انسان اور دنیا کی عجیب حقیقت
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک کا ایک بادشاہ تھا اُس نے ایک نہایت ہی خوبصورت باز پال رکھا تھا جس سے وہ شکار کا کام لیتا تھا
باز اُس کا بڑا وفادار اور اُس کے اشاروں پر چلنے والا تھا ایک دن وہ گم ہوگیا تلاش کے باوجود بھی نا ملا بادشاہ نے ملک بھر میں ڈنڈھورا پٹوا دیا باز کی تلاش شروع ہوگئی اُدھر باز ایک بڑھیا کی جھونپڑی میں چلا گیا بُڑھیا ناسمجھ تھی اُس نے باز کو دیکھا اور کہا تو کن ناسمجھ لوگوں کے ہتھے چڑ گیا ہے جنہوں نے تیرے پروں کی تراش کی نا تیرے ناخن کاٹے اور نا تیری ٹیڑی چونچ کو سیدھا کیا
سو اُس نے باز کی چونچ پروں اور ناخن کو کاٹ دیا اور اسے بالکل بیکار کر دیا بادشاہ کے آدمی باز کو ڈنھوٹتے ہوئے بڑھیا کی جھونپڑی تک پہنچے اور باز کو لے کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کرکے سارا ماجرا بیان کیا بادشاہ باز کی یہ حالت دیکھ کر بہت غمگین ہوا اور باز سے کہنے لگا تیرا یہی علاج تھا جو بُڑھیا نے کردیا ہے تونے اپنے مالک سے جو تیری ہر ضرورت کو بہتر سمجھتا اور تیرا خیال رکھتا تھا دغہ کیا اور ایک ایسی جگہ گیا جہاں نا تو کوئی تیری ضرورت کو سمجھتا تھا اور نا تیرا خیال رکھ سکتا تھا بس ذلّت تو تیرا مقدّر ہونی ہی تھی سو وہ ہوئی
مولانا روم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
باز سے مراد انسان ہے اور بُڑھیا سے مراد دنیا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں