داستان ایمان فرو شوں کی
قسط نمبـــــــــــــــــــر 13
صلاح الدین ایوبی کے دور کے حقیقی واقعات
صلاح الدین ایوبی نے یہ روائیداد غور سے سنی اور کہا …'' اگر تم لوگ جن کے پاس ہتھیار ہیں ، دیانت دار اور اپنے مذہب سے مخلص رہے تو باہر کے حملے اور اندر کی سازشیں قوم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔ تم اپنی نظریں سرحدوں سے دور آگے لے جائو ۔ سلطنت اسلامیہ کی کوئی سر حد نہیں ۔ تم نے جس روز اپنے آپ کو اور خدا کے اس عظیم مذہبِ اسلام کو سرحدوں میں پابند کرلیا اور اس روز سے یوں سمجھو کہ تم اپنے ہی قید خانے میں قید ہوجائو گے ۔ پھر تمہاری سرحدیں سکڑنے لگیں گی۔ اپنی نظریں بحیرئہ روم سے آگے لے جائو۔ سمندر تمہارا راستہ نہیں روک سکتے ۔ گھر کے چراغوں سے نہ ڈرو، یہ تو ایک پھونک سے گل ہو جائیں گے ۔ ان کی جگہ ہم ایمان کے چراغ روشن کریں گے''۔
'' ہمیں اُمید ہے کہ ہم ایمان فروشی روک لیں گے، سلطانِ محترم !''… سالار نے کہا … '' ہم مایوس نہیں ''۔
'' صرف دو لعنتوں سے بچو میرے عزیز رفیقو!'' سلطان ایوبی نے کہا …'' مایوسی اور ذہنی عیاشی ۔ انسان پہلے مایوس ہوتا ہے ، پھر ذہنی عیاشی کے ذریعے راہِ فرار اختیار کرتا ہے ''۔
اس دوران علی بن سفیان جا چکا تھا ۔ اس نے فوراً ایک قاصد بحیرئہ روم کے کیمپ کی طرف اس پیغام کے ساتھ روانہ کر دیا کہ رابن، اس کے چار ساتھیوں اور لڑکیوں کو گھوڑوں یا اونٹوں پر سوار کر کے بیس محافظوں کے پہرے میں دارالحکومت کو بھیج دو …قاصد کو روانہ کر کے اس نے اپنے ساتھ چھ سات سپاہی لیے اور کماندار بالیان کی تلاش میں نکل گیا ۔ ان نے ان سوڈانی کمانداروں سے جو باہر بیٹھے تھے، بالیان کے متعلق پوچھ لیا تھا ۔ سب نے کہا تھا کہ اسے لڑائی میں کہیں بھی نہیں دیکھا گیاتھا اور نہ ہی وہ اس فوج کے ساتھ گیا تھا جو بحیرئہ روم کی طرف سلطان کی فوج پر حملہ کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی ۔ علی بن سفیان بالیان کے گھر گیا تو وہاں اس کی بوڑھی خادمائوں کے سوا اور کوئی نہ تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ بالیان کے گھر میں پانچ لڑکیاں تھیں ۔ ان میں جس کی عمر ذرا زیادہ ہوجاتی تھی ، اسے وہ غائب کر دیتا اور اس کی جگہ جوان لڑکی لے آتا تھا ۔ ان خامائوں نے بتایا کہ بغاوت سے پہلے اس کے پاس ایک فرنگی لڑکی آئی تھی جو غیر معمولی طور پر خوبصورت اور ہوشیارتھی ۔ بالیان اس کا غلام ہو گیا تھا ۔ بغاوت کے ایک روز بعد جب سوڈانیوں نے ہتھیار ڈال دئیے تو بالیان رات کے وقت گھوڑے پر سوار ہوا، دوسرے گھوڑے پر اس فرنگی لڑکی کو سوار کیا اور معلوم نہیں دونوں کہاں روانہ ہوگئے ۔ ان کے ساتھ سات گھوڑ سوار تھے۔ حرم کی لڑکیوں کے متعلق بوڑھیوں نے بتایا کہ وہ گھر میں جو ہاتھ لگا اُٹھا کر چلی گئی ہیں ۔
علی بن سفیان وہاں سے واپس ہوا توایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا ہوا آیا اور علی بن سفیان کے سامنے رُکا۔ اس پر فخرالمصری سوار تھا۔ کود کر گھوڑے سے اُترا اور ہانپتی کانپتی آواز میں بولا … '' میں آپ کے پیچھے آیا ہوں ۔ میں بھی اسی بدبخت بالیان اور اس کافر لڑکی کو ڈھونڈ رہا تھا ۔ میں ان سے انتقام لوں گا ۔ جب تک ان دونوں کو اپنے ہاتھوں قتل نہیں کرلوں گا ، مجھے چین نہیں آئے گا ۔ میں جانتا ہوں کہ وہ کدھر گئے ہیں ۔ میں نے ان کا پیچھا کیا ہے لیکن ان کے ساتھ سات مسلح محافظ تھے ، میں اکیلا تھا ۔ وہ بحیرئہ روم کی طرف جا رہے ہیں ، مگر عام راستے سے ہٹ کر جارہے ہیں ''… اس نے علی بن سفیان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ '' خدا کے لیے مجھے صرف چار سپاہی دے دیں ، میں ان کے تعاقت میں جائوں گا اور انہیں ختم کرکے آئوں گا ''۔
علی بن سفیان نے اسے اس وعدے سے ٹھنڈا کیا کہ وہ اسے چار کی بجائے بیس سوار دے گا ۔ وہ ساحل سے آگے اتنی جلدی نہیں جا سکتے ۔ میرے ساتھ رہو۔ علی بن سفیان مطمئن ہوگیا کہ یہ تو پتہ چل گیاہے کہ وہ کسطرف گئے ہیں ۔
: اُس وقت بالیان اسی صلیبی لڑکی کے ساتھ جس کا نام موبی تھا، ساحل کی طرف جانے والے عام راستے سے ہٹ کر دور جا چکا تھا ۔ان علاقوں سے وہ اچھی طرح واقف تھا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ سوڈانی فوج اور اس کے کمانداروں کو صلاح الدین ایوبی نے معافی دے دی ہے ۔ ایک تو وہ سلطان کے عتاب سے بھاگ رہا تھا اور دوسرے یہ کہ وہ موبی جیسی حسین لڑکی کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ دنیا کی حسین لڑکیاں صرف مصر اور سوڈان میں ہی ہیں مگر اٹلی کی اس لڑکی کے حسن اور دِل کشی نے انے اندھا کر دیا تھا ۔ اس کی خاطر وہ اپنا رُتبہ ، اپنا مذہب اور اپنا ملک ہی چھوڑ رہا تھا لیکن اُسے یہ معلوم نہیں تھا کہ موبی اس سے جان چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ وہ جس مقصد کے لیے آئی تھی ، وہ ختم ہو چکا تھا ۔ گو مقصد تباہ ہوگیا تھا ، تاہم موبی اپنا کام کر چکی تھی ۔ اس کے لیے اس نے اپنے جسم اور اپنی عزت کی قربانی دی تھی ۔ وہ ابھی تک اپنی عمر سے دُگنی عمر کے آدمی کی عیاشی کاذریعہ بنی ہوئی تھی ۔
بالیان اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ موبی اسے بُری طرح چاہتی ہے مگر موبی اس سے نفرت کرتی تھی ۔ وہ چونکہ مجبور تھی ، اسی لیے اکیلی بھاگ نہیں سکتی تھی ۔ وہ اس مقصد کے لیے بالیان کو ساتھ لے ہوئے تھی کہ اسے اپنی حفاظت کی ضرورت تھی ۔ اسے بحیرئہ روم پار کرنا تھا یا رابن تک پہنچنا تھا ۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ رابن اور اس کے ساتھ جو تاجروں کے بھیس میں تھے ، پکڑے جا چکے ہیں ۔ اس مجبوری کے تحت وہ بالیان کے ہاتھ میں کھلونا بنی ہوئی تھی ۔ وہ کئی بار اسے کہہ چکی تھی کہ تیز چلو اور پڑائو کم کرورنہ پکڑے جائیں گے لیکن بالیان جہاں اچھی جگہ دیکھتا رُک جاتا ۔ اس نے شراب کا ذخیرہ اپنے ساتھ رکھ لیا تھا۔
ایک رات موبی نے ایک ترکیب سوچی ۔ اس نے بالیان کو اتنی زیادہ پلادی کہ وہ بے سدھ ہوگیا ۔ ان کے ساتھ جو سات محافظ تھے ، وہ کچھ پر ہوے سو گئے تھے ۔ موبی نے دیکھا تھا کہ ان میں سے ایک ایسا ہے جو ان ہے اور سب پر چھایا رہتا ہے۔ بالیان زیادہ تر اسی کے ساتھ ہر بات کرتا تھا ۔ موبی نے اسے جگایا اور تھوڑی دور لے گئی ۔ اسے کہا …'' تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں کون ہوں ، کہاں سے آئی ہوں اور یہاں کیوں آئی تھی ۔ میں تم لوگوں کے لیے مدد لائی تھی تا کہ تم صلاح الدین ایوبی جیسے غیر ملکیوں سے آزاد ہو سکو مگر تمہارا یہ کماندار بالیان اس قدر عیاش آدمی ہے کہ اس نے شراب پی کر بد مست ہو کر میرے جسم کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا ۔ بجائے اس کے کہ وہ عقل مندی سے بغاوت کا منصوبہ بناتا اور فتح حاصل کرتا ، اس نے مجھے اپنے حرم کی لونڈی بنا لیا اور اندھا دھند فوج کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایسی لاپرواہی سے حملہ کروایا کہ ایک ہی رات میں تمہاری اتنی بڑی فوج ختم ہوگئی۔
'' تمہاری شکست کا ذمہ دار یہ شخص ہے ۔ اب یہ میرے ساتھ صرف عیاشی کے لیے جا رہا ہے اور مجھے کہتا ہے کہ میں اسے سمندر پار لے جائوں ، اسے اپنی فوج میں رُتبہ دلائوں اور اس کے ساتھ شادی کر لوں ، مگر مجھے اس شخص سے نفرت ہے ۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر مجھے شادی کرنی ہے اور اپنے ملک میں لے جا کر اسے فوج میں رُتبہ دلانا ہے تو مجھے ایسے آدمی کا انتخاب کرنا چاہیے جو میرے دل کو اچھ لگے ۔ وہ آدمی تم ہو ، تم جوان ہو، دلیر ہو، عقل مند ہو، میں نے جب سے تمہیں دیکھا ہے ، تمہیں چاہ رہی ہوں۔ مجھے اس بوڑھے سے بچائو۔ میں تمہاری ہوں۔ سمندر پار لے چلو ۔ فوج کا رُتبہ اورمال و دولت تمہارے قدموں میں ہوگا مگر اس آدمی کو یہیں ختم کر دو۔ وہ سویا ہوا ہے ، اسے قتل کردو اور آئو نکل چلیں ''۔
اس نے محافظ کے گلے میں باہیں ڈال دیں ۔ محافظ اس کے حسن میں گرفتار ہوگیا ۔ اس نے دیوانہ وار لڑکی کو اپنے بازئوں میں جکڑ لیا۔ موبی اس جادوگری میں ماہر تھی ۔ وہ ذرا پرے ہٹ گئی۔ محافظ اس کی طرف بڑھا تو عقب سے ایک برچھی اس کی پیٹھ میں اُتر گئی۔ اس کے منہ سے ہائے نکلی اور وہ پہلو کے بل لڑھک گیا ۔ برچھی اس کی پیٹھ سے نکلی اور اسے آواز سنائی دی …''نمک حرام کو زندہ رہنے کا حق نہیں ''۔ لڑکی کی چیخ نکل گئی ۔ وہ اُٹھی اور اتنا ہی کہنے پائی تھی کہ تم نے اسے قتل کر دیا ہے کہ پیچھے سے ایک ہاتھ نے اس کے بازو کو جکڑ لیا اور جھٹکا دے کر اپنے ساتھ لے گیا ۔ اسے بالیان کے پاس پھینک کر کہا …'' ہم اس شخص کے پالے ہوئے دوست ہیں ۔ ہماری زندگی اسی کے ساتھ ہے ۔ تم ہم میں سے کسی کو اس کے خلاف گمراہ نہیں کر سکتی ۔ جو گمراہ ہوا اس نے سزا پا لی ہے ''۔
بالیان شراب کے نشے میں بے ہوش پڑا تھا ۔
'' تم لوگوں نے یہ بھی سوچا ہے کہ تم کہاں جا رہے ہو؟''…موبی نے پوچھا۔
'' سمندر میں ڈوبنے ''… ایک نے جواب دیا …'' تمہارے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیںہے ، جہاں تک بالیان جائے گا ، ہم وہیں تک جائیں گے ''… اور وہ دونوں جا کر لیٹ گئے ۔
: دوسرے دن بالیان جاگا تو اسے رات کا واقعہ بتایا گیا ۔موبی نے کہا کہ وہ مجھے جان کی دھمکی دے کر اپنے ساتھ لے گیا تھا ۔ بالیان نے اپنے محافظوں کو شاباش دی ، مگر ان کی یہ بات سنی اَن سنی کر دی کہ یہ لڑکی اسے گمراہ کر کے لے گئی تھی اور انہوں نے اس کی باتیں سنی تھیں ۔ وہ موبی کے حسن اور شراب میں مدہوش ہو کر سب بھول گیا۔ موبی نے اسے ایک بار پھر کہا کہ تیز چلنا چاہیے مگر بالیان نے پروا نہ کی ۔ وہ اپنے آپ میں نہیں تھا۔ موبی اب آزاد نہیں ہو سکتی تھی ۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ لوگ اپنے دوستوں کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
علی بن سفیان نے نہ جانے کیا سوچ کر ان کا تعاقب نہ کیا ۔ بغاوت کے بعد کے حالات کو معمول پر لانے کے لیے وہ سلطان ایوبی کے ساتھ بہت مصروف ہو گیا تھا ۔
٭ ٭ ٭
ساحل کے کیمپ سے رابن ، اس کے چاروں ساتھیوں اور چھ لڑکیوں کو پندرہ محافظوں کی گارڈ میں قاہر ہ کے لیے روانہ کر دیا گیا۔ قاصد ان سے پہلے روانہ ہو چکا تھا ۔ قیدی اونٹوں پر تھے اور گارڈ گھوڑوں پر۔ وہ معمول کی رفتار پر جارہے تھے اور معمول کے مطابق پڑائو کر رہے تھے ۔وہ بے خوف و خطر جا رہے تھے وہاں کسی دشمن کے حملے کا ڈر نہیں تھا۔ قیدی نہتے تھے اور ان میں چھ لڑکیاں تھیں ۔ کسی کے بھاگنے کا ڈر بھی نہیں تھا ، مگر وہ یہ بھول رہے تھے کہ یہ قیدی تربیت یافتہ جاسوس ہیں بلکہ لڑاکے جاسوس تھے۔ ان میں جو تاجروں کے بھی میں پکڑے گئے تھے وہ چنے ہوئے تیر انداز اور تیغ زن تھے اور لڑکیاں محض لڑکیاں نہیں تھیں جنہیں وہ کمزور عورت ذات سمجھ رہے تھے ۔ ان لڑکیوں کی جسمانی دِلکشی ، یورپی رنگت کی جاذبیت ، جوانی اور ان کی بے حیائی ایسے ہتھیار تھے جو اچھے اچھے جابر حکمرانوں سے ہتھیار ڈلوا لیتے تھے ۔
محافظوں کا کمانڈر مصری تھا۔ اس نے دیکھا کہ ان میں چھ میں سے ایک لڑکی اس کی طرف دکھتی رہتی ہے اور وہ جب اسے دیکھتا ہے لڑکی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ جاتی ہے ۔یہ مسکراہٹ اس مصری کو موم کر رہی تھی ۔ شام کے وقت انہوں پہلا پڑائو کیا تو سب کو کھانا دیا گیا ۔ اس لڑکی نے کھانا نہ کھایا ۔ کمانڈر کو بتایاگیا تو اس نے لڑکی کے ساتھ بات کی ۔ لڑکی اس کی زبان بولتی اور سمجھتی تھی ۔ لڑکی کے آنسو نکل آئے۔ اس نے کہا کہ وہ اس کے ساتھ علیحدگی میں بات کرنا چاہتی ہے ۔
رات کو جب سو گئے تو کمانڈر اُٹھا۔ اس نے لڑکی کو جگایا اور الگ لے گیا ۔ لڑکی نے اسے بتایا کہ وہ ایک مظلوم لڑکی ہے ، اسے فوجیوں نے ایک گھر سے اغوا کیا اور اپنے ساتھ رکھا ۔پھر اسے جہاز میں اپنے ساتھ لائے جہاں وہ ایک افسر کی داشتہ بنی رہی ۔ دوسری لڑکیوں کے متعلق اس نے بتایا کہ ان کے ساتھ اس کی ملاقات جہاز میں ہوئی تھی ۔ انہیں بھی اغوا کرکے لایا گیا تھا ۔ اچانک جہازوں پر آگ برسنے لگی اور جہاز جلنے لگے۔ ان لڑکیوں کو ایک کشتی میں بٹھا کر سمندر میں ڈال دیا گیا ۔ کشتی انہیں ساحل پر لے آئی ، جہاں انہیں جاسوس سمجھ کر قید میں ڈال دیا گیا ۔
یہ وہی کہانی تھی جو تاجروں کے بھیس میں جاسوسوں نے ان لڑکیوں کے متعلق صلاح الدین ایوبی کو سنائی تھی ۔ مصری گارڈ کمانڈر کو معلوم نہیں تھا ۔ وہ یہ کہانی پہلی بار سن رہا تھا ۔اسے تو حکم ملا تھا کہ یہ خطرناک جاسوس ہیں۔ انہیں قاہرہ لے جاکر سلطان کے ایک خفیہ محکمے کے حوالے کرنا ہے ۔ اس حکم کے پیش نظر وہ ان لڑکیوںکی یا اس لڑکی کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا ۔اس نے لڑکی کو اپنی مجبوری بتادی ۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ لڑکی کی ترکش میں ابھی بہت تیر باقی ہیں ۔ لڑکی نے کہا ۔ '' میں تم سے کوئی مدد نہیں مانگتی ، تم اگر میری مدد کر و گے تومیں تمہیں روک دوں گی ، کیونکہ تم مجھے اتنے اچھے لگتے ہو کہ میں اپنی خاطر تمہیں کسی مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتی ۔ میرا کو غم خوار نہیں ۔ میں ان لڑکیوں کو بالکل نہیں جانتی اور ان آدمیوں کو بھی نہیں جانتی۔ تم مجھے رحم دِل بھی لگتے ہو اور میرے دِل کو بھی اچھے لگتے ہو، اس لیے تمہیں یہ باتیں بتا رہی ہوں ''۔
اتنی خوبصورت لڑکی کے منہ سے اس قسم کی باتیں سن کر کون سا مرد اپنے آپ میں رہ سکتا ہے ۔ یہ لڑکی مجبور بھی تھی۔ رات کی تنہائی بھی تھی ۔ مصری کی مردانگی پگھلنے لگی۔ اس نے لڑکی کے ساتھ دوستانہ باتیں شروں کر دیں۔لڑکی نے ایک اور تیر چلایا اور صلاح الدین ایوبی کے کردار پر زہر اُگلنے لگی۔ اس نے کہا …'' میں نے تمہارے گورنر صلاح الدین ایوبی کو مظلومیت کی یہ کہانی سنائی تھی۔ مجھے اُمید تھی کہ وہ میرے حال پر رحم کرے گا ، مگر اس نے مجھے اپنے خیمے میں رکھ لیا اور شراب پی کر میرے ساتھ بدکاری کرتا رہا۔ اس وحشی نے میرا جسم توڑ دیا ہے ۔ شراب پی کر وہ اتنا وحشی بن جاتا ہے کہ اس میں انسانیت رہتی ہی نہیں ''۔
مصر کی کا خون خولنے لگا ۔ اس نے بدک کر کہا …'' ہمیں کہا گیا تھا کہ صلاح الدین ایوبی مومن ہے ، فرشتہ ہے ، شراب اور عورت سے نفرت کرتا ہے ''۔
'' مجھے اب اسی کے پاس لے جایا جا رہا ہے ''… لڑکی نے کہا … '' اگر تمہیں یقین نہ آئے تو رات کو دیکھ لینا کہ میں کہاں رہوں گی ۔ وہ مجھے قید خانے میں نہیں ڈالے گا ، اپنے حرم میں رکھ لے گا ۔ مجھے اس آدمی سے ڈر آتا ہے ' …اس قسم کی بہت سے باتوں سے لڑکی نے اس مصری کے دل میں صلاح الدین ایوبی کے خلاف نفرت پیدا کر دی اور وہ پوری طرح مصری پر چھا گئی۔ اس کے دل اور دماغ پر قبضہ کر لیا ۔ مصری کو معلوم نہیں تھا کہ یہی ان لڑکیوں کا ہتھیار ہے ۔ لڑکی نے آخر میں کہا … '' اگر تم مجھے اس ذلیل زندگی سے نجات دلا دو تو میں ہمیشہ کیلئے تمہاری ہو جائو ں گی اور میرا باپ تمہیں سونے کی اشرفیوں سے مالا مال کر دے گا ''۔ اُس نے اس کا طریقہ یہ بتایا …'' میرے ساتھ سمندر پار بھاگ چلو۔ کشتیوں کی کمی نہیں ۔ میرا باپ بہت امیر آدمی ہے ۔ میں تمہارے ساتھ شادی کر لوں گی اور میرا باپ تمہیں نہایت اچھا مکان اور بہت سی دولت دے گا ۔ تم تجارت کر سکتے ہو ''۔
مصری کہ یہ یادر رہ گیا کہ وہ مسلمان ہے۔ اس نے کہا کہ وہ اپنا مذہب ترک نہیں کر سکتا ۔ لڑکی نے ذرا سوچ کر کہا …'' میں تمہارے لیے اپنا مذہب چھوڑ دوں گی ''… اس کے بعد وہ فرار اور شادی کا پروگرام بنانے لگے ۔ لڑکی نے اسے کہا … '' میں تم پر زور نہیں دیتی ، اچھی طرح سوچ لو ۔ میں صرف جاننا چاہتی ہوں کہ میرے دل میں تمہاری جو محبت پیدا ہوگئی ہے ، اتنی تمہارے دل میںبھی پیدا ہوئی ہے یا نہیں۔ اگر تم مجھے قبول کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہو تو سوچ لو اور کوشش کرو کہ قاہر ہ تک ہمارا سفر لمبا ہوجائے۔ ہم ایک بار وہاں پہنچ گئے تو پھر تم میری بو بھی نہیں سونگھ سکو گے ''۔
لڑکی کا مقصد صرف اتنا سا تھا کہ سفر لمبا ہو جائے اور تین دنوں کی بجائے چھ دن راستے میں ہی گزر جائیں ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رابن اور اس کے ساتھی فرار کی ترکیبیں سوچ رہے تھے۔ وہ اس کوشش میں تھے کہ رات کو سوئے ہوئے محافظوں کے ہتھیار اُٹھا کر انہیں قتل کیا جائے ۔ جو نا ممکن سا کام تھا یا اُن کے گھوڑچرا کر بھاگا جائے۔ ابھی تو پہلا ہی پڑائو تھا۔ اُن کی ضرورت یہ تھی کہ سفر لمبا ہو جائے تا کہ اطمینان سے سوچ سکیں اور عمل کر سکیں ۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اس لڑکی کو استعمال کیا ، وہ محافظوں کے کمانڈر کو قبضے میں لے لے ۔ لڑکی نے پہلی ملاقات میں ہی یہ مقصد حاصل کر لیا اورمصری کو منہ مانگی قیمت دے دی ۔ مصری کو ایسا بڑا رُتبے والا آدمی نہیں تھا ۔ معمولی سا عہدے دار تھا۔ اس نے کبھی خواب میں بھی اتنی حسین لڑکی نہیں دیکھی تھی ۔ کہاں ایک جیتی جاگتی لڑکی جو اس کے تصوروں سے بھی زیادہ خوبصورت تھی ، اس کی لونڈی بن گئی تھی ۔ وہ اپنا آپ، اپنا فرض اور اپنا مذہب ہی بھول گیا ۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی لڑکی سے الگ نہیں ہونا چاہتا تھا۔
اس پاگل پن میں اُس نے صبح کے وقت پہلا حکم یہ دیا کہ جانور بہت تھکے ہوئے ہیں ، لہٰذا آج سفر نہیں ہوگا ۔ محافظوں اور شتربانوں کو اس حکم سے بہت خوشی ہوئی ۔ وہ محاذ کی سختیوں سے اُکتائے ہوئے تھے۔ انہیں منزل تک پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں تھی ۔ وہ دن بھر آرام کرتے رہے۔گپ شپ لگاتے رہے اور انکاکمانڈر اس لڑکی کے پاس بیٹھا بدمست ہوتا رہا۔ دن گزر گیا ، رات آئی اور جب سب سو گئے تو مصر ی لڑکی کو ساتھ لیے دُور چلا گیا ۔ لڑکی نے اُسے آسمان پر پہنچا دیا ۔
صبح جب یہ قافلہ چلنے لگا تو مصری کمانڈر نے راستہ بدل دیا ۔ اپنے دستے سے اس نے کہا کہ اس طرف اگلے پڑائو کے لیے بہت خوبصورت جگہ ہے ۔ قریب ایک گائوں بھی ہے جہاں مرغیاں اور انڈے مل جائیں گے۔ اس کا دستہ اس پر بھی خوش ہوا کہ کمانڈر انہیں عیش کرا رہا ہے ۔ البتہ اس دستے میں دو عسکری ایسے بھی تھے جوکمانڈر کی ان حرکتوں سے خوش نہیں تھے ۔ انہوں نے اسے کہا کہ ہمارے پاس خطرناک قیدی ہیں ۔ یہ سب جاسوس ہیں ۔ انہیں بہت جلدی حکومت کے حوالے کر دینا چاہیے ۔ بلاوجہ سفر لمبا کرنا ٹھیک نہیں ۔ مصری نے انہیں یہ کہہ کر چپ کروادیا کہ یہ میری ذمہ داری ہے کہ جلدی پہنچوں یا دیر سے۔ جواب طلبی ہوئی تو مجھ سے ہوگی۔ دونوں خاموش ہوگئے ، لیکن وہ الگ جا کر آپس میں کھسر پسر کرتے رہے ۔
٭ ٭ ٭
دوپہر کے بعد انہیں دُور آگے بہت سے گدھ اُڑتے اور اُترتے نظر آئے ۔ یہ اس کی نشانی تھی کہ وہاںکوئی مُردار ہے۔وہ علاقہ مٹی اور ریت کے ٹیلوں کا تھا۔ صحرائی درخت بھی تھے۔ چلتے چلتے وہ ان ٹیلوں میں داخل ہوگئے ۔ راستہ اوپر ہوتا گیا اور ایک بلند جگہ سے انہیں ایک میدان نظر آیا جہاں گِد ھوں کے غول اُترتے ہوئے شور برپا کر رہے تھے ۔ ذرا اور آگے گئے تو نظر آیا کو لاشیں ہیں ، بدبو بھی تھی ۔ یہ اُن سوڈانیوں کی لاشیں تھیں جو بحیرئہ روم کے ساحل پر مقیم سلطان ایوبی کی فوج پر حملہ کرنے چلے تھے۔سلطان ایوبی کے جانباز سواروں نے راتوں کے ان کے عقبی حصے پر حملے کر کے یہ کشت و خون کیا اور سوڈانی فوج کو تتر بتر کر دیا تھا۔یہاں سے آگے میلوں وسعت پر لاشیں بکھری ہوئی تھیں ۔ سوڈانیوں کو اپنی لاشیں اُٹھانے کی مہلت نہیں ملی تھی ۔ قیدیوں اور محافظوں کا قافلہ چلتا رہا اور ذرا سا رُخ بدل کر لاشوں اور گدھوں سے ہٹ گیا ۔
قافلہ جب وہاں سے گزر رہا تھا تو انہوں نے دیکھا کہ لاشوں کے اردگرد اُن کے ہتھیار بھی بکھرے ہوئے تھے ۔ ان میں کمانیں اور ترکش تھے۔ بر چھیاں ، تلواریں اور ڈھالیں بھی تھیں ۔ قیدیوں نے یہ ہتھیار دیکھ لیے ۔ انہوں نے آپس میںباتیں کیں اور رابن نے اس لڑکی سے کچھ کہا جس نے مصری کمانڈر پر قبضہ کر رکھا تھا ۔ لاشیں اور ہتھیار دُور دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ دائیں طرف ٹیلوں کے قریب سر سبز جگہ تھی ۔ پانی بھی نظر آرہا تھا ۔ سبزہ ٹیلوں کے اوپر تک گیا ہوا تھا ۔ لڑکی نے کمانڈر کو اشارہ کیا تو وہ اس کے قریب چلا گیا ۔ لڑکی نے کہا …'' یہ جگہ بہت اچھی ہے ۔ یہیں رُک جاتے ہیں ''…مصری نے قافلے کا رُخ پھیر دیا اور سر سبز ٹیلے کے قریب پانی کے چشمے پر جا روکا۔ رات یہیں بسر کرنی تھی ۔سب گھوڑوں اور اونٹوں سے اُترے ، جانور پانی پر ٹوٹ پڑے۔ رات گزارنے کے لیے اچھی جگہ دیکھی جانے لگی ۔ دو ٹیلوں کے درمیان جگہ کشادہ بھی تھی اور وہاںسبزہ بھی تھا ۔ یہی جگہ منتخب کر لی گئی ۔
جب رات کا اندھیرا گہرا ہوا تو سب سو گئے ۔ مصری جگ رہا تھا اور لڑکی بھی جاگ رہی تھی ۔اس رات اسے خاص طور پر جاگنا اور مصری کمانڈر کو پوری طرح مدہوش کرنا تھا ۔ اسے جب خراٹوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں تو وہ مصری کے پاس چلی گئی ۔ اسی لڑکی کی خاطر وہ سب سے الگ اور دُور ہٹ کر لیٹا تھا ۔ لڑکی اسے ٹیلے کی اوٹ میں لے گئی اورر وہاں سے اور زیادہ دُور جانے کی خواہش ظاہر کی ۔ مصری اس کی خواہشوں کا غلام ہو گیا ۔ اسے احساس تک نہ ہوا کہ آج رات لڑکی اُسے ایک خاص مقصد کے لیے دور لے جارہی ہے ۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور لڑکی اسے تین ٹیلوں سے بھی پرے لے گئی ۔ وہ رُکی اور مصری کو بانہوں میں لے لیا ۔ مصری بے خود ہو گیا ۔
اُدھر رابن نے جب دیکھا کہ کمانڈر جا چکا ہے اور دوسرے محافظ گہری نیند سوئے ہوئے ہیں تو اس نے لیٹے لیٹے اپنے ایک ساتھی کو جگا یا۔ اس نے ساتھ والے کو جگایا ۔ اس طرح رابن کے چاروں ساتھی جاگ اُٹھے … محافظ اُن سے ذرا دُور سوئے ہوئے تھے ۔ مصری کمانڈر کو لڑکی نے اتنا بے پروا کر دیا تھا کہ رات کو وہ سنتری کھڑا نہیں کرتا تھا ۔ پہلے رابن پیٹ کے بل رینگتا ہوا محافظوں سے دور چلا گیا ۔ اس کے بعد اس کے چاروں ساتھی بھی چلے گئے ۔ ٹیلے کی اوٹ میں ہو کر وہ تیز تیز چلنے لگے اور لاشوں تک پہنچ گئے ۔ ٹٹول ٹٹول کر انہوںنے تین کمانیں اور ترکش اُٹھائے اور ایک ایک برچھی اُٹھالی ۔ اسی مقصد کے لیے انہوں نے لڑکی سے کہا تھا کہ وہ کمانڈر سے یہی کہے کہ یہاں پڑائو کیا جائے ۔ وہ ہتھیار لے کر واپس ہوئے ، اب وہ اکٹھے تھے ۔
: وہ سوئے ہوئے محافظوں کے قریب جا کھڑے ہوئے ۔ رابن نے ایک محافظ کے سینے میں برچھی مارنے کے لیے برچھی ذرا اُوپر اُٹھائی ۔ باقی چاربھی ایک ایک محافظ کے سر پر کھڑے تھے ۔ یہ نہایت کامیاب چال تھی۔ وہ بیک وقت چار محافظوں کو ختم کر سکتے تھے اور باقی گیارہ کے سنبھلنے تک انہیں بھی ختم کرنا مشکل نہیں تھا۔ پیچھے تین شتربان تھے اور مصری کمانڈر ۔ وہ آسان شکار تھے ۔ رابن نے جونہی برچھی اُوپر اُٹھائی ، زناٹہ سا سنائی دیا اور ایک تیر رابن کے سینے میں اُتر گیا ۔ اس کے ساتھ ہی ایک تیر رابن کے ساتھی کے سینے میں لگا ، وہ ڈولے ۔ ان کے تین ساتھی ابھی دیکھ ہی رہے تھے کہ یہ کیا ہوا ہے کہ دو تیر اور آئے اور دو اور قیدی اوندھے ہوگئے ۔ آخری قیدی بھاگنے کے لیے پیچھے کو مُڑا تو ایک تیر اس کے پہلو میں اُترگیا ۔ یہ کام اتنی خاموشی سے ہوگیا کہ ان محافظوں میں سے کسی کی آنکھ ہی نہ کھلی جن کے سروں پر موت آن کھڑی ہوئی تھی ۔
تیر انداز آگے آگئے ۔انہوں نے مشعلیں روشن کیں۔ یہ دو محافظ تھے جنہوں نے اپنے کمانڈر سے کہا تھا کہ انہیں منزل پر پہنچنا چاہیے۔وہ دیانت دار تھے ۔وہ سوئے ہوئے تھے ، جب چاروں قیدی ان کے قریب سے گزرے تو اُن میں سے ایک کی آنکھ کھل گئی تھی ۔ اس نے اپنے ساتھی کو جگایا اور قیدیوں کا تعاقب دبے پائوں کیا ۔ انہوں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ اگر قیدیوں نے بھاگنے کی کوشش کی تو انہیں تیروں سے ختم کر دیں گے ، مگر اس سے پہلے وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ یہ کیا کرتے ہیں ۔ اندھیرے میں انہیں جو کچھ نظر آتا رہا ، وہ دیکھتے رہے ۔ قیدی ہتھیار اُٹھا کر واپس آئے تو دونوں محافظ آکر ٹیلے کے ساتھ چھپ کر بیٹھ گئے ۔ جونہیں قیدیوں نے محافظوں کو برچھیاں مارنے کے لیے برچھیاں اُٹھائیں ، انہوں نے تیر چلا دئیے ۔ پھر چاروں کو ختم کر دیا ۔ انہوں نے اپنے کمانڈر کو آواز دی تو اسے لا پتہ پایا۔ اس آواز سے لڑکیاں جاگ اُٹھیںاور باقی محافظ بھی جاگے۔ لڑکیوں نے اپنے آدمیوں کی لاشیں دیکھیں۔ ہر ایک لاش میں ایک تیر اُترا ہوا تھا۔ لڑکیاں خاموشی سے لاشوں کو دیکھتی رہیں۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ آدمی آج رات کیا کریں گے ۔
مصری کمانڈر وہاں نہیں تھا اور ایک لڑکی بھی غائب تھی ۔
محافظوں کو معلوم نہیں تھا کہ جب ان قیدی جاسوسوں کے سینوں میں تیر داخل ہوئے تھے ، بالکل اسی وقت اُن کے مصری کمانڈر کی پیٹھ میں ایک خنجر اُتر گیا تھا ۔ اُس کی لاش تیسرے ٹیلے کے ساتھ پڑی تھی اس رات صحرا کی ریت خون کی پیاسی معلوم ہوتی تھی ۔ مصری کمانڈر اپنے محافظ دستے اور قیدیوں سے بے خبر اس لڑکی کے ساتھ چلا گیا اور لڑکی اسے خاصا دور لے گئی تھی ۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے ساتھی ایک خونی ڈرامہ کھیلیں گے ۔ لڑکی مصری کو ایک ٹیلے کے ساتھ لے کے بیٹھ گئی ۔
اسی ٹیلے سے ذرا پرے بالیان اور اس کے چھ محافظوں نے پڑائو ڈال رکھا تھا ۔ اُن کے گھوڑے کچھ دور بندھے ہوئے تھے ۔ بالیان موبی کو ساتھ لیے ٹیلے کی طرف آگیا ۔ اس کے ہاتھ میں شراب کی بوتل تھی ۔ موبی نے نیچے بچھانے کے لیے دری اُٹھا رکھی تھی ۔ بالیان محافظوں سے دُور جا کر عیش و عشرت کرنا چاہتی تھا۔ اس نے دری بچھا دی اور موبی کو اپنے ساتھ بٹھا لیا ۔ وہ بیٹھے ہی تھے کہ رات کے سکوت میں انہیں قریب سے کسی کی باتوں کی آواز یں سنائی دیں ۔ وہ چونکے اور دم سادھ کر سننے لگے ۔آواز کسی لڑکی کی تھی ۔ بالیان اور موبی دبے پائوں اس طر ف آئے اور ٹیلے کی اوٹ سے دیکھا ۔ انہیں دو سائے بیٹھے ہوئے نظر آئے ۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ ایک عورت اور ایک مرد ہے ۔ موبی اور زیادہ قریب ہوگئی اور غور سے باتیں سننے لگی ۔ مصری کمانڈر کے ساتھ اس لڑکی نے ایسی واضح باتیں کیں کہ موبی کو یقین ہوگیا کہ یہ اس کی ساتھی لڑکی ہے اور یہ بھی واضح ہو گیا کہ اسے قاہرہ لے جایا جارہا ہے ۔
: مصر ی نے جو حرکتیں اور باتیں کیں ، وہ تو بالکل ہی صاف تھیں ۔ کسی شک کی گنجائش نہیں تھی ۔ موبی جان گئی تھی کہ یہ مصری اس لڑکی کو اس کی مجبوری کے عالم میں عیاشی کا ذریعہ بنا رہا ہے۔ موبی نے یہ بالکل نہ سوچا تھا کہ اردگرد کوئی اور بھی ہوگا اور اس نے جو ارادہ کیا ہے ، اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ اس نے پیچھے ہٹ کر بالیان کے کان میں کچھ کہا …… '' یہ مصری ہے اور یہ میرے ساتھ کی ایک لڑکی کے ساتھ عیش کر رہا ہے ۔ اس لڑکی کو بچالو۔ یہ مصری تمہارا دشمن ہے اور لڑکی تمہاری دوست ''…… اس نے بالیان کو اور زیادہ بھڑکانے کے لیے کہا ۔'' یہ بڑی خوبصورت لڑکی ہے ، اسے بچالو اور اپنے سفری حرم میں شامل کرلو
بالیان شراب پئے ہوئے تھا ۔ اس نے کمر بند سے خنجر نکالا اور بہت تیزی سے آگے بڑھ کر خنجر مصری کمانڈر کی پیٹھ میں گھونپ دیا۔ خنجر نکال کر اسی تیزی سے ایک اور وار کیا ۔ لڑکی مصری سے آزاد ہو کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ موبی دوڑی اور اُسے آواز دی ۔ وہ دوڑ کر موبی سے لپٹ گئی۔ موبی نے اس سے پوچھا کہ دوسری کہاں ہیں ۔ اس نے رابن اور دوسرے ساتھیوں کے متعلق بھی بتایا اور یہ بھی کہا کہ وہ پندرہ محافظوں کے پہرے میں ہیں ۔ بالیان دوڑتا گیا اور اپنے چھ ساتھیوں کو بلا لایا۔ اُن کے پاس کمانیں اور دوسرے ہتھیار تھے۔ اتنے میں قیدیوں کے محافظوں میں سے ایک اپنے مصری کمانڈر کو آوازیں دیتا اِدھر آیا۔ بالیان کے ایک ساتھی نے تیر چلایا اور اس محافظ کو ختم کر دیا ۔ وہ لڑکی انہیں اپنی جگہ لے جانے کے لیے آگے آگے چل پڑی ۔
بالیان کو آخری ٹیلے کے پیچھے روشنی نظر آئی ۔ اس نے ٹیلے کی اوٹ میں جا کر دیکھا ۔ وہاں بڑی بڑی دو مشعلیں جل رہی تھیں۔ ان کے ڈنڈے زمین میں گڑھے ہوئے تھے ۔ اس کے اوپر والے سروں پر تیل میں بھیگے ہوئے کپڑے لپٹے ہوئے تھے ، جو جل رہے تھے ۔ بالیان اپنے ساتھیوں کے ساتھ اندھیرے میں تھا ۔ اسے روشنی میں پانچ لڑکیاں الگ کھڑی نظر آرہی تھیں اور محافظ بھی دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے درمیان پانچ لاشیں پڑی تھیں ، جن میں تیر اُترے ہوئے تھے ۔ موبی اور دوسری لڑکی کی سسکیاں نکلنے لگیں۔ موبی کے اُکسانے پربالیان نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ تمہارا شکار ہے ، تیروں سے ختم کر دو ۔ ان کی تعداد اب چودہ تھی ۔ یہ اُن کی بد قسمتی تھی کہ وہ روشنی میں تھے۔
بالیان کے ساتھیوں نے کمانوں میں تیر ڈالے۔ تمام تیر ایک ہی بار کمانوں سے نکلے ۔ دوسرے ہی لمحے کمانوں میںچھ اور تیر آچکے تھے۔ ایک ہی با قیدیوں کے چھ محافظ ختم ہو گئے ۔ باقی ابھی سمجھ نہ سکے تھے کہ یہ تیر کہاں سے آئے ہیں ۔ چھ اور تیروں نے چھ اور محافظوں کر گرا دیا ۔ باقی دو رہ گئے تھے۔ اُن میں سے ایک اندھیرے میں غائب ہوگیا ۔ دوسرا ذرا سست نکلا اور وہ بھی سوڈانیوں کے بیک وقت تین تیروں کا شکار ہو گیا ۔ تین شتربان رہ گئے تھے، جو سامنے نہیں تھے۔ وہ اندھیرے میں کہیں اِدھر اُدھر ہوگئے ۔ مشعلوں کی روشنی میں اب لاشیں ہی لاشیں نظر آرہی تھیں۔ ہر لاش ایک ایک تیر لیے ہوئے تھی اورء ایک میںتین تیر پیوست تھے۔ موبی دوڑ کر لڑکیوں سے ملی ۔ اتنے میں ایک گھوڑے کی سرپٹ دوڑنے کی آوازیں سنائی دی ، جو دور نکل گئیں ۔ بالیان نے کہا …… ''یہاں رُکنا ٹھیک نہیں ۔ ان میں ایک بچ کر نکل گیا ہے ۔ وہ قاہرہ کی سمت گیا ہے ، فوراً یہاں سے نکلو ''۔
انہوں نے محافظوں کے گھوڑے کھولے اور اپنی جگہ لے گئے ، وہاں جا کر دیکھا ایک گھوڑا بمع زین غائب تھا ۔ اسے بچ کر نکل جانے والا محافظ لے گیا تھا ۔ وہ اپنے گھوڑوں تک نہیں جا سکا تھا ۔ چھپ کر اُدھر چلاگیا ، جہاں اسے آٹھ گھوڑے بندھے نظر آئے ۔ زینیں پاس ہی پڑی تھیں ۔ اُس نے ایک گھوڑے پر زین کسی اور بھاگ نکلا ۔ بالیان نے چودہ گھوڑوں پر زینیں کسوائیں ۔ سامان دو گھوڑوں پر لادا اور باقی گھوڑے ساتھ لیے اور روانہ گئے ۔ لڑکیوں نے موبی کو سنایا کہ اُن پرکیا بیتی ہے اور انہیں کہاں لے جایا رہا تھا ۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ رابن اور اس کے ساتھی لاشوں کے ہتھیار اُٹھا نے گئے تھے ، مگرمعلوم نہیں کہ وہ کس طرح مارے گئے ۔
موبی نے کہا …… '' ایوبی کے کیمپ میں میری اور رابن کی ملاقات اچانک ہوگئی تھی ۔ اس نے کہا تھا کہ مجھے یو ں نظر آرہا تھا کہ یسوع مسیح کو ہماری کامیابی منظور ہے ، ورنہ ہم اس طر ح خلافِ توقع نہ ملتے۔ آج ہماری ملاقات بالکل خلافِ توقع ہوگئی ہے ، لیکن میں یہ نہیں کہوں گی کہ یسوع مسیح کو ہماری کامیابی منظور ہے ۔خدائے یسوع مسیح ہم سے ناراض معلوم ہوتا ہے ۔ ہم نے جس کا م میں ہاتھ ڈالا وہ چوپٹ ہوا ۔ بحیرئہ روم میں ہماری فوج کو شکست ہوئی اور مصر میں ہماری دوست سوڈانی فوج کو شکست ہوئی ۔ اِدھر رابن اور کرسٹوفر جیسے دلیر اور قابل آدمی اور ان کے اتنے اچھے ساتھی مارے گئے ۔ معلوم نہیں ، ہمارا کیا انجام ہوگا ''۔
'' ہمارے جیتے جی تمہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا ''۔ بالیان نے کہا ……'' میرے شیروں کا کمال تم نے دیکھ لیا ہے ''۔
٭ ٭ ٭
جس وقت قیدیوں کا قافلہ لاشوں کے پاس ٹیلوں میں رُکا تھا ۔ اُس وقت ساحل پر سلطان ایوبی کی فوج کے
کیمپ میں تین آدمی داخل ہوئے ۔ وہ اٹلی کی زبان بولتے تھے۔ ان کا لباس بھی اٹلی کے دیہاتیوں جیسا تھا ، ان کی زبان کوئی نہیں سمجھتا تھا ۔ اٹلی کے جنگی قیدیوں سے معلوم کیا گیا ۔ انہوں نے بتایا کہ یہ اٹلی سے آئے ہیں اور اپنی لڑکیوں کو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں ۔ یہ یہاں کے سالار سے ملنا چاہتے ہیں ۔ انہیں بہائوالدین شداد کے پاس پہنچا دیا گیا ۔ صلاح الدین ایوبی کی غیر حاضری میں شداد کیمپ کمانڈر تھا ۔ اٹلی کا ایک جنگی قیدی بلایا گیا ۔ وہ مصر کی زبان بھی جانتا تھا ۔ اس کی وساطت سے ان آدمیوں کے ساتھ باتیں ہوئیں ۔ اِن تین آدمیوں میں ایک ادھیڑ عمر تھا اور دو جوان تھے۔ تینوں نے ایک ہی جیسی بات سنائی ۔ تینوں کی ایک ایک جوان بہن کو صلیبی فوجی اُن کے گھروں سے اُٹھا لائے تھے۔ انہیں کسی نے بتایا تھا کہ وہ لڑکیاں مسلمانوں کے کیمپ میں پہنچ گئی ہیں ۔ یہ اپنی بہنوں کی تلاش میں آئے ہیں
انہیں بتایا گیا تھا کہ یہاں سات لڑکیاں آئی تھیں ۔انہوں نے یہی کہانی سنائی تھی مگر ساتوں جاسوس نکلیں ۔ ان تینوں نے کہا کہ ہماری بہنوں کا جاسوسی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ہم توغریب اور مظلوم لوگ ہیں ۔کسی سے کشتی مانگ کر اتنی دور آئے ہیں۔ ہم غریبوں کی بہنیں جاسوسی کی جراأت کیسے کر سکتی ہیں۔ ہمیں اِن سات لڑکیوں کا کچھ پتہ نہیں ۔ معلوم نہیں، وہ کون ہوں گی ۔
ہم تو اپنی بہنوںکو ڈھونڈ رہے ہیں ۔
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں