سچی توبہ
ایک نوجوان صحابی جسے لوگ "ماغر" کے نام سے جانتے تھے،اس کی شادی مدینہ منورہ میں ہوئی تھی۔ایک دن شیطان نے اسے پھسلایا، اسے انصاری کی لونڈی پر مائل کر دیا اور راہ حق سے ہٹانے کی کوشش کی، ماغر شیطان کے جال میں پھنسا اور اس لونڈی کو تنہائی میں لے گیا، اب یہ دونوں تھے اور تیسرا ان میں شیطان تھا، وہ برائی کو ان دونوں کے لیے نہایت خوبصورت اور پرکشش بنا کر پیش کر رہا تھا،وہ دونوں بہک گئے اور جوانی کی طغیانی کا شکار ہو گئے۔
جب ماغر اپنے جرم سے فارغ ہوا تو شیطان نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا،اب وہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگا اور اپنے نفس کا محاسبہ کرنے لگا، گناہ کی آگ اس کے دل کو جلانے لگی،وہ بے قرار ہو کر روحانی طبیب ﷺ کی خدمت میں آیا اور آپ ﷺ کے سامنے کھڑا ہو گیا،احساسِ گناہ اسے تڑپانے لگا،کہنے لگا: اے اللہ کے رسول صلی الله علیه وسلم زنا ہو گیا ہے ,
مجھے پاک کر دیجیے، نبی کریم ﷺ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا.....وہ دوسری جانب آگیا، بولا: اے اللہ کے رسول!ﷺ میں شیطان کے جھانسے میں آگیا۔ زنا کر بیٹھا، مجھے پاک کر دیجیے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: تجھ پر افسوس ہے، واپس چلا جا اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی معافی مانگ اور توبہ کر لے۔ وہ تھوڑی دیر بعد پھر آگیا،گناہ کی آگ نے اس کا آرام چھین لیا، وہ صبر نہ کر سکا۔
نبی کریم ﷺ نے اس کے بارے میں حکم دیا کہ اسے یہاں سے نکال دو، اسے نکال دیا گیا،وہ چوتھی مرتبہ پھر چلا ایا، نبی کریم ﷺ نے لوگوں سے پوچھا: کیا یہ دیوانہ ہے؟لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول!ﷺہم نے اس میں ایسا کوئی مرض نہیں پاتے، آپ ﷺ نے فرمایا:شاید اس نے شراب پی ہوئی ہے۔اس لیے ایسی حرکتیں کر رہا ہے۔ ایک آدمی کھرا ہوا۔اس نے ماغر کا منہ سونگھا، اسے شراب کی بو محسوس نہیں ہوئی۔نبی کریم ﷺ نے پوچھا: تجھے پتا ہے،زنا کسے کہتے ہیں؟ اس نے کہا:جی ہاں! میں ایک عورت کے ساتھ اس طرح حرام کا ارتکاب کر بیٹھا ہوں جیسے ایک آدمی حلال طریقے سے اپنی بیوی کے پاس آتا ہے۔
آپ ﷺ نے پوچھا:اب اس بات سے تمہارا کیا مطلب ہے؟ اس نے کہا: مجھے پاک کر دیجیے۔نبی کریم ﷺ ے مکمل تفتیش کرائی۔ جرم ثابت ہونے پر حد جاری فرمائی۔ آپ ﷺ ے حکم دیا اور اسے سنگسار کر دیا گیا۔
جب اس کی نمازِ جنازہ پڑھی گئی اور اسے دفن کر دیا گیا تو نبی ﷺ دو آدمیوں کے پاس سے گزرے، وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ دیکھو! اس آدمی پر اللہ نے پردہ ڈالا تھا لیکن اس نے اپنے آپ کو خود ہی ہلاکت میں ڈال لیا۔حتیٰ کہ اسے پتھر مار مار کر یوں ہلاک کر دیا گیا جیسے کتے مار دیے جاتے ہیں۔نبی کریم ﷺ خاموش ہو گئے۔ پھر تھوڑا چلے، آگے ایک مردہ گدھا پڑا ہوا تھا، اسے دھوپ نے جلا دیا تھا اور وہ پھول گیا تھا۔ جب نبی کریم ﷺ نے اس گدھے کو دیکھا تو پوچھا: فلاں فلاں آدمی کدھر ہیں؟وہ دونوں بولے:اللہ کے رسول!ﷺ ہم یہاں ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اترو اور اس گدھے کا گوشت کھاؤ،وہ حیران ہو کر بولے: اللہ کے نبی! بھلا اسے کون کھا سکتا ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا:ابھی ابھی جو تم اپنے بھائی کی عزت پامال کر رہے تھے، وہ اس گدھے کو کھانے سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ماغر نے ایسی سچی توبہ کی ہے اگر یہ اُمت کے مابین تقسیم کر دی جائے تو انہیں کافی ہو جائے۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ اس وقت جنت کی نہروں میں غوطے لگا رہا ہے۔
خوش خبری ہے ماغر بن مالک کے لیے! وہ جوانی کی بھول کا شکار ہوا، اور اپنے اور اپنے رب کے درمیان پرے ہوئے پردے کو پامال کیا،گناہ نے اسے چین سے بیٹھنے نہ دیا تو اس نے ایسی توبہ کی کہ اگر اُمت کے درمیان تقسیم کر دی جاتی تو تمام لوگوں کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ بن جاتی....
( دیکھیے: صحیح بخاری، الحدود،حدیث 6820
۔صحیح مسلم: الحدود، حدیث 1695
۔وسنن ابی داؤد،الحدود،ح
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں