داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر 6
نصف شب کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے خیمے میں داخل ھوا جو ناجی نے نصب کیا تھا اندر اس نے قالین بچھا دیئے تھے پلنگ پر چیتے کی کهال کی مانند پلنگ پوش تھا فانوس جو رکھوایا تھا اسکی ھلکی نیلی روشنی صحرا کی شفاف چاندنی کی مانند تھی اور اندر کی فضا عطر بیز تھی خیمے کے اندر ریشمی پردے آویزاں تھے ناجی سلطان صلاح الدین ایوبی کے ساتھ خیمے میں اندر گیا اور کہا " اسے زرا سی دیر کے لیے بهیج دوں
میں وعدہ خلافی سے بھت ڈرتا ھوں،،،،، " بھیج دو " سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا
اور ناجی ھرن کی طرح چوکڑیاں بھرتا خیمے سے باھر گیا ، تھوڑا ھی وقت گزرا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے محافظوں نے ایک رقاصہ کو اسکے خیمے کی طرف آتے دیکھا
خیمے کے ھر طرف مشعلیں روشن تھیں روشنی کا یہ انتظام علی بن سفیان نے کرایا تھا کہ رات کے وقت محافظ گردو پیش میں اچھی طرح سے دیکھ سکیں رقاصہ قریب آی تو انھوں نے اسے پہچان لیا انھوں نے اسے رقص میں دیکھا تھا یہ وھی لڑکی تھی جو ٹوکرے میں سے نکلی تھی وہ زکوئ تھی وہ رقص کے لباس میں تھی یہ لباس توبہ شکن تھا ، محافظوں کے کمانڈروں نے اسے روک لیا زکوئ نے بتایا کہ اسے امیر مصر نے بلوایا ھے کمانڈر نے اسے بتایا کہ یہ ان امیروں میں سے نھی کہ یہ تم جیسی فاحشہ لڑکیوں کے ساتھ راتیں گزارے " آپ ان سے پوچھ لیں میں بن بلاے آنے کی جرات نھی کر سکتی "
" انکا بلاوا تم کو کس نے دیا " کمانڈر نے پوچھا
" سالار ناجی نے کہا کہ تمیھیں امیر مصر بلا رھے ھے آپ کہتے ھیں تو میں چلی جاتی ھوں امیر نے جواب طلبی کی تو تم خود بھگت لینا " زکوی نے کہا کمانڈر تسیلم نھی کر سکتا تھا کہ امیر مصر نے ایک رقاصہ کو اپنے خیمے میں بلوایا ھے وہ ایوبی کے کردار سے واقف تھا وہ اسکے اس حکم سے بھی واقف تھا کہ ناچنے گانے والیوں سے تعلق رکھنے والے کو 100 درے بھی مار جائین گے ، کمانڈر شش و پنج میں پڑ گیا ۔ سوچ سوچ کر اس نے ھمت کی اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے میں اندر چلا گیا ایوبی اندر ٹہل رھا تھا کمانڈر نے ڈرتے ڈرتے کہا " باھر ایک رقاصہ کھڑی ھے کہتی ھے کہ حضور نے اسے بلوایا ھے " اسے اندر بھیج دو" سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا ۔ کمانڈر باھر نکلا اور زکوئ کو اندر بھیج دیا ۔۔۔ سپاھیوں کو توقع تھی کہ ان کا امیر اور سالار اس لڑکی کو باھر نکال لیے گا وہ سب سلطان صلاح الدین ایوبی کی گرجدار آواز سننے کے لیے تیار تھے لیکن ایسا کچھ نھی ھوا رات گزرتی جارھی تھی اندر سے دھیمی دھیمی باتوں کی آوازیں آرھی تھی ، محافظ دستے کا کمانڈر بے قراری کے انداز میں ٹہل رھا تو ایک سپاھی نے کہا" کیا یہ حکم صرف ھمارے لیے ھے کہ کسی فاحشہ کے ساتھ تعلق رکھنا جرم ھے "
" ھاں حکم صرف ماتحتوں اور قانون صرف رعایا کے لیے ھوتا ھے " کمانڈر نے کہا
امیر مصر کو درے نھی لگاے جاسکتے۔۔؟'"
" بادشاھوں کا کوی کردار نھی ھوتا سلطان صلاح الدین ایوبی شراب بھی پیتا ھوگا ھم پر جھوٹی پارسائ کا رعب جمایا جاتا ھے" کمانڈر نے کہا
انکی نگاھوں میں صلاح الدین کا جو بت تھا وہ ٹوٹ گیا تھا اس بت میں سے ایک عربی شہزادہ نکلا جو عیاش تھا پارسائ کے پردے میں گناہ کا مرتکب ھو رھا تھا،، ناجی بھت خوش تھا، سلطان صلاح الدین ایوبی کی خوشنودی کے لیے اس نے شراب سونگی بھی نھی تھی وہ اپنے خیمے میں بیٹھا مسرت سے جھوم رھا تھا اسکے سامنے اسکا نایب سالار اوروش بیٹھا ھوا تھا " اسے گیے بھت وقت ھو گیا ھے معلوم ھوتا ھے ھمارا تیر سلطان صلاح الدین ایوبی کے دل میں اتر گیا ھے " اوروش نے کہا۔۔۔۔" ھمارا تیر خطا کب گیا تھا اگر خطا جاتا بھی تو اب تک ھمارے آجاتا" ناجی ے قہقہ لگا کر کہا ' تم ٹھیک کہتے ھوں ۔ زکوئ انسان کے روپ میں ایک طلسم ھے معلوم ھوتا ھے یہ لڑکی حشیشن کے ساتھ رہ ھے ورنہ سلطان صلاح الدین ایوبی جیسا بت کھبی نھی توڑ سکتی۔" اوروش نے کہا
" میں نے اسے جو سبق دیئے تھے وہ حشیشن کے کھبی وھم و گمان میں بھی نہ آے ھونگے اب سلطان صلاح الدین ایوبی کے حلق سے شراب اترانی باقی رہ گی ھے " ناجی نے کہا ۔ ناجی کو باھر آھٹ سنائ دی ناجی نے دور سے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے کی طرف دیکھا ، پردے گرے ھوے تھے اور سپاھی کھڑے تھے اس نے اندر جا کر اوروش سے کہا" اب میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ھوں کہ میری زکوئ نے بت توڑ ڈالا ھے"٭٭٭٭٭٭٭
رات کا آخری پہر تھا جب زکوئ سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے سے باھر نکلی ناجی کے خیمے میں جانے کے بجاے وہ دوسری طرف چلی گی راستے میں ایک آدمی کھڑا تھا جو سر سے پاؤں تک ایک ھی لبادے میں چھپا ھوا تھا اس نے دھیمی سی آواز میں زکوئ کو پکارا وہ اس آدمی کے پاس چلی گی وہ اسکو خیمے میں لے گیا بھت دیر بعد وہ اس خیمے سے نکلی اور ناجی کے خیمے کا رخ کیا ناجی اس وقت تک جاگ رھا تھا اور کئ بار سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے کی طرف باھ نکل کر دیکھ چکا تھا کہ زکوئ نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو پھانس لیا ھے اور اسے آسمان کی بلندیوں سے گھسیٹ کر ناجی کی پست زھنیت میں لے آی ،،،" اوروش رات بھت ھوی ھے وہ ابھی تک واپس نھی آی" ناجی نے کہا ۔۔۔۔۔" وہ اب آے گی بھی نھی ، ایسے ھیرے کو کوی شہزادہ واپس نھی کرتا وہ اسے اپنے ساتھ لے جاے گا تم نے اس پر بھی غور کیا ھے۔۔؟" اوروش نے کہا
" نھی میں نے اپنی چال کا یہ پہلو تو سوچا ھی نھی تھا " ناجی نے کہا
کیا یہ نھی ھوسکتا کہ امیر مصر زکوئ کے ساتھ شادی کر لیں اس صورت میں لڑکی ھمارے کام کی نھی رھے گی" اوروش نے کہا ۔" وہ ھے تو ھوشیار ۔۔۔ مگر رقاصہ کا کیا بھروسہ ،، وہ رقاصہ کی بیٹی ھے اور تجربہ کار بھی۔۔۔۔ دھوکہ بھی دے سکتی ھے۔۔" ناجی نے کہا ،،، وہ گہرئ سوچ میں تھا کہ زکوئ خیمے میں داخل ھوی،اس نے ھنس کر کہا " اپنے امیر مصر کا وزن کرو لاؤ اتنا سونا آپ نے میرا یہی انعام مقرر کیا تھا نا۔۔؟"
" پہلے بتاو ھوا کیا" ناجی نے بے قراری سے کہا ۔۔۔۔۔ " جو آپ چاھتے تھے ۔۔ آپکو یہ کس نے بتایا کہ صلاح الدین پتھر ھے فولاد ھے اور وہ مسلمانوں کے اللہ کا سایہ ھے " اس نے زمین پر پاؤں کا ٹھڈا مارکر کہا " وہ اس ریت سے زیادہ بے بس ھے جس کو ھوا کے جھونکے اڑاتے پھرتے ھے " زکوی نے کہا۔۔۔۔۔۔۔ "
یہ تمھارے حسن کا جادو اور زبان کی طلسم نے اسے ریت بنایا ورنہ یہ کمبخت چٹان ھے"
اوروش نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ھاں چٹان تھا لیکن اب رتیلا ٹیلا بھی نھی " زکوی نے کہا
" میرے متعلق کوی بات ھوی"؟ ناجی نے کہا ۔۔۔۔۔۔" ھاں پوچھ رھا تھا کہ ناجی کیسا انسان ھے میں نے کہا کہ مصر میں اگر آپکو کسی پربھروسہ کرنا چاھیے تو وہ ناجی ھے اس نے کہا کہ تم کس طرح ناجی کو جانتی ھو میں نے کہا کہ وہ میرے باپ کے گہرے دوست ھے ھمارے گھر گیے تھے اور کہہ رھے تھے کہ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا غلام ھوں مجھے سمندر میں کودنے کا حکم دینگے تو میں کود جاونگا پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ تم باعصمت لڑکی ھوں، میں نے کہا میں آپکی لونڈی ھوں آپکا ھر حکم سر آنکھوں پر ۔ کہنے لگا کہ کچھ دیر میرے پاس بیٹھو میں بیٹھ گی ، پھر وہ اگر پتھر تھا تو موم بن گیا اور میں نے موم کو اپنے سانچے میں ڈال لیا ، اس سے رخصت ھونے لگی تو اس نے مجھ سے معافی مانگی ، کہنے لگا میں نے زندگی میں پہلا گناہ کیا ھے ، میں نے کہا یہ گناہ نھی آپ نے میرے ساتھ کوی دھوکہ نھی کیا زبردستی نھی کی مجھے بادشاھوں کی طرح حکم دے کر نھی بلوایا، میں خود آئ تھی اور پھر بھی آونگی۔" زکوئ نے ھر بات اس طرح کھل کر سنائ جس طرح اسکا جسم عریاں تھا ناجی نے جوش مسرت سے اسے اپنے بازوؤں میں لیں لیا اوروش زکوئ کو خراج تحسین اور ناجی کو مبارک باد دے کر خیمے سے نکل گیا ۔
صحرا کی اس پراسرار رات کی کوکھ سے جس صبح نے جنم لیا وہ کسی بھی صحرائ صبح سے مختلف نھی تھی مگر اس صبح کے اجالے نے اپنے تاریک سینے میں ایک راز چھپا لیا تھا جس کی قیمت اس سلطنت اسلامیہ جتنی تھی جس کے قیام اور استحکام کا خواب سلطان صلاح الدین ایوبی نے دیکھا اور اس کی تعبیر کا عزم لیکر جوان ھوا ، گزشتہ رات اس صحرا میں جو واقعہ ھوا اسکے 2 پہلو تھے ایک پہلو سے ناجی اور اوروش واقف تھے دوسرے سے سلطان صلاح الدین ایوبی کا محافظ دستہ واقف تھا اور سلطان صلاح الدین ایوبی اسکا سراغرس رساں اور جاسوس علی بن سفیان اور زکوئ تین ایسے افراد تھے جو اس واقعے کے دونوں پہلوں سے واقف تھے ، سلطان صلاح الدین ایوبی اور اسکے سٹاف کو ناجی نے نہایت ھی شان اور عزت کے ساتھ رخصت کیا ، سوڈانی فوج دو رویہ کھڑی " سلطان صلاح الدین ایوبی زندباد" کے نعرے لگا رھی تھی، سلطان صلاح الدین ایوبی نے نعروں کے جواب میں ھاتھ لہرانے مسکرانے اور دیگر تکلفات کی پراہ نھی کی ناجی سے ھاتھ ملایا اور اپنے گھوڑے کو ایڑی لگای اسکے پیچھے اپنے محافظ اور دیگرے سٹاف کو بھی اپنے گھوڑے دوڑانے پڑے
دوڑانے پڑے اپنے مرکزی دفتر پہنچ کر وہ علی بن سفیان اور اپنے نایب کو اندر لے گیا اور دروازہ بند کردیا وہ سارا دن کمرے میں بندے رھے سورج غروب ھوا تاریکی چھا گی کمرے کے اندر کھانا تو دور پانی بھی نھی گیا ، رات خاصی گزر چکی تھی جب وہ تینوں کمرے سے نکلے اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ھوے علی بن سفیان ان سے الگ ھوا تو محافظ دوستوں کے ایک کمانڈر نے اسے روکا اور کہا۔۔۔
" محترم ۔۔! ھمارا فرض ھے کہ حکم مانے اور زبانیں بند رکھیں لیکن میرے دستے میں ایک مایوسی پھیل گی ھے خود میں بھی اسکا شکار ھوا ھوں"
" کیسی مایوسی " علی بن سفیان نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔
کمانڈر نے کہا "محافظ کہتے ھیں کہ فوج کو اگر شراب پینے کی اجازت ھے تو ھمیں اس سے کیوں منع کیا گیا ھے اگر آپ میری شکایت کو گستاخی سمجھیں تو سزا دے دیں لیکن میری شکایت سنیں ھم اپنے امیر کو اللہ کا برگزیدہ انسان سمجھتے تھے اور اس پر دل و جان سے فدا تھے مگر رات،،،،،،"
" مگر رات کو اسکے خیمے میں ایک رقاصہ گی" علی بن سفیان نے کمانڈر کی بات مکمل کرتے ھوے کہا "
تم نے کوی گستاخی نھی کی ، گناہ امیر کریں یا غلام سزا میں کوی فرق نھی ، گناہ بہرحال گناہ ھے میں یقین دلاتا ھوں آپکو کہ امیر مصر اور رقاصہ کے پچھلی رات کی ملاقات میں گناہ کا کوی عنصر نھی کوی تعلق نھی ،، یہ کیا تھا۔۔؟ ابھی میں تمکو نھی بتاونگا آھستہ آھستہ وقت گزرتے ھوے تم سب کو پتہ چل جاے گا کہ رات کو کیا ھوا تھا " علی بن سفیان نے کمانڈر کے کندھے پر ھاتھ رکھتے ھوے کہا میری بات غور سے سنو عامر بن صالح ۔ تم پرانے عسکری ھوں اچھی طرح جانتے ھو کہ فوج اور فوج کے سربراہوں کے کچھ راز ھوتے ھے جن کی حفاظت ھم سب کا فرض ھے رقاصہ کا امیر مصر کے خیمے میں جانا بھی ایک راز ھے اپنے جانبازوں کو شک میں نہ پڑنے دو اور کسی سے زکر تک نہ ھو کہ رات کو کیا ھوا تھا" علی بن سفیان نے کہا
یہ کمانڈر پرانا تھا اور علی بن سفیان کی قابلیت سے آگاہ تھا سو اس نے اپنے دستے کے تمام شکوک رفو کیئے اگلے روز سلطان صلاح الدین ایوبی دوپہر کا کھانا کھا رھے تھے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو اطلاع دی گی کہ ناجی آے ھے ، سلطان صلاح الدین ایوبی کھانے سے فارغ ھوکر ناجی سے ملے ، ناجی کا چہرہ بتارھا تھا کہ غصہ میں ھے اور گھبرایا ھوا ھے اس نے ھکلاتے ھوے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" قابل صدا احترام امیر مصر۔۔۔کیا یہ حکم آپ نے جاری کیا ھے کہ سوڈانی فوج کی پچاس ھزار نفری مصر کی اس فوج میں مدغم کردی جاے جو حال ھی میں تیار ھوی ھے "
" ھاں ناجی میں نے کل سارا دن اور رات کا کچھ حصہ صرف کر کہ اور بڑی گہری سوچ و بچار کے بعد یہ فیصلہ تحریر کیا ھے کہ جس فوج کے تم سالار ھوں اسے مصر کی فوج میں اس طرح مدغم کردیا جاے کہ ھر دستے میں سوڈانیوں کی نفری صرف دس فیصد ھو اور تمھیں یہ حکم بھی مل چکا ھوگا کہ اب تم اس فوج کے سالار نھی ھوگے تم فوج کے مرکزی دفتر میں آجاوگے " سلطان صلاح الدین ایوبی نے تحمل سے جواب دیا،
" عالی مقام مجھے کس جرم کی سزا دی جارھی ھے" ناجی نے کہا
" اگر تمھیں یہ فیصلہ پسند نھی تو فوج سے الگ ھو جاو" سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا
"معلوم ھوتا ھے میرے خلاف سازش کردی گی ھے آپ کو بلند دماغ اور گہری نظر سے چھانبین کرنی چاھیے مرکز میں میرے بھت سے دشمن ھیں" ناجی نے کہا
: " میرے دوست میں نے یہ فیصلہ صرف اسلیئے کیا کہ کہ میری انتظامیہ اور فوج سے سازشوں کا خطرہ همیشہ کے لیے نکل جاۓ اور میں نے یہ فیصلہ اسلیئے کیا ھے کہ کسی کا عہدہ کتنا ھی کیوں نہ بلند ھوں اور کتنا ھی ادنیٰ کیوں نہ ھوں وہ شراب نہ پیئے ھلڑ بازی نہ کریں اور فوجی جشنوں میں ناچ گانے نہ ھوں" صلاح الدین ایوبی نے کہا۔
" لیکن عالی جاہ۔۔۔ میں تو حضور سے اجازت لی تھی" ناجی نے کہا
" میں نے شراب اور ناچ گانے کی اجازت صرف اسلیئے دی تھی کہ اس فوج کی اصل حالت میں دیکھ سکوں جسے تم ملت اسلامیہ کا فوج کہتے ھوں ، میں پچاس ھزار نفری کو برطرف نھی کرسکتا مصری فوج میں اس کو مدغم کر کہ اسکے کردار کو سدھار لونگا اور یہ بھی سن لو کہ ھم میں کوی مصری سوڈانی شامی عجمی نھی ھے ھم سب مسلمان ھے ھمارا جھنڈا ایک اور مذھب ایک ھے " سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا
" امیر عالی مرتبت نے یہ تو سوچا ھوتا کہ میری کیا عزت رہ جاے گی" ناجی نے کہا
"جس کے تم اھل ھوں، اپنی ماضی پر ھی نظر ڈالو ضروری نھی کہ اپنی کارستانیوں کی داستانیں مجھ سے ھی سنو فورا واپس جاو اور اپنی فوج کی نفری سامان جانور سامان خورد و نوش وغیرہ کے کاغزات تیار کر کہ میرے نایب کے حوالے کرو سات دن کے اندر اندر میرے حکم کی تعمیل ضروری ھونی چاھیے" سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا
ناجی نے کچھ کہنا چاہ لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی ملاقات کے کمرے سے باھر نکل گیے .............
یہ بات ناجی کے خفیہ حرم میں پہنچ گی تھی کہ زکوئ کو شاہ مصر نے رات بھر شرف باریابی بخشا ھے، زکوئ کے خلاف حسد کی آگ پہلے ھی پھیلی ھوی تھی، اسے آے ابھی تھوڑا ھی عرصہ گزرا تھا لیکن آتے ھی ناجی نے اسکو اپنے پاس رکھا تھا ، اسے زرا سی دیر کے لیے بھی اس حرم میں جانے نھی دیتا جہاں ناجی کی دلچسپ ناچنے والی لڑکیاں رھتی تھیں زکوی کو اس نے الگ کمرہ دیا تھا، انھیں یہ تو معلوم نہ تھا کہ ناجی زکوی کو صلاح الدین کو موم کرنے کی ٹرینگ دے رھا ھے اور کس بڑے تخریبی منصوبے پر کام کر رھا ھے ، یہ رقاصایئں بس یہی دیکھ کر جل بھن گی تھیں کہ زکوئ نے ناجی پر قبضہ کرلیا تھا،اور ناجی کے دل میں ان کے خلاف نفرت پیدا کردی ھے ، حرم کی دو لڑکیاں زکوئ کو ٹھکانے لگانے کا سوچ رھی تھیں، اب انھوں نے دیکھا کہ زکوئ کو امیر مصر نے بھی رات بھر اپنے خیمے میں رکھا تو وہ پاگل ھو گئ، اسکو ٹھکانے لگانے کا واحد طریقہ قتل تھا، قتل کے دو ھی طریقے ھو سکتے تھے زھر یا کراے کے قاتل۔ جو زکوئ کو سوتے ھوے ھی قتل کردیں،دونوں ھی طریقے ناممکن لگ رھے تھے کیونکہ زکوئ باھر نھی نکلتی تھی اور اندر جانے تک اسکو رسائ کا کوی زریعہ نھی تھا،
ان دونوں نے حرم کی سب سے زیادہ ھوشیار چالاک ملازمہ کو اعتماد میں لیا تھا ، اسے انعام و اکرام دیتی رھتی تھیں، جب حسد کی انتہا نے انکی آنکھوں میں خون اتار دیا تو انھوں نے اس ملازمہ کو منہ مانگا انعام دے کر اپنا مدعا بیان کیا ، یہ ملازمہ بڑی خرانٹ اور منجھی ھوی عورت تھی، اس نے کہا کہ سالار کی رھایئشگاہ میں جاکر زکوئ کو زھر دینا مشکل نھی، موقعہ محل دیکھ کر اسکو خنجر سے قتل کیا جاسکتا ھے اس کے لیے وقت چاھیے اس نے وعدہ کیا کہ وہ زکوئ کی نقل حرکت پر نظر رکھے گی ھوسکتا ھے کوی موقعہ مل جاے ، اس جرائم پیشہ عورت نے یہ بھی کہا کہ اگر موقعہ نھی ملا تو حشیشن کی مدد لی جا سکتی ھے مگر وہ معاوضہ بھت زیادہ لیتے ھیں دونوں لڑکیوں نے اسکو یقین دلایا کہ وہ زیادہ سے زیادہ معاوضہ دے سکتی ہیں
-------------------------- جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں