شوگر اور بلڈپریشر کے کنٹرول، اور جسم کے اندر پانی کی مقدار کے کنٹرول کے نتیجے میں دل کی بیماریاں کم ہوجاتی ہیں۔ روزہ رکھنے والوں کو دل کے دورے کا امکان کم ہوجاتا ہے، ان کا ہارٹ فیل کم ہوتا ہے۔ اگر ان کو اس کا خطرہ ہو تو ان کی طبیعت روزہ رکھنے سے بہتر ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دل کے مریضوں کو عام طور پر بھی تھوڑا بہت فاقہ کرایا جاتا اور روزہ رکھوایا جاتا ہے۔ مغربی ممالک بالخصوص امریکا اور یورپ میں اب یہ ایک طریقۂ علاج بن چکا ہے۔ جن مریضوں کے ہارٹ فیل ہونے کا خدشہ ہو ان کو جبراً فاقہ کرایا جاتا ہے، اور 28سے 29گھنٹے بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان کی صحت بھی بہتر ہو جاتی ہے۔
روزے سے جسم کو ایک اور فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے ہاضمے کے نظام کو آرام ملتا ہے اور ہاضمہ درست کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ لوگوں میں معدے اور آنتوں کی بیماریاں بہت عام ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بیماریوں کا سبب غذا کا ضرورت سے زیادہ اور بار بار استعمال ہے، یا ایسی غذاؤں کا استعمال ہے جو صحت کے لیے مفید نہیں۔ روزہ آنتوں اور معدے کو آرام دیتا ہے۔ اس آرام کے نتیجے میں آنتوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ اپنے نظام کو درست کرسکیں۔
روزے کا ایک اور طبی فائدہ سوجن کم کرنے کے ( anti inflammatory) اثرات ہیں۔ روزے کے نتیجے میں جو ہارمونز جسم میں خارج ہوتے ہیں ان میں بالخصوص کورٹی سول (cortisol) ہارمون ہے جس سے جسم میں ورم کم ہوجاتا ہے۔ جوڑوں کے درد اور گٹھیا (arthritis) کے مریضوں کی تکلیف روزہ رکھنے سے بہتر ہوجاتی ہے۔ جن لوگوں کے پیروں پر یا جسم میں کسی اور جگہ ورم ہوتا ہے، یاfluidجمع ہوجاتا ہے انھیں روزے کے نتیجے میں افاقہ ہوتا ہے۔
دماغ کو روزے کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ روزہ انسانی دماغ کے اندر ایک سیلف کنٹرول اور ڈسپلن پیدا کرتا ہے۔ وہ انسان کو نظم و ضبط کا عادی بناتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان کی دماغی صحت بہتر ہوتی ہے، یاسیت (ڈپریشن)سے نجات ملتی ہے۔ روزہ دماغ کے اندر سیروٹونین (serotonin) ہارمون (جو نیورو ٹرانسمیٹر ہے) کی سطح کو بڑھاتا ہے، جس سے ڈپریشن سے نجات ملتی ہے۔ جن لوگوں کو مستقل درد سرکی بیماری، گھبراہٹ اور ڈپریشن رہتا ہو ان کی تمام تکالیف روزے کی وجہ سے دور ہوجاتی ہیں۔ سائنسی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ روزہ نیند کو بہتر بناتا ہے۔ نیند نہ آنے کی بیماری عام ہے۔ اکثر لوگ بےخوابی کی شکایت کرتے ہیں، لیکن جو لوگ روزہ رکھتے ہیں ان کی نیند بہتر ہوجاتی ہے۔
روزے کے جہاں بہت سے طبی فوائد ہیں وہاں ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کو کسی قسم کے نشے کی بیماری ہوتی ہے۔ روزہ ان کے جسم کے اندر ایسے ہارمونز خارج کرتا ہے جن سے نشے کو قابو میں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ سگریٹ پینے کے عادی افراد رمضان کے مہینے میں بڑی آسانی کے ساتھ اس عادت کو ترک کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ انسان میں ذہنی طور پر یہ صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ نشے کی طلب کو کنٹرول کرسکے اور اس عادت سے نجات حاصل کرسکے۔ روزے کے اس عمل کو نشے پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
روزہ حسِ ذائقہ کو بہتر کرتا ہے۔ بعض اوقات لوگ شکایت کرتے ہیں کہ زبان میں ذائقہ باقی نہیں رہا، کھانے کا مزا محسوس نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ زبان کے اندر taste buds ہوتے ہیں جو غیر فعال ہوجاتے ہیں یا ان کے اندر ایسی تبدیلیاں رونما ہوجاتی ہیں کہ غذا کا ذائقہ محسوس نہیں ہوپاتا۔ تاہم مسلسل بھوکا پیاسا رہنے سے ذائقے کی حس دوبارہ فعال ہوجاتی ہے۔
روزے کو ایک اور فائدے کے لیے پوری دنیا میں استعمال کیا جارہا ہے، یعنی وزن کم کرنے کےلئے۔ ہم اچھی طرح واقف ہیں کہ روزے کا عمل جسمانی چربی کو پگھلاتا ہے اور وزن کو کم کرتا ہے، لیکن وزن میں کمی اس وقت ہوگی جب انسان اپنے حراروں کے حصول (کیلوریک انٹیک) کو ایک حد کے اندر رکھے گا۔ اگر وہ رمضان میں غذاؤں کا استعمال زیادہ کرے، چکنائی والی چیزیں زیادہ لے تو وزن کم کرنے کا فائدہ اْسے حاصل نہیں ہوگا۔ آج پوری دنیا میں وزن کم کرنے کیلئے لوگ مکمل فاقہ (fasting) کرتے ہیں، یا انھیں مختلف غذاؤں کی fasting کرائی جاتی ہے۔
ماہرِ دندان (ڈینٹسٹ) بتاتے ہیں کہ روزہ رکھنے والوں میں دانت اور مسوڑھوں کے امراض کم ہوجاتے ہیں۔ دانتوں اور مسوڑھوں کی بیماریاں عام ہیں، ان کا تعلق بھی غذاؤں کے استعمال سے ہے۔ روزہ رکھنے کا عمل دانت اور مجموعی صحت کو بہتر کر دیتا ہے۔ روزہ انسان کی جلد اور بینائی کو بھی بہتر کرتا ہے۔ روزہ جلد کو پھٹنے سے بچاتا، آنکھوں کوروشن کرتا اور بصارت کو تیز کرتا ہے۔
روزے کا بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کی قوتِ ارادی (motivation) کو بڑھاتا ہے جو لوگ قوتِ ارادی کی کمزوری کی بنا پر تھکاوٹ کا شکار رہتے ہیں، دماغی اور ذہنی کمزوری میں مبتلا ہوتے ہیں، روزہ ان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بڑے بڑے کام کر سکیں۔
اللہ ہمیں رمضان کے روزے سے مکمل فائدہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں