داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر 3
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
بھت دیر تک وہ سلطان کے خلاف باتیں کرتے رھے اور اس مسلئے پر غور کرتے رھے کہ اگر سلطان نے ناجی کی بے تاج بادشاھی کے لیے خطرہ پیدا کردیا تو وہ کیا کرینگے، ادھر سلطان اپنے نائیبین کو سامنے بٹھاے یہ بات ذھن نشین کرارھا تھا کہ وہ یہاں حکومت کرنے نھی آیا اور نہ ھی کسی کو حکومت کرنے دے گا اس نے انھیں کہا کہ اسکو جنگی طاقت کی ضرورت ھے اور اس نے یہ بھی کہا کہ اسکو یہاں کا فوجی ڈھانچہ بلکل پسند نھی آیا 50 ھزار باڈی گارڈز سوڈانی ھیں، ھمیں ملک کے ھر باشندے کو یہ حق دینا چاھیے کہ وہ ھمارے فوج میں سے آۓ اپنے جوھر دکھاے اور مال غنیمت میں سے اپنا حصہ وصول کریں یہاں کے عوام کا معیار زندگی اسی طرح بلند ھوسکتا ھے میں نے ناجی کو کہہ دیا ھے کہ وہ عام بھرتی شروع کردیں۔
" کیا آپکو یقین ھے کہ وہ آپکے حکم کی تعمیل کرے گا" ایک ناظم نے اس سےپوچھا۔
" کیا وہ حکم کی تعمیل سے گریز کریے گا"
" وہ حکم کی تعمیل سے گریز کر سکتا ھے وہ حکم کی تعمیل نھیں اپنی منواتا ھے فوجی امور اسکے سپرد ھے " ناظم نے جواب دیا
سلطان ایوبی خاموش ھوا جیسے اس پر کچھ اثر ھوا ھی نھی ھو۔اس نے سب کو رخصت کردیا اور صرف علی بن سفیان کو اپنے ساتھ رکھا، علی بن سفیان جاسوس اور جوابی جاسوسی کا ماھر تھا، اسے سلطان بغداد سے اپنے ساتھ لایا تھا، وہ ادھیڑ عمر آدمی تھا اداکاری، چرب زبانی اور بھیس بدلنے کا ماھر تھا، اس نے جنگوں میں جاسوسی کی بھی اور جاسوسوں کو پکڑا بھی تھا، اسکا اپنا ایک گروہ تھا جو آسمان سے تارے بھی توڑ لاسکتا تھا، سلطان کو جاسوسی کی اھمیت سے واقفیت تھی۔ فنی مہارت کے علاوہ علی بن سفیان میں وھی جذبہ تھا جو سلطان ایوبی میں تھا،
" تم نے سنا علی یہ لوگ کہتے ھیں کہ ناجی کسی سے حکم نھی لیتا اپنی منواتا ھے"
صلاح الدین نے کہا
" ھاں میں نے سن لیا ھے اگر میں چہرے پہچاننے میں غلطی نھی کرتا تو میری راۓ میں باڈی گارڈز کا یہ کمانڈر جس کا نام ناجی ھے ناپاک زھنیت کا مالک ھے اس کے مطابق میں پہلے سی ھی کچھ جانتا ھوں یہ فوج جو ھمارے خزانے سے تنخواہ لے رھی ھے دراصل ناجی کی ذاتی فوج ھے اس نے حکومتی حلقوں میں ایسی ایسی سازشیں کی ھے جس نے حکومتی ڈھانچے کو بے حد کمزور کردیا ھے، آپکا یہ فیصلہ بلکل بجا ھے کہ فوج میں ھر خطے کے سپاھی ھونے چاھیے میں آپکو تفصیلی ریپورٹ دونگا۔ مجھے شک ھے کہ سوڈانی فوج اسکی وفادار ھے ھماری نھیں۔ آپکو اس فوج کی ترتیب اور تنظیم بدلنی پڑے گی۔ یا ناجی کو سبگدوش کرنا پڑے گا" علی بن سفیان نے کہا
" میں اپنے ھی صفوں میں اپنے دشمن پیدا نھیں کرنا چاھتا ناجی اپنے گھر کا بھیدی ھے اسکو سبکدوش کرکے دشمن بنالیادانشمندی نھی ھماری تلواریں غیروں کے لیے ھیں اپنوں کا خون بہانے کے لیے نھیں میں ناجی کی زھنیت کو پیار اور محبت سے بدل سکتا ھوں تم اس فوج کی زھنیت معلوم کرنے کی کوشیش کرو اور مجھے ٹھیک ریپورٹ دو کہ فوج کہاں تک ھماری وفادار ھے۔" سلطان صلاح الدین نے کہا۔
مگر ناجی اتنا کچا نھی تھا اسکی زھنیت پیار اور محبت کے بکھیڑوں سے آزاد تھی اسے اگر پیار تھا تو اپنے اقتدار اور شیطانیات کے ساتھ، اس لحاظ سے وہ پتھر تھا، مگر جسے وہ اپنے جال میں پھنسا لینا چاھتا تھا اسکے سامنے موم بن جاتا تھا اس نے سلطان صلاح الدین کے سامنے یہی رویہ اختیار کیا یہاں تک کہ وہ سلطان صلاح الدین کے سامنے بھیٹتا بھی نھیں ، ھاں میں ھاں ملاتا چلا جاتا ، اس نے مصر کے مختلف حصوں سے سلطان صلاح الدین کے حکم کے مطاب فوج کے لیے عام بھرتی شروع کی تھی اگر چہ یہ کام اسکے مرضی کے خلاف تھا، دن گزرتے گیے سلطان صلاح الدین اسے کچھ کچھ پسند کرنے لگا تھا ناجی نے سلطان صلاح الدین کو یقین دلایا تھا کہ سوڈانی فوج اسکے حکم کی منتظر ھے اور یہ قوم کی توقعات پر پورا اترے گی ناجی دو تین بار سلطان صلاح الدین کو کہہ چکا تھا کہ سوڈانی فوج باڈی گارڈز کی طرف سے اسے دعوت دینا چاھتی ھے اور فوج اس کے اعزاز میں جشن منانے کو بیتاب ھے لیکن سلطان صلاح الدین یہ دعوت مصروفیات کی وجہ سے قبول نھی کر سکا۔۔
؎ ؎ ؎ ؎ ؎ ؎ ؎ ؎ ؎ ؎ ؎ ؎
رات کا وقت تھا ناجی اپنے کمرے میں دو متعمد جونیئر کمانڈروں کے ساتھ بیٹھا شراب پی رھا تھا دو ناچنے والیاں ھلکی ھلکی موسیقی پر مستی میں آی ھوی ناگنوں کی طرح مسحور کن اداؤں سے رقص کر رھی تھیں، انکے پاؤں میں گھنگروں نھی تھے، انکے جسموں پر کپڑے صرف اس قدر تھے کہ ان کے ستر ڈھکے ھوے تھے اس رقص میں خمار کا تاثر تھا۔۔۔۔
دربان اندر آیا اور ناجی کے کان میں کچھ کہا ناجی جب شراب اور رقص کے نشے میں محو ھوتا تھا تو کوی اندر آنے کی جرات نھی کر سکتا تھا، صرف ناجی کو معلوم تھا کہ وہ کونسا کام ھے جس کے لیے ناجی شراب و شباب کے محفل سے اٹھا کرتا ھے ورنہ وہ اندر آنے کی جرات نھی کرتا تھا اسکی بات سنتے ھی ناجی باھر نکل گیا وھاں سوڈانی لباس میں ملبوس ایک ادھیڑ عمر کا آدمی تھا اسکے ساتھ ایک جوان لڑکی تھی ناجی کو دیکھ کر وہ اٹھی،ناجی اسکے چہرے کی دلکشی اور قد کاٹھ دیکھ کر ٹھٹک گیا وہ عورتوں کا شکاری تھا اسے عورتیں صرف عیاشی کے لیے درکار نھی تھی ان سے وہ اور بھی کئ کام لیا کرتا تھا جن میں سے ایک یہ تھا کہ وہ ان میں سے بھت ھی خوبصورت اور عیار لڑکیوں کے زریعے بڑے بڑے افسروں کو اپنی مٹھی میں رکھتا تھا اور ایک کام یہ بھی کہ وہ انھیں امیروں اور حکمرانوں کو بلیک میل کرنے کےلیے استعمال کیا کرتا تھا اور ساتھ میں ان سے جاسوسی بھی کرالیا کرتا تھا، جس طرح قصاب جانور کو دیکھ کر بتاتا ھے کہ اسکا گوشت کتنا ھے اس طرح ناجی بھی لڑکی کو دیکھ کر بتاتا کہ یہ لڑکی کس کام کے لیے موزوں ھے لڑکیوں کے بیوپاری اور بردہ فروش اکثر مال ناجی کے پاس ھی لایا کرتے تھے۔
یہ آدمی بھی ایسے ھی بیوپاریوں میں سے ھی لگتا تھا لڑکی کے متعلق اس نے بتایا کہ لڑکی تجربہ کار ھے ناچ بھی سکتی ھے اور پتھر کو زبان کے میٹھے پن کی وجہ سے پانی میں تبدیل بھی کر سکتی ھے ناجی نے اسکا تفصیلی انٹرویو لیا وہ اس فن کا ماھر تھا اس نے راۓ قایم کی کہ جس کام کے لیے وہ اس لڑکی کو تیار کر رھا ھے تھوڑی سی ٹریننگ کے بعد یہ لڑکی اس کام کے لیے موزوں ھوگی، بیوپاری قیمت وصول کر کہ چلاگیا ناجی اس لڑکی کو اپنے کمرے میں لیکر چلاگیا جہاں اسکے ساتھی رقص اور شراب سے دل بہلا رھے تھے ، اس نے لڑکی کو ناچنے کے لیے کہا ، اور جب لڑکی نے اپنا چغہ اتار کر اپنے جسم کو دو بل دیئے تو ناجی اور اسکے ساتھی تڑپ اٹھے پہلے ناچنے والیوں کے رنگ پیلے پڑ گیے کیونکہ ان کی قیمت کم ھو گی تھی ناجی نے اس وقت محفل برخاست کردی ، اور لڑکی کو پاس بٹھا کر سب کو باھر نکال دیا لڑکی سے نام پوچھا تو اس نے زکوئ بتایا ، ناجی نے اس سے کہا،
زکوئ تم کو یہاں لانے والے نے بتایا ھے کہ تم پتھر کو پانی میں تبدیل کر سکتی ھو میں تمھارا یہ کمال دیکھنا چاھتا ھوں"
" وہ پتھر کون ھے " زکوئ نے سوال کیا
" نیا امیر مصر" ناجی نے کہا وہ سالار اعظم بھی ھے"
" سلطان صلاح الدین ایوبی" زکوئ نے پوچھا
" ھاں اگر تم اسکو پانی میں تبدیل کردو تو میں اسکے وزن جتنا سونا تمھارے قدموں میں رکھ دونگا،"
وہ شراب تو پیتا ھوگا " زکوئ نے پوچھا
نھی شراب ناچ گانا تفریح سے وہ اتنی ھی نفرت کرتا ھے جتنی ایک مسلمان خنزیر سے کرتا ھے" ناجی نے کہا
" میں نے سنا تھا آپکے پاس تو لڑکیوں کا ایک طلسم ھے جو نیل کی روانی کو روک لیتا ھے تو کیا وہ طلسم ناکام ھوا۔۔۔۔۔۔۔؟" زکوئ نے پوچھا
" میں نے ابھی تک انکو آزمایا نھی ھے یہ کام تم کر سکتی ھوں میں تم کو سلطان کی عادتوں کے بارے میں بتا دیتا ھوں " ناجی نے کہ
"کیا آپ اسے ذھر دینا چاھتے ھے" زکوی نے پوچھا
" نهی ابھی نھی میری اسکے ساتھ کوی دشمنی نھی میں بس یہ چاھتا ھوں کہ وہ ایک بار کسی تم جیسی لڑکی کے جال میں پھنس جاے پھر میں اسے اپنے پاس بیٹھ کر شراب پلا سکوں اگر اسکو قتل کرنا مقصود تھا تو میں یہ کام حشیشن سے آسانی کے ساتھ کر سکتا تھا " ناجی نے جواب دیا۔۔۔
" یعنی آپ سلطان سے دشمنی نھی دوستی کرنا چاھتے ھو" زکوئ نے کہا اتنا برجستہ جملہ سن کر ناجی لڑکی کو چند لمحے غور سے دیکھتا رھا لڑکی اسکے توقع سے زیادہ زھین تھی۔
" ھاں زکوئ" ناجی نے اسکے نرم و ملائم بالوں پر ھاتھ پھیرتے ھوے کہا میں اسکے ساتھ دوستی کرنا چاھتا ھوں ایسی دوستی کہ وہ میرا ھمنوا اور ھم پیالہ بن جاے آگے میں جانتا ھوں کہ مجھے اس سے کیا کام لینا ھے " ناجی نے کہا اور ذرا سوچ کر بولا " لیکن میں تمھیں یہ بھی بتا دو کہ ایک جادو سلطان کے ھاتھوں میں بھی ھے اگر تمھارے حسن پر اسکے ھاتھ کا جادو چل گیا تو میں تمھیں زندہ نھی چھوڑنگا اگر تم نے مجھے دھوکہ دیا تو تم ایک دن سے زیادہ زندہ نھی رہ سکو گی صلاح الدین تم کو موت سے بچا نھی سکے گا تمھاری زندگی اور موت میرے ھاتھوں میں ھے تم مجھے دھوکہ نھی دے سکو گی ، اسلیئے میں نے تمھارے ساتھ کھل کر بات کی ھے ورنی میرے حیثیت اور رتبے کا انسان ایک پیشہ ور لڑکی سے پہلی ملاقات میں ایسی باتیں نھی کرتا "
یہ آپکو آنے والا وقت بتاے گا کہ کون کس کو دھوکہ دیتا ھے زکوئ نے کہا " مجھے یہ بتاۓ کہ میری سلطان تک رسائ کیسی ھوگی"
" میں اسے ایک جشن میں بلا رھا ھوں، ناجی نےکہا اور اسی رات میں ھی آپکو اسکے خیمے میں داخل کردونگا۔ میں نے تمھیں اسی مصد کے لیے بلایا ھے"
باقی میں سنبھال لونگی " زکوئی نے کہا
وہ رات گزر گئ پھر اور کئ راتیں گزر گی، سلطان صلاح الدین ایوبی انتظامی اور فوجی کی نئ بھرتی میں اتنا مصروف تھا کہ ناجی کی دعوت قبول کرنے کا وقت نھی نکال سکا علی بن سفیان نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو ناجی کے مطابق جو رپورٹ دی تھی اس نے سلطان کو پریشان کردیا تھا ۔ سلطان نے علی سے کہا
" اس کا مطلب یہ ھے کہ ناجی صلیبیوں سے بھی زیادہ خطرناک ھے یہ وه سانپ ھے جیسے مصر کی امارات آستین
میں پال رھی ھے ----"جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں