داستان ایمان فروشوں کی-1 - اردو ناول

Breaking

جمعرات, نومبر 08, 2018

داستان ایمان فروشوں کی-1

داستان ایمان فروشوں کی ۔۔

پہلی قسط:
(جب زکوئی سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے میں پہنچی)
پہلا حصہ،،،،،،

"تم پرندوں سے دل بہلایا کرو سپاہ گری اس انسان کے لیے ایک خطرناک کھیل ھے جو عورت اور شراب کا دلدادہ ہو"

یہ تاریح الفاظ سلطان صلاح الدین نے اپنے چچا زاد بھای خلیفہ الصالح کے ایک امیر سیف الدین کو لکھے تھے، ان دونوں نے صلیبوں کو درپردہ مدد زر و جواھرات کا لالچ دیا اور صلاح الدین ایوبی کو شکست دینے کی سازش کی، امیر سیف الدین اپنا مال و متاع چھوڑ کر بھاگا، اسکے زاتی خیمہ گاہ سے رنگ برنگی پرندے ، حسین اور جوان رقصایئں اور گانے والیاں ساز اور سازندے شراب کے مٹکے برامد ھوے ، سلطان نے پرندوں گانے والیوں اور سازندوں کو آزاد کردیا اور امیر سیف الدین کو اس مضمون کا خط لکھا

"تم دونوں نے کفار کی پشت پناھی کر کہ ان کے ھاتھوں میرا نام و نشان مٹانے کی ناپاک کوشش کی مگر یہ نہ سوچا کہ تمھاری یہ ناپاک کوشش عالم اسلام کا بھی نام و نشان مٹا سکتی تھی۔ تم اگر مجھ سے حسد کرتے ھو تو مجھے قتل کرادیا ھوتا ، تم مجھ پر دو قاتلانہ حملے کرا چکے ھو۔ دونوں ناکام ھوے اب ایک اور کوشش کر کہ دیکھ لو، ھو سکتا ھے کامیاب ھو جاو۔ اگر تم مجھے یقین دلا دو کہ میرا سر میرے تن سے جدا ھو جاے تو اسلام اور زیادہ سر بلند رھے گا تو رب کعبہ کی قسم میں اپنا سر تمھاری تلوار سے کٹوانگا اور تمھارے قدموں میں رکھنے کی وصیت کرونگا میں صرف تمھیں یہ بتادینا چاھتا ھوں کہ کوی غیر مسلم مسلمان کا دوست نھی ھو سکتا، تاریخ تمھارے سامنے ھے اپنا ماضی دیکھو، شاہ فرینک اور ریمانڈ جیسے اسلام دشمن تمھارے دوست اسلیئے ھے کہ تم نے انھیں مسلمانوں کے خلاف جنگ میں اترنے کی شہ اور مدد دی ھے۔ اگر وہ کامیاب ھو جاتے تو انکا اگلا شکار تم ھوتے اور اس کے بعد ان کا یہ خواب بھی پورا ھوجاتا کہ اسلام صفحہ ھستی سے مٹ جاے۔

تم جنگجو قوم کے فرد ھوں۔ فن سپاہ گری تمھارا قومی پیشہ ھے ھر مسلمان اللہ کا سپاھی ھے مگر ایمان اور کردار بنیادی شرط ھے۔ تم پرندوں سے دل بہلایا کرو سپاہ گری اس انسان کے لیے ایک خطرناک کھیل ھے جو عورت اور شراب کا دلدادہ ھوں میں تم سے درخواست کرتا ھوں کہ میرے ساتھ تعاون کرو اور میرے ساتھ جہاد میں شریک ھوجاو، اگر یہ نھی کرسکو تو میری مخالفت سے باز آجاو، میں تمھیں کوی سزا نھی دونگا۔۔۔۔اللہ تمھارے گناہ معاف کر دے۔

ایک یورپی مورح لین پول لکھتا ھے

" صلاح الدین کے ھاتھوں جو مال غنیمت لگا اسکا کوی حساب نھی تھا، جنگی قیدی بھی بے اندازہ تھے، سلطان نے تما تر مال غنیمت تین حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ جنگیں قیدیوں میں تقسیم کر کہ انکو رھا کردیا، دوسرا حصہ اپنے سپاھیوں اور غرباء میں تقسیم کیا، اور تیسرا حصہ مدرسہ نظام المک کو دے دیا، اس نے اسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی تھی۔ نہ خود کچھ رکھا اور نہ اپنے کسی جرنیل کو کچھ دیا، اس کا نتیجہ یہ ھوا کہ جنگی قیدی جن میں بھت سے مسلمان تھے اور باقی غیر مسلم ، رھا ھوکر سلطان کے کیمپ میں جمع ھوگیے اور سلطان کی اطاعت قبول کر کہ اپنی حدمات فوج کے لیے پیش کردی ایوبی کی کشادہ ظرفی اور عظمت دور دور تک مشہور ھوگئ

اس سے پہلے حسب بن صباح کے پراسرار فرقے فدائ جنھیں یورپین مورخین نے قاتلوں کا گروہ لکھا ھے صلاح الدین ایوبی پر دو بارہ قاتلانہ حملے کرچکے تھے لیکن اللہ نے اس اعظیم مرد مجاھد سے بھت کام لینا تھا دونوں بار ایک معجزہ ھوا جس میں یہ مرد مجاھد بال بال بچ گیا سلطان پر تیسرا قاتلانہ حملہ اس وقت ھوا جب وہ اپنے مسلمان بھایئوں اور صلیبوں کی سازش کی چٹان کو شمشیر سے ریزہ ریزہ کرچکا تھا۔ امیر سیف الدین میدان جنگ سے بھاگ گیا تھا مگر وہ سلطان کے خلاف بغض اور کینہ سے باز نھی آیا۔ اس نے حسن بن صباح کے قاتل فرقے کی مدد حاصل کی۔

حسن بن صباح کا فرقہ اسلام کی آستین میں سانپ کی طرح پل رھا تھا۔ اس کا تفصیلی تعارف بھت ھی طویل ھے، مختصر یہ کہ جس طرح زمین سورج سے دور ھوکر گناھوں کا گہوارہ بن گی ھے، اسی طرح ایک حسن بن صباح نامی ایک شحص نے اسلام سے الگ ھوکر نبیوں اور پیغمبروں والی عظمت حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا وہ اپنے آپکو مسلمان ھی کہلاتا رھا اور ایسا گروہ بنالیا جو طلسماتی طریقوں سے لوگوں کا اپنا پیروکار بناتا ، اس مقصد کے لیے اس گروہ نے نہایت حیسن لڑکیاں نشہ آور جڑی بوٹیاں ھیپناٹزم اور چرب زبانی جیسے طریقے اپناے، بہشت بنائ جس میں جاکر پتھر بھی موم ھو جاتے تھے اپنے مخالفین کو قتل کرانے کے لیے ایک گروہ تیار کیا، قتل کے طریقے خفیہ اور پر اسرار ھوتے تھے، اس فرقے کے افراد اس قدر چلاک زھین اور نڈر تھے کہ بھیس بدل کر بڑے بڑے جرنیلوں کے باڈی گارڈ بن جاتے تھے اور جب کوی پراسرار طریقے سے قتل ھوجاتا تو قاتلوں کو سراغ ھی نھی مل پاتا، کچھ عرصہ بعد یہ فرقہ "قاتلوں کا گروہ" کے نام سے مشہ
نائ جس میں جاکر پتھر بھی موم ھو جاتے تھے اپنے مخالفین کو قتل کرانے کے لیے ایک گروہ تیار کیا، قتل کے طریقے خفیہ اور پر اسرار ھوتے تھے، اس فرقے کے افراد اس قدر چلاک زھین اور نڈر تھے کہ بھیس بدل کر بڑے بڑے جرنیلوں کے باڈی گارڈ بن جاتے تھے اور جب کوی پراسرار طریقے سے قتل ھوجاتا تو قاتلوں کو سراغ ھی نھی مل پاتا، کچھ عرصہ بعد یہ فرقہ "قاتلوں کا گروہ" کے نام سے مشہور ھوا

یہ لوگ سیاسی قتل کے ماھر تھے زھر بھی استعمال کیا کرتے تھے، جو حسین لڑکیوں کے ھاتھوں شراب میں دیا جاتا تھا بھت مدت تک یہ فرقے اسی مقصد کے لیے استعمال ھوتا رھا۔۔ اسکے پیروکار "فدائ" کہلاتے تھے۔

سلطان صلاح الدین ایوبی کو نہ تو لڑکیوں سے دھوکہ دیا جاسکتا تھا اور نہ ھی شراب سے۔ وہ ان دونوں سے نفرت کرتا تھا ، سلطان کو اس طریقے سے قتل نھی کیا جاسکتا تھا۔ اس کو قتل کرنے کا یہی ایک طریقہ تھا کہ اس پر قاتلانہ حملہ کیا جاے ، اسکے محافظوں کی موجودگی میں اس پر حملہ نھی کیا جاسکتا تھا، دو حملے ناکام ھو چکے تھے۔ اب جبکہ سلطان کو یہ توقع تھی کہ اسکا چچازاد بھای الصالح اور امیر سیف الدین شکست کھا کر توبہ کر چکے ھونگے انھوں نے اتقام کی ایک اور زیر زمین کوشش کی۔

صلاح الدین نے اس فتح کا جشن منانے کے بجاے حملے جاری رکھے اور تین قصبوں کو قبضے میں لیا، ان میں غازہ کا مشہور قصبہ تھا، اسی قصبے کے گردونواح میں ایک روز سلطان صلاح الدین ایوبی ، امیر جاوالاسدی کے خیمے میں دوپہر کے وقت غنودگی کے عالم میں سستا رھے تھے، سلطان نے وہ پگڑی نھی اتاری تھی جو میدان جنگ میں سلطان کے سر کو صحرا کی گرمی اور دشمن کے تلوار سے بچا کر رکھتی تھی۔ خیمے کے باھر اسکے محافظوں کا دستہ موجود اور چوکس تھا، باڈی گارڈز کے اس دستے کا کمانڈر زرا سی دیر کے لیے وھاں سے چلا گیا، ایک محافظ نے سلطان کے خیمے میں گرے ھوے پردوں میں سے جھانکا، اسلام کے عظمت کے پاسبان کی آنکھیں بند تھی اور پیٹھ کے بل لیٹا ھوا تھا، اس محافظ نے باڈی گارڈز کی طرف دیکھا، ان میں سے تین چار باڈی گارڈز نے اسکی طرف دیکھا، محافظوں نے اپنی آنکھیں بند کر کہ کھولی) ایک خاص اشارہ کیا۔

تین چار محافظ اٹھے اور دو تین باقی باڈی گارڈز کو باتوں میں لگالیا، محافظ خیمے میں چلا گیا۔۔۔ اور خنجر کمر بند سے نکالا۔۔۔دبے پاؤں چلا اور پھر چیتے کی طرح سوے ھوے سلطان صلاح الدین ایوبی پر جست لگای۔ خنجر والا ھاتھ اوپر اٹھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عین اسی وقت سلطان نے کروٹ بدلی، یہ نھی بتایا جاسکتا کہ حملہ آور حنجر کہاں مارنا چاھتا تھا، دل میں یا سینے میں۔۔۔ مگر ھوا یوں کہ خنجر سلطان کی پگڑی کے بالائ حصے میں اتر گیا، اور سر بال برابر جتنا دور رھا اور پگڑی سر سے اتر گی،

سلطان صلاح الدین بجلی کی تیزی سے اٹھا، اسے سمجھنے میں دیر نھی لگی کہ یہ سب کیا ھے ۔اس پر اس سے پہلے دو ایسے حملے ھو چکے تھے۔ اس نے اس پر بھی اظہار نھی کیا کہ حملہ آور خود اسکی باڈی گارڈ کی وردیوں میں تھے، جسے اس نے خود اپنے باڈی گارڈز کے لیے منتحب کیا تھا، اس نے ایک سانس برابر بھی اپنا وقت ضایع نہ کیا ۔ حملہ آور اپنا خنجر پگڑی سے کھینچ رھا تھا۔ ایوبی کا سر ننگا تھا۔۔ اس نے بھر پور طاقت سے ایک گھونسہ حملہ آور کی توڑی پر دیں مارا۔ ھڈی ٹوٹنے کی آواز آی۔ حملہ آور کا جبڑا ٹوٹ چکا تھا، وہ پیچھے کی طرف گرا اور اسکے منہ سے ھیبتناک آواز نکلی۔اسکا خنجر ایوبی کی پگڑی میں رہ گیا تھا، ایوبی نے اپنا خنجر نکال لیا تھا، اتنے میں دو محافظ اندر آے ، ان کے ھاتھوں میں تلواریں تھی، سلطان صلاح الدین نے انھیں کہا کہ ان کو زندہ پکڑو۔

لیکن یہ دونوں محافظ سلطان صلاح الدین پر ٹوٹ پڑے، سلطان صلاح الدین نے ایک خنجر سے دو تلواروں کا مقابلہ کیا۔یہ مقابلہ ایک دو منٹ کا تھا۔ کیونکہ تمام باڈی گارڈز اندر داخل ھوے تھے، سلطان صلاح الدین یہ دیکھ کر حیران تھا کہ اسکے باڈی گارڈز دو حصوں میں تقسیم ھوکر ایک دوسرے کو لہولہان کر رھے تھے، اسے چونکہ معلوم ھی نہ تھا کہ اس میں اسکا دوست کون ھے اور دشمن سو وہ اس معرکہ میں شامل ھی نھی ھوا، کچھ دیر بعد باڈی گارڈز میں چند مارے گیے کچھ بھاگ گیے کچھ زخمی ھوے، تو انکشاف ھوا کہ یہ جو دستہ سلطان صلاح الدین کی حفاظت پر مامور تھا اس میں سات فدائ ) انکا زکر پہلے حصے میں کیا جا چکا ھے کہ یہ کون تھے کسی کو سمجھ نھی آی ھوں تو وہ پہلا حصہ پڑھ لیں شکریہ۔۔ بلیٹ( تھے جو سلطان صلاح الدین کو قتل کرنا چاھتے تھے، انھوں نے اس کام کے لیے صرف ایک فدائ کو اندر خیمے میں بهیجا تھا، اندر صورت حال بدل گی تو دوسرے بھی اندر چلے گیے، اصل محافظ بھی اندر چلے گیے وہ صورت حال سمجھ گیے ، سو سلطان صلاح الدین بچ گیا۔سلطان صلاح الدین نے اپنے پہلے حملہ آور ھونے والے کی شہ رگ پر تلوار رکھ کر پوچھا ، کہ وہ کون ھے اور اسکو کس نے بهیجا ھے۔ سچ کہنے پر سلطان نے اسکے ساتھ جان بخشی کا وعدہ کیا۔ اس نے کہا کہ وہ " فدائ " ھے اور اسکو کیمیشتکن ) جسے بعض مورخین نے گمشتگن بھی لکھا ھے( بهیجا ھے کیمیشتکن الصالح کے قلعے کا ایک گورنر تھا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اصل وقعات کی طرف آنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ھوتاھے کہ ان واقعات سے پہلے کے دور کودیکھا جاے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام عظمت اسلام کی عظمت اور اسکے کارناموں سے مسلم اور نان مسلم کون واقف نھی ؟ ملت اسلامیہ تو سلطان صلاح الدین ایوبی کو بھول ھی نھی سکتی۔ مسیحی دنیا بھی سلطان صلاح الدین ایوبی کو رھتی دنیا تک یاد رکھے گی۔ کیونکہ سلطان صلاح الدین ایوبی صلیبی جنگوں اور صلیبوں کے دور حکومت میں ایک مسلمان شیر تھا۔جس نے ھزاروں زخم دیے مسیحی برادری کو۔

سو لہذا یہ ضروری معلوم نھی ھوتا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی شجرہ نسب کو

تفصیل سے بیان کیا جاے۔ آپ کے من پسند پیج راه راست پر ھم آپکو ایسے واقعات سنانے جا رھے ھیں جس کی وسعت کے لیے تاریح کا دامن بھت ھی چھوٹا پڑ جاتا ھے، یہ تفصیلات

وقائع نگاروں اور قلم کاروں کی ریکارڈ کی ھوی ھے، کچھ سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں تک پہنچی، تاریح نے صرف سلطان صلاح الدین ایوبی کے کارنامے محفوظ کیے ھے کیونکہ تاریح بھت کم پڑ جاتی ھے سلطان صلاح الدین ایوبی کی زندگی کے آگے،ان سازشوں کا زکر تاریخ نے بھت کم کیا ھے، جو اپنوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف کیے اور اسکے شہرت تاریخی عظمت کو داغدار بنانے کے لیے ایسی ایسی لڑکیاں بار بار استعمال کی ، جن کا حسن طلسماتی تھا۔

تاریح اسلام کا یہ حقیقی ڈارمہ ٢٣ مارچ ١١٦٩ کے روز سے شروع ھوتا ھے جب سلطان صلاح الدین ایوبی کو مصر کا واسراۓ اور فوج کا کمانڈر انچید بنایا گیا۔ اسے اتنا بڑا ربتہ ایک تو اسلیے دیا گیا کہ وہ حکمرانوں کے گھروں کا نونہال تھا اور دوسرا اسلیئے کہ اوائل عمری میں ھی وہ فن حرب و ضرب کا ماھر ھوگیا تھا۔ سپاہ گری ورثے میں پای تھی، سلطان صلاح الدین ایوبی کے معنوں میں حکمرانی بادشاھی نھی قوم کی عظمت اور فلاح و بہبود تھا، اسکا جب شعور بیدار ھوا تو پہلی خلش یہی محسوس کی وہ یہ تھی کہ مسلمان حکمرانوں میں نہ صرف یہ کہ اتحاد نھی بلکہ وہ ایک دوسرے کی مدد کرنے سے بھی گریز کرتے تھے، وہ عیاش ھو گیے تھے، شراب اور عورت نے جہاں انھیں انکی زندگی رنگین بنا رھی تھی وھاں عالم اسلام اور اس عظیم مذھب کا مستقبل تاریک ھوگیا تھا،

ان امیروں حکمرانوں اور ریئسوں کے حرم غیر مسلم لڑکیوں سے بھرے رھتے تھے، زیادہ تر لڑکیاں یہودی اور عیسائ تھی جن کو خاص تربیت دیں کر ان حرموں میں داخل کیا گیا تھا،

غیر معمولی حسن اور ادکاری میں کمال رکھنے والی یہ لڑکیاں مسلمان حکمرانوں اور سربراھوں کے کردار اور قومی جذبے کو دیمک کی طرح چاٹ رھی تھی،
اسکا نتیجہ یہ تھا کہ صلیبی جن میں فرینک) فرنگی( خاص طور پر قابل زکر ھے مسلمانوں

کی سلطنتوں کو ٹکڑے کرتے ھڑپ کرتے جارھے تھے، اور بعض مسلمان تو شاہ فرینک کو سالانہ ٹیکس اور جزیہ بھی دیتے تھے جس کی مثال غنڈہ ٹیکس کی سی تھی، صلیبی اپنی جنگی قوت کے رعب اور چھوٹے چھوٹے حملوں سے مسلمان حکمرانوں کو ڈراتے رھتے کچھ علاقوں پر قبضہ کرتے ٹیکس اور تاوان وصول کرتے۔۔ان کا مقصد یہ تھا کہ آھستہ آھستہ دنیاۓ اسلام کو ھڑپ لیا جاے۔ مسلمان رعایا کا خون چوس کر ٹیکس دیتے رھتے تھے ان کا مقصد یہ تھا کہ بس انکی عیش و عشرت میں خلل نھی آجانا چاھیے۔

فرقہ پرستی کے بیچ بو دیئے گیئے تھے، ان میں سب سے زیادہ خطرناک فرقہ حسن بن صباح کا تھا، جو صلاح الدین کی جوانی سے ایک صدی پہلے وجود میں آیا تھا، یہ مفادپرستوں کا ٹولہ تھا ، بے حد خطرناک اور پراسرار۔یہ لوگ اپنے آپکو " فدائ" کہلاتے تھے

) یاد رھیں کہ پاکستانی طالبان بھی خود کو فدائ کہلاتے ھے۔۔۔( جو بعد میں حشیشن کے نام سے مشہور ھوے، کیونکہ وہ حیشیش نامی ایک نشہ آور شے سے دوسروں کو اپنے جال پھنساتے۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے مدرسہ نظام الملک میں تعلیم حاصل کی، یاد رھیے کہ نظام الملک دنیاے اسلام کے ایک وزیر تھے یہ مدرسہ انھوں نے تعمیر کیا، جس میں اسلامی تعلیم دی جاتی تھی، اور بچوں کو اسلامی تاریح اور نظریات سے بہره ور کیا جاتا ۔

ایک مورخ ابن الاطہر کے مطابق نظام الملک حسن بن صباح کے فدائیوں کا پہلا شکار ھوے تھے کیونکہ وہ رومیوں کی توسیع پسندی کی راہ میں چٹان بنے ھوے تھے رومیوں نے ٩١ہ١ میں انھیں فدائیوں کے ھاتھوں قتل کردیا۔ ان کا مدرسہ قائم رھا،اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے وھی تعلیم حاصل کی۔ اسی عمر میں سپاہ گری کی تربیت اپنے خاندان کے بڑوں سے لی۔ نورالدین زنگی نے اسکو جنگی چالیں سکھای، ملک کے انتظامات کے سبق سکھاے اور ڈیپلومیسی میں مہارت دی، اس تعلیم و تربیت نے اسکے اندر وہ جذبہ پیدا کیا جس نے آگے چل کر صلیبیوں کے لیے سلطان کو بجلی بنادیا۔ جوانی میں ھی اس نے وہ مہارت ذھانت اور اھلیت حاصل کی تھی جو ایک سالار اعظیم کے لیے اھم ھوتے ھے۔ سلطان صلاح الدین نے فن حرب و ضرب میں جاسوس گوریلا اور کمانڈو آپریشنز کو

خصوصی اھمیت دی۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ صلیبی جاسوسی کی میدان میں آگے نکل گیے تھے اور وہ مسلمانوں کے نظریات پر نہایت کارگر حملے کر رھے تھے۔ سلطان صلاح الدین نظریات کے محاذ پر لڑنا چاھتا جس میں تلوار استعمال نھی ھوتی تھی۔ ان واقعات میں آپ چل کر دکھینگے کہ سلطان صلاح الدین کی تلوار کا وار تو گہرا ھوتا ھی تھا لیکن اسکی محبت کا وار تلوار سے بھی زیادہ مارتا تھا، اس کے لیے تحمل اور بردباری کی ضرورت ھوتی تھی جو سلطان صلاح الدین نے جوانی میں ھی خود کے اندر پیدا کر دی تھی۔سلطان صلاح الدین کو جب مصر کا وایسراۓ بناکر بهیجا گیا تو وھاں پر سینئر عہدئداروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا کیونکہ وہ سب اس عہدے کی آس 
لگاے بیٹھے تھے۔ــــــــ


جاری ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں