داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر 7
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ناجی اپنے کمرے میں بھت غصے کی عالم میں ٹہل رھا تھا زکوئ اسکو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رھی تھی لیکن اسکا غصہ مزید بڑھتا چلا جا رھا تھا ،
" آپ مجھے اسکے پاس جانے دیں میں اسکو شیشے میں اتار لونگی" زکوی نے کہا
" بیکار ھے ،،،،،، وه کمبخت حکم نامہ جاری کرچکا ھے ، جس پر عمل بھی ھوچکا ھے مجھے اس نے کہیں کا نھی رھنے دیا ، اس پر تمھارا جادو نھی چل سکا مجھے معلوم ھے میرے خلاف سازش کرنے والے لوگ کون ھیں وہ میری ابھرتی ھوی حثیت سے حسد محسوس کر رھے ھیں میں امیر مصر بننے والا تھا ، یہاں کے حکمرانوں پر میں نے حکومت کی ھے حالانکہ میں معمولی سا سالار تھا اب میں سالار بھی نھی رھا،" ناجی نے دربان کو بلا کر کہا کہ اوورش کو بلاے، اسکا ھمراز اور نائب آیا تو اس نے بھی اسی موضوع پر بات کی اسے وہ کوی نئ خبر نھی سنا رھا تھا، اوورش کے ساتھ وہ صلاح الدین کے نئے حکم نامے پر تفصیلی تبادلہ خیال کرچکا تھا مگر دونوں اسکے خلاف کوی تفصیلی کاروائ نھی سوچ سکے تھے اب ناجی کے دماغ میں جوابی کاروائ آگی تھی اس نے اوورش کو کہا " میں نے جوابی کاروائ سوچ لی ھے "
" کیا " اوورش نے کہا
" بغاوت " ناجی نے کہا اور اوورش اسکو چپ چاپ دیکھتا رھا۔ناجی نے اسکو کہا " تم حیران ھو گیے ھو کیا تمھیں شک ھے کہ یہ 50 ھزار سوڈانی فوج ھماری وفادار نھیں۔۔۔؟کیا سلطان کے مقابلے میں مجھے اور تمھیں اپنا سالار اور خبر حواہ نھی سمجھتی ۔۔؟ کیا تم اس فوج کو یہ کہہ کر بغاوت پر آمادہ نھی کر سکتے کہ تمھیں مصرف کا غلام بنایا جا رھا ھے مصر تمھارا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ "
" میں نے اس اقدام پر غور نھی کیا تھا بغاوت کا انتظام ایک اشارے پر ھو سکتا ھے لیکن مصر کی نئ فوج بغاوت کو دبا سکتی ھے اور اس نئ فوج کو کمک بھی مل سکتی ھے ، حکومت سے ٹکر لینے سے پہلے ھمیں ھر پہلو پر غور کرنا چاھیے" اوورش نے کہا
"میں غور کرچکا ھوں میں عیسائ بادشاھوں کو مدد کے لیے بلا رھا ھوں ، تم دو پیامبر تیار کرو انھیں بھت دور جانا ھے آو میری بات بھت غور سے سنو ،، زکوئ تم اپنے کمرے میں چلی جاو " ناجی نے کہا زکوی اپنے کمرے میں چلی گی اور وہ دونوں ساری رات اپنے کمرے میں بیٹھے رھے۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سلطان صلاح الدین ایوبی نے دونوں فوجوں کو مدغم کرنے کا دورانیہ 7 دن رکھا تھا ، کاغذی کاروائ ھوتی رھی ناجی پوری طرح سے تعاون کرتا رھا 7 روز گزر چکے تھے ناجی ایک بار پھر سلطان صلاح الدین ایوبی سے ملا لیکن کوی شکایت نھی کی ، تفصیلی رپورٹ دیں کر کہا کہ سات دن میں دونوں فوجیں ایک ھوجائیں گی ، سلطان صلاح الدین ایوبی کے نایئبین نے بھی یقین دلایا کہ ناجی ایمانداری سے تعاون کر رھا ھے مگر علی بن سفیان کی رپورٹ کسی حد تک پریشان کن تھی ، انکے انٹیلی جنس نے رپورٹ دی تھی کہ سوڈانی فوج میں کسی حد تک بے اطمینانی اور ابتری پائ جا رھی ھے وہ مصری فوج میں مدغم ھونے پر خوش نھی ان میں یہ افواھیں پھیلائ جا رھی تھی کہ مصری فوج میں مدغم ھوکر انکی حیثیت غلاموں جیسی ھو جاے گی،انکو مال غنیمت بھی نھی ملے گا اور ان سے بردباری کا کام لیا جاے گا اور سب سے بڑی بات کہ انکو شراب نوشی کی اجازت نھی ھوگی علی بن سفیان نے سلطان صلاح الدین ایوبی تک یہ خبریں پہنچا دیں ،، ایوبی نے اسے کہا کہ یہ لوگ طویل وقت سے عیش کی زندگی بسر کر رھے ھیں انکو یہ تبدیلی پسند نھی آے گی ، مجھے امید ھے کہ وہ نئے حالات اور ماحول کے عادی ھوجائنگے،
" اس لڑکی سے ملاقات ھوی کہ نھی " سلطان صلاح الدین ایوبی نے پوچھا
" نھی اس سے ملاقات ممکن نظر نھی آرھی میرے آدمی ناکام ھوچکے ھے ناجی نے اسکو قید کر کہ رکھا ھے " علی بن سفیان نے کہا
اس سے اگلی رات کا ھے رات ابھی ابھی تاریک ھوئ تھی زکوئ اپنے کمرے میں تھی ناجی اور اوورش ساتھ والے کمرے میں تھے اسے گھوڑوں کے قدموں کی آوازیں سنائ دیں اس نے پردہ ھٹادیا ، باھر کے چراغوں کی روشنی میں اسکو دو گھوڑ سوار دکھائ دیئے ۔ لباس سے وہ تاجر معلوم ھورھے تھے گھوڑوں سے اتر کر وہ ناجی کے کمرے کی طرف بڑھے تو انکی چال بتا رھی تھی کہ یہ تاجر نھی اتنے میں اوورش باھر نکلا دونوں گھوڑ سوار اسکو دیکھ کر رک گیے اور اوورش کو سپاھیوں کے انداز سے سلام کیا ، اوورش نے ان کے گرد گھوم کر انکا جائزہ لیا اور پھر کہا کہ اپنے ھتهیار دکھاو دونوں نے پھرتی سے چغے کھولے اور ھتهیار دکھاے دیئے انکے پاس چھوٹی چھوٹی تلواریں اور ایک ایک نیزہ تھا اوورش انکو کمرے کے اندر لیے گیا دربان باھر کھڑا تھا
زکوئ گہرے سوچ میں پڑ گئ وہ کمرے سے نکلی اور ناجی کے کمرے کی طرف بڑھ گئ
مگر دربان نے اسکو دروازے پر ھی روکا اور کہا کہ اسے حکم ملا ھے کہ کسی کو اندر جانے نہ دیں زکوئ کو وھاں ایسی حیثیت حاصل ھو گئ تھی کہ وہ کمانڈروں پر بھی حکم چلایا کرتی تھی ۔ دربان کے کہنے سے وہ سمجھ گئ کہ کوی خاص بات ھے اسے یاد آیا کہ ناجی نے اسکی موجودگی میں اوورش سے کہا تھا میں عیسائ بادشاھوں کو مدد کے لیے بلا رھا ھوں ، تم دو پیامبر تیار کرو انھیں بھت دور جانا ھے آو میری بات بھت غور سے سنو اور پھر اس نے زکوئ کو اندر جانے کا کہا اور ناجی پھر بعغاوت کی باتیں کرنے لگا۔ یہ سب سوچ کر وہ اپنے کمرے میں واپس چلی گی اسکے اور ناجی کے خاص کمرے کے درمیان ایک دروازہ تھا جو دوسری طرف سے بند تھا اس نے اسی دروازے کے ساتھ کان لگا دیئے ، ادھر کی آوازیں سنایی دے رھی تھیں پہلے تو اسے کوی بات سمجھ نھی آرھی تھی لیکن بعد میں اسکو ناجی کی آواز بڑی صاٖف سنائ دیں رھی تھی
" آبادیوں سے دور رھنا اگر
کوی شک میں پڑے تو سب سے پہلے اس پیغام کو غائب کرنا ، جان پر کھیل جانا جو بھی تمھارے راستے میں حائل ھو اس کو راستے سے ھٹا دینا تمھارا سفر بھی 4 دنوں کا ھے 3 دن میں پہچنے کی کوشیش کرنا سمت یاد کرلو " " شمال مشرق" ناجی کہ رھا تھا
دونوں آدمی باھر نکلے زکوئ بھی باھر نکلی اس نے دیکھا کہ دونوں سوار گھوڑوں پر سوار ھو رھے تھے ، ناجی اور اوورش بھی باھر نکلے تھے وہ شاید ان کو الوادع کہنے کے لیے باھر کھڑے تھے گھوڑ سوار بھت تیزی سے روانہ ھوے ناجی نے زکوئ کو بلا کر کہا کہ میں باھر جا رھا ھوں ، کام بھت لمبا ھے دیر لگے گی تم آرام کر لو اگر اکیلے دل نہ لگے تو گھوم پھر لینا "
" ھاں جب سے آی ھوں باھر ھی نھی نکلی" زکوئ نے کہا
ناجی اور اوورش بھی چلے گے زکوئ نے چغہ پہنا کمر میں خنجر اڑسا اور حرم کی طرف چل پڑی وہ جگہ کچھ سو گز دور تھی وہ ناجی پر یہ ظاھر کرانا چاھتی تھی کہ وہ حرم کے اندر ھی جا رھی ھےدربان کو بھی اس نے یہی بتایا حرم کے اندر جب زکوئ داخل ھوئ تو حرم والیاں نے اسکو دیکھ کر حیران ھوی وہ پہلی بار وھاں آئ تھی سب نے اسکا استقبال کیا اور اسکو پیار کیا ، ان دونوں لڑکیوں نے بھی اسکو
خوش آمدید کہا جو زکوئ کو قتل کرنا چاھتی تھیں زکوئ سب سے ملی اور سب کے ساتھ باتیں کی پھر حرم سے باھر نکلی وہ خرانٹ ملازمہ بھی وھیں تھی جسے نے زکوئ کو قتل کرنا تھا اس نے زکوئ کو بڑے غور سے دیکھا اور زکوئ باھر نکل گی
حرم والے مکان اور ناجی کے رھایش گاہ کا درمیانی علاقہ اونچا نیچا تھا اور ویران، زکوئ حرم سے نکلی تو ناجی کی رھایشگاہ کے بجاے بھت تیز تیز دوسری سمت کی طرف چل پڑی ، ادھر ایک پگڈنڈی بھی تھی لیکن زکوئ زرا اس سے دور جا رھی تھی ، زکوئ سے 15۔20 قدم دور ایک سیاه سایہ بھی چلا جا رھا تھا وہ کوی انسان ھو سکتا تھا لیکن سیاہ لبادے میں لپٹے ھونے کی وجہ سے کوی بھوت ھی لگ رھا تھا زکوئ کی رفتار تیز ھوئ تو اس بھوت نے بھی اپنی رفتار اور تیز کردی ، آگے گھنی جھاڑیاں تھی زکوئ ان میں روپوش ھوی ، سیاہ بھوت بھی جھاڑیوں سے روپوش ھوگیا ۔ وھاں سے کوی اڑھائ 300 سو گز دور سلطان صلاح الدین کی رھایشگاہ تھی جس کے اردگرد فوج کے اعلی رتبوں کے افراد رھتے ہیں زکوئ کا رخ ادھر ھی تھا ، وہ جھاڑیوں سے نکلی ھی تھی کہ بائں طرف سے سیاہ بھوت اٹھا چاندنی بڑی صاف تھی لیکن پھر بھی اسکا چہرہ نظر نھی آرھا تھا اسکے پاؤں کی آھٹ بھی نھی تھی بھوت کا ھاتھ اوپر اٹھا چاندنی میں خنجر چمکا اور بجلی کی سی تیزی سے زکوئ کے بائیں کندھے اور گردن کے درمیان اتر گیا زکوئ کی کوئ چیخ نھی نکلی ، خنجر اسکے کندھے سے نکال دیا گیا ۔ زکوئ نے اتنا گہرا وار کھا کر اپنے کمر بند سے اپنا بھی خنجر نکالا، بھوت نے اس پر دوسرا وار کیا تو زکوئ نے اسکے خنجر والے بازو کو اپنے بازو سے روک کر اپنا خنجر بھوت کے سینے میں اتار دیا ۔ زکوئ کو چیخ سنائ دی جو کسی عورت کی تھی۔ زکوئ نے اپنا خنجر کھینچ کر دوسرا وار کیا جو اسکے پیٹ میں پورا خنجر اتر گیا ۔ اسکے ساتھ ھی زکوئ کے اپنے پہلو میں بھی خنجر لگا لیکن وہ اتنا گہرا نھی تھا ۔ اسکے ساتھ ھی حملہ کرنے والی عورت چکرا کر گر گی۔
زکوئ نے یہ نھی دیکھا کہ اس پر حملہ کرنے والا کون تھا ۔ وہ ڈور پڑی اسکے جسم سے خون تیزی سے بہہ رھا تھا سلطان صلاح الدین کا مکان اسکو چاندنی میں نظر آنے لگا، آدھا فاصلہ طے کر کہ زکوئ کو چکر آنے لگے اسکی رفتار سست ھو گی اس نے چلانا شروع کیا
" علی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایوبی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" علی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایوبی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
سلطان صلاح الدین ایوبی کی اس عظیم جاسوس زکوئ کے کپڑے خون سے سرخ ھونے لگے، وہ بھت مشکل سے اپنے قدم گھسیٹنے لگی تھی ، اس عظیم جاسوس کی منزل تھوڑی بھت ھی قریب تھی لیکن اس تک پہنچنا ممکن نظر نھی آرھا تھا ، زکوئ نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے لیے ایک قیمتی راز حاصل کیا تھا وہ مسلسل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔علی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایوبی کہہ کر پکار رھی تھی، قریب ھی ایک گشتی سنتری پھر رھا تھا اسے آواز سنائ تو وہ دوڑ کر وھاں پہنچ گیا، زکوئ اس پر گر پڑی اور کہا
" مجھے امیر مصر سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس پہنچا دو ۔۔۔۔۔۔۔۔جلدی۔۔۔۔۔بھت جلدی"
سنتری نے جب اسکا خون دیکھا تو اسکو پیٹھ پر لاد کر دوڑ پڑا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے کمرے میں بیٹھا علی بن سفیان سے رپورٹ لیں رھا تھا
اسکے دو نائب بھی موجود تھے یہ رپورٹیں کچھ اچھی نھی تھی ، علی بن سفیان نے بغاوت کے خ کا اظہار کیا تھا جس پر غور ھورھا تھا ، اتنے میں دربان دوڑتا ھوا آیا کہ ایک سپاھی ایک زخمی لڑکی کو اٹھاۓ باھر کھڑا ھے ، کہتا ھے یہ لڑکی امیر مصر سے ملنا چاھتی ھے۔ یہ سنتے ھی علی بن سفیان کمان سے نکلے ھوے تیر کی طرح باھر دوڑا ، سلطان صلاح الدین ایوبی نے بھی جب یہ الفاظ سنے تو وہ بھی علی کے پیچھے دوڑا، اتنے میں لڑکی کو اندر لایا گیا سلطان صلاح الدین ایوبی نے چیخ کر کہا " طبیب اور جراح کو جلدی سے بلاو" لڑکی کو سلطان صلاح الدین ایوبی نے اٹھا کر اپنے پلنگ پوش پر لٹا دیا تھوڑے ھی وقت میں پلنگ پوش بھی خون سے سرخ ھو رھا تھا
" کسی کو بلاو میں اپنا فرض ادا کر چکی ھوں " لڑکی نے نحیف سی آواز میں کہا
" تمھیں زخمی کس نے کیا ھے زکوئ : علی نے کہا
" پہلے میری بات سن لو شمال مشرق کی طرف سوار دوڑا دو ، دو سوار جاتے نظر آینگے دونوں کے چغے بادامی رنگ کے ھیں ، ایک کا گھوڑا بادامی اور دوسرے کا سیاہ ھے وہ تاجر لگتے ھے ان کے پاس سالار ناجی کا تحریری پیغام ھے جو عیسائ بادشاه فرینک کو بھیجا گیا ھے ۔ ناجی کی یہ سوڈانی فوج بغاوت کرے گی مجھے اور کچھ نھی معلوم ، سلطان آپکی سلطنت صحت خ میں ھے ان دو سواروں کو راستے میں ھی پکڑ لو۔ تفصیل ان کے پاس ھے " بولتے بولتے زکوئ پر غشی طاری ھو گی
: دو طبیب آگیے انھوں نے خون بند کرنے کی کوشیش کی زکوئ کے منہ میں دوایئاں ڈالی جن کے اثر سے زکوئ پھر سے بولنے کے قابل ھوئ ، مثال کے طور پر ناجی نے اوورش کے ساتھ کیا باتیں کی ناجی نے زکوئ کو کیسے اپنے کمرے میں جانے کو کہا ناجی کا غصہ اور بھاگ دوڑ دو سواروں کا آنا جانا وغیرہ، پھر اس نے بتایا کہ اسکو یہ علم نھی کہ اس پر حملہ کرنے والا کون تھا ، وہ موقعہ موزوں دیکھ کر ادھر ھی آرھی تھی کہ پیچھے سے کسی نے خنجر گھونپ دیا اس نے اپنا خنجر نکال کر اس پر حملہ کیا۔ حملہ آور کی چیخ بتا رھی تھی کہ وہ کوی عورت تھی اس نے جگہ بتا دی تو اسی وقت فوجی وھاں دوڑا دیئے گیئے زکوئ نے کہا کہ وہ انسان زندہ نھی ھوگا کونکہ میں نے وار اسکے سینے اور پیٹ پر کیئے تھے
زکوئ کا خون نھی روک رھا تھا زیادہ تر خون پہلے بہہ گیا تھا سلطان صلاح الدین کا یہ جاسوس اپنی آخری سانسیں لے رھا تھا اپنے فرض پر اپنی زندگی قربان ھو رھی تھی ، زکوئ نے امیر مصر سلطان صلاح الدین کا ھاتھ پکڑ ا اور چوم کر کہا
" ، مجھ سے زیادہ کوی نھی بتا سکتا کہ سلطان ایوبی کا ایمان کتنا پختا ھے ، " پھر اس نے علی بن سفیان سے کہا " علی۔۔۔۔! میں نے کوتاھی تو نھی کی۔۔؟ آپ نے جو فرض دیا تھا وہ میں نے پورا کردیا
" تم نے اس سے زیادہ پورا کیا ھے ھمارے تو وھم و گمان میں بھی نھی تھا کہ ناجی اتنی خطرناک حد تک کاروائ کر سکتا ھے اور تمھیں جان کی قربانی دینی پڑے گی میں نے تم کو صرف مخبری کے لیے وھاں بھیجا تھا" علی بن سفیان نے کہا
" اے کاش۔۔۔۔۔۔! میں مسلمان ھوتی ۔۔۔۔۔ زکوئ نے کہا اسکے آنسو نکل آے" میرے اس کام کا جو بھی معاوضہ بنتا ھے وہ میرے اندھے باپ اور صدا بیمار ماں کو دینا جن کی مجبوریوں نے مجھے بارہ سال کی عمر میں رقاصہ بنادیا "
زکوئ کا سر ایک طرف ڈھک گیا آنکھیں آدھی کھلی ھوی تھیں اور اسکے ھونٹ آدھے نیم وا مسکرا رھے تھے طبیب نے نبض پر ھاتھ رکھا اور سلطان کی طرف دیکھ کر سر ھلا دیا زکوئ کی روح اسکے زخمی جسم سے آزاد ھوی تھی، ایک غیر مسلم نے اسلام کی عظمت اور سلطان سے وفاداری کی خاطر جان قربان کردی۔
سلطان صلاح الدین نے کہا" یہ کسی بھی مذھب سے تھی زکوئ کو پورے اعزاز کے ساتھ دفن کرو اس نے اسلام ھی کے لیے جان قربان کی ھے اگر چہ یہ ھمیں دھوکہ بھی دے سکتی تھی "
دربان نے اندر آکر کہا کہ باھر ایک عورت کی لاش آگی ھے جا کر دیکھا گیا تو وہ ایک ادھیڑ عمر عورت کی لاش تھی جاۓ وقوعہ سے دو خنجر ملے تھے اس عورت کو کوی نھی پہچانتا تھا یہ ناجی کے حرم کی ایک ملازمہ تھی جس کو انعام کی لالچ نے زکوئ پر حملہ کرنے پر مجبور کیا رات کو ھی زکوئ کو فوجی اعزاز کے ساتھ سپرخاک کیا گیا اور ملازمہ کی لاش گھڑا کھود کر دفنا دی گی ، دونوں کو نہایت خفیہ انداز سے دفنا دیا گیا ، جب تدفین ھو رھی تھی تو سلطان صلاح الدین نے نہایت اعلی قسم کے آٹھ جوان گھوڑے منگواۓ آٹھ جوان منگواے گیے ان کو علی بن سفیان کی کمان میں ناجی کے ان دو گھوڑ سواروں کے پیچھے دوڑا دیا گیا جو ناجی کا تحریری پیغام عیسای بادشاہ کو پہنچا رھے تھے۔۔۔۔۔۔۔
لیکن____
زکوئ کون تھی۔۔۔۔؟وہ مراکش کی ایک رقاصہ تھی کسی کو بھی معلوم نھی تھا کہ اسکا مذھب کیا تھا وہ مسلمان نھی تھی وہ عیسائ بھی نھی تھی۔۔
جیسا کہ کہا گیا ھے پہلے ھی کہ علی بن سفیان سلطان کے انٹیلی جنس ) جاسوسی اور سراع رسانی ( کا سربراہ تھا اور اسے دوسروں کے راز معلوم کرنے کے کئ ڈھنگ اختیار کرنے پڑتے تھے ، صلاح الدین اسکو اپنے ساتھ مصر لایا تھا یہاں آکر معلوم ھوا کہ یہاں کا سالار ناجی نہایت ھی شیطان اور سازشی ھے اسکے اندرونی حالات معلوم کرنے کے لیے علی نے جاسوسوں کا ایک جال بچھا دیا ۔۔ اس اقدام سے علی بن سفیان کو ایک بات یہ معلوم ھوی کہ ناجی حشیشن ) پہلے زکر ھوا ھے بلیٹ( کی طرح اپنے مخالفین کو زھر اور حسین لڑکیوں سے پھنساتا اور اپنا گرویدہ بناتا اور مرواتا ھے، علی بن سفیان نے تلاش و بسیار کے بعد کسی کی وساطت سے زکوئ کو مراکش سے حاصل کیا اور خود بردہ فروش کا روپ دھار کر ناجی کے ھاتھ بیچ دیا
، زکوئ میں ایسا جادو تھا کہ ناجی اسکو سلطان کے پھنسانے کے لیے استعمال کرنا چاھتا تھا لیکن ناجی خود اس لڑکی کے دام میں پھنس گیا اور پھنسا بھی ایسا کہ زکوئ کے سامنے وہ اپنے سالار سے تمام باتیں کیا کرتا تھا ، ناجی نے زکوئ کو جشن کی رات سلطان صلاح الدین کے خیمے میں بھیج دیا اور اپنی اس فتح پر بھت خوش ھورھا تھا کہ اس نے صلاح الدین کا بت توڑ دیا ھے ، اب وہ اس لڑکی کے ھاتھوں شراب پلا سکے گا اور سلطان کو اپنا گرویدہ بنا لے گا مگر ناجی کے تو فرشتوں کو بھی علم نھی ھوسکا کہ زکوئ سلطان کی جاسوسہ تھی ، زکوئ سلطان کو اسی رات رپورٹیں دیتی رھی اور سلطان سے ھدایت لیتی رھی زکوئ سلطان کے خیمے سے نکل کر دوسری طرف چلی گی تھی جہاں زکوئ کو سر منہ کپڑے میں لپیٹا ایک آدمی ملا تھا وہ آدمی علی بن سفیان تھا جس نے زکوئ کو مزید کچھ اور ھدایت دی تھی ۔ اسکے بعد زکوئ ناجی کے گھر سے باھر نہ نکل سکی جس کی وجہ سے وہ علی کو کوی رپورٹ نہ دے سکی ۔ آخر کار اسکو اسی رات موقع ملگیا اور وہ ایسی رپورٹیں لیکر پہنچی جس کا علم صرف اللہ ھی کو تھا ۔ یہ زکوئ کی بدنصیبی تھی کہ زکوئ کے خلاف حرم میں صرف اسلیئے سازش ھوی کہ اس نے ناجی پر قبضہ جمایا ھے یہ سازش کامیاب رھی اور زکوئ قتل ھوگی لیکن مرنے سے پہلے وہ تمام اطلاعیں سلطان تک پہنچانے میں کامیاب رھی ۔
زکوئ کے مرنے کے کچھ عرصہ بعد وہ معاوضہ جو علی بن سفیان نے زکوئ کے ساتھ طے کیا تھا ۔ سلطان کی طرف سے انعام اور وہ رقم جو علی بن سفیان نے ناجی سے بردہ فروش کی صورت میں ناجی سے وصول کی تھی ، مراکش میں زکوئ کے معذور والدین کو ادا کردئ گئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موت کے اس رات کے ستارے ٹوٹ گیے اور جب صبح ھوئ تو علی بن سفیان آٹھ سواروں کے ساتھ انتہائ تیز رفتاری سے شمال مشرق کی طرف جا رها تھا ، آبادیاں دور پیچھے ھٹتی جا رھی تھیں۔ علی کو معلوم تھا کہ شاہ فرینک کے ھیڈ کوارٹر تک پہنچنےکا راستہ کونسا ھے ۔ رات انھوں نے گھوڑوں کو آرام دیا ۔ یہ عربی گھوڑے تھے جو تھکے ھوے بھی تازہ دم لگتے تھے ۔ دور کجھور کے چند درحتوں میں علی کو 2 گھوڑے جاتے نظر آے ، علی نے اپنے دستے کو راستہ بدلنے اور اوٹ میں ھونے کے لیے ٹیلوں کے ساتھ ساتھ ھو جانے کو کہا ، علی صحرا کا راز دان تھا بھٹکنے کا کوی خدشہ نہ تھا ، علی نے رفتار اور تیز کردی ، اگلے دو سواروں اور اس دستے کے بیچ کوئ 4 میل کا فاصلہ رہ گیا ۔ یہ فاصلہ تو طے ھوا لیکن گھوڑے تھک گیے تھے ، وہ جب کھجوروں کے درختوں تک پہنچے تو دو سوار کوئ دو میل دور مٹی کے ایک پہاڑی کے ساتھ ساتھ جا رھے تھے ، ان کے گھوڑے بھی شاید تھک گیے تھے دونوں سوار اترے اور نظروں سے اوجھل ھوگیے
" وہ پہاڑیوں کے اوٹ میں بیٹھ گیئے ھیں" علی نے کہا اور راستہ بدل دیا ۔ فاصلہ کم ھوتا گیا اور جب فاصلہ کچھ سو گز رھ گیا تو وہ دونوں بندے اوٹ سے باھر آے ، انھوں نے گھوڑوں کے سرپٹ دوڑنے کا شور سن لیا تھا ۔ وہ دوڑ کر غایب ھوے علی بن سفیان نے گھوڑے کو ایڑی لگائ ۔ تھکے ھوۓ گھوڑے نے وفاداری کا ثبوت دیا اور اپنی رفتاری تیز کردی ۔ باقی گھوڑے بھی تیز ھوگیے وہ جب پہاڑی کے اندر گیئے تو دونوں سوار نکل چکے تھے مگر زیادہ دور نھی گیئے تھے ۔ وہ شاید گھبرا بھی گئے تھے آگے ریتیلی چٹانیں بھی تھی ۔ انھیں راستہ نھی مل رھا تھا کھبی دائیں جاتے کھبی بائیں ۔علی بن سفیان نے اپنے گھوڑے ایک صف میں پھیلا دئے اور بھاگنے والوں سے ایک سو گز دور جا پہنچا ۔ ایک تیر انداز نے دوڑتے ھوے گھوڑے سے تیر چلایا جو ایک گھوڑے کے ٹانگ میں جا لگا ۔ گھوڑا بے لگام ھوا۔ تھوڑی سی اور بھاگ دوڑ کے بعد وہ دونوں گھیرے میں آگیئے تھے اور انھوں نے ھتیار ڈال لیئے ، سوال جواب پر انھوں نے جھوٹ بولا اور اپنے آپ کو تاجر ظاھر کرنے لگے ، لیکن جیسے ھی تلاشی لی گی تو وہ تحریری پیغام مل گیا جو ناجی نے انکو دیا۔ ان دونوں کو حراست میں لیا گیا۔ گھوڑوں کو آرام کا وقت دیا گیا ۔ اور پھر یہ دستہ واپس آگیا۔
سلطان صلاح الدین ایوبی بڑی بے چینی سے انکا انتظار کر رھا تھا، دن گزر گیا رات بھی گزرتی جا رھی تھی۔ آدھی رات گزر گی ، ایوبی لیٹ گیا ۔ اور اسکی آنکھ لگ گئ۔ سحر کے وقت دروازے پر ھلکے سے دستک پر ایوبی کی آنکھ کھل گی دوڑ کا دروازہ کھولا تو علی بن سفیان کھڑا تھا اسکے پیچھے آٹھ سوار اور وہ دو قیدی کھڑے تھے ۔ علی اور قیدیوں کو سلطان نے اپنے سونے کے کمرے میں ھی بلالیا علی سلطان کو ناجی کا پیغام سنانے لگا ۔ پہلے تو سلطان کے چہرے کا رنگ ھی پیلا پڑ گیا پھر جیسے خون جوش مار کر سلطان کے چہرے اور آنکھوں میں چڑھ آیا ھو۔ ناجی کا پیغام خاصا طویل تھا ناجی نے صلیبیوں کے بادشاہ فرینک کو لکھا تھا کہ وہ فلاں دن اور فلاں وقت یونانیوں رومیوں اور دیگر صلیبیوں کی بحریہ سے بحیرہ روم کی طرف سے مصر میں فوجیں اتار کر حملہ کیا: حملے کی اطلاع ملتے ھی 50 ھزار سوڈانی فوج بھی امیر مصر کے خلاف بغاوت کردے گی ، مصر کی نیئ فوج ایک ھی وقت میں بغاوت اور حملے کے جواب کی قابل نھی ، اس کے غوض ناجی نے تمام تر مصر یا مصر کے ایک بڑے حصے کی بادشاھت کی شرط رکھی تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے دونوں پیغام لیکر جانے والوں کو قید خانے میں ڈال دیا ، اور اسی وقت نئ مصری فوج سے ایک دستہ بھیج کر ناجی اور ناجی کے نایئبین کو ان کے گھروں میں ھی نظر بند کردیا ۔ ناجی کے حرم کی تمام کی تمام لڑکیاں آزاد کردی گئ ، ناجی کے تمام حزانے کو سرکاری خزانے میں ڈال کر سرکاری خ بنادیا گیا اور یہ تمام کاروائ خفیہ رکھی گئ، سلطان صلاح الدین ایوبی نے علی کی مدد سے اس خط میں جو پکڑا گیا تھا حملے کی تاریخ مٹا کر اگلی تاریخ لکھ دی۔ دو زھین فوجیوں کو شاہ فرینک کی طرف روانہ کیا گیا، ان دونوں فوجیوں کو یہ ظاھر کرنا تھا کہ وہ ناجی کے پیامبر ھیں ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے انکو روانہ کر کہ سوڈانی فوج کو مصری فوج میں مدغم کرنے کا حکم روک دیا ،
آٹھویں روز وہ دونوں پیامبر واپس آگیے اور شاہ فرنک کا جوابی خط جو اس نے ناجی کے نام لکھا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی کو دیا ، شاہ فرینک نے لکھا تھا کہ حملے کی تاریخ سے دو دن قبل سوڈانی فوج بغاوت کردیں ، تاکہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو صلیبیوں کا حملہ روکنے کی ھوش تک نہ رھے ، علی بن سفیان نے ان دو پیامبروں کو سلطان صلاح الدین ایوبی کی اجازت سے نظر بند کردیا ، یہ نظربندی باعزت تھی، جس میں دونوں کے آرام اور بہترین کھانوں کا خاص خیال رکھا گیا ، یہ ایک احتیاطی تدبیر تھی کہ یہ اھم راز فاش نہ ھوں ، سلطان صلاح الدین ایوبی نے بحیرہ روم کے ساحل پر اپنی فوج کو چھپا لیا جہاں صیلبیوں نے لنگرانداز ھوکر اپنی فوجیں اتارنی تھیں ، حملے میں ابھی کچھ دن باقی تھے۔۔
ایک مورخ سراج الدین نے لکھا ھے کہ سوڈانی فوج نے شاہ فرینک کے حملے سے پہلے ھی بغاوت کردی تھی ، جو سلطان صلاح الدین ایوبی نے طاقت سے نھی بلکہ پیار ڈپلومیسی اور اچھے حسن سلوک سے دبل لی تھی ، بغاوت کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ باغیوں کو اپنا سالار ناجی کہی بھی نظر نھی آیا اور اسکا کوی نائب بھی سامنے نھی آیا،،،،، وہ سب تو یدق میں تھے ،،
مگر ایک اور مورخ ہیتاچی لکھتا ھے " سوڈانی فوج نے حملے کے بھت بغاوت کی تھی " تاھم یہ دونوں مورخ باقی تمام واقعات پر متفق نظر آتے هیں دونوں نے لکھا ھے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے ناجی اور اسکے نایئبین کو سزا میں موت کی سزائیں دیں کر رات میں ھی گمنام قبروں میں دفن کرادیا "
ان دونوں مورخوں اور ایک اور مورخ " لین پول" نے بھی صلیبیوں کے بحریہ کے اعداد و شمار ایک جیسے ھی لکھے ھے وہ لکھتے ھے کہ خط میں دی ھوئ تاریخ کے عین مطابق صلیبیوں کی بحریہ جس میں فرینک کی یونان کی روم کی اور سسلی کی بحریہ شامل تھی ، متحدہ کمان میں بحریہ روم میں نمودار ھوی ، مورخین کے مطابق اس بحریہ میں جنگی جہازوں کی تعداد 150 تھی ، اسکے علاوہ 1 جنگی جہاز بھت بڑے تھے ان میں مصر میں اتارنے کے لیے فوجیں تھی اس فوج کا صلیبی کمانڈر ایمئرک تھا جن بادبانی کشتیوں میں رسد تھی اسکی ٹھیک تعداد کا اندازہ نھی کیا جاسکتا ، جہاز دو قطاروں میں آرھے تھے۔۔۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے دفاع کی کمانڈ اپنے پاس رکھی ، سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کے بحریہ کو مزید قریب آنے دیا دام بچھایا جا چکا تھا۔ سب سے پہلے بڑے جہاز لنگر انداز ھوے ھی تھے کہ ان پر اچانک آگ برسنے لگی ، یہ منجنیقوں سے پھینکے ھوے شعلے تھے اور آگ کے گولے اور ایسے تیر بھی جن کے پچھلے حصے جلتے ھوے شع کے مانند تھے ، مسلمانوں کے اس برساتی ھوئ آگ نے صلیبیوں کے جہازوں کے بادبانوں کو آگ لگا دی ، جہاز لکڑی کے تھے جو فورا جل اٹھے ، ادھر سے مسلمانوں کے چھپے ھوے جہاز آگیئے انھوں نے بھی آگ ھی برسائ ، یوں معلوم ھو رھا تھا جیسے بحیرہ روم جل رھا ھوں، صلیبیوں کے جہاز موڑ کر ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے اور ایک دوسرے کو خود ھی آگ لگانے لگے جہازوں سے صلیبی فوج سمندر میں کھود رھی تھی ان میں سے جو سپاھی زندہ ساحل پر آرھے تھے وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے فوجیوں کے تیروں کا نشانہ بن رھے تھے
ادھر شیر اسلام نورالدین زنگی نے فرینک کی سلطنت پر حملہ کردیا فرینک نے اپنی فوج مصر خشکی کے زریعے روانہ کردی تھی ، فرینک اس وقت سمندر میں جنگی بیڑے کے ساتھ تھا جب اسکو اپنی سطنت پر حملے کی اطلاع ملی تو وہ بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر بھاگ گیا لیکن جب وہ وھاں پہنچا،،،تو،،،،،،،،،،وھاں کی دنیا بدل گی تھی،،،
بحیرہ روم میں صلیبیوں کا متحدہ بیڑہ تباہ ھوچکا تھا اور فوج جل اور ڈوب کر ختم ھورھی تھی ، صلیبیوں کا ایک کمانڈر ایملرک بچ گیا اس نے ھتیار ڈال کر صلح کی درخواست کی جو بھت بڑی رقم کے غوض منظور کی گی ، یونانیوں اور سسلی کے کچھ جہاز بچ گیئے تھے ، سلطان صلاح الدین ایوبی نے انکو جہاز واپس جانے کی اجازت دی مگر راستے میں ھی ایسا طوفان آیا کہ تمام بچے کچھے جہاز وھی غرق ھوے
١٩دسمبر ١١٦٩ کے روز صلیبیوں نے اپنی شکست پر دستخط کئے اور ، سلطان صلاح الدین ایوبی کو تاوان ادا کردیا بیشتر مورخین اور ماھرین حرب و ضرب نے ، سلطان صلاح الدین ایوبی کے اس فتح کا سہرہ ، سلطان صلاح الدین ایوبی کے انٹیلی جنس کے سر باندھا ھے ، رقاصہ زکوئ کا زکر اس دور کے ایک مراکشی وقائع نگار اسد السدی نے کیا ھے ، اور علی بن سفیان کا تعارف بھی اسی وقائع نگار کی تحریر سے ھوا ھے ، یہ ایک ابتدا ھے۔ ، سلطان صلاح الدین ایوبی کی زندگی اب پہلے سے بھی زیادہ خطروں میں گهر رھی ھے۔۔جاری ہے۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں